ایران،حزب اللہ اورامریکی پالیسی
اشاعت کی تاریخ: 25th, February 2025 GMT
(گزشتہ سے پیوستہ)
تاہم حزب اللہ کے خلاف کارروائی خطرات سے بھرپور ہوگی۔حزب اللہ کی عسکری طاقت کی وجہ سے یہ گروہ تشددکی ڈھکی چھپی دھمکی استعمال کرتاتھاکہ اگرانہیں دیوارسے لگانے کی کوشش کی گئی تووہ بہت سخت جواب دیں گے‘‘۔ایک مغربی سفارت کارنے نام ظاہرنہ کرنے کی شرط پربتایاکہ’’ہم لبنان کی اپوزیشن اوردیگرممالک میں لوگوں کوبتارہے ہیں کہ حزب اللہ کودیوار سے لگانے کی کوشش کاالٹااثرہوسکتاہے اور تشدد کا خطرہ ممکن ہے‘‘۔تاہم لبنان میں ایک نیاباب لکھا جارہاہے جہاں کرپشن اورحکومتی مسائل سمیت تشددکی نہ ختم ہونے والی لہرسے لوگ تھک چکے ہیں۔
یہ مسائل کاایساانبارہے جس کی وجہ سے ریاست غیرفعال ہوچکی ہے۔پارلیمنٹ سے اپنے پہلے خطاب میں نئے صدرنے اصلاحات لانے کا وعدہ کیا جن کے بغیرملک کوبچانامشکل ہوگا۔ انہوں نے حکومتی اداروں کی تعمیر نو،معیشت کی بحالی اورفوج کوملک کی واحدمسلح طاقت بنانے کاوعدہ بھی کیا۔ انہوں نے حزب اللہ کانام تونہیں لیالیکن ان کااشارہ اسی کی جانب تھا۔پارلیمان میں تالیوں کی گونج کے بیچ حزب اللہ کے اراکین خاموش بیٹھے رہے۔
حزب اللہ کے مستقبل کاانحصارلبنان کے داخلی حالات،ایران کی پالیسی،اوراسرائیل کی عسکری حکمت عملی پرہوگا۔اگرلبنان میں اقتصادی بحران بڑھتاہے توحزب اللہ کی عوامی حمایت میں کمی آسکتی ہے لیکن اگراسرائیل دباؤبڑھاتاہے توتنظیم اپنی عسکری سرگرمیوں میں شدت لاسکتی ہے، جس سے خطے میں مزیدعدم استحکام پیدا ہوسکتا ہے لیکن حزب اللہ کی عسکری طاقت کے مستقبل کا فیصلہ شاید لبنان سے بہت دورایران کے دارالحکومت میں ہوگاجہاں سے دہائیوں تک اسلحے اورپیسے کی مددسے مزاحمت کے محورنامی علاقائی اتحادکی پرورش کی گئی اور اسرائیل کاآتشیں گھیراؤقائم کیا گیا۔ اس اتحاد کا ایک اہم کھلاڑی حزب اللہ ہے جس کے پاس ہزاروں تربیت یافتہ جنگجو اور میزائلوں کاانبار موجود ہے۔اس گروہ نے ایرانی جوہری تنصیبات پر اسرائیل کے ممکنہ حملے کے خلاف ایک طاقت کے طورپرکام کیاہے لیکن وہ طاقت اب بکھرچکی ہے اوراگرایران چاہے بھی تواس طاقت کو بحال کرنا آسان نہ ہوگا۔
شام میں بشارالاسدکی حکومت کے گر جانے کے بعد،جس کی ایک وجہ حزب اللہ کوپہنچنے والی چوٹ بھی تھی،تہران کاوہ زمینی رابطہ منقطع ہوچکا ہے جس سے حزب اللہ تک اسلحہ اورپیسہ پہنچایا جاتا تھا۔اسرائیل،جس نے حزب اللہ کے خلاف وسیع پیمانے پر خفیہ اطلاعات اکٹھی کی ہیں،کے مطابق وہ حزب اللہ کونشانہ بناتارہے گاتاکہ یہ دوبارہ پہلے جیسی طاقت حاصل نہ کرسکے۔تاہم بلین فورڈکے مطابق ’’حزب اللہ کے بارے میں بنیادی سوالوں کے جواب ایران ہی دے سکتا ہے۔ یہ ممکن ہے کہ ایران یاحزب اللہ کچھ مختلف سوچیں، غیر مسلح ہونے کے بارے میں اورصرف ایک سیاسی اورسماجی تحریک کی شکل میں برقرار رہیں۔لیکن یہ حزب اللہ کانہیں،ایران کافیصلہ ہوگا‘‘۔
حزب اللہ کے اندرونی معاملات سے واقفیت رکھنے والے ذرائع سے جب یہ سوال کیا گیا کہ کیا ایساممکن ہوسکتاہے توبتایاگیاکہ’’یہ ایک بڑے علاقائی حل کاحصہ ضرورہوسکتاہے۔ یہ بظاہر ایک اشارہ ہے کہ ایران اپنے جوہری پروگرام پرمغرب سے معاہدہ کرنے کاخواہش مند ہے۔ ذرائع کے مطابق ’’اسلحہ مکمل طورپر چھوڑنے اورریاست کے اندرضابطوںمیں رہتے ہوئے ان کے استعمال میں فرق ہے اورایسابھی ممکن ہے‘‘۔
خطے کے سیاسی تجزیہ نگاروں کامانناہے کہ ایران ممکنہ طورپرحزب اللہ کوایک ’’پریشر پوائنٹ‘‘ کے طورپراستعمال کررہاہے تاکہ امریکا اور مغرب کے ساتھ ایٹمی معاہدے میں بہترشرائط حاصل کرسکے۔ جب بھی ایران محسوس کرتاہے کہ اس پربین الاقوامی دباؤ بڑھ رہاہے یامعاہدے کی شرائط اس کے مفادات کے خلاف ہیں،تووہ حزب اللہ کے ذریعے اسرائیل پر دباؤ ڈالنے کیلئے استعمال کرتا ہے اس طرح،ایران حزب اللہ کو ایک غیررسمی سفارتی ہتھیارکے طورپراستعمال کرتارہاہے،جس سے خطے میں کشیدگی بڑھاکر مغرب کومذاکرات کی میزپرلانے کی کوششوں میں کامیاب رہالیکن اب سوال یہ ہے کہ خطے میں جنگ بندی کے بعدکیا ایران جواب زمینی رابطے سے بھی محروم ہوچکا ہے، کیاحزب اللہ کوایک مؤثر ہتھیار کے طورپراستعمال کرنے کی استطاعت رکھتا ہے جبکہ لبنان میں بھی کئی اہم تبدیلیوں رونماہوچکی ہیں۔
اگرچہ ٹرمپ نے اپنامنصب سنبھالتے ہی اپنے جارحانہ بیانات سے امریکاکے نئے چہرے سے متعارف کروایاہے اورایران کے بارے میں بیانات کی تلخی سے معلوم ہوتاہے کہ امریکا کبھی بھی اپنی دھمکیوں کوعملی جامہ پہنانے کیلئے’’آئندہ امریکا کوئی نئی جنگ شروع نہیں کرے گااورجاری جنگوں سے امریکاکوباہرنکالے گا‘‘ جیسے اپنے تمام انتخابی وعدوں سے یکسرمنحرف ہوکراپنے مقاصد کیلئے نئی جنگوں کاآغازکرسکتاہے لیکن ٹرمپ کے سابقہ کردارسے یہ بھی عیاں ہے کہ ٹرمپ نے دھمکیوں کی آڑمیں افغانستان میں مقاصدکے حصول کیلئے پہلے بھی یہ کرداراداکیالیکن بعدازاں اس کا رسوا کن انجام بھی دنیانے دیکھالیکن لگتایہ ہے کہ یہاں معاملات کوایک اوراندازمیں استعمال کیاجاسکتاہے کہ خطے میں دیگر امیرعرب ریاستوں پردباجاری رکھنے کیلئے خطے میں ایران کے خطرے کے نام پراپنے مقاصدکے حصول کی تکمیل کی جاسکے اوریہ بھی عین ممکن ہے کہ ایران کوحزب اللہ کی عسکری امداد سے الگ کرکے مجوزہ ایرانی ایٹمی پروگرام پرکوئی ایسا معاہدہ کرلیا جائے۔ تاہم، موجودہ حالات میں ایران کیلئے حزب اللہ ایک طویل مدتی حکمتِ عملی کاحصہ ہے،جسے وہ خطے میں اپنی موجودگی اوراثرورسوخ برقراررکھنے کیلئے استعمال کرتارہے گا۔
لیکن دوسری طرف لبنان کے نئے رہنمائوں پرجلدازجلدکچھ کرنے کادباؤبڑھ رہا ہے۔ بیرونی اتحادی مشرق وسطی میں طاقت کی نئی بساط کوایک موقع کے طورپردیکھ رہے ہیں جس میں ایران کومزیدکمزورکیاجاسکتاہے جبکہ لبنان میں استحکام کیلئے لوگ پریشان ہیں۔لوگ اب اس بات کو پسندنہیں کرتے جب یہ کہاجاتاہے کہ تباہی کے باوجودانہوں نے زندگی کورواں دواں رکھا ہواہے۔ حزب اللہ کی پسپائی کے بعدبیروت کے مسیحی علاقے میں بسنے والے رہائشی بھی اس خواہش کا اظہارکررہے ہیں’’ہم ایک ایسے عام سے ملک میں رہنا چاہتے ہیں جہاں جنگ کا دور دورتک نام ونشان نہ ہو،ہم کئی دہائیوں سے جنگ کی ہولناکیوں سے نجات چاہتے ہیں‘‘۔شایداتنی مشکل دیکھنے کے بعدحزب اللہ کے حامی بھی اب یہ سوال اٹھائیں کہ اس گروہ کامستقبل میں کیا کردار ہونا چاہیے۔حزب اللہ شایدجنگ سے پہلے والی تنظیم کبھی نہ بن پائے ۔ اسے غیرمسلح کرنااب ماضی کی طرح ایک ایسامعاملہ نہیں جس کے بارے میں سوچنابھی محال ہواکرتاتھا۔
ادھردوسری طرف ٹرمپ کی پالیسیز ہمیشہ اسرائیل نوازرہی ہیں،جس کاواضح مظاہرہ ’’صدی کی ڈیل ‘‘میں دیکھاگیا۔ٹرمپ اب پھر قصر سفیدمیں فرعونی طاقت کے نشہ میں براجمان ہوکر ہر روز اپنے بیانات سے دنیابھرمیں تہلکہ پیدا کر رہے ہیں،ان کی پالیسیوں کااثراب ایک مرتبہ پھر امریکی خارجہ پالیسی میں محسوس کیا جاسکتا ہے۔ غزہ پرتسلط کاکوئی بھی منصوبہ فلسطینی عوام اور حماس کی سخت مزاحمت کاسامناکرے گا۔
ٹرمپ کے منصوبے کوخطے کے بیشتر ممالک، حتی کہ امریکاکے روایتی اتحادیوں جیسے اردن اور مصرنے بھی مستردکیاہے۔اقوامِ متحدہ اور یورپی یونین نے بھی فلسطینی عوام کے حقوق کی حمایت کی ہے۔عرب دنیامیں عوامی سطح پرفلسطینی کاز کیلئے ہمدردی موجودہے،جوکسی بھی امریکی یا اسرائیلی جارحیت کے خلاف ردعمل کاسبب بن سکتی ہے۔اگرامریکااوراسرائیل غزہ پرمزیددباؤ ڈالتے ہیں تواس کانتیجہ خطے میں بڑے پیمانے پرتشددکی صورت میں نکل سکتاہے۔حزب اللہ جیسے گروہ،جو پہلے ہی اسرائیل کے خلاف مزاحمت کاعزم رکھتے ہیں، مزید فعال ہوسکتے ہیں،جس سے اسرائیل کی شمالی سرحدپرکشیدگی میں اضافہ ہوگا۔ حزب اللہ کی سرگرمیوں اورایران-امریکاتعلقات کے درمیان گہرا تعلق ہے،جومشرقِ وسطی کی مستقبل کی سیاست پراثراندازہوگا۔حزب اللہ کی طاقت کو محدودکرنے کی اسرائیلی کوششوں اورامریکی پالیسیوں کے تحت غزہ پردباکے نتیجے میں خطہ مزیدعدم استحکام کاشکارہوسکتاہے۔عالمی برادری کی جانب سے ان پالیسیوں کی مخالفت ظاہرکرتی ہے کہ مشرقِ وسطی میں امن کیلئے یکطرفہ اقدامات کارگرثابت نہیں ہوں گے،بلکہ ایک جامع اور متوازن سفارتی حل ہی دیرپاامن کی بنیادرکھ سکتا ہے۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: حزب اللہ کی کے بارے میں حزب اللہ کے حزب اللہ کو ہے کہ ایران کی عسکری ممکن ہے ہے لیکن کے خلاف ہیں جس
پڑھیں:
قطر میں عالمی اجلاس، صدر زرداری پاکستان کی ترجیحات اور پالیسی فریم ورک پیش کریں گے
صدر مملکت آصف علی زرداری دوحہ میں منعقد ہونے والی دوسری عالمی سماجی ترقیاتی کانفرنس میں پاکستان کی نمائندگی کریں گے، یہ اجلاس اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے تحت منعقد ہورہا ہے، جس میں عالمی سطح پر سماجی تحفظ، روزگار کے مواقع اور پائیدار ترقی سے متعلق اقدامات کا جائزہ لیا جائے گا، اجلاس 4 تا 6 نومبر قطر کے دارالحکومت دوحہ میں ہوگا۔
یہ بھی پڑھیں: پاک چین دوستی نسل در نسل آگے بڑھے گی، صدر مملکت آصف زرداری کی شنگھائی میں اعلیٰ سطح ملاقاتیں
صدر آصف علی زرداری کانفرنس سے خطاب میں سماجی ترقی، روزگار کے فروغ اور جامع معاشی نمو کے لیے پاکستان کے عزم کو اجاگر کریں گے۔ وہ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے ذریعے غربت میں کمی اور کمزور طبقوں کے استحکام کے لیے کیے گئے اقدامات پر بھی روشنی ڈالیں گے۔
اجلاس میں صدرِ مملکت دوحہ الائنڈ سوشل پروٹیکشن اینڈ جابز کمپیکٹ (2026-28) کے آغاز کے حوالے سے پاکستان کی تیاری کا تذکرہ بھی کریں گے۔ اس منصوبے کا مقصد غیر رسمی ملازمین، معذور افراد اور بچوں کے لیے سماجی تحفظ کے دائرہ کار کو وسعت دینا اور ماحول دوست روزگار کے مواقع بڑھانا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: بے نظیر ہنرمند پروگرام قوم کے نوجوانوں کو بااختیار بنائے گا، صدر مملکت آصف زرداری
صدر آصف علی زرداری دوحہ پولیٹیکل ڈیکلریشن اور عالمی ترقیاتی وعدوں سے ہم آہنگ پاکستان کے ترجیحی منصوبوں کو بھی نمایاں کریں گے، جبکہ ترقیاتی شراکت داروں اور عالمی مالیاتی اداروں کے ساتھ قریبی تعاون کے عزم کا اعادہ کریں گے۔
صدرِ مملکت ایس ڈی جی اسٹیمولس، قرض برائے سماجی و ماحولیاتی تبدیلی اور چین کے گلوبل ڈیولپمنٹ انیشی ایٹو جیسے ذرائع سے مالی وسائل کے حصول کی اہمیت پر زور دیں گے۔ وہ اس بات کو بھی واضح کریں گے کہ پاکستان دوحہ سربراہی اجلاس کے نتائج کو عملی اقدامات میں تبدیل کرنے کے لیے پُرعزم ہے، تاکہ پائیدار اور جامع ترقی کے مقاصد حاصل کیے جا سکیں۔
دورۂ قطر کے دوران صدر آصف علی زرداری عالمی و علاقائی رہنماؤں، قطر کی قیادت اور اقوامِ متحدہ سمیت اہم بین الاقوامی تنظیموں کے سربراہان سے ملاقاتیں بھی کریں گے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
we news آصف علی زرداری اقوام متحدہ پاکستان جنرل اسمبلی دوحہ کانفرنس سماجی ترقی