اسلام آباد (نیوز ڈیسک) سندھ ہائی کورٹ کی جانب سے وِنڈ فال ٹیکس برقرار رکھنے کے فیصلے کے بعد ایف بی آر نے 21؍ فروری 2025ء کو ایک ہی دن میں 16؍ بڑے بینکوں سے 23 ارب روپے ٹیکس وصول کیا۔ باخبر ذریعے کے مطابق، وزیر اعظم شہباز شریف کی زیر قیادت ٹیکس ریکوری کا یہ بڑا آپریشن ٹیم ورک کا نتیجہ تھا جس میں گورنر اسٹیٹ بینک نے فعال کردار ادا کیا۔ ذرائع کے مطابق، اٹارنی جنرل آف پاکستان، چیئرمین ایف بی آر اور ماہرین قانون کی ایک ٹیم نے اشرافیہ پر ٹیکس لگانے اور قانونی ہیرا پھیری کے اس جڑے اُس کلچر کو ختم کرنے کی سرکاری حکمت عملی میں فیصلہ کن تبدیلی میں کردار ادا کیا جس نے طویل عرصے سے طاقتور کارپوریٹ مفادات کا تحفظ کیا ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ یہ بھاری رقم 21 فروری 2025 کو وصول کی گئی۔ اس ریکوری سے ایک دن قبل ہی سندھ ہائی کورٹ کے آئینی بنچ نے انکم ٹیکس آرڈیننس 2001 کے سیکشن 99D کے تحت عائد ونڈ فال ٹیکس کیخلاف مالی شعبہ جات کی درخواستیں مسترد کرتے ہوئے حکومت کے حق میں فیصلہ سنایا تھا۔ دہائیوں سے ملک کے امیر ترین افراد اور اداروں نے اپنی پیسے کی طاقت کا استعمال کرتے ہوئے یا پھر آئینی درخواستوں کے ذریعے ٹیکس عائد کرنے میں تاخیر کرائی اور ٹیکس سے بچنے کی کوششیں کیں۔ اس سے حکومت کے پاس غریب اور متوسط طبقے پر بوجھ ڈالنے کے سوا اور کوئی راستہ نہ بچا۔ ذریعے کا کہنا تھا کہ اب وقت بدل چکا ہے، 26ویں آئینی ترمیم کے نتیجے میں سپریم کورٹ اور تمام ہائی کورٹس میں آئینی بینچز کی تشکیل کے نتیجے میں ٹیکس سے امور سے جڑے کیسز کی رفتار میں تیزی آئی۔ ذریعے نے کہا کہ پہلے اشرافیہ طبقے سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے قانونی ڈھانچے میں پائی جانے والی خامیوں کا برسوں اور کئی معاملات میں دہائیوں تک فائدہ اٹھایا، بعض اوقات کیسز کو چلنے سے روکا گیا، لیکن نئے عدالتی ڈھانچے کے ساتھ عدالتیں اب تیزی سے کیسز چلا رہی ہیں جس کے نتیجے میں پھنسے ہوئے ٹیکسز کی وصولی فوری ممکن ہو پا رہی ہے۔ ماضی کی بات کریں تو جب بھی کارپوریٹ سیکٹر یا پھر امیر لوگوں پر ٹیکس عائد ہوا تو انہوں نے اس عدالت میں چیلنج کر دیا، مہنگے ترین وکلاء کی خدمات حاصل کیں۔ اس کے مقابلے میں ایف بی آر محدود بجٹ کے ساتھ جدوجہد کرتا رہا، کم تنخواہوں والے وکلاء کی خدمات حاصل کیں، جو کسی بھی طرح کارپوریٹ وکیلوں کے مقابلے میں نہیں اس عدم توازن کے نتیجے میں کیسز میں تاخیر ہوتی، نتیجتاً حکومت کو بالواسطہ ٹیکسوں میں اضافہ کرنا پڑتا تھا اور کم آمدنی والا طبقہ غیر متناسب انداز سے متاثر ہوتا تھا۔ اس چکر کو توڑنے کیلئے وزیراعظم نے بذات خود فنڈز مختص کرکے اس بات کو یقینی بنایا کہ ایف بی آر کو بہترین قانونی نمائندگی حاصل ہو سکے۔ ذریعے کے مطابق، وزیراعظم کی ہدایت کے تحت حکومت صرف اپنے ٹیکس اقدامات کا دفاع نہیں کر رہی بلکہ حکومت ٹیکس سے جڑے ہر ایک کیس کی نگرانی کر رہی ہے تاکہ غیر ضروری تاخیر سے بچا جا سکے۔ یہ وضاحت کی جاتی ہے کہ فنانس ایکٹ 2023ء کے ذریعے متعارف کرائے گئے سیکشن 99 ڈی کے تحت ونڈ فال ٹیکس حکومت کو معاشی بے ضابطگیوں کی وجہ سے بعض شعبوں کی جانب سے غیر متوقع طور پر حد سے زیادہ کمائے گئے منافع پر 50؍ فیصد ٹیکس عائد کرنے کا جواز دیتا ہے۔ ذریعے نے یاد دہانی کرائی کہ 2021ء اور 2023ء کے درمیان پاکستان کی معیشت انتہائی حد تک عدم استحکام کا شکار رہی، روپے کی قدر 2020ء میں یہ تھی کہ ایک ڈالر 168؍ روپے کا تھا لیکن 2023ء میں ایک امریکی ڈالر 286؍ روپے کا ہوگیا، جس سے غیر ملکی زر مبادلہ کی مصنوعی طلب پیدا ہوئی۔ نتیجتاً، بینکوں نے انٹر بینک اور اوپن مارکیٹ کے درمیان بڑھتے فرق کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اربوں روپے کا منافع کمایا۔ ذریعے کے مطابق، یہ غیر منصفانہ مالی ونڈ فال تھا جس کی وجہ سے حکومت نے 21؍ نومبر 2023ء کو ایس آر او جاری کرتے ہوئے گزشتہ دو سال کے دوران بینکوں کی جانب سے کمائے گئے منافع پر 40؍ فیصد ٹیکس عائد کر دیا۔ کہا جاتا ہے کہ ونڈ فال ٹیکس کوئی نیا آئیڈیا نہیں، امریکا، برطانیہ، اٹلی، رومانیہ، یونان، اسپین اور پولینڈ وغیرہ میں یہ ٹیکس نافذ ہے۔ ذریعے کے مطابق، ونڈ فال ٹیکس کے نفاذ کی کامیابی سے حکومت اب اپنی توجہ اشرافیہ سے طویل عرصہ سے وصول نہ کیے جانے والے ٹیکس کی ریکوری پر مرکوز کیے ہوئے ہے، اس کے علاوہ سیکشن 4 بی اور 4 سی کے تحت سپر ٹیکس، غیر تقسیم شدہ ذخائر پر ٹیکس، کیپیٹل ویلیو ٹیکس (سی وی ٹی)، غیر ملکی آمدنی پر ٹیکس اور انٹر کارپوریٹ منافع پر ٹیکس بھی وصول کیا جائے گا۔ذرائع نے کہا کہ یہ اقدامات، جو پہلے عدالتی مقدمات میں الجھے تھے، وزیر اعظم کی ہدایت پر جارحانہ انداز سے چلائے جا رہے ہیں۔ اس بات کو یقینی بنانے کیلئے اضافی قانونی وسائل بروئے کار لائے جا رہے ہیں کہ اشرافیہ کے ٹیکس چور نظام میں مزید ہیرا پھیری نہ کر سکیں۔ عدالتی فیصلہ آنے کے 24؍ گھنٹوں کے اندر بینکوں سے 23 ارب روپے کی ریکوری میں ایف بی آر کی کامیابی ایک مالی کامیابی سے کہیں زیادہ بڑی بات ہے۔ یہ ملک کے ٹیکس نظام میں ایک مثالی تبدیلی ہے۔ ذریعے نے کہا کہ یہ تو شروعات ہے۔ اس عزم کا اظہار کیا گیا ہے کہ ٹیکس کا نفاذ منصفانہ ہو اور غریب اور متوسط ​​طبقے پر غیر متناسب بوجھ نہ پڑے، غیر متزلزل سیاسی ارادے، ایک بہتر عدالتی نقطہ نظر اور جارحانہ قانونی نگرانی کے ساتھ ملک کا ٹیکس نظام بالآخر اشرافیہ کی گرفت سے نکل رہا ہے، پیغام واضح ہے: قانونی ہیرا پھیری کرکے ٹیکس سے بچنے اور ٹیکس چوری کے دن ہوا ہوئے۔

انصار عباسی

.

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: ذریعے کے مطابق کے نتیجے میں ونڈ فال ٹیکس ایف بی ا ر ٹیکس عائد ٹیکس سے پر ٹیکس کے تحت

پڑھیں:

پاکستان کو جنگ نہیں بلکہ بات چیت کے ذریعے تعلقات بہتر بنانے چاہییں، پروفیسر محمد ابراہیم

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

کراچی: جماعتِ اسلامی پاکستان کے نائب امیر پروفیسر محمد ابراہیم نے کہا ہے کہ افغانستان میں طالبان حکومت کے قیام سے جماعت اسلامی کو خودبخود تقویت نہیں ملے گی،  اگر جماعت اسلامی اپنے بیانیے کو طالبان حکومت کے ساتھ ہم آہنگ کرے تو اس سے فکری اور نظریاتی سطح پر ضرور فائدہ حاصل ہو سکتا ہے۔

جسارت کے اجتماعِ عام کے موقع پر شائع ہونے والے مجلے کے لیے اے اے سید کو دیے گئے خصوصی انٹرویو میں پروفیسر محمد ابراہیم نے کہا کہ طالبان کا پہلا دورِ حکومت 1996ء سے 2001ء اور دوسرا دور 2021ء سے اب تک جاری ہے،  پہلے دور میں طالبان کی جماعتِ اسلامی کے ساتھ سخت مخالفت تھی لیکن اب ان کے رویّے میں نمایاں تبدیلی آئی ہے، پہلے وہ بہت تنگ نظر تھے مگر اب وہ افغانستان کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔

انہوں نے انکشاف کیا کہ امیرالمؤمنین ملا ہبت اللہ اور ان کے قریبی حلقے میں اب بھی ماضی کی کچھ سختیاں موجود ہیں، جس کی مثال انہوں نے انٹرنیٹ کی دو روزہ بندش کو قرار دیا، ستمبر کے آخر میں طالبان حکومت نے انٹرنیٹ اس بنیاد پر بند کیا کہ اس سے بے حیائی پھیل رہی ہےمگر دو دن بعد خود ہی فیصلہ واپس لے لیا، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اصلاح کی سمت بڑھ رہے ہیں۔

پروفیسر محمد ابراہیم نے کہا کہ موجودہ طالبان حکومت ایک بڑی تبدیلی کی علامت ہے، اور جماعت اسلامی کو اس سے فکری و نظریاتی سطح پر فائدہ پہنچ سکتا ہے، گزشتہ  دہائی میں دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی نے گہرے منفی اثرات چھوڑے ہیں،

آج بھی دونوں طرف سے ایک دوسرے کے خلاف شدید پروپیگنڈا جاری ہے، اور ہمارے کچھ وفاقی وزراء اپنے بیانات سے حالات مزید خراب کر رہے ہیں ۔

انہوں نے وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف اور وزیر اطلاعات عطا تارڑ کے بیانات کو غیر ذمہ دارانہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان کی زبان کسی باشعور انسان کی نہیں لگتی،  وزیرِ دفاع کا یہ کہنا کہ اگر مذاکرات ناکام ہوئے تو جنگ ہوگی بے وقوفی کی انتہا ہے،  خواجہ آصف ماضی میں یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ  افغانستان ہمارا دشمن ہے  اور محمود غزنوی کو  لٹیرا  قرار دے چکے ہیں جو تاریخ سے ناواقفیت کی علامت ہے۔

پروفیسر محمد ابراہیم نے مطالبہ کیا کہ حکومت وزیر دفاع کو فوری طور پر تبدیل کرے اور استنبول مذاکرات کے لیے کسی سمجھدار اور بردبار شخصیت کو مقرر کرے، پاکستان اور افغانستان کے درمیان کشیدگی کم کرنے کے لیے لازم ہے کہ پشتون وزراء کو مذاکرات میں شامل کیا جائے جو افغانوں کی نفسیات اور روایات کو سمجھتے ہیں۔

انہوں نے وزیر اطلاعات عطا تارڑ کے بیان پر بھی ردِعمل دیتے ہوئے کہا کہ  یہ کہنا کہ  ہم ان پر تورا بورا قائم کر دیں گے انتہائی ناسمجھی ہے،  تورا بورا امریکی ظلم کی علامت تھا، اور طالبان آج اسی کے بعد دوبارہ اقتدار میں ہیں۔ ایسی باتیں بہادری نہیں، بلکہ نادانی ہیں۔

پروفیسر محمد ابراہیم نے زور دیا کہ پاکستان کو جنگ نہیں بلکہ احترام، بات چیت اور باہمی اعتماد کے ذریعے افغانستان سے تعلقات بہتر بنانے ہوں گے کیونکہ یہی خطے کے امن و استحکام کی واحد ضمانت ہے۔

ویب ڈیسک وہاج فاروقی

متعلقہ مضامین

  • اے ٹی ایم اور بینک سے رقم نکلوانے پر چارجز میں نمایاں اضافہ
  •   ایف بی آر کو جولائی تا اکتوبر 270 ارب روپے کے ریونیو شارٹ فال کا سامنا
  • شہر کی سڑکیں یا کھنڈر ،شہریوں نے 60ارب ٹیکس دیا، سفر آج بھی عذاب سے کم نہیں
  • ایف بی آرکاٹیکس وصولیوں میں شارٹ فال 274ارب روپے تک پہنچ گیا
  • نان فائلرز سے اے ٹی ایم یا بینک سے رقم نکلوانے پر ڈبل ٹیکس کی تیاری
  • نان فائلرز کو اے ٹی ایم یا بینک سے رقم نکلوانے پر ڈبل ٹیکس دینا ہوگا
  • ٹیکس نظام میں اصلاحات سے مثبت نتائج وصول ہو رہے ہیں؛ وزیر اعظم
  • ٹیکس ریٹرنز جمع کرانے والوں میں نمایاں اضافہ
  • پاکستان کو جنگ نہیں بلکہ بات چیت کے ذریعے تعلقات بہتر بنانے چاہییں، پروفیسر محمد ابراہیم
  • عوام ہو جائیں تیار!کیش نکلوانے اور فون کالز پر مزید ٹیکس لگانے کا فیصلہ؟