ایران،حزب اللہ اورامریکی پالیسی
اشاعت کی تاریخ: 25th, February 2025 GMT
(گزشتہ سے پیوستہ)
تاہم حزب اللہ کے خلاف کارروائی خطرات سے بھرپور ہوگی۔حزب اللہ کی عسکری طاقت کی وجہ سے یہ گروہ تشددکی ڈھکی چھپی دھمکی استعمال کرتاتھاکہ اگرانہیں دیوارسے لگانے کی کوشش کی گئی تووہ بہت سخت جواب دیں گے‘‘۔ایک مغربی سفارت کارنے نام ظاہرنہ کرنے کی شرط پربتایاکہ’’ہم لبنان کی اپوزیشن اوردیگرممالک میں لوگوں کوبتارہے ہیں کہ حزب اللہ کودیوار سے لگانے کی کوشش کاالٹااثرہوسکتاہے اور تشدد کا خطرہ ممکن ہے‘‘۔تاہم لبنان میں ایک نیاباب لکھا جارہاہے جہاں کرپشن اورحکومتی مسائل سمیت تشددکی نہ ختم ہونے والی لہرسے لوگ تھک چکے ہیں۔
یہ مسائل کاایساانبارہے جس کی وجہ سے ریاست غیرفعال ہوچکی ہے۔پارلیمنٹ سے اپنے پہلے خطاب میں نئے صدرنے اصلاحات لانے کا وعدہ کیا جن کے بغیرملک کوبچانامشکل ہوگا۔ انہوں نے حکومتی اداروں کی تعمیر نو،معیشت کی بحالی اورفوج کوملک کی واحدمسلح طاقت بنانے کاوعدہ بھی کیا۔ انہوں نے حزب اللہ کانام تونہیں لیالیکن ان کااشارہ اسی کی جانب تھا۔پارلیمان میں تالیوں کی گونج کے بیچ حزب اللہ کے اراکین خاموش بیٹھے رہے۔
حزب اللہ کے مستقبل کاانحصارلبنان کے داخلی حالات،ایران کی پالیسی،اوراسرائیل کی عسکری حکمت عملی پرہوگا۔اگرلبنان میں اقتصادی بحران بڑھتاہے توحزب اللہ کی عوامی حمایت میں کمی آسکتی ہے لیکن اگراسرائیل دباؤبڑھاتاہے توتنظیم اپنی عسکری سرگرمیوں میں شدت لاسکتی ہے، جس سے خطے میں مزیدعدم استحکام پیدا ہوسکتا ہے لیکن حزب اللہ کی عسکری طاقت کے مستقبل کا فیصلہ شاید لبنان سے بہت دورایران کے دارالحکومت میں ہوگاجہاں سے دہائیوں تک اسلحے اورپیسے کی مددسے مزاحمت کے محورنامی علاقائی اتحادکی پرورش کی گئی اور اسرائیل کاآتشیں گھیراؤقائم کیا گیا۔ اس اتحاد کا ایک اہم کھلاڑی حزب اللہ ہے جس کے پاس ہزاروں تربیت یافتہ جنگجو اور میزائلوں کاانبار موجود ہے۔اس گروہ نے ایرانی جوہری تنصیبات پر اسرائیل کے ممکنہ حملے کے خلاف ایک طاقت کے طورپرکام کیاہے لیکن وہ طاقت اب بکھرچکی ہے اوراگرایران چاہے بھی تواس طاقت کو بحال کرنا آسان نہ ہوگا۔
شام میں بشارالاسدکی حکومت کے گر جانے کے بعد،جس کی ایک وجہ حزب اللہ کوپہنچنے والی چوٹ بھی تھی،تہران کاوہ زمینی رابطہ منقطع ہوچکا ہے جس سے حزب اللہ تک اسلحہ اورپیسہ پہنچایا جاتا تھا۔اسرائیل،جس نے حزب اللہ کے خلاف وسیع پیمانے پر خفیہ اطلاعات اکٹھی کی ہیں،کے مطابق وہ حزب اللہ کونشانہ بناتارہے گاتاکہ یہ دوبارہ پہلے جیسی طاقت حاصل نہ کرسکے۔تاہم بلین فورڈکے مطابق ’’حزب اللہ کے بارے میں بنیادی سوالوں کے جواب ایران ہی دے سکتا ہے۔ یہ ممکن ہے کہ ایران یاحزب اللہ کچھ مختلف سوچیں، غیر مسلح ہونے کے بارے میں اورصرف ایک سیاسی اورسماجی تحریک کی شکل میں برقرار رہیں۔لیکن یہ حزب اللہ کانہیں،ایران کافیصلہ ہوگا‘‘۔
حزب اللہ کے اندرونی معاملات سے واقفیت رکھنے والے ذرائع سے جب یہ سوال کیا گیا کہ کیا ایساممکن ہوسکتاہے توبتایاگیاکہ’’یہ ایک بڑے علاقائی حل کاحصہ ضرورہوسکتاہے۔ یہ بظاہر ایک اشارہ ہے کہ ایران اپنے جوہری پروگرام پرمغرب سے معاہدہ کرنے کاخواہش مند ہے۔ ذرائع کے مطابق ’’اسلحہ مکمل طورپر چھوڑنے اورریاست کے اندرضابطوںمیں رہتے ہوئے ان کے استعمال میں فرق ہے اورایسابھی ممکن ہے‘‘۔
خطے کے سیاسی تجزیہ نگاروں کامانناہے کہ ایران ممکنہ طورپرحزب اللہ کوایک ’’پریشر پوائنٹ‘‘ کے طورپراستعمال کررہاہے تاکہ امریکا اور مغرب کے ساتھ ایٹمی معاہدے میں بہترشرائط حاصل کرسکے۔ جب بھی ایران محسوس کرتاہے کہ اس پربین الاقوامی دباؤ بڑھ رہاہے یامعاہدے کی شرائط اس کے مفادات کے خلاف ہیں،تووہ حزب اللہ کے ذریعے اسرائیل پر دباؤ ڈالنے کیلئے استعمال کرتا ہے اس طرح،ایران حزب اللہ کو ایک غیررسمی سفارتی ہتھیارکے طورپراستعمال کرتارہاہے،جس سے خطے میں کشیدگی بڑھاکر مغرب کومذاکرات کی میزپرلانے کی کوششوں میں کامیاب رہالیکن اب سوال یہ ہے کہ خطے میں جنگ بندی کے بعدکیا ایران جواب زمینی رابطے سے بھی محروم ہوچکا ہے، کیاحزب اللہ کوایک مؤثر ہتھیار کے طورپراستعمال کرنے کی استطاعت رکھتا ہے جبکہ لبنان میں بھی کئی اہم تبدیلیوں رونماہوچکی ہیں۔
اگرچہ ٹرمپ نے اپنامنصب سنبھالتے ہی اپنے جارحانہ بیانات سے امریکاکے نئے چہرے سے متعارف کروایاہے اورایران کے بارے میں بیانات کی تلخی سے معلوم ہوتاہے کہ امریکا کبھی بھی اپنی دھمکیوں کوعملی جامہ پہنانے کیلئے’’آئندہ امریکا کوئی نئی جنگ شروع نہیں کرے گااورجاری جنگوں سے امریکاکوباہرنکالے گا‘‘ جیسے اپنے تمام انتخابی وعدوں سے یکسرمنحرف ہوکراپنے مقاصد کیلئے نئی جنگوں کاآغازکرسکتاہے لیکن ٹرمپ کے سابقہ کردارسے یہ بھی عیاں ہے کہ ٹرمپ نے دھمکیوں کی آڑمیں افغانستان میں مقاصدکے حصول کیلئے پہلے بھی یہ کرداراداکیالیکن بعدازاں اس کا رسوا کن انجام بھی دنیانے دیکھالیکن لگتایہ ہے کہ یہاں معاملات کوایک اوراندازمیں استعمال کیاجاسکتاہے کہ خطے میں دیگر امیرعرب ریاستوں پردباجاری رکھنے کیلئے خطے میں ایران کے خطرے کے نام پراپنے مقاصدکے حصول کی تکمیل کی جاسکے اوریہ بھی عین ممکن ہے کہ ایران کوحزب اللہ کی عسکری امداد سے الگ کرکے مجوزہ ایرانی ایٹمی پروگرام پرکوئی ایسا معاہدہ کرلیا جائے۔ تاہم، موجودہ حالات میں ایران کیلئے حزب اللہ ایک طویل مدتی حکمتِ عملی کاحصہ ہے،جسے وہ خطے میں اپنی موجودگی اوراثرورسوخ برقراررکھنے کیلئے استعمال کرتارہے گا۔
لیکن دوسری طرف لبنان کے نئے رہنمائوں پرجلدازجلدکچھ کرنے کادباؤبڑھ رہا ہے۔ بیرونی اتحادی مشرق وسطی میں طاقت کی نئی بساط کوایک موقع کے طورپردیکھ رہے ہیں جس میں ایران کومزیدکمزورکیاجاسکتاہے جبکہ لبنان میں استحکام کیلئے لوگ پریشان ہیں۔لوگ اب اس بات کو پسندنہیں کرتے جب یہ کہاجاتاہے کہ تباہی کے باوجودانہوں نے زندگی کورواں دواں رکھا ہواہے۔ حزب اللہ کی پسپائی کے بعدبیروت کے مسیحی علاقے میں بسنے والے رہائشی بھی اس خواہش کا اظہارکررہے ہیں’’ہم ایک ایسے عام سے ملک میں رہنا چاہتے ہیں جہاں جنگ کا دور دورتک نام ونشان نہ ہو،ہم کئی دہائیوں سے جنگ کی ہولناکیوں سے نجات چاہتے ہیں‘‘۔شایداتنی مشکل دیکھنے کے بعدحزب اللہ کے حامی بھی اب یہ سوال اٹھائیں کہ اس گروہ کامستقبل میں کیا کردار ہونا چاہیے۔حزب اللہ شایدجنگ سے پہلے والی تنظیم کبھی نہ بن پائے ۔ اسے غیرمسلح کرنااب ماضی کی طرح ایک ایسامعاملہ نہیں جس کے بارے میں سوچنابھی محال ہواکرتاتھا۔
ادھردوسری طرف ٹرمپ کی پالیسیز ہمیشہ اسرائیل نوازرہی ہیں،جس کاواضح مظاہرہ ’’صدی کی ڈیل ‘‘میں دیکھاگیا۔ٹرمپ اب پھر قصر سفیدمیں فرعونی طاقت کے نشہ میں براجمان ہوکر ہر روز اپنے بیانات سے دنیابھرمیں تہلکہ پیدا کر رہے ہیں،ان کی پالیسیوں کااثراب ایک مرتبہ پھر امریکی خارجہ پالیسی میں محسوس کیا جاسکتا ہے۔ غزہ پرتسلط کاکوئی بھی منصوبہ فلسطینی عوام اور حماس کی سخت مزاحمت کاسامناکرے گا۔
ٹرمپ کے منصوبے کوخطے کے بیشتر ممالک، حتی کہ امریکاکے روایتی اتحادیوں جیسے اردن اور مصرنے بھی مستردکیاہے۔اقوامِ متحدہ اور یورپی یونین نے بھی فلسطینی عوام کے حقوق کی حمایت کی ہے۔عرب دنیامیں عوامی سطح پرفلسطینی کاز کیلئے ہمدردی موجودہے،جوکسی بھی امریکی یا اسرائیلی جارحیت کے خلاف ردعمل کاسبب بن سکتی ہے۔اگرامریکااوراسرائیل غزہ پرمزیددباؤ ڈالتے ہیں تواس کانتیجہ خطے میں بڑے پیمانے پرتشددکی صورت میں نکل سکتاہے۔حزب اللہ جیسے گروہ،جو پہلے ہی اسرائیل کے خلاف مزاحمت کاعزم رکھتے ہیں، مزید فعال ہوسکتے ہیں،جس سے اسرائیل کی شمالی سرحدپرکشیدگی میں اضافہ ہوگا۔ حزب اللہ کی سرگرمیوں اورایران-امریکاتعلقات کے درمیان گہرا تعلق ہے،جومشرقِ وسطی کی مستقبل کی سیاست پراثراندازہوگا۔حزب اللہ کی طاقت کو محدودکرنے کی اسرائیلی کوششوں اورامریکی پالیسیوں کے تحت غزہ پردباکے نتیجے میں خطہ مزیدعدم استحکام کاشکارہوسکتاہے۔عالمی برادری کی جانب سے ان پالیسیوں کی مخالفت ظاہرکرتی ہے کہ مشرقِ وسطی میں امن کیلئے یکطرفہ اقدامات کارگرثابت نہیں ہوں گے،بلکہ ایک جامع اور متوازن سفارتی حل ہی دیرپاامن کی بنیادرکھ سکتا ہے۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: حزب اللہ کی کے بارے میں حزب اللہ کے حزب اللہ کو ہے کہ ایران کی عسکری ممکن ہے ہے لیکن کے خلاف ہیں جس
پڑھیں:
مظلوم مسلمانوں کے دفاع کی اجتماعی ذمہ داری
ڈاکٹر محمد حمید اللہ دور جدید میں اسلامی قانون کے تصور جہاد پر کام کرنے والے اولین لوگوں میں شمار ہوتے ہیں۔ اپنی شہرۂ آفاق کتاب The Muslim Conduct of State میں وہ ’جائز جنگوں‘ کی 5 قسمیں ذکر کرتے ہیں:
پہلے سے جاری جنگ کا تسلسل؛
دفاعی جنگیں؛
ہمدردانہ جنگیں؛
سزا کے طور پر لڑی جانے والی جنگیں؛ اور
نظریے کے لیے لڑی جانے والی جنگیں۔
ڈاکٹر حمید اللہ کے مطابق رسول اللہ ﷺ کی اکثر جنگیں پہلی قسم میں آتی ہیں کیونکہ جب ایک دفعہ مسلمانوں اور مشرکین مکہ کے درمیان جنگ شروع ہوئی تو پھر صلح حدیبیہ تک ان کے درمیان کوئی امن کا معاہدہ نہیں ہوا تھا۔ ڈاکٹر حمید اللہ کے مطابق دفاعی جنگیں ہیں اس صورت میں لڑی جاتی ہیں جب یا تو دشمن نے مسلمانوں کے علاقے پر باقاعدہ حملہ کیا ہو یا اس نے ابھی حملہ تو نہ کیا ہو لیکن اس کا رویہ ’ناقابل برداشت‘ ہوچکا ہو۔ گویا ڈاکٹر حمید اللہ کے مطابق ’پیش بندی کا اقدام‘ (Pre-emptive Strike) دفاع میں شامل ہے اور غزوۂ بنی مصطلق، غزوۂ خیبر اور غزوۂ حنین کو اس کی مثال میں ذکر کرتے ہیں۔ اکثر مسلمان اہل علم کے نزدیک رسول اللہ ﷺ اور مسلمانوں پر جنگ مشرکین کی طرف سے مسلط کی گئی تھی، اس لیے وہ رسول اللہ ﷺ کی اکثر جنگوں کو دفاعی قرار دیتے ہیں۔ بہ الفاظ دیگر ، ڈاکٹر حمید اللہ کی ذکر کردہ پہلی 2 قسمیں اکثر اہل علم کے نزدیک ایک ہی قسم یعنی ’دفاع‘ ہے ۔
ریاست کا دفاع یا امت کا دفاع؟
ہمدردانہ جنگوں سے ڈاکٹر حمید اللہ کی مراد وہ جنگیں ہیں جو مسلمانوں کے علاقے سے باہر مقیم مظلوم مسلمانوں کی مدد کے لیے لڑی جاتی ہیں۔ بہت سے اہل علم نے ان جنگوں کو بھی دفاع میں شامل سمجھا ہے۔ مثال کے طور پر شام سے تعلق رکھنے والے ممتاز عالم ڈاکٹر وہبہ الزحیلی نے ’آثار الحرب فی الفقہ الاسلامی‘ میں یہ موقف اختیار کیا ہے۔ مولانا سید ابو الاعلی مودودی نے بھی اپنی مشہور کتاب ’الجہاد فی الاسلام‘ میں ایسی جنگ کو ’مدافعانہ جہاد‘ کی ایک قسم کے طور پر ذکر کیا ہے۔ دفاع کے تصور پر اس اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ دفاع سے ڈاکٹر حمید اللہ کی مراد ’ریاست کا دفاع‘ ہے، جبکہ دیگر اہلِ علم کی مراد ’امت کا دفاع‘ ہے۔ معاصر دنیا میں مسلمان اصحابِ علم کے لیے سب سے بڑی الجھن یہی ہے کہ ریاست اور امت کے تصورات کو ایک دوسرے کے ساتھ کیسے ہم آہنگ کیا جائے؟
فقہائے کرام نے صراحت کی ہے کہ حملے کی زد میں آئے ہوئے علاقے کے لوگ اگر حملے کے خلاف دفاع نہ کرسکتے ہوں تو ان کے مجاور علاقوں پر یہ فریضہ عائد ہوگا۔ پھر اگر وہ بھی دفاع کی اہلیت نہ رکھتے ہوں یا وہ فریضے کی ادائیگی میں کوتاہی کریں تو ان کے بعد کے علاقوں پر فریضہ عائد ہوگا، یہاں تک کہ یہ فریضہ دنیا کے تمام مسلمانوں پر عائد ہوجائے گا۔ تاہم معاصر بین الاقوامی نظام چونکہ ’قومی ریاست‘ کے تصور پر قائم ہے، اس لیے امت کا تصور اس نظام کی بنیاد سے ہی متصادم ہے۔ آج جب امت 50 سے زائد ریاستوں میں بٹ گئی ہے، تو مظلوم مسلمانوں کے دفاع کا دینی فریضہ کیسے ادا کیا جائے؟
مظلوم کی مدد کےلیے جنگ
مظلوم کی مدد کے لیے کون سے طریقے اختیار کیے جائیں، اس کا انحصار حالات پر ہے۔ بعض اوقات محض اخلاقی مدد (مثلاً حملے کو ناجائز قرار دینا، حملے کی زد میں آئے ہوئے لوگوں کو مظلوم قرار دینا، دفاع کا فریضہ ادا کرنے والوں کو خراج تحسین پیش کرنا وغیرہ) بھی کافی ہوتا ہے؛ اور بعض اوقات اس کے ساتھ ساتھ سیاسی اور سفارتی مدد (جیسے بین الاقوامی رائے عامہ ہموار کرنے کی کوشش کرنا، حملہ آوروں پر سیاسی دباؤ ڈالنا، اسے بین الاقوامی برادری میں تنہا کرنا وغیرہ ) بھی ضروری ہوتا ہے اور اس کے بغیر محض اخلاقی مدد سے کام نہیں چلتا۔ تاہم بعض حالات میں سفارتی اور سیاسی مدد بھی کافی نہیں ہوتی، بلکہ عملی مدد (جیسے مظلوموں تک ادویات کی رسائی، مہاجرین کی آباد کاری کے لیے کوشش کرنا، مزاحمت کرنے والوں کی مالی امداد، انھیں پناہ گاہیں فراہم کرنا وغیرہ) بھی لازم ہوجاتی ہے؛ اور بعض صورتوں میں باقاعدہ جنگ میں شرکت بھی ضروری ہوجاتی ہے۔ مختصراً یہ کہ مدد کی حیثیت فرض کفایہ کی ہو جاتی ہے اور مدد کی مختلف صورتوں کو ضرورت کے مطابق اختیار کیاجائے گا۔
رہنما اصول اس سلسلے میں یہ ہے کہ کسی طور ظالموں کو واپس دھکیلنا اور مظلوموں کو بچانا ہے اور اس کے لیے جو اقدام ضروری ہو، وہ اٹھایاجائے گا۔ اگر حملے کا جواب بغیر فوجی مدد کے ممکن نہ ہو، تو محض اخلاقی یا سفارتی بلکہ مالی مدد سے بھی اعانت کا فرض ادا نہیں ہوگا۔ قرآن کے الفاظ اس معاملے میں بالکل واضح ہیں کہ مظلوموں کی مدد کے لیے فوجی طاقت استعمال کرنا بعض اوقات واجب ہوجاتا ہے اور یہ واجب صرف فوجی اعانت سے ہی ادا ہوتا ہے:
وَمَا لَكُمۡ لَا تُقَٰتِلُونَ فِي سَبِيلِ ٱللَّهِ وَٱلۡمُسۡتَضۡعَفِينَ مِنَ ٱلرِّجَالِ وَٱلنِّسَآءِ وَٱلۡوِلۡدَٰنِ ٱلَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَآ أَخۡرِجۡنَا مِنۡ هَٰذِهِ ٱلۡقَرۡيَةِ ٱلظَّالِمِ أَهۡلُهَا وَٱجۡعَل لَّنَا مِن لَّدُنكَ وَلِيّٗا وَٱجۡعَل لَّنَا مِن لَّدُنكَ نَصِيرًا (سورۃ النساء ، آیت75)
(تمھیں ہوا کیا ہے کہ تم اللہ کی راہ میں ان بے بس مردوں، عورتوں اور بچوں کی خاطر نہیں لڑرہے جو کمزور پاکر دبالیے گئے ہیں اور فریاد کررہے ہیں کہ اے ہمارے رب! ہمیں اس بستی سے نکال جس کے باشندے ظالم ہیں اور اپنی جانب سے ہمارا کوئی حامی اور مددگار پیدا کردے۔)
’انسانی ہمدردی کی بنیاد پر مداخلت‘
بعض ریاستوں اور ماہرین کی رائے یہ ہے کہ اگر کسی ریاست میں انسانوں کے ایک بڑے گروہ کا قتل عام ہورہا ہو، یا ان پر مظالم ڈھائے جارہے ہوں، تو ان کی مدد کے لیے کوئی دوسری ریاست مسلح کاروائی کرسکتی ہے۔ اسے ’انسانی ہمدردی کی بنیاد پر مداخلت‘ کا نام دیا جاتا ہے ۔ مثال کے طو رپر 1998ء میں نیٹو نے سربیا پر جو بمباری کی اس کے لیے ایک جواز یہی ذکر کیا جاتا رہا۔ تاہم اکثر ریاستوں اور ماہرین کی رائے یہ ہے کہ اس قسم کی کاروائی اگر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کرے، یا اس کی اجازت سے کوئی ریاست یا تنظیم کرے، تو وہ یقیناً جائز ہوگی مگر کوئی ریاست یا تنظیم اپنی جانب سے اس قسم کی کارروائی نہیں کرسکتی۔ یہی وجہ ہے کہ کسی ریاست نے بھی اس قسم کی کاروائی میں تنہا ’انسانی ہمدردی‘ کو ہی بنیاد نہیں بنایا، بلکہ دیگر جواز بھی ساتھ ساتھ فراہم کرنے کی کوشش کی، جیسے نیٹو کے رکن ممالک نے ایک جواز یہ پیش کیا تھا (جو قانوناً غلط تھا) کہ وہ اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں پر عمل درآمد یقینی بنانے کے لیے یہ کارروائی کررہے ہیں)۔
مسلمان ریاستوں کے درمیان اجتماعی دفاعی معاہدہ
ایک حل اس مسئلے کا یہ ہے کہ مسلمان ریاستیں آپس میں دفاعی معاہدات کرلیں اور یوں ان میں کسی ایک پر حملہ سب پر حملہ متصور ہو۔ اقوام متحدہ کے منشور کی دفعہ 51 کے تحت اس انتظام کی گنجائش ہے اور ’معاہدۂ شمالی اوقیانوس کی تنظیم‘ (NATO) اس انتظام کی کامیابی کی سب سے واضح دلیل ہے۔ بین الاقوامی عدالت انصاف نے بھی ’نکاراگوا بنام امریکا‘ مقدمے کے فیصلے میں اس طریق کار کو جائز ٹھہرایا ہے۔ اس اجتماعی حق دفاع کے متعلق ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ اس میں قرب و بعد کی بات کو نظر انداز کردیا گیا ہے۔ کوئی سے دو یا زائد ممالک، جو مشترکہ مفاد رکھتے ہوں، آپس میں دفاعی معاہدہ کرکے اجتماعی حق دفاع سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ امریکا اور اس کے اتحادیوں کے درمیان بحر شمالی اوقیانوس حائل ہے لیکن اس کے باوجود وہ اس طریق کار سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔
امت مسلمہ کے اجتماعی حق دفاع کے متعلق یہ بات اہم ہے کہ اس کی بنیاد کسی دفاعی معاہدے پر نہیں، بلکہ امت کے تصور پر ہے اور یہ امت پر اللہ اور اس کے رسول کی جانب سے عائد کردہ فریضہ ہے۔ اس لیے اگر دو اسلامی ممالک میں دفاعی معاہدہ نہ بھی ہو، تو ان پر لازم ہوگا کہ وہ ایک دوسرے کی مدد کریں۔ تاہم موجودہ بین الاقوامی نظام اور قانون کو مدنظر رکھتے ہوئے اگر مسلمان ممالک آپس میں دفاعی معاہدات بھی کرلیں، تو وہ بہت سی پیچیدگیوں سے بچیں گے۔
تاہم ’اجتماعی حق دفاع‘ کے طریق کار کا فائدہ صرف ’ریاستیں‘ ہی اٹھاسکتی ہیں، جبکہ امت مسلمہ صرف مسلم ریاستوں تک ہی محدود نہیں، بلکہ کئی ریاستوں میں مسلمان بطور اقلیت رہ رہے ہیں۔ نیز بعض علاقے ایسے ہیں جن پر طویل مدت سے کسی دوسری ریاست نے غیر قانونی قبضہ کیا ہوا ہے۔ غزہ اور دیگر مقبوضہ فلسطینی علاقے اس کی مثال ہیں۔ ان علاقوں میں آج جب مسلمان ظلم کا شکار ہیں، تو ان کے دفاع کا فریضہ کیسے انجام دیا جائے؟ کیا ’اسلامی تعاون کی تنظیم‘ کے رکن 57 مسلمان ممالک صرف فلسطین کے دفاع کے لیے ایسا معاہدہ نہیں کرسکتے؟ واضح رہے کہ یہ تنظیم وجود میں ہی تب آئی تھی جب القدس پر اسرائیل کے قبضے کے بعد مسجد اقصیٰ کو جلانے کی مذموم کوشش کی گئی اور اس تنظیم کے منشور میں صراحت کے ساتھ کہا گیا ہے کہ اس تنظیم کا ہیڈکوراٹر عارضی طور پر جدہ میں ہوگا اور القدس کی آزادی کے بعد وہیں اس کا ہیڈ کوارٹر ہوگا۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد شفاء تعمیرِ ملت یونیورسٹی اسلام آباد میں پروفیسر اور سربراہ شعبۂ شریعہ و قانون ہیں۔ اس سے پہلے آپ چیف جسٹس آف پاکستان کے سیکرٹری اور شریعہ اکیڈمی، بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد، کے ڈائریکٹر جنرل کے طور پر فرائض سرانجام دے چکے ہیں۔ آپ سول جج/جوڈیشل مجسٹریٹ کی ذمہ داریاں بھی انجام دے چکے ہیں۔ آپ اصولِ قانون، اصولِ فقہ، فوجداری قانون، عائلی قانون اور بین الاقوامی قانونِ جنگ کے علاوہ قرآنیات اور تقابلِ ادیان پر کئی کتابیں اور تحقیقی مقالات تصنیف کرچکے ہیں۔