Daily Ausaf:
2025-07-26@11:38:57 GMT

آئی ایم ایف اورپاکستان کی سیاست،ایک پیچیدہ تعلق

اشاعت کی تاریخ: 27th, February 2025 GMT

(گزشتہ سے پیوستہ)
حفیظ شیخ کے مطابق اس وفدکامینڈیٹ محض اتناہے کہ اس نے بدعنوانی سے متعلق ایک مخصوص رپورٹ مرتب کرنی ہے جبکہ 7ارب ڈالرکے پروگرام کاجائزہ لینے کے لئے آئی ایم ایف کا وفد اگلے دوسے تین ہفتوں میں پاکستان کادورہ کرے گا جس کی بنیاد پر پھر یہ فیصلہ ہوناہے کہ اسلام آباد کو قرض کی اگلی قسط جاری کی جانی چاہیے یانہیں۔تاہم آئی ایم ایف سے ہوئے معاہدے کے تحت پاکستان عدالتی اصلاحات کرنے کاپابندہے اورپھر آئی ایم ایف کے جائزے سے مشروط اس پروگرام کوآگے بڑھانے کا پابند ہے۔ آئی ایم ایف کا یہ وفدایک ہفتے کے لئے پاکستان کے دورے پررہے گااور6شعبوں کی کڑی نگرانی کرے گا کہ کیسے یہ بدعنوانی کے خاتمے کے لئے کام کررہے ہیں۔ حکام کے مطابق یہ وفد مالیاتی گورننس ، سینٹرل بینک گورننس اینڈ آپریشنز، مالیاتی شعبے پرنظر رکھے گا، مارکیٹ ریگولیشن کاجائزہ لے گا اورپاکستان میں قانون کی حکمرانی اوراینٹی منی لانڈرنگ جیسے اقدامات کا جائزہ لے گا ۔ اس وفدنے عدلیہ،سٹیٹ بینک، الیکشن کمیشن،فنانس، ریونیواورایس ای سی پی سمیت دیگرشعبوں کے حکام سے ملاقاتیں کرنی ہیں۔
گذشتہ برس پاکستان اورآئی ایم ایف کے درمیان7ارب ڈالرقرض کے حصول کے لئے طے پانے والے معاہدے سے قبل پاکستان نے بین الاقوامی مالیاتی فنڈکی جانب سے عائد کردہ شرائط کوپوراکرنے کی کوشش کی تھی جس کے تحت رواں مالی سال میں ٹیکس آمدن بڑھانے،مختلف شعبوں پرٹیکس کی شرح بڑھانے اورنئے شعبوں کوٹیکس نیٹ میں لانے جیسے اقدامات شامل تھے۔اینٹی کرپشن فریم ورک کوموثربنانے کے لئے حکومت2025ء تک سول سروس ایکٹ میں ترمیم کرے گی تاکہ اعلی سطح کے عوامی عہدیداروں کے اثاثوں کی ڈیجیٹل فائلنگ اوران کی عوامی رسائی کویقینی بنایا جا سکے اورایف بی آرکے ذریعے اثاثوں کی جانچ کے لئے ایک مستحکم فریم ورک تیارکیاجائے گا۔
عدالتی اورریگولیٹری نظام کاجائزہ آئی ایم ایف کے قرض پروگرام کاحصہ ہے اورپاکستان نے اس معاہدے پردستخط کررکھے ہیں۔ پاکستان نے فنڈ کویہ یقین دلارکھاہے کہ وہ انسداد بدعنوانی کے لئے اپنے اداروں کی صلاحیت میں اضافہ کرے گااوروہ آگے بڑھنے کے لئے سب کوغیرامتیازی کاروباری اورسرمایہ کاری کے مواقع فراہم کرے گا۔
معاشی غلامی کاتصوراس وقت سامنے آتاہے جب کوئی ملک قرضوں کے بوجھ تلے دب کراپنی آزادانہ پالیسی سازی کی صلاحیت کھوبیٹھتاہے۔ تاریخ میں کئی مثالیں موجودہیں جہاں معاشی برتری نے ممالک کی خودمختاری کومحدودکردیا۔مثال کے طورپر19ویں صدی میں مصرنے برطانوی قرضوں کی ادائیگی نہ کرسکنے پراپنی خودمختاری کھودی،جس کے نتیجے میں برطانیہ نے مصرپر قبضہ کرلیا۔اسی طرح جدیددورمیں ’’ڈیبٹ ٹریپ ڈپلومیسی‘‘ کی اصطلاح اکثرچین کے بیلٹ اینڈروڈ منصوبے کے حوالے سے استعمال کی جاتی ہے۔
پاکستان کی موجودہ حکومت نے گزشتہ چند سالوں میں سخت معاشی اصلاحات اورآئی ایم ایف کے ساتھ کئی بارمعاہدے کرکے ملک کودیوالیہ ہونے سے بچانے کی کوشش کی ہے ۔ ٹیکس اصلاحات،اخراجات میں کٹوتی،اورزرِمبادلہ کے ذخائرمیں اضافہ کرنے جیسے اقدامات کیے گئے ہیں۔تاہم،یہ تمام کوششیں وقتی طورپرتوکارگرثابت ہوئیں لیکن ملک کی معیشت اب بھی غیرمستحکم ہے اورقرضوں کابوجھ بڑھتاجارہاہے۔
اگرپاکستان دیوالیہ ہوتاہے توعالمی مالیاتی ادارے ،خاص طورپرآئی ایم ایف،قرضوں کی واپسی کے لئے مختلف اقدامات کرسکتے ہیں۔ ان میں ملک کے غیرملکی اثاثوں کوضبط کرنا،بین الاقوامی مالیاتی امداد یا تجارت پرپابندیاں لگانا،اوربین الاقوامی عدالتوں میں قانونی چارہ جوئی شامل ہوسکتی ہے۔بعض اوقات،ملک کے اندرونی اثاثے،جیسے سرکاری ادارے یا قدرتی وسائل،بھی گروی رکھوائے جاسکتے ہیں یاان پربین الاقوامی کنٹرول عائدکیاجاسکتا ہے۔ پاکستان نے ماضی میں کئی قیمتی اثاثے مختلف مالیاتی معاہدوں کے تحت گروی رکھوائے ہیں۔ان میں گوادرپورٹ، موٹرویز اور قومی ایئرلائن کے مخصوص حصص شامل ہیں۔اس کے علاوہ، کچھ قدرتی وسائل اورپاورپلانٹس بھی گروی رکھے گئے ہیں یاان پر غیر ملکی سرمایہ کاروں کااثرورسوخ بڑھ گیاہے۔یہ اقدامات وقتی مالی امدادکے لئے کئے گئے تھے لیکن ان کا طویل المدتی اثرملکی خودمختاری پر پڑ سکتا ہے ۔
آئی ایم ایف وفدکی چیف جسٹس سے ملاقات کئی پہلوئوں سے اہم ہے،مگریہ کہناکہ یہ براہِ راست مداخلت ہے یاپاکستان کی خود مختاری پرحملہ ہے،شایدقبل ازوقت ہو گا۔ پاکستان کو اپنی معاشی پالیسیاں مستحکم کرکے قرضوں پر انحصارکم کرنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ عالمی مالیاتی اداروں کے اثرسے بچ سکے۔تاریخ ہمیں یہی سبق دیتی ہے کہ حقیقی خودمختاری صرف معاشی خود انحصاری سے ہی ممکن ہے اوراس کے لئے سیاسی استحکام بھی ناگزیر ہے۔ سیاسی انارکی، بدعنوانی،اورادارہ جاتی کمزوری ملکی ترقی میں بڑی رکاوٹیں ہیں۔
پاکستان میں سیاسی انارکی کی وجوہات میں طاقت کی کشمکش،جمہوری اداروں کی کمزوری، اور انتخابی نظام کی شفافیت کافقدان شامل ہیں۔سیاسی جماعتوں کاکرداراس میں کلیدی ہے ، جنہیں اپنے اندرونی ڈھانچے کومضبوط، جمہوری اصولوں کی پاسداری اورعوامی مفادات کو اولین ترجیح دینی چاہیے۔علاوہ ازیں عالمی سیاست میں موجودہ سپرپاورزکے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی،جیسے امریکا،چین،اورروس کے درمیان تعلقات،عالمی سطح پرانارکی کاباعث بن رہے ہیں۔غزہ اور اسرائیل کے درمیان جاری تنازعہ، اور امریکاکی جارحانہ خارجہ پالیسیوں نے نہ صرف مشرق وسطیٰ بلکہ دنیا بھر میں امن کوخطرے میں ڈال دیاہے۔ یہ عالمی تناؤپاکستان جیسے ممالک پربھی اثرانداز ہوتا ہے، جو اقتصادی وسیاسی دباؤ کاسامنا کرتے ہیں۔
آئی ایم ایف وفدکی چیف جسٹس سے ملاقات کئی پہلوئوں سے اہم ہے،مگریہ کہناکہ یہ براہِ راست مداخلت ہے یاپاکستان کی خود مختاری پرحملہ ہے،شایدقبل ازوقت ہوگا۔پاکستان کو اپنی معاشی پالیسیاں مستحکم کرکے قرضوں پرانحصارکم کرنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ عالمی مالیاتی اداروں کے اثرسے بچ سکے۔ساتھ ہی،سیاسی استحکام اورعالمی سیاست کے بدلتے ہوئے منظرنامے میں دانشمندانہ حکمت عملی اختیار کرنابھی ضروری ہے۔ تاریخ ہمیں یہی سبق دیتی ہے کہ حقیقی خودمختاری صرف معاشی خود انحصاری سے ہی نہیں بلکہ سیاسی استحکام اور بین الاقوامی سطح پر متوازن پالیسیوں سے ممکن ہے۔ہمیں ہرحال میں یہ ذہن نشین رکھناچاہئے کہ پاکستان پہلی اسلامی ایٹمی قوت بن چکاہے اوراس کی میزائل ٹیکنالوجی پر امریکا نہ صرف اپنے تحفظات کااظہار کرچکاہے بلکہ دومرتبہ مختلف اقسام کی پابندیاں بھی عائدکرچکاہے کہ امریکا پاکستان کے بین البراعظمی میزائل کی زدمیں آچکا ہے جبکہ تمام وہ مالیاتی ادارے جوپاکستان کوقرض دیتے ہیں،ان کی باگ ڈوران قوتوں کے پاس ہے جن کوایٹمی پاکستان ایک آنکھ نہیں بھاتا۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: بین الاقوامی آئی ایم ایف پاکستان کی پاکستان نے ایم ایف کے کے لئے کی خود کرے گا

پڑھیں:

ایشیائی ترقیاتی بینک کی پاکستان میں مہنگائی کی شرح میں کمی کی پیشگوئی

اسلام آباد: ایشیائی ترقیاتی بینک (اے ڈی بی) نے پاکستان سمیت ترقی پذیر ایشیا اور بحرالکاہل کے ممالک کے لیے جاری کردہ اپنی تازہ رپورٹ میں کہا ہے کہ پاکستان میں رواں مالی سال کے دوران مہنگائی میں کمی کا امکان ہے۔رپورٹ کے مطابق خوراک اور دیگر ضروری اشیاء کی قیمتوں میں کمی اس بہتری کی بنیادی وجہ ہو سکتی ہے۔اے ڈی بی کے مطابق پاکستان کی معاشی شرح نمو 3 فیصد تک رہنے کا امکان ہے جبکہ مالی سال 2025-26 کے دوران مہنگائی کی اوسط شرح 5.8 فیصد رہنے کی پیشگوئی برقرار رکھی گئی ہے۔رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ امریکا کی جانب سے اضافی ٹیرف کے نفاذ سے نہ صرف ایشیائی ممالک متاثر ہو سکتے ہیں بلکہ عالمی تجارتی غیر یقینی صورتحال کے سبب برآمدات میں کمی کا بھی خدشہ ظاہر کیا گیا ہے۔اے ڈی بی کا کہنا ہے کہ جنوبی ایشیا میں سال 2026 تک مجموعی معاشی ترقی 6.2 فیصد جبکہ مہنگائی کی شرح 4.5 فیصد رہنے کا امکان ہے۔یہ رپورٹ اس جانب اشارہ کرتی ہے کہ اگرچہ علاقائی سطح پر کچھ مثبت رجحانات موجود ہیں، تاہم عالمی تجارتی ماحول اور پالیسی اقدامات آئندہ کی معاشی سمت کا تعین کریں گے۔

متعلقہ مضامین

  • پاکستانی فارما برآمدات 457 ملین ڈالر کی ریکارڈ سطح پر پہنچ گئیں
  • عمران خان سیاست میں آنے سے پہلے چندے کیلئے میرے پاس آتے تھے: اسحاق ڈار
  • شرح سود میں کمی کا امکان، فیصلہ 31 جولائی کو ہوگا
  • پاکستان اور چین کی افواج کے درمیان تعلق باہمی تعلقات کا اہم ستون ہیں، چینی فوجی کمیشن
  • پاکستان کی کریڈٹ ریٹنگ میں بہتری پر شہباز شریف کا اظہار اطمینان
  • شرحِ سود کو آئندہ مالیاتی پالیسی میں 6 فیصد تک لایاجائے،احمد چنائے
  • ایس اینڈ پی نے پاکستان کی کریڈٹ ریٹنگ بہتر کر دی، عالمی سطح پر معاشی پالیسیوں کا اعتراف
  • ڈراموں میں زبردستی اور جبر کو رومانس بنایا جا رہا ہے، صحیفہ جبار خٹک
  • پاک یو اے ای تجارتی تعاون معاشی تعلقات کی  بحالی کی علامت بن گیا
  • ایشیائی ترقیاتی بینک کی پاکستان میں مہنگائی کی شرح میں کمی کی پیشگوئی