ونڈ فال ٹیکس ، حکومت نے 16بینکوں سے صرف ایک دن میں 23ارب روپے وصول کرلئے
اشاعت کی تاریخ: 23rd, February 2025 GMT
اسلام آباد (نیوز ڈیسک) سندھ ہائی کورٹ کی جانب سے وِنڈ فال ٹیکس برقرار رکھنے کے فیصلے کے بعد ایف بی آر نے 21؍ فروری 2025ء کو ایک ہی دن میں 16؍ بڑے بینکوں سے 23 ارب روپے ٹیکس وصول کیا۔ باخبر ذریعے کے مطابق، وزیر اعظم شہباز شریف کی زیر قیادت ٹیکس ریکوری کا یہ بڑا آپریشن ٹیم ورک کا نتیجہ تھا جس میں گورنر اسٹیٹ بینک نے فعال کردار ادا کیا۔ ذرائع کے مطابق، اٹارنی جنرل آف پاکستان، چیئرمین ایف بی آر اور ماہرین قانون کی ایک ٹیم نے اشرافیہ پر ٹیکس لگانے اور قانونی ہیرا پھیری کے اس جڑے اُس کلچر کو ختم کرنے کی سرکاری حکمت عملی میں فیصلہ کن تبدیلی میں کردار ادا کیا جس نے طویل عرصے سے طاقتور کارپوریٹ مفادات کا تحفظ کیا ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ یہ بھاری رقم 21 فروری 2025 کو وصول کی گئی۔ اس ریکوری سے ایک دن قبل ہی سندھ ہائی کورٹ کے آئینی بنچ نے انکم ٹیکس آرڈیننس 2001 کے سیکشن 99D کے تحت عائد ونڈ فال ٹیکس کیخلاف مالی شعبہ جات کی درخواستیں مسترد کرتے ہوئے حکومت کے حق میں فیصلہ سنایا تھا۔ دہائیوں سے ملک کے امیر ترین افراد اور اداروں نے اپنی پیسے کی طاقت کا استعمال کرتے ہوئے یا پھر آئینی درخواستوں کے ذریعے ٹیکس عائد کرنے میں تاخیر کرائی اور ٹیکس سے بچنے کی کوششیں کیں۔ اس سے حکومت کے پاس غریب اور متوسط طبقے پر بوجھ ڈالنے کے سوا اور کوئی راستہ نہ بچا۔ ذریعے کا کہنا تھا کہ اب وقت بدل چکا ہے، 26ویں آئینی ترمیم کے نتیجے میں سپریم کورٹ اور تمام ہائی کورٹس میں آئینی بینچز کی تشکیل کے نتیجے میں ٹیکس سے امور سے جڑے کیسز کی رفتار میں تیزی آئی۔ ذریعے نے کہا کہ پہلے اشرافیہ طبقے سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے قانونی ڈھانچے میں پائی جانے والی خامیوں کا برسوں اور کئی معاملات میں دہائیوں تک فائدہ اٹھایا، بعض اوقات کیسز کو چلنے سے روکا گیا، لیکن نئے عدالتی ڈھانچے کے ساتھ عدالتیں اب تیزی سے کیسز چلا رہی ہیں جس کے نتیجے میں پھنسے ہوئے ٹیکسز کی وصولی فوری ممکن ہو پا رہی ہے۔ ماضی کی بات کریں تو جب بھی کارپوریٹ سیکٹر یا پھر امیر لوگوں پر ٹیکس عائد ہوا تو انہوں نے اس عدالت میں چیلنج کر دیا، مہنگے ترین وکلاء کی خدمات حاصل کیں۔ اس کے مقابلے میں ایف بی آر محدود بجٹ کے ساتھ جدوجہد کرتا رہا، کم تنخواہوں والے وکلاء کی خدمات حاصل کیں، جو کسی بھی طرح کارپوریٹ وکیلوں کے مقابلے میں نہیں اس عدم توازن کے نتیجے میں کیسز میں تاخیر ہوتی، نتیجتاً حکومت کو بالواسطہ ٹیکسوں میں اضافہ کرنا پڑتا تھا اور کم آمدنی والا طبقہ غیر متناسب انداز سے متاثر ہوتا تھا۔ اس چکر کو توڑنے کیلئے وزیراعظم نے بذات خود فنڈز مختص کرکے اس بات کو یقینی بنایا کہ ایف بی آر کو بہترین قانونی نمائندگی حاصل ہو سکے۔ ذریعے کے مطابق، وزیراعظم کی ہدایت کے تحت حکومت صرف اپنے ٹیکس اقدامات کا دفاع نہیں کر رہی بلکہ حکومت ٹیکس سے جڑے ہر ایک کیس کی نگرانی کر رہی ہے تاکہ غیر ضروری تاخیر سے بچا جا سکے۔ یہ وضاحت کی جاتی ہے کہ فنانس ایکٹ 2023ء کے ذریعے متعارف کرائے گئے سیکشن 99 ڈی کے تحت ونڈ فال ٹیکس حکومت کو معاشی بے ضابطگیوں کی وجہ سے بعض شعبوں کی جانب سے غیر متوقع طور پر حد سے زیادہ کمائے گئے منافع پر 50؍ فیصد ٹیکس عائد کرنے کا جواز دیتا ہے۔ ذریعے نے یاد دہانی کرائی کہ 2021ء اور 2023ء کے درمیان پاکستان کی معیشت انتہائی حد تک عدم استحکام کا شکار رہی، روپے کی قدر 2020ء میں یہ تھی کہ ایک ڈالر 168؍ روپے کا تھا لیکن 2023ء میں ایک امریکی ڈالر 286؍ روپے کا ہوگیا، جس سے غیر ملکی زر مبادلہ کی مصنوعی طلب پیدا ہوئی۔ نتیجتاً، بینکوں نے انٹر بینک اور اوپن مارکیٹ کے درمیان بڑھتے فرق کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اربوں روپے کا منافع کمایا۔ ذریعے کے مطابق، یہ غیر منصفانہ مالی ونڈ فال تھا جس کی وجہ سے حکومت نے 21؍ نومبر 2023ء کو ایس آر او جاری کرتے ہوئے گزشتہ دو سال کے دوران بینکوں کی جانب سے کمائے گئے منافع پر 40؍ فیصد ٹیکس عائد کر دیا۔ کہا جاتا ہے کہ ونڈ فال ٹیکس کوئی نیا آئیڈیا نہیں، امریکا، برطانیہ، اٹلی، رومانیہ، یونان، اسپین اور پولینڈ وغیرہ میں یہ ٹیکس نافذ ہے۔ ذریعے کے مطابق، ونڈ فال ٹیکس کے نفاذ کی کامیابی سے حکومت اب اپنی توجہ اشرافیہ سے طویل عرصہ سے وصول نہ کیے جانے والے ٹیکس کی ریکوری پر مرکوز کیے ہوئے ہے، اس کے علاوہ سیکشن 4 بی اور 4 سی کے تحت سپر ٹیکس، غیر تقسیم شدہ ذخائر پر ٹیکس، کیپیٹل ویلیو ٹیکس (سی وی ٹی)، غیر ملکی آمدنی پر ٹیکس اور انٹر کارپوریٹ منافع پر ٹیکس بھی وصول کیا جائے گا۔ذرائع نے کہا کہ یہ اقدامات، جو پہلے عدالتی مقدمات میں الجھے تھے، وزیر اعظم کی ہدایت پر جارحانہ انداز سے چلائے جا رہے ہیں۔ اس بات کو یقینی بنانے کیلئے اضافی قانونی وسائل بروئے کار لائے جا رہے ہیں کہ اشرافیہ کے ٹیکس چور نظام میں مزید ہیرا پھیری نہ کر سکیں۔ عدالتی فیصلہ آنے کے 24؍ گھنٹوں کے اندر بینکوں سے 23 ارب روپے کی ریکوری میں ایف بی آر کی کامیابی ایک مالی کامیابی سے کہیں زیادہ بڑی بات ہے۔ یہ ملک کے ٹیکس نظام میں ایک مثالی تبدیلی ہے۔ ذریعے نے کہا کہ یہ تو شروعات ہے۔ اس عزم کا اظہار کیا گیا ہے کہ ٹیکس کا نفاذ منصفانہ ہو اور غریب اور متوسط طبقے پر غیر متناسب بوجھ نہ پڑے، غیر متزلزل سیاسی ارادے، ایک بہتر عدالتی نقطہ نظر اور جارحانہ قانونی نگرانی کے ساتھ ملک کا ٹیکس نظام بالآخر اشرافیہ کی گرفت سے نکل رہا ہے، پیغام واضح ہے: قانونی ہیرا پھیری کرکے ٹیکس سے بچنے اور ٹیکس چوری کے دن ہوا ہوئے۔
انصار عباسی
ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: ذریعے کے مطابق کے نتیجے میں ونڈ فال ٹیکس ایف بی ا ر ٹیکس عائد ٹیکس سے پر ٹیکس کے تحت
پڑھیں:
نئے بجٹ میں دفاع، تنخواہوں اور پنشن میں اضافہ متوقع:تعلیم نظرانداز
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلام آباد:نئے مالی سال میں حکومت کی جانب سے دفاع، تنخواہوں اور پنشن میں اضافے کی توقع ہے جب کہ تعلیم کے معاملے میں حکومت نے خاطر خواہ بجٹ مختص نہیں کیا۔
میڈیا ذرائع کے مطابق وفاقی حکومت آئندہ مالی سال 2025-26 کے لیے ایک ایسے بجٹ کی تیاری میں مصروف ہے جس میں ملک کی موجودہ مالی ضروریات اور معاشی دباؤ کو مدنظر رکھتے ہوئے کئی اہم شعبوں میں اخراجات بڑھانے کی تجویز دی گئی ہے۔
وفاقی بجٹ کا مجموعی حجم 17 ہزار 600 ارب روپے تک پہنچ چکا ہے، جسے منگل کے روز قومی اسمبلی میں پیش کیا جائے گا، جب کہ آج پیر کے روز اقتصادی سروے رپورٹ جاری کی گئی ہے، جس میں گزشتہ مالی سال کی معاشی کارکردگی کا احاطہ کیا گیا ہے۔
وزارت خزانہ نے اس بجٹ کے بنیادی خدوخال کو حتمی شکل دے دی ہے۔ حکومت کی جانب سے رواں مالی سال کے لیے آمدن کا تخمینہ 19 ہزار 400 ارب روپے لگایا گیا ہے جب کہ ایف بی آر کو ٹیکس وصولی کا ہدف 14 ہزار 130 ارب روپے دیا گیا ہے، جو ملکی معیشت کی تاریخ میں ایک بلند ترین ہدف تصور کیا جا رہا ہے۔
بجٹ میں دفاعی اخراجات میں 18 فیصد اضافے کی تجویز سامنے آئی ہے، جو کہ موجودہ سیکورٹی حالات، خطے میں کشیدگی اور اندرونی سلامتی کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا جا رہا ہے۔
قرضوں کی ادائیگی ایک اور بڑا چیلنج ہے، جس پر تقریباً 6 ہزار 200 ارب روپے خرچ کیے جائیں گے۔ حیرت انگیز طور پر یہی رقم بجٹ خسارے کے برابر ہے، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ قرضوں کا بوجھ حکومت کی مالی منصوبہ بندی پر کتنا اثرانداز ہو رہا ہے۔ بجٹ خسارے کا ہدف بھی اتنا ہی یعنی 6200 ارب روپے مقرر کیا گیا ہے، جو اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ آمدن اور اخراجات کے درمیان خلیج کو کم کرنا اب بھی ایک بڑا مسئلہ بنا ہوا ہے۔
سرکاری ملازمین کے لیے خوش آئند خبر ہے کہ ان کی تنخواہوں میں 10 فیصد اضافے کی تجویز پیش کی گئی ہے، جب کہ ریٹائرڈ ملازمین کی پنشن میں 5 سے ساڑھے 7 فیصد تک اضافے پر غور ہو رہا ہے۔ اگر یہ تجاویز منظور ہو جاتی ہیں تو مہنگائی کے موجودہ ماحول میں یہ اقدام ملازمین کے لیے کسی ریلیف سے کم نہ ہوگا، تاہم ماہرین کا ماننا ہے کہ یہ اضافہ افراطِ زر کی شرح کے مقابلے میں ناکافی ہے۔
دوسری جانب تعلیم اور صحت جیسے عوامی فلاح کے شعبے ایک مرتبہ پھر حکومتی ترجیحات میں پیچھے دکھائی دے رہے ہیں۔ تعلیم کے لیے صرف 13 ارب 58 کروڑ روپے اور صحت کے لیے 14 ارب 30 کروڑ روپے مختص کیے جانے کی تجویز ہے، جو ایک ایسے وقت میں افسوسناک ہے جب ملک کو انسانی ترقی کے ان شعبوں میں ہنگامی بنیادوں پر بہتری کی ضرورت ہے۔ اس کمزور فنڈنگ پر ماہرین تعلیم اور صحت کی تنظیموں کی جانب سے شدید ردعمل سامنے آنے کا امکان ہے۔
حکومت کی جانب سے ڈیجیٹل معیشت اور آئی ٹی سیکٹر کے لیے 16 ارب 22 کروڑ روپے مختص کرنے کی تجویز بھی سامنے آئی ہے۔ اس اقدام کو ٹیکنالوجی کے میدان میں پاکستان کو ترقی یافتہ دنیا سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش قرار دیا جا رہا ہے، لیکن آئی ٹی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس رقم میں خاطر خواہ اضافہ ہونا چاہیے تاکہ نوجوانوں کو روزگار، تعلیم اور عالمی مارکیٹ میں مواقع فراہم کیے جا سکیں۔
دوسری جانب قومی اسمبلی کے اسپیکر سردار ایاز صادق نے بجٹ اجلاس کا مکمل شیڈول جاری کر دیا ہے، جس کے مطابق 10 جون کو بجٹ پیش کیا جائے گا۔ 11 اور 12 جون کو اسمبلی اجلاس منعقد نہیں ہوگا، جب کہ بجٹ پر باقاعدہ بحث 13 جون سے شروع ہو کر 21 جون تک جاری رہے گی۔ 22 جون کو بھی اجلاس نہیں ہوگا۔ بجٹ منظوری کا فیصلہ کن دن 26 جون ہوگا، جب فنانس بل 2025-26 کی منظوری متوقع ہے۔