پاکستان، ازبکستان کے درمیان مفاہمتی یادداشتوں اور معاہدوں کی فہرست سامنے آگئی
اشاعت کی تاریخ: 27th, February 2025 GMT
اسلام آباد:
پاکستان اور ازبکستان کے مابین مختلف شعبوں میں تعاون کے فروغ کے لیے دستخط شدہ مفاہمتی یادداشتوں اور معاہدوں کی فہرست سامنے آگئی۔
وزیراعظم شہباز شریف اور ازبک صدر شوکت مرزیایوف نے آئندہ چار برس میں پاکستان اور ازبکستان کے مابین تجارت کے حجم کو 4 ارب ڈالر پر پہنچانے پر اتفاق کیا ہے۔
1) ازبکستان کی وزارت داخلی امور اور پاکستان کی وزارت داخلہ کے مابین تعاون کی مفاہمتی یادداشت پر دستخط کیے گئے۔
2) پاکستان اور ازبکستان کی وزارت دفاع کے مابین عسکری انٹیلیجنس کے شعبے میں تعاون کا معاہدہ کیا گیا۔
3) پاکستان اور ازبکستان کے مابین سائنٹیفک تکنیکی اور جدید شعبوں میں تعاون کا معاہدہ کیا گیا۔
4) خبروں کے شعبے کے حوالے سے ایسوسی ایٹڈ پریس آف پاکستان (APP) اور ازبکستان اطلاعات ایجنسی (UZA) کے مابین تعاون کا معاہدہ کیا گیا۔
5) پاکستان کی فارن سروس اکیڈمی (FSA) اور ازبک ڈپلومیٹک اکیڈمی کے مابین مفاہمتی یادداشت پر دستخط کیے گئے۔
مزید پڑھیں؛ پاکستان ازبکستان کا تجارت 4ارب ڈالر تک لانے کا فیصلہ، ایم او یوز اور معاہدوں پر دستخط
6) پاکستان اور ازبکستان کے مابین سفارتی پاسپورٹ پر ویزے کے استثناء کا معاہدہ کیا گیا۔
7) ازبکستان کی وزارتِ روزگار اور تخفیف غربت اور پاکستان کے نیشنل ووکیشنل اینڈ ٹیکنیکل ٹرینینگ کمیشن کے مابین مفاہمتی یادداشت پر دستخط کیے گئے۔
8) میٹروپولیٹن کارپوریشن لاہور اور تاشقند کی حاکمیت (Khokimiyat) (شہری ترقی) کے مابین مفاہمتی یادداشت پر دستخط ہوئے۔
9) لاہور اور بخارا کے مابین بطور جڑواں شہر تعلقات پر مفاہمتی یادداشت پر دستخط کیے گئے۔
10) وزیرِ اعظم یوتھ پروگرام پاکستان اور ازبکستان کی حکومت کے مابین امور نوجوانان پر مفاہمتی یادداشت پر دستخط کیے گئے۔
دونوں رہنماؤں نے تجارتی حجم کو 4 ارب ڈالر پر پہنچانے، ٹرانزٹ ٹریڈ ایگریمنٹ (2021)، ترجیحی تجارتی معاہدے (2023) پر مؤثر عملدرآمد، دونوں ممالک کے خصوصی اقتصادی زونز میں سرمایہ کاری اور پاکستان و ازبکستان کی کاروباری برادری کے مابین تعاون کے فروغ پر اتفاق کیا۔
Tagsپاکستان.
ذریعہ: Al Qamar Online
کلیدی لفظ: پاکستان پاکستان اور ازبکستان کے مابین کا معاہدہ کیا گیا ازبکستان کی کی وزارت
پڑھیں:
قدرت سے جڑے ہوئے ممالک میں نیپال نمبر ون، پاکستان فہرست سے خارج
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
برطانوی اخبار دی گارڈین نے ایک نئی عالمی تحقیق کے حوالے سے انکشاف کیا ہے کہ دنیا کے وہ ممالک جو فطرت اور قدرت سے سب سے زیادہ قریبی تعلق رکھتے ہیں، ان میں نیپال سرفہرست ہے جب کہ پاکستان اس فہرست میں شامل نہیں۔
یہ تحقیق بین الاقوامی جریدے ایمبیو (AMBIO) میں شائع ہوئی ہے، جس کی تیاری میں برطانیہ اور آسٹریا کے ماہرین نے حصہ لیا ہے۔ اس تحقیق نے دنیا بھر میں انسانی رویوں اور فطرت کے درمیان تعلق کے بارے میں دلچسپ پہلو اجاگر کیے ہیں۔
تحقیق کرنے والی ٹیم میں برطانیہ کی یونیورسٹی آف ڈربی کے معروف ماہر پروفیسر مائلز رچرڈسن شامل تھے، جو قدرت سے وابستگی پر اپنے کام کی وجہ سے شہرت رکھتے ہیں۔ ان کے مطابق یہ تحقیق اس بات کو سمجھنے کے لیے کی گئی کہ مختلف سماجی، معاشی، ثقافتی اور جغرافیائی پس منظر رکھنے والے لوگ قدرت کے ساتھ کس قدر گہرا ربط محسوس کرتے ہیں اور اس احساس پر روحانیت، مذہب اور طرزِ زندگی کا کتنا اثر ہوتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق سروے میں دنیا کے 61 ممالک کے 57 ہزار افراد سے رائے لی گئی۔ نتائج نے حیران کن طور پر یہ ظاہر کیا کہ فطرت سے وابستگی کا سب سے گہرا تعلق مذہبی عقائد اور روحانیت سے ہے، یعنی وہ لوگ جو مذہب یا روحانی نظامِ فکر کے قریب ہیں، وہ قدرت کے ساتھ زیادہ ہم آہنگ زندگی گزارتے ہیں۔
فہرست کے مطابق نیپال کو دنیا کا سب سے زیادہ قدرت سے جڑا ہوا ملک قرار دیا گیا۔ نیپال کے بعد دوسرے نمبر پر ایران ہے، جب کہ جنوبی افریقا، بنگلادیش اور نائیجیریا بالترتیب تیسرے، چوتھے اور پانچویں نمبر پر آئے۔
جنوبی امریکا کا ملک چلی چھٹے نمبر پر رہا۔ سرفہرست 10 ممالک میں یورپ کے صرف 2 ملک شامل ہیں ، کروشیا ساتویں اور بلغاریہ نویں نمبر پر ہے۔ اسی طرح آٹھویں نمبر پر افریقی ملک گھانا اور دسویں پر شمالی افریقا کا ملک تیونس ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ مغربی ممالک جنہیں عام طور پر ماحولیاتی آگہی میں نمایاں سمجھا جاتا ہے، وہ قدرت سے وابستگی کے لحاظ سے نچلے درجے پر ہیں۔ فرانس فہرست میں 19ویں نمبر پر ہے، جب کہ برطانیہ 55ویں نمبر پر پایا گیا۔
اسی طرح نیدرلینڈز، کینیڈا، جرمنی، اسرائیل اور جاپان جیسے ترقی یافتہ ممالک بھی آخری نمبروں میں شامل ہیں۔ رپورٹ کے مطابق 61 ممالک کی فہرست میں اسپین سب سے آخری یعنی 61ویں نمبر پر ہے۔
تحقیق میں ایک اور دلچسپ نکتہ یہ سامنے آیا کہ کاروبار میں آسانی یا معاشی سرگرمیوں کے فروغ سے قدرت سے وابستگی میں کمی آتی ہے۔ یعنی جہاں معاشی نظام زیادہ مضبوط اور مارکیٹ زیادہ متحرک ہوتی ہے، وہاں انسان فطرت سے نسبتاً دور ہوتا جاتا ہے۔
پروفیسر مائلز رچرڈسن کے مطابق صنعتی ترقی اور شہری مصروفیات نے جدید انسان کو قدرتی ماحول سے جدا کر دیا ہے، جس سے اس کے ذہنی سکون، تخلیقی صلاحیت اور مجموعی صحت پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ مذہبی یا روحانی رجحان رکھنے والے معاشروں میں لوگ فطرت کو ایک مقدس امانت سمجھتے ہیں، جب کہ مادی معاشروں میں اسے صرف وسائل کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ یہی فرق ان معاشروں میں قدرت سے تعلق کے معیار کو متعین کرتا ہے۔
ماہرین کے مطابق یہ تحقیق عالمی پالیسی سازوں کے لیے ایک انتباہ ہے کہ ترقی کی دوڑ میں فطرت سے رشتہ کمزور ہونا انسانی بقا کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ نیپال، ایران اور افریقا کے کچھ ممالک کی مثالیں ظاہر کرتی ہیں کہ سادگی، روحانیت اور قدرت سے قرب نہ صرف ثقافتی طور پر اہم ہیں بلکہ پائیدار طرزِ زندگی کے لیے بھی ناگزیر ہیں۔