بولان: کالعدم تنظیم کی ناکہ بندی، رکن صوبائی اسمبلی کے محافظوں سے اسلحہ چھین لیا
اشاعت کی تاریخ: 24th, February 2025 GMT
اتوار کو بلوچستان کے ضلع بولان کے 4 مختلف مقامات بی بی نانی، آب گم، پیر غائب اور گرین ہوٹل کے مقام پر کالعدم تنظیم کی جانب سے ناکہ بندی کی گئی۔ سیکیورٹی فورسز نے مسلح افراد کی ناکہ بندی کے خلاف کارروائی کی تو فائرنگ کا تبادلہ ہوا۔ وی نیوز سے بات کرتے ہوئے ایس ایچ او پولیس مچھ پیر بخش بگٹی نے بتایا کہ فائرنگ کے تبادلے میں 2 راہ گیر جانبحق جبکہ 4 افراد زخمی ہوئے جبکہ مسلح افراد پہاڑوں کی طرف رات کی تاریکی کے سبب فرار ہو گئے۔
پیر بخش بگٹی نے بتایا کہ جاں بحق افراد کی لاشوں اور زخمیوں کو سول اسپتال مچھ منتقل کیا گیا۔ اسپتال انتظامیہ کے مطابق جانبحق افراد میں ایک شخص کی شناخت نبی داد نام سے ہوئی جبکہ زخمیوں میں صفی اللہ، امان اللہ، غلام رسول اور امین اللہ شامل ہیں۔
مزید پڑھیں: کوئٹہ: نیو سریاب تھانے کی حدود میں فائرنگ، خاتون سمیت 2 افراد قتل
ایس ایچ او مچھ پولیس پیر بخش بگٹی نے بتایا کہ کوئٹہ سبی قومی شاہراہ کو ٹریفک کے لیے بحال کردیا گیا ہے جبکہ علاقے میں سرچ آپریشن کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ تاہم گزشتہ روز کالعدم تنظیم کی ناکہ بندی کے دوران مسلح افراد نے رکن صوبائی اسمبلی میر لیاقت لہڑی کو بھی روکا اور ان کے محافظوں کا اسلحہ چھین لیا تھا تاہم لیاقت لہڑی محفوظ ہیں۔
لیاقت لہڑی کے ساتھ پیش آنے والے واقعہ کی مخالف قبائلی اور سیاسی شخصیات نے بھی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ کسی باعزت اور قبائلی شخصیت کے ساتھ نامناسب سلوک رکھنا ایک قابل مذمت فعل ہے تمام بلوچ قوم کو مل کر ایسی منفی سوچ کیا عناصر کی مذمت کرنی چاہیے بلوچستان میں تمام اقوام و قبائلی شخصیات قابل احترام ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اسلحہ بولان کالعدم تنظیم میر لیاقت لہڑی.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: بولان کالعدم تنظیم کالعدم تنظیم ناکہ بندی
پڑھیں:
غریب کسانوں کا پانی چھین کر چولستان مین کارپوریٹ سیکٹر کو دینا چاہتے ہیں.چوہدری منظور
اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔23 اپریل ۔2025 )پاکستان پیپلزپارٹی کے سینئر راہنما چوہدری منظور اور سیکرٹری اطلاعات ندیم افضل چن نے کہاہے کہ چولستان کینال کو پنجاب کی کون سی نہر کا پانی دیں گے؟ غریب کسانوں کا پانی چھین کر چولستان مین کارپوریٹ سیکٹر کو دینا چاہتے ہیں، حکومت کو ایک سال ہوگیا مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس نہیں بلایا.(جاری ہے)
اپنے آپ کو پنجاب کے وارث سمجھنے والے جنرل جیلانی اور جنرل ضیا کے وارث تو ہوسکتے ہیں لیکن یہ پنجاب کے وارث نہیں ہیں،پنجاب کا وارث محکمہ آبپاشی ہے، اس کے ریسٹ ہاﺅس کس نے بیچے؟ آپ 40،50 سال حکمران رہے ہیں، یہ ریسٹ ہاﺅس مراد علی شاہ نے نہیں بیچے جسے آپ طعنہ دے رہے ہیں نہ پیپلزپارٹی نے بیچے، کیا وارث زمینیں بیچتے ہیں یا جائیداد بڑھاتے ہیں؟ آپ خریدار ہوسکتے ہیں، وارث نہیں ہوسکتے. اسلام آباد میں پارٹی راہنماﺅں کے ساتھ پریس کانفرنس کرتے ہوئے چوہدری منظور نے کہا کہ میں نے پانی کے مسئلے پر وزیراعظم کے سامنے 4،5 سوالات اٹھائے تھے جن میں سے صرف ایک کا جواب آیا ہے انہوں نے کہا کہ میں نے پہلا سوال وزیراعظم سے کیا تھا کہ ارسا ایکٹ میں لکھا ہے جب بھی پانی کا کوئی مسئلہ سامنے آئے گا تو مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس بلایا جائے گا، حکومت کو آئے ایک سال کا عرصہ گزرچکا ہے مگر مشترکہ مفادات کونسل کا ایک بھی اجلاس کیوں نہیں بلایا گیا. انہوں نے کہاکہ بہت شور ہوتا ہے کہ صدر پاکستان نے منظوری دے دی میں نے سوال اٹھایا تھا کہ صدر پاکستان دو چیزوں کی منظوری دیتے ہیں کہ اگر پارلیمنٹ کوئی قانون منظور کرے یا حکومت انہیں کوئی آرڈیننس بھیجتی ہے چوہدری منظور نے کہا کہ راناثنااللہ نے کل اس سوال کا جواب دیا ہے کہ نہ تو یہ منصوبہ ایکنک نے منظور کیا ہے، نہ مشترکہ مفادات کونسل نے منظور کیا ہے اور نہ ہی صدر پاکستان نے اس کی منظوری دی ہے، ہمارا یہ موقف ہے کہ 18 ویں ترمیم کے بعد صدر پاکستان کے پاس کسی بھی انتظامی کام کی منظوری دینے کا کوئی اختیار نہیں ہے. انہوں نے کہاکہ تیسرا سوال یہ ہے کہ آپ غریب کسانوں کا پانی چھین کر کارپوریٹ سیکٹر پر لگانا چاہ رہے ہیں، تمام آبی ماہرین کا خیال ہے کہ یہ منصوبہ ناممکن ہے، عام نہر سے 7 سے 14 فیصد پانی بھاپ بن کر اڑجاتا ہے جبکہ اس نہر سے 30 سے 40 فیصد پانی بھاپ بن کر اڑ جائے گا، آپ اگر اس پرنکل یا ڈرپ ایریگیشن کے ذریعے جدید فارمنگ کرنا چاہتے ہیں تو وہ نہر کے پانی سے نہیں ہوسکتی کیوں کہ اس سے نوزل بند ہوجائیں گے . انہوں نے کہا کہ جدید فارمنگ کے لیے نہر کے بجائے بڑے بڑے تالاب بنانے ہوں گے، ڈی سلٹنگ کے لیے پانی کھڑا کرنا پڑے گا، وہاں کے موسم میں 3،4 دن کھڑے رہنے والے پانی میں کائی جم جائے گی، جب کائی جمے گی تو وہ بھی نوزل بند کردے گی چوہدری منظور نے کہا کہ آپ کہ رہے ہیں سیلاب کا پانی دیں گے، سیلاب تو جولائی، اگست اور ستمبر میں دو سے تین مہینے تک ہوتا ہے، باقی 9ماہ آپ کیا کریں گے. چوہدری منظور نے کہا کہ میں نے وزیراعلیٰ پنجاب سے سوال کیا تھا مگر ابھی تک جواب نہیں آیا کہ کس نہر کا پانی بند کرکے چولستان کینال کو دیں گے؟انہوں نے کہا کہ ارسا کی رپورٹ کے مطابق پنجاب کو پانی کی 43 فیصد کمی کا سامنا ہے، انہوں نے کہاکہ پنجاب میں پینے کا 80 سے 90 فیصد پانی زیرزمین سے آتا ہے جبکہ سندھ کا یہ مسئلہ ہے کہ وہاں پینے 80 سے 90 فیصد پانی دریا اور جھیلوں سے آتا ہے، یہ ان کی حساسیت ہے اور اس مسئلے کو کسی فارمولے کے تحت نہیں انسانیت کی بنیاد پر دیکھنے کی ضرورت ہے. چوہدری منظور نے کہا کہ پنجاب حکومت کارپوریٹ فارمنگ کے ذریعے پنجاب کے کسانوں کے ساتھ جو ظلم کرنے جارہی ہے، پیپلزپارٹی اس پر تمام متاثرہ اضلاع کے مظلوم کسانوں کے ساتھ کھڑی ہے، اس پانی کے مسئلے پر کسانوں کے ساتھ جہاں مظاہرے کرنے پڑیں گے کریں گے. پیپلزپارٹی کے سیکرٹری اطلاعات ندیم افضل چن نے پنجاب حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہاکہ پاکستان کی ریاست کو مضبوط کرنا سب سے زیادہ ضروری ہے، اس منصوبے میں آپ کی بدنیتی شامل ہے، انہیں چولستان اور ریگستان سے کوئی پیار نہیں ہے نہ یہ کاشتکاروں، ہاریوں اور پڑھے لکھے کسانوں کو زمینیں دینا چاہتے ہیں ندیم افضل چن نے کہا کہ یہ اپنے آپ کو پنجاب کے وارث سمجھتے ہیں مگر یہ جنرل جیلانی اور جنرل ضیا کے وارث تو ہوسکتے ہیں، لیکن یہ پنجاب کے وارث نہیں ہیں، یہ بتادیں کہ انہوں نے پنجاب کے کسی ایک کاشتکار کو بھی ایک ایکڑ زرعی زمین دی ہو، اگر آپ کسی سرمایہ دار یا کسی بیورو کریٹ کو زمین دے رہے ہیں تو یہ پنجاب کا مقدمہ نہیں ہے. انہوں نے کہاکہ پنجاب کا وارث محکمہ آبپاشی ہے، اس کے ریسٹ ہاﺅس کس نے بیچے؟ کیونکہ آپ 40،50 سال حکمران رہے ہیں، یہ ریسٹ ہاﺅس مراد علی شاہ نے نہیں بیچے جسے آپ طعنہ دے رہے ہیں نہ پیپلزپارٹی نے بیچے، کیا وارث زمینیں بیچتے ہیں یا جائیداد بڑھاتے ہیں؟ آپ خریدار ہوسکتے ہیں، وارث نہیں ہوسکتے. ندیم افضل چن نے کہا کہ گورنمنٹ ٹرانسپورٹ سروس ( جی ٹی ایس) غریبوں کی ایک سہولت ہوا کرتی تھی، آپ نے پنجاب میں حکمرانی کی اور وہ بس بیچ دی، اب آپ سبسڈائزڈ میٹرو، سبسڈائزڈ پیلی بس، نیلی بس چلارہے ہیں، اربوں کی گاڑیاں بیچ دیں اور اب پھر عوام کے پیسے سبسڈائزڈ ٹرانسپورٹ چلا رہے ہیں، آپ کی وہ پالیسی ٹھیک تھی یا یہ پالیسی ٹھیک ہے؟. ندیم افضل چن نے حکومت کو مخاطب کرتے ہوئے کہاکہ ہم آپ کے اتحادی ہے جس کی ہم ایک قیمت دے رہے ہیں، ہم آپ کے اتحادی نہیں، اس نظام، ملک اور آئین کے اتحادی ہیں، ہم پارلیمانی نظام کے اتحادی ہیں انہوں نے کہا کہ آپ نے بنیادی صحت کے مراکز پر اربوں روپے لگانے کے بعد انہیں پرائیویٹائز کردیا، غریب کا بچہ پرائیویٹ سکولوں میں نہیں پڑھ سکتا، وہ سرکاری سکولوں میں پڑھتا تھا، آپ نے آج سرکاری سکول بیچنا شروع کردیے، انہوں نے سوال کیا کہ کیا وارث سکول، ہسپتال، آبپاشی کی زمینیں اور اپنی ٹرانسپورٹ بیچتا ہے؟ اپنے گھر کے برتن بیچنے والا وارث نہیں ہوتا، وہ ڈنگ ٹپاﺅٹھگ ہوتا ہے، ہم حکومت سے بات چیت کے لیے تیار ہیں،کینالز کے مسئلے پر صوبوں کو آپس میں نہ لڑائیں.