پاکستان انسٹیٹیوٹ آف لیجسلیٹو ڈیولپمنٹ اینڈ ٹرانسپیرنسی (پلڈاٹ) نے پہلے پارلیمانی سال کے اختتام پر وزراء کی پارلیمانی کارکردگی پر رپورٹ جاری کردی۔ جس کے مطابق وفاقی کابینہ میں 18 وزراء اور دو وزرائے مملکت ہیں۔ 

پلڈاٹ رپورٹ کے مطابق کابینہ میں صرف ایک خاتون وزیر مملکت اور کوئی غیر مسلم وزیر نہیں، کارکردگی کے لحاظ سے وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ سب سے مؤثر رکن کابینہ رہے۔ 

پلڈاٹ رپورٹ کے مطابق اعظم نذیر تارڑ پارلیمانی کارکردگی کے اعتبار سے پہلے نمبر پر رہے، احد چیمہ اور محسن نقوی پارلیمانی کارکردگی کے لحاظ سے آخری نمبروں پر رہے۔ 

پلڈاٹ رپورٹ کے مطابق حاضری اور ایوان میں سب سے زیادہ گفتگو کرنے میں بھی اعظم نذیر تارڑ کا پہلا نمبر ہے، انھوں نے آئینی ترمیمی بلوں سمیت 38 حکومتی بلوں کی منظوری کروائی۔ 

پلڈاٹ رپورٹ کے مطابق اعظم نذیر تارڑ 157میں سے 89 اجلاسوں میں شریک ہوئے، 17 گھنٹے 18 منٹ گفتگو کی۔ خواجہ آصف 69 اجلاسوں میں شرکت اور 5 گھنٹے 41 منٹ گفتگو کرکے دوسرے نمبر رہے، جبکہ عطا تارڑ حاضری کے لحاظ سے پانچویں اور گفتگو کے لحاظ سے تیسرے نمبر پر رہے۔ 

پلڈاٹ رپورٹ کے مطابق عطا تارڑ نے پارلیمنٹ میں 4 گھنٹے 29 منٹ گفتگو کی، وزیر خزانہ محمد اورنگزیب حاضری کے لحاظ سے 12ویں نمبر پر رہے۔ وزیر خزانہ نے دو گھنٹے 45 منٹ گفتگو کرکے چوتھے نمبر پر رہے۔ 

رپورٹ کے مطابق علیم خان حاضری کے اعتبار سے آٹھویں اور گفتگو کے لحاظ سے 13ویں نمبر پر رہے، احد چیمہ حاضری کے لحاظ سے 17ویں اور بولنے کے لحاظ سے 19ویں نمبر پر رہے۔ احد چیمہ قومی اسمبلی اور سینیٹ کے 157 اجلاسوں میں سے صرف 9 میں حاضر رہے، احد چیمہ نے بمشکل ایوان میں ایک منٹ گفتگو کی۔ 

محسن نقوی حاضری کے لحاظ سے 16 اور بولنے کے لحاظ سے 18 نمبر پر ہیں، وزیر داخلہ محسن نقوی نے صرف 12 منٹ پارلیمنٹ میں گفتگو کی۔ وہ محسن نقوی 157 اجلاسوں میں سے صرف 10 میں شریک ہوئے۔ 

احسن اقبال حاضری کے لحاظ سے 14ویں اور گفتگو کے لحاظ سے 12ویں نمبر پر ہیں، علی پرویز ملک حاضری کے لحاظ سے چوتھے اور گفتگو کے لحاظ سے 9ویں نمبر پر ہیں۔ 

پلڈاٹ رپورٹ کے مطابق امیر مقام حاضری کے لحاظ سے چھٹے اور گفتگو کے لحاظ سے 10ویں نمبر پر ہیں، چوہدری سالک حسین حاضری کے لحاظ سے 15ویں نمبر پر رہے۔ 

پلڈاٹ رپورٹ کے مطابق خالد مقبول صدیقی حاضری کے لحاظ سے ساتویں اور گفتگو کے لحاظ سے 17ویں نمبر پر ہیں، جام کمال حاضری کے لحاظ سے 9ویں اور گفتگو کے لحاظ سے12ویں نمبر پر رہے۔ 

اسحاق ڈار حاضری کے لحاظ سے 13ویں اور گفتگو کے لحاظ سے پانچویں نمبر پر رہے، مصدق ملک حاضری کے لحاظ سے 11ویں اور گفتگو کے لحاظ سے چھٹے نمبر پر رہے۔ 

رانا تنویر حسین حاضری کے لحاظ سے چوتھے اور گفتگو کے لحاظ سے آٹھویں نمبر پر رہے، اویس لغاری حاضری کے لحاظ سے 10ویں اور گفتگو کے لحاظ سے ساتویں نمبر پر رہے۔ 

پلڈاٹ رپورٹ کے مطابق شزہ فاطمہ خواجہ حاضری کے لحاظ سے ساتویں اور گفتگو کے لحاظ سے 14ویں نمبر پر ر ہیں، محسن نقوی کا پارلیمانی ریکارڈ پارلیمنٹ کی کم وقت کا ثبوت ہے، محسن نقوی نے پارلیمانی نگرانی اور احتساب کے بغیر امن و امان کا ایجنڈا نافذ کیا۔

.

ذریعہ: Jang News

کلیدی لفظ: اور گفتگو کے لحاظ سے حاضری کے لحاظ سے اعظم نذیر تارڑ اجلاسوں میں نمبر پر ہیں نمبر پر رہے محسن نقوی منٹ گفتگو گفتگو کی احد چیمہ

پڑھیں:

جرمنی میں اسلام دشمن حملے خطرناک حد تک بڑھ گئے، برلن میں 644 واقعات رپورٹ

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

برلن: جرمنی کے دارالحکومت برلن میں اسلام مخالف حملوں اور امتیازی سلوک کے واقعات 2024 میں خطرناک حد تک بڑھ گئے۔ ایک نئی رپورٹ کے مطابق صرف ایک سال میں ایسے 644 واقعات ریکارڈ کیے گئے، جو پچھلے سال کے مقابلے میں تقریباً 70 فیصد اضافہ ہے۔

غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق اسلاموفوبیا پر نظر رکھنے والے ادارے CLAIM کی شریک ڈائریکٹر ریما حنانو نے بدھ کو پریس کانفرنس میں انکشاف کیا کہ برلن میں روزانہ اوسطاً دو اسلام مخالف واقعات پیش آئے، جن میں زیادہ تر متاثرہ خواتین تھیں۔

انہوں نے کہا کہ “ہماری رپورٹ ایک پریشان کن تصویر پیش کرتی ہے۔ 2024 میں درج کیے گئے 644 واقعات اس بات کا ثبوت ہیں کہ اسلام مخالف نسل پرستی برلن میں تیزی سے پھیل رہی ہے۔”

رپورٹ کے مطابق متاثرہ افراد میں سے 64 فیصد خواتین تھیں، اور ان میں سے بہت سی خواتین اپنے بچوں کے ہمراہ تھیں جب انہیں نشانہ بنایا گیا۔ سب سے زیادہ واقعات اسکولوں، ملازمتوں اور رہائش گاہوں میں امتیازی سلوک سے متعلق تھے، جب کہ دوسرے نمبر پر زبانی حملے رپورٹ کیے گئے۔

حنانو کے مطابق یہ صرف وہ واقعات ہیں جو رپورٹ ہوئے، اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے کیونکہ بہت سے متاثرین خوف یا مایوسی کے باعث سامنے نہیں آتے۔

حنانو نے نشاندہی کی کہ مشرق وسطیٰ میں جاری تنازعات کے بعد اسلاموفوبیا میں شدت آئی ہے۔ اسی طرح جرمنی میں ہونے والے دہشت گرد حملوں کے بعد بھی مسلمانوں کو اجتماعی طور پر “سیکیورٹی خطرہ” کے طور پر پیش کیا گیا، جس سے عام معاشرے میں شک، نفرت اور تعصب کو ہوا ملی۔

جرمنی مغربی یورپ میں فرانس کے بعد دوسرا سب سے بڑا مسلم ملک ہے، جہاں تقریباً 5.5 ملین مسلمان آباد ہیں، حالیہ برسوں میں اسلام مخالف نفرت اور تشدد میں نمایاں اضافہ ہوا ہے، جس کی ایک بڑی وجہ دائیں بازو کی انتہا پسند جماعتیں اور تحریکیں ہیں، جن میں اپوزیشن پارٹی “آلٹرنیٹو فار جرمنی” (AfD) شامل ہے۔

حنانو اور دیگر انسانی حقوق کے کارکنوں نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اسلاموفوبیا کے خلاف سخت اور مؤثر اقدامات کرے، تاکہ معاشرے میں امن، برداشت اور مساوات کو فروغ دیا جا سکے۔

متعلقہ مضامین

  • پشاور‘ بچوں کے ساتھ زیادتی اور تشدد کے واقعات، چار ماہ میں 128 کیسز رپورٹ
  • اسرائیل کو بھاگنے نہیں دیں گے، اختتام ہم لکھیں گے، ایرانی سپریم لیڈر
  • نیپال میں آسمانی بجلی گرنے سے ہلاکتیں
  • سرکاری فرائض سے مسلسل غیر حاضری، 18 ڈاکٹرز برطرف
  • وزیراعلی بلوچستان کی زیرصدارت بجٹ پر پارلیمانی کمیٹی کا مشاورتی اجلاس
  • خیبرپختونخوا کا آئندہ مالی سال کیلیے بجٹ آج پیش کیا جائے گا
  • خیبرپختونخوا کا آئندہ مالی سال کیلئے بجٹ کل پیش کیا جائے گا
  • جرمنی میں اسلام دشمن حملے خطرناک حد تک بڑھ گئے، برلن میں 644 واقعات رپورٹ
  • برطانیہ میں رواں برس پہلا یلو ہیٹ ہیلتھ الرٹ جاری
  • ملک کے 80 فیصد کینسر مریضوں کا علاج کن اسپتالوں میں ہوتا ہے، رپورٹ جاری