پنجاب میں اپوزیشن کے دبانے کا کھیل
اشاعت کی تاریخ: 3rd, July 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
پنجاب میں پنجاب اسمبلی کے اسپیکر ملک احمد خان نے پی ٹی آئی کے 26 ارکان اسمبلی کے خلاف وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز کی تقریر میں خلل ڈالنے، مخالفانہ نعرے لگانے، ہنگامہ آرائی کرنے اور اسپیکر کے گھیرائو کرنے پر نہ صرف 26 ارکان اسمبلی کو سیشن سے باہر نکال کر ان پر کچھ وقت کے لیے پابندی لگادی بلکہ وزیر اعلیٰ مریم نواز کو سیاسی طور پر خوش کرنے کے لیے اب فیصلہ کیا جارہا ہے کہ ان 26 ارکان اسمبلی کی رکنیت ختم کرنے کے لیے ان کے خلاف ریفرنس الیکشن کمیشن کو بھیجا جائے تاکہ ان ارکان اسمبلی کو سیاسی طور پر سبق سکھایا جاسکے اور ان پر اسپیکر صوبائی اسمبلی کی جانب سے بھاری جرمانے بھی عائد کیے گئے ہیں۔ قومی اسمبلی ہو یا صوبائی اسمبلیاں ان میں اس طرح کی اپوزیشن کی جانب سے ہونے والی ہنگامہ آرائی ہماری پارلیمانی سیاست کا حصہ بن گئی ہے۔ خود مسلم لیگ ن جب اپوزیشن میں تھی تو ان کا رویہ بھی پی ٹی آئی کی حکومت کے خلاف ایسا ہی تھا اور قومی اسمبلی سمیت صوبائی اسمبلیوں میں ہم مسلم لیگ ن سمیت دیگر اپوزیشن جماعتوں کے محاز آرائی پر مبنی سیاسی تماشے دیکھ چکے ہیں۔ لیکن لگتا ایسا ہے کہ مریم نواز جو خود کو پنجاب کا عملاً سیاسی بادشاہ سمجھتی ہیں وہ اپنے سیاسی مخالفین کو کوئی بھی سیاسی راستہ دینے اور تنقید بھی برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں اور کہا جاتا ہے کہ پنجاب میں اپوزیشن ارکان کے خلاف حالیہ کارروائی بھی اسپیکر صوبائی اسمبلی کو وزیر اعلیٰ مریم نواز کے حکم پر کرنا پڑ رہی ہے ان کو حکم دیا گیا ہے کہ اپوزیشن کے ارکان کو سبق سکھایا جائے کہ ان کو جرأت کیسے ہوئی کہ وہ وزیر اعلیٰ کی تقریر پر ہنگامہ کریں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جب سے پنجاب میں یہ اسمبلی اور حکومت بنی ہے تو وزیر اعلیٰ مریم نواز صرف دو بار اسمبلی فلور پر آئی ہیں اور وہ خود بیش تر اجلاسوں سے غیر حاضر رہتی ہیں تاکہ ان کو اپوزیشن کی تنقید نہ سننا پڑے۔ بدقسمتی سے ہماری پارلیمانی سیاست میں حکومت ہو یا اپوزیشن دونوں کا مجموعی رویہ ہمیشہ سے غیر جمہوری اور غیر پارلیمانی رہا ہے اور اس میں تمام بڑی حکمران جماعتوں کا رویہ ٹھیک نہیں رہا۔ مگر جس انداز سے اس دفعہ پنجاب میں ارکان اسمبلی کے خلاف ایکشن لیا جارہا ہے وہ نہ صرف ہائبرڈ نظام کی عکاسی کرتا ہے بلکہ حکمران طبقات کے آمرانہ اور بادشاہت پر مبنی نظام کی جھلک کو بھی نمایاں کرتا ہے۔ مریم نواز کی حکمرانی میں شخصی حکمرانی کا پہلو نمایاں نظر آتا ہے اور وہ خود کو طاقت کے مرکز کے گرد رکھنے کو ہی ترجیح دیتی ہیں۔ ان کے اردگرد مریم اورنگ زیب اور اعظمی بخاری بھی اسی وجہ سے مریم نواز کی سیاسی چاپلوسی میں پیش پیش رہتی ہیں اور کہا جاتا ہے کہ مریم نواز کی حکمرانی ڈیجیٹل میڈیا کے سہارے کھڑی ہے۔ مریم نواز کا رویہ محض اپوزیشن کے خلاف ہی نہیں بلکہ وہ عملاً سرکاری یعنی مسلم لیگ ن کے ارکان کے ساتھ بھی دوہرے معیار رکھتی ہیں اور ان کو اہم فیصلوں میں نظرانداز کرتی ہیں اور خود ان کے اپنے کزن حمزہ شہباز بھی مریم نواز کی سیاسی زیادتیوں کا شکار ہیں۔ اسپیکر صوبائی اسمبلی ملک احمد خان منجھے ہوئے سیاست دان ہیں اور ان کی طرف سے اپوزیشن ارکان اسمبلی کے خلاف کارروائی سمجھ سے بالاتر ہے۔ لیکن جب سیاسی حکم وزیر اعلیٰ مریم نواز کی طرف سے آئے گا تو پھر اسپیکر کے پاس باقی کیا بچتا ہے اور ایسے لگتا ہے کہ مریم نواز کو پنجاب میں بھاری بھرکم اپوزیشن قبول نہیں ہے۔ مریم نواز کا مسئلہ صرف پارلیمانی سطح کی سیاست تک محدود نہیں بلکہ وہ پارلیمان سے باہر بھی اپوزیشن کو راستہ دینے کے لیے تیار نہیں اور پی ٹی آئی کو طاقت اور جبر کی بنیاد پر دیوار سے لگانے کا کھیل پہلے ہی عروج پر ہے، جب بھی پی ٹی آئی بطور جماعت پنجاب میں کچھ سیاسی سرگرمیاں کرنا چاہتی ہیں تو ان کو نہ تو حکومت اجازت دیتی ہے اور نہ ہی حکومت سیاسی سرگرمیوں کی اجازت دینے کے لیے عدالتی فیصلوں کو ماننے کے لیے تیار نہیں اور ویسے بھی اس وقت پی ٹی آئی کے سب سے زیادہ کارکن 9 مئی کے واقعات کی بنیاد پر پنجاب کی جیلوں میں ہیں اور پنجاب ہی کی جیل میں قید شاہ محمود قریشی، میاں محمود الرشید، ڈاکٹر یاسمین راشد، عمر سرفراز چیمہ، اعجاز چودھری کو جیل میں بنیادی سہولتوں سے بھی محروم رکھا جارہا ہے اور اس میں بھی ایک حکم وزیر اعلیٰ مریم نواز ہی کا چلتا ہے جو چاہتی ہیں کہ پی ٹی آئی کو جیل یا عدالتی نظام سے بھی کوئی سیاسی اور قانونی سطح کا ریلیف نہ مل سکے۔ ایک طرف وزیر اعظم شہباز شریف اپوزیشن کو قومی اسمبلی میں مفاہمت اور مذاکرات کی دعوت دیتے ہیں تو دوسری طرف ان کی اپنی بھتیجی اور وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز اپوزیشن کو سیاسی طور پر دیوار سے لگانا چاہتی ہیں۔ اب اگر پنجاب میں اپوزیشن کے ارکان اسمبلی کے خلاف ریفرنس الیکشن کمیشن کو بھیجے جاتے ہیں یا دیگر ارکان اور جماعت کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جاتا ہے تو پھر حکومت اور اپوزیشن کے درمیان مفاہمت یا مذاکرات کا عمل کیسے آگے بڑھ سکتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ وزیر اعلیٰ مریم نواز یہ سب کچھ لاہور میں اپنے والد نواز شریف کی سیاسی چتھری کے نیچے بیٹھ کر کررہی ہیں اور اس پر نواز شریف کا سیاسی خاموشی بھی سیاسی جرم ہی کے زمرے میں آتی ہے۔ جمہوریت کا نظام اسی صورت میں کامیابی سے آگے بڑھتا ہے جہاں حکومت اپوزیشن کے سیاسی وجود کو قبول کرکے آگے کی طرف بڑھتی ہے۔ پاکستان میں اگر جمہوریت نہیں ہے یا کمزور بنیادوں پر کھڑی ہے تو اس کی بڑی وجہ ہماری کمزور جمہوری روایات ہیں اور ہم بطور جماعت یا حکومت جمہوری بنیادوں پر آگے بڑھنے کے لیے ہی تیار نہیں ہیں۔ یہ جو پاکستان میں جمہوری نظام میں تعطل پیدا ہوتا ہے یا جمہوری نظام کی بساط لپیٹی جاتی ہے تو اس کی دیگر وجوہات میں ایک بڑی وجہ ہماری سیاسی جماعتوں کا کمزور داخلی جمہوری نظام اور عدم جوابدہی یا احتساب کا نظام ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم اس ملک میں ابھی تک اپنے جمہوری نظام کو مستحکم نہیں کرسکے۔ جو کچھ یہاں جمہوریت یا پالیمانی سیاست کے نام پر ہورہا ہے اس پر خود جمہوریت اور جمہوریت پسند لوگ بھی سیاسی پناہ مانگتے ہیں اور ان کے بقول اس وقت جو کچھ بھی اس ملک میں جمہوریت کے نام پر ہورہا ہے وہ جمہوریت کم اور آمرانہ نظام کی زیادہ عکاسی کرتا ہے۔ اس لیے اس ملک میں جو بھی جمہوریت پسند لوگ ہیں ان کو جمہوری روایات کا مضبوطی کے لیے جمہوری مزاحمت اور حکمرانوں پر دباو ڈالنے کی پالیسی کو مضبوط بنانا ہوگا تاکہ جمہوریت کا مقدمہ مضبوط بنیادوں پر مستحکم کیا جاسکے۔ لیکن اس کے لیے جدوجہد صرف سیاسی جماعتوں ہی کی سطح پر نہیں بلکہ میڈیا اور سول سوسائٹی سمیت تمام طبقات اور اداروں کی سطح پر کرنا ہوگی اور سب کو اس جمہوریت کی مضبوطی کے عمل میں اپنا اپنا سیاسی حصہ ڈالنا ہوگا اور اسی میں جمہوری نظام کی سیاسی بقا بھی پنہاں ہے اور یہ ہی ہماری سیاسی ترجیحات کا حصہ ہونا چاہیے۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: ارکان اسمبلی کے خلاف صوبائی اسمبلی مریم نواز کی جمہوری نظام اپوزیشن کے وزیر اعلی تیار نہیں پی ٹی آئی کی سیاسی کو سیاسی ہیں اور نظام کی ہے اور اور اس بھی اس اور ان کے لیے
پڑھیں:
پارلیمان کے تبادلوں، مقامی خودمختای کے ماڈل سے سیکھنے کا موقع ملے گا: مریم نواز
لاہور (نوائے وقت رپورٹ) وزیراعلیٰ مریم نواز سے جرمن پارلیمنٹ کی رکن دِریا تْرک نَخباؤر نے ملاقات کی۔ وزیراعلیٰ مریم نواز شریف نے جرمن پارلیمنٹ کی رکن دِریا تْرک نَخباؤر کا پرتپاک و پر خلوص خیرمقدم کیا۔ ملاقات میں دو طرفہ تعلقات، پارلیمانی تعاون، وویمن ایمپاورمنٹ، تعلیم، یوتھ ایکسچینج پروگرام، ماحولیات اور کلین انرجی کے منصوبوں پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا۔ وزیر اعلی مریم نواز شریف نے جرمنی کی جانب سے حالیہ سیلاب کے دوران اظہارِ یکجہتی پر شکریہ ادا کیا۔ وزیراعلی مریم نوازشریف نے کہا کہ پنجاب کے تاریخی اور ثقافتی دل لاہور میں جرمنی کے معزز مہمانوں کا خیرمقدم کرنا میرے لیے باعث اعزاز ہے۔ وزیر اعلی مریم نواز شریف نے جرمنی کی فریڈرک ایبرٹ فاؤنڈیشن کی 100 ویں سالگرہ پر مبارکباد دی اور پاکستان میں 35 سالہ خدمات کو سراہا۔ وزیراعلی مریم نواز شریف نے کہا کہ فریڈرک ایبرٹ فاؤنڈیشن نے پاکستان اور جرمنی میں جمہوریت، سماجی انصاف اور باہمی مکالمے کے فروغ میں نمایاں کردار ادا کیا۔ فلڈ کے دوران اظہار ہمدردی و یکجہتی پاک جرمن دیرینہ دوستی کی عکاسی ہے۔ پاکستان اور جرمنی جمہوریت، برداشت اور پارلیمانی طرز حکمرانی پر یقین رکھتے ہیں جو ترقی و امن کی بنیاد ہیں۔ جرمن پارلیمانی رکن دِریا تْرک نَخباؤر سے ملاقات باعث مسرت ہے۔ وزیراعلی مریم نواز نے کہا کہ جرمن پارلیمانی رکن دِریا تْرک نَخباؤر کا کام شمولیتی پالیسی سازی، صنفی مساوات اور انسانی حقوق کے فروغ کی شاندار مثال ہے۔ فریڈرک ایبرٹ فاؤنڈیشن کی جمہوری گورننس کے تحت قانون سازوں، نوجوان رہنماؤں اور خواتین ارکانِ اسمبلی کے لیے تربیتی ورکشاپس منعقد کرنے کی تجویز پیش کی۔ پنجاب اور جرمن پارلیمان کے تبادلوں سے وفاقی تعاون اور مقامی خودمختاری کے جرمن ماڈل سے سیکھنے کا موقع ملے گا۔ پارلیمانی تعاون عوامی اعتماد اور باہمی تفہیم کا پْل ہے جو پاک جرمن تعلقات کو مضبوط بناتا ہے۔ جرمنی 1951 سے پاکستان کا قابل اعتماد ترقیاتی شراکت دار رہا ہے۔ جرمن تعاون نے پنجاب میں ماحولیات، ٹریننگ، توانائی، صحت اور خواتین کے معاشی کردار کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ وزیر اعلیٰ مریم نواز شریف نے نوجوانوں کی روزگاری صلاحیت میں اضافے کے لیے جرمنی کے ڈوال ووکشینل ٹریننگ ماڈل کو اپنانے کی خواہش کا اظہار کیا۔ پاکستان اور جرمنی کے درمیان تجارت 2024 میں 3.6 ارب امریکی ڈالر تک پہنچنا خوش آئند ہے۔ پنجاب جرمنی کی ری نیو ایبل انرجی، زرعی ٹیکنالوجی، آئی ٹی سروسز اور کاین مینوفیکچرنگ کے شعبوں میں مزید سرمایہ کاری کا خیرمقدم کرتا ہے۔ تعلیم حکومت پنجاب کے اصلاحاتی ایجنڈے کا بنیادی ستون ہے۔ پنجاب نصاب کی جدت، ڈیجیٹل لرننگ اور عالمی تحقیقی روابط کے فروغ پر کام کر رہا ہے۔ دس ہزار سے زائد پاکستانی طلبہ جرمن جامعات میں زیرِ تعلیم ہیں۔ خواتین کی بااختیاری پنجاب کی سماجی پالیسی کا مرکزی جزو ہے۔ ای بائیک سکیم، ہونہار سکالرشپ پروگرام اور ویمن اینکلیوز خواتین کی محفوظ اور باعزت معاشی شرکت کو یقینی بنا رہے ہیں۔ پنجاب کے تاریخی ورثے بادشاہی مسجد، لاہور قلعہ، شالامار گارڈن اور داتا دربار مشترکہ تہذیبی سرمائے کی علامت ہیں۔ ثقافتی تعاون مؤثر سفارتکاری ہے، جرمن اداروں کے ساتھ مشترکہ فن و ثقافت منصوبوں کا خیرمقدم کرتے ہیں۔ پاکستان اور جرمنی امن، ترقی اور انسانی وقار کی مشترکہ اقدار کے حامل ہیں۔ پارلیمانی روابط، پائیدار ترقی اور تعاون کے ذریعے پاک جرمن دوستی کو مزید مضبوط بنانے کے لیے پرعزم ہیں۔ جبکہ صوبہ بھر میں وال چاکنگ پر سختی سے پابندی پر عملدرآمد یقینی بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ بے ہنگم تجاوزات کو خوبصورتی میں ڈھالنے اور وال چاکنگ ختم کرکے دیواریں صاف کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ وزیراعلی مریم نوازشریف نے پراجیکٹ کی منظوری دے دی۔ وزیر اعلیٰ کی ہدایت پر تاریخ میں پہلی مرتبہ ہر شہر میں بیوٹیفکیشن کا شاندار اور منفرد پلان مرتب کیا گیا ہے۔ صوبہ بھر میں سرکاری اور نجی عمارتوں پر وال چاکنگ ختم کرکے دیواریں صاف کردی جائیں گی۔ پنجاب کے 39اضلاع میں ساڑھے16ارب روپے کی لاگت سے 132بیوٹیفکیشن سکیمیں مکمل کی جائیں گی۔ بیوٹیفکیشن کی 122سکیموں پر کام شروع کردیا گیا۔ لاہور، بہاولپور، ڈی جی خان، سرگودھا، گجرات، فیصل آباد اور راولپنڈی میں بیوٹیفکیشن سکیمیں اگلے جون تک مکمل کرنے کا ہدف مقرر کر دیا گیا ہے۔ ملتان میں نومبر، گوجرانوالہ میں دسمبر کے آخر تک سکیمیں مکمل کرنے کی مدت مقررکی گئی ہے۔ ساہیوال میں بیوٹیفکیشن کی 24سکیمیں اگلے مارچ تک مکمل کر لی جائیں گی۔ ہر شہر میں سڑکوں اور بازاروں کی اپ گریڈیشن کے ساتھ ساتھ ٹف ٹائل بھی لگائی جائیں گی۔ مرکزی بازاروں کو خوش نما اور جاذب نظر بنانے کے لئے اپ لفٹنگ اور بیوٹیفکیشن کی جائے گی۔ مختلف شہر وں میں قدیمی دروازوں، روایتی بازاروں کو ری ماڈلنگ کے ذریعے خوبصورت شکل دی جائے گی۔ وزیراعلی مریم نواز نے گلگت بلتستان کے یوم الحاق پاکستان پر مبارکباد کا پیغام دیا اور گلگت بلتستان کے عوام کو ڈوگرہ راج سے آزادی کے یوم پر مبارکباد پیش کی ہے۔ وزیراعلی مریم نوازشریف نے کہاکہ گلگت بلتستان پاکستان کی خوبصورت اور شاندار تصویر پیش کرتا ہے۔ گلگت بلتستان کے بہادر عوام ملک و قوم کا فخر ہیں۔ گلگت بلتستان کی بے مثال روایات اور شاندار ثقافت سیاحوں کو مسحور کرتی ہے۔