Daily Ausaf:
2025-04-25@12:03:09 GMT

آئی ایم ایف اورپاکستان کی سیاست،ایک پیچیدہ تعلق

اشاعت کی تاریخ: 27th, February 2025 GMT

(گزشتہ سے پیوستہ)
حفیظ شیخ کے مطابق اس وفدکامینڈیٹ محض اتناہے کہ اس نے بدعنوانی سے متعلق ایک مخصوص رپورٹ مرتب کرنی ہے جبکہ 7ارب ڈالرکے پروگرام کاجائزہ لینے کے لئے آئی ایم ایف کا وفد اگلے دوسے تین ہفتوں میں پاکستان کادورہ کرے گا جس کی بنیاد پر پھر یہ فیصلہ ہوناہے کہ اسلام آباد کو قرض کی اگلی قسط جاری کی جانی چاہیے یانہیں۔تاہم آئی ایم ایف سے ہوئے معاہدے کے تحت پاکستان عدالتی اصلاحات کرنے کاپابندہے اورپھر آئی ایم ایف کے جائزے سے مشروط اس پروگرام کوآگے بڑھانے کا پابند ہے۔ آئی ایم ایف کا یہ وفدایک ہفتے کے لئے پاکستان کے دورے پررہے گااور6شعبوں کی کڑی نگرانی کرے گا کہ کیسے یہ بدعنوانی کے خاتمے کے لئے کام کررہے ہیں۔ حکام کے مطابق یہ وفد مالیاتی گورننس ، سینٹرل بینک گورننس اینڈ آپریشنز، مالیاتی شعبے پرنظر رکھے گا، مارکیٹ ریگولیشن کاجائزہ لے گا اورپاکستان میں قانون کی حکمرانی اوراینٹی منی لانڈرنگ جیسے اقدامات کا جائزہ لے گا ۔ اس وفدنے عدلیہ،سٹیٹ بینک، الیکشن کمیشن،فنانس، ریونیواورایس ای سی پی سمیت دیگرشعبوں کے حکام سے ملاقاتیں کرنی ہیں۔
گذشتہ برس پاکستان اورآئی ایم ایف کے درمیان7ارب ڈالرقرض کے حصول کے لئے طے پانے والے معاہدے سے قبل پاکستان نے بین الاقوامی مالیاتی فنڈکی جانب سے عائد کردہ شرائط کوپوراکرنے کی کوشش کی تھی جس کے تحت رواں مالی سال میں ٹیکس آمدن بڑھانے،مختلف شعبوں پرٹیکس کی شرح بڑھانے اورنئے شعبوں کوٹیکس نیٹ میں لانے جیسے اقدامات شامل تھے۔اینٹی کرپشن فریم ورک کوموثربنانے کے لئے حکومت2025ء تک سول سروس ایکٹ میں ترمیم کرے گی تاکہ اعلی سطح کے عوامی عہدیداروں کے اثاثوں کی ڈیجیٹل فائلنگ اوران کی عوامی رسائی کویقینی بنایا جا سکے اورایف بی آرکے ذریعے اثاثوں کی جانچ کے لئے ایک مستحکم فریم ورک تیارکیاجائے گا۔
عدالتی اورریگولیٹری نظام کاجائزہ آئی ایم ایف کے قرض پروگرام کاحصہ ہے اورپاکستان نے اس معاہدے پردستخط کررکھے ہیں۔ پاکستان نے فنڈ کویہ یقین دلارکھاہے کہ وہ انسداد بدعنوانی کے لئے اپنے اداروں کی صلاحیت میں اضافہ کرے گااوروہ آگے بڑھنے کے لئے سب کوغیرامتیازی کاروباری اورسرمایہ کاری کے مواقع فراہم کرے گا۔
معاشی غلامی کاتصوراس وقت سامنے آتاہے جب کوئی ملک قرضوں کے بوجھ تلے دب کراپنی آزادانہ پالیسی سازی کی صلاحیت کھوبیٹھتاہے۔ تاریخ میں کئی مثالیں موجودہیں جہاں معاشی برتری نے ممالک کی خودمختاری کومحدودکردیا۔مثال کے طورپر19ویں صدی میں مصرنے برطانوی قرضوں کی ادائیگی نہ کرسکنے پراپنی خودمختاری کھودی،جس کے نتیجے میں برطانیہ نے مصرپر قبضہ کرلیا۔اسی طرح جدیددورمیں ’’ڈیبٹ ٹریپ ڈپلومیسی‘‘ کی اصطلاح اکثرچین کے بیلٹ اینڈروڈ منصوبے کے حوالے سے استعمال کی جاتی ہے۔
پاکستان کی موجودہ حکومت نے گزشتہ چند سالوں میں سخت معاشی اصلاحات اورآئی ایم ایف کے ساتھ کئی بارمعاہدے کرکے ملک کودیوالیہ ہونے سے بچانے کی کوشش کی ہے ۔ ٹیکس اصلاحات،اخراجات میں کٹوتی،اورزرِمبادلہ کے ذخائرمیں اضافہ کرنے جیسے اقدامات کیے گئے ہیں۔تاہم،یہ تمام کوششیں وقتی طورپرتوکارگرثابت ہوئیں لیکن ملک کی معیشت اب بھی غیرمستحکم ہے اورقرضوں کابوجھ بڑھتاجارہاہے۔
اگرپاکستان دیوالیہ ہوتاہے توعالمی مالیاتی ادارے ،خاص طورپرآئی ایم ایف،قرضوں کی واپسی کے لئے مختلف اقدامات کرسکتے ہیں۔ ان میں ملک کے غیرملکی اثاثوں کوضبط کرنا،بین الاقوامی مالیاتی امداد یا تجارت پرپابندیاں لگانا،اوربین الاقوامی عدالتوں میں قانونی چارہ جوئی شامل ہوسکتی ہے۔بعض اوقات،ملک کے اندرونی اثاثے،جیسے سرکاری ادارے یا قدرتی وسائل،بھی گروی رکھوائے جاسکتے ہیں یاان پربین الاقوامی کنٹرول عائدکیاجاسکتا ہے۔ پاکستان نے ماضی میں کئی قیمتی اثاثے مختلف مالیاتی معاہدوں کے تحت گروی رکھوائے ہیں۔ان میں گوادرپورٹ، موٹرویز اور قومی ایئرلائن کے مخصوص حصص شامل ہیں۔اس کے علاوہ، کچھ قدرتی وسائل اورپاورپلانٹس بھی گروی رکھے گئے ہیں یاان پر غیر ملکی سرمایہ کاروں کااثرورسوخ بڑھ گیاہے۔یہ اقدامات وقتی مالی امدادکے لئے کئے گئے تھے لیکن ان کا طویل المدتی اثرملکی خودمختاری پر پڑ سکتا ہے ۔
آئی ایم ایف وفدکی چیف جسٹس سے ملاقات کئی پہلوئوں سے اہم ہے،مگریہ کہناکہ یہ براہِ راست مداخلت ہے یاپاکستان کی خود مختاری پرحملہ ہے،شایدقبل ازوقت ہو گا۔ پاکستان کو اپنی معاشی پالیسیاں مستحکم کرکے قرضوں پر انحصارکم کرنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ عالمی مالیاتی اداروں کے اثرسے بچ سکے۔تاریخ ہمیں یہی سبق دیتی ہے کہ حقیقی خودمختاری صرف معاشی خود انحصاری سے ہی ممکن ہے اوراس کے لئے سیاسی استحکام بھی ناگزیر ہے۔ سیاسی انارکی، بدعنوانی،اورادارہ جاتی کمزوری ملکی ترقی میں بڑی رکاوٹیں ہیں۔
پاکستان میں سیاسی انارکی کی وجوہات میں طاقت کی کشمکش،جمہوری اداروں کی کمزوری، اور انتخابی نظام کی شفافیت کافقدان شامل ہیں۔سیاسی جماعتوں کاکرداراس میں کلیدی ہے ، جنہیں اپنے اندرونی ڈھانچے کومضبوط، جمہوری اصولوں کی پاسداری اورعوامی مفادات کو اولین ترجیح دینی چاہیے۔علاوہ ازیں عالمی سیاست میں موجودہ سپرپاورزکے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی،جیسے امریکا،چین،اورروس کے درمیان تعلقات،عالمی سطح پرانارکی کاباعث بن رہے ہیں۔غزہ اور اسرائیل کے درمیان جاری تنازعہ، اور امریکاکی جارحانہ خارجہ پالیسیوں نے نہ صرف مشرق وسطیٰ بلکہ دنیا بھر میں امن کوخطرے میں ڈال دیاہے۔ یہ عالمی تناؤپاکستان جیسے ممالک پربھی اثرانداز ہوتا ہے، جو اقتصادی وسیاسی دباؤ کاسامنا کرتے ہیں۔
آئی ایم ایف وفدکی چیف جسٹس سے ملاقات کئی پہلوئوں سے اہم ہے،مگریہ کہناکہ یہ براہِ راست مداخلت ہے یاپاکستان کی خود مختاری پرحملہ ہے،شایدقبل ازوقت ہوگا۔پاکستان کو اپنی معاشی پالیسیاں مستحکم کرکے قرضوں پرانحصارکم کرنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ عالمی مالیاتی اداروں کے اثرسے بچ سکے۔ساتھ ہی،سیاسی استحکام اورعالمی سیاست کے بدلتے ہوئے منظرنامے میں دانشمندانہ حکمت عملی اختیار کرنابھی ضروری ہے۔ تاریخ ہمیں یہی سبق دیتی ہے کہ حقیقی خودمختاری صرف معاشی خود انحصاری سے ہی نہیں بلکہ سیاسی استحکام اور بین الاقوامی سطح پر متوازن پالیسیوں سے ممکن ہے۔ہمیں ہرحال میں یہ ذہن نشین رکھناچاہئے کہ پاکستان پہلی اسلامی ایٹمی قوت بن چکاہے اوراس کی میزائل ٹیکنالوجی پر امریکا نہ صرف اپنے تحفظات کااظہار کرچکاہے بلکہ دومرتبہ مختلف اقسام کی پابندیاں بھی عائدکرچکاہے کہ امریکا پاکستان کے بین البراعظمی میزائل کی زدمیں آچکا ہے جبکہ تمام وہ مالیاتی ادارے جوپاکستان کوقرض دیتے ہیں،ان کی باگ ڈوران قوتوں کے پاس ہے جن کوایٹمی پاکستان ایک آنکھ نہیں بھاتا۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: بین الاقوامی آئی ایم ایف پاکستان کی پاکستان نے ایم ایف کے کے لئے کی خود کرے گا

پڑھیں:

برطانوی میڈیا نے پہلگام واقعہ کی ذمہ داری قبول کرنیوالوں کا تعلق لشکر طیبہ سے قرار دیدیا

ساؤتھ ایشیا ٹیررازم پورٹل کے سربراہ اجے ساہنی کا کہنا ہے کہ ٹی آر ایف بنیادی طور پر لشکر طیبہ کا ہی ایک حصہ ہے، یہ وہ گروپس ہیں جو گذشتہ کچھ برسوں کے دوران بنائے گئے تھے خاص طور پر جب پاکستان، فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کے دباؤ میں تھا اور وہ جموں اور کشمیر میں دہشت گردی میں ملوث ہونے سے انکار کر رہا تھا۔ اسلام ٹائمز۔ کشمیر ریزسٹنس نامی گروپ جسے دی ریزسٹنس فرنٹ (ٹی آر ایف) کہا جاتا ہے نے 22 اپریل کو انڈیا کے زیرانتظام کشمیر کے سیاحتی مقام پہلگام میں سیاحوں پر حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ بھارت کی جانب سے اس حملے کو 2008 میں ممبئی میں ہونے والے حملوں کے بعد بدترین واقعہ قرار دیا جا رہا ہے۔ 

ٹی آر ایف کیا ہے؟
برطانوی خبر رساں ایجنسی روئٹرز کے مطابق ٹی آر ایف گروپ 2019 میں سامنے آیا اور اسے پاکستان میں موجود کالعدم جہادی گروپ لشکر طیبہ کی ذیلی شاخ سمجھا جاتا ہے۔ تھنک ٹینک ساؤتھ ایشیا ٹیررازم پورٹل کے مطابق پاکستان کسی بھی دہشت گرد گروپ کی حمایت کی تردید کرتا ہے۔ انڈین سکیورٹی حکام کا کہنا ہے کہ ٹی آر ایف سوشل میڈیا اور آن لائن فورمز پر کشمیر ریزسٹنس کا نام استعمال کرتا ہے۔ اس گروپ نے اسی نام سے انڈیا کے زیرِانتظام کشمیر کے علاقے پہلگام میں 22 اپریل کے حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ 

واضح رہے کہ کالعدم لشکر طیبہ کو امریکہ نے بھی ایک غیرملکی دہشت گرد تنظیم قرار دے رکھا ہے، اس گروپ پر نومبر 2008 میں ممبئی پر ہونے والے حملے سمیت انڈیا اور مغرب میں حملوں کی منصوبہ بندی کرنے کا الزام ہے۔ ساؤتھ ایشیا ٹیررازم پورٹل کے سربراہ اجے ساہنی کا کہنا ہے کہ ٹی آر ایف بنیادی طور پر لشکر طیبہ کا ہی ایک حصہ ہے، یہ وہ گروپس ہیں جو گذشتہ کچھ برسوں کے دوران بنائے گئے تھے خاص طور پر جب پاکستان، فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کے دباؤ میں تھا اور وہ جموں اور کشمیر میں دہشت گردی میں ملوث ہونے سے انکار کر رہا تھا۔

اجے ساہنی کے مطابق ماضی میں اس گروپ نے کسی بڑے واقعے کی ذمہ داری قبول کی اور نہ ہی کسی بڑی کارروائی میں اس کا نام سامنے آیا۔ ٹی آر ایف کے تمام آپریشنز بنیادی طور پر لشکر طیبہ کی کارروائیاں ہیں۔ اس گروپ کو اس حد تک آپریشنل آزادی حاصل ہے کہ اس نے زمین پر کہاں کارروائی کرنی ہے، تاہم اس کے احکامات لشکرِ طیبہ کی طرف سے ہی آتے ہیں۔ 

انڈیا کی وزارت داخلہ نے 2023 میں پارلیمنٹ کو بتایا تھا کہ ٹی آر ایف گروپ جموں و کشمیر میں سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں اور شہریوں کے قتل کی منصوبہ بندی میں ملوث ہے۔ وزارت داخلہ کا مزید کہنا تھا کہ یہ گروپ عسکریت پسندوں کی بھرتی اور سرحد پار ہتھیاروں اور منشیات کی سمگلنگ میں بھی مُلوث ہے۔ انٹیلی جنس حکام نے روئٹرز کو بتایا کہ ٹی آر ایف گذشتہ دو برسوں سے انڈین نواز گروپوں کو آن لائن دھمکیاں بھی دے رہا ہے۔ پاکستان کا موقف ہے کہ وہ کشمیریوں کی صرف اخلاقی اور سفارتی حمایت کرتا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • برطانوی میڈیا نے پہلگام واقعہ کی ذمہ داری قبول کرنیوالوں کا تعلق لشکر طیبہ سے قرار دیدیا
  • جنرل بخشی جیسے نیم پاگل لوگوں کی چیخوں سے پاکستان کی صحت پہ کوئی فرق نہیں پڑتا، ایمان شاہ
  • کرکٹ میں بھی سیاست، پہلگام حملے کے بعد بھارتی کرکٹ بورڈ نے پاکستان کو کیا پیغام دیا؟
  • ایک مرتبہ پھر کھیل میں سیاست لے آیا۔پاکستان کے ساتھ کرکٹ کھیلنے سے انکار
  • بابر یا کوہلی؛ کنگ وہی ہوتا ہے جو سب پر حکومت کرے
  • کھیل میں سیاست؛ پہلگام واقعہ! “کرکٹ نہیں کھیلیں گے”
  • کھیل میں سیاست؛ پہلگام واقعہ! کرکٹ نہیں کھیلیں گے
  • واشنگٹن: وزیر خزانہ کی عالمی مالیاتی اداروں اور امریکی رہنماؤں سے ملاقاتیں
  • آبادی میں اضافہ اور موسمیاتی تبدیلی جیسے بڑے چیلنجوں سے نمٹنے کے لئے نجی شعبے کے تعاون کی ضرورت ہے،محمد اورنگزیب
  • علاقائی راہداریوں، تجارتی روابط اور جنوبی-جنوبی تعاون کو فروغ دینا وقت کی ضرورت ہے، وزیر خزانہ سینیٹر محمد اورنگزیب