یہودی فوج کی درندگی غزہ میں برقرار (103 مسلمان شہید)
اشاعت کی تاریخ: 11th, July 2025 GMT
اسرائیلی فوج کے حملوں کا سلسلہ بدستور جاری ، بچوں ،خواتین اور بزرگوں پر نشانہ
درجنوں افراد زخمی ، ہسپتالوں میں گنجائش ختم ، انسانی حقوق کی تنظیموں کا زبانی ردعمل
غزہ میں صہیونی بمباری سے مزید 103 فلسطینی شہید، خواتین اور بچے بھی شامل غزہ پر اسرائیلی بمباری کا سلسلہ بدستور جاری ہے، جس کے نتیجے میں گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران مزید 103 فلسطینی شہید ہو گئے ہیں۔ شہدا میں بڑی تعداد بچوں، خواتین، بزرگوں اور طبی امدادی کارکنوں کی بھی شامل ہے۔بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کے مطابق 9 جولائی شام 5 بجے سے 10 جولائی صبح تک کے دوران کیے گئے فضائی حملوں میں کم از کم 47 افراد شہید ہوئے۔ یہ حملے زیادہ تر رفح، خان یونس اور وسطی غزہ کے علاقوں میں کیے گئے، جہاں شہری آبادی اور پناہ گزین خیمے نشانے پر رہے۔ادھر 10 جولائی صبح سے شام 6 بجے تک بھی اسرائیلی طیاروں نے غزہ کے مختلف علاقوں کو نشانہ بنایا، جس کے نتیجے میں مزید 56 فلسطینی جامِ شہادت نوش کر گئے۔ بمباری کے نتیجے میں درجنوں افراد زخمی بھی ہوئے، جن میں کئی کی حالت نازک ہے۔شہادتوں کی مجموعی تعداد صرف 24 گھنٹوں میں 103 ہو چکی ہے، جس پر انسانی حقوق کی تنظیموں اور عالمی برادری کی جانب سے شدید ردعمل سامنے آیا ہے۔ تاہم، اسرائیل کی جانب سے حملے جاری ہیں، اسپتالوں میں شہدا کے جنازے اور زخمیوں کا ہجوم ہے، جبکہ مردہ خانوں میں گنجائش ختم ہو چکی ہے۔
.ذریعہ: Juraat
پڑھیں:
غزہ پر اسرائیلی بمباری: مسجد، اسپتال اور رہائشی عمارتیں ملبے کا ڈھیر، 83 فلسطینی شہید
اسرائیلی فوج نے غزہ میں سفاک بمباری کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے الشفا اسپتال کے قریب حملہ کیا جس کے نتیجے میں 19 فلسطینی شہید ہوگئے۔ اسی طرح ال اہلی اسپتال کے قریب بمباری میں مزید 4 افراد جاں بحق ہوئے۔
غزہ شہر میں فضائی حملوں سے ایک مسجد اور کئی رہائشی عمارتیں مکمل طور پر تباہ ہوگئیں۔ صرف ایک دن میں 83 فلسطینی اسرائیلی فوج کی دہشتگردی کا نشانہ بنے، جبکہ 7 اکتوبر 2023 کے بعد سے شہدا کی مجموعی تعداد 65 ہزار سے تجاوز کر گئی ہے۔
دوسری جانب چین اور سعودی عرب نے اسرائیلی فوجی آپریشن کی سخت مذمت کی ہے۔ اقوام متحدہ، کینیڈا، فرانس اور آئرلینڈ نے بھی ان حملوں کو ناقابلِ برداشت قرار دیتے ہوئے فوری جنگ بندی اور مذاکرات کا مطالبہ کیا ہے۔
ادھر یورپی کمیشن میں اسرائیل پر پابندیوں کی تجاویز پیش کی گئیں، تاہم کچھ یورپی ممالک کی مخالفت کے باعث ان کی منظوری کا امکان کم ہے۔