سیاسی قوتیں کمزور ہیں اس لیے اسٹیبلشمنٹ سر پہ سوار ہے، بیرسٹر گوہر
اشاعت کی تاریخ: 27th, February 2025 GMT
چیئرمین تحریک انصاف بیرسٹر گوہر نے کہا ہے کہ پاکستان میں سیاسی قوتیں زیادہ کمزور ہیں ، یہی وجہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ سر پر سوار ہے۔
اسلام آباد میں اپوزیشن گرینڈ الائنس کے زیر اہتمام ’آئین کی بالادستی‘ کے عنوان سے 2 روزہ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر نے کہا کہ اسٹیبلشمنٹ صرف پاکستان میں نہیں باقی ممالک میں بھی ہے، کیا پاکستان میں پولیٹیکل قوتیں زیادہ کمزور ہیں؟ یا اسٹیبلشمنٹ زیادہ مضبوط ہے؟
یہ بھی پڑھیں: عمران خان کی رہائی نہ ہونے پر کارکن ہم سے ناراض ہیں، بیرسٹر گوہر
بیرسٹر گوہر نے کہا کہ یہاں پر سیاسی قوتیں زیادہ کمزور ہیں، یہی وجہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ سر پہ سوار ہے، اب مزید دیر کی گنجائش نہیں، ورنہ آنے والی نسلیں ہمیں معاف نہیں کریں گی، پاکستان کے قانون میں 17 قسم کے حلف کا ذکر ہے۔
چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ کیا 26 ویں ترمیم کو روکنے کا کوئی طریقہ نہیں تھا؟ کیوں کوئی نہیں گیا سپریم کورٹ، پشاور ہائیکورٹ؟ ہر مرتبہ ہزار بندوں پہ مشتمل اسمبلی بنتی ہے، ہمیں دیکھنا ہو گا ہم نے کس جانب کھڑے ہونا ہے۔
پی ٹی آئی پاور شیئرنگ پر یقین نہیں رکھتی بلکہ عوام کی سیاست کرتی ہے، اسی لیے عمران خان جیل میں ہیں، انہیں سمجھوتا کرنا ہوتا تو کب کے کرکے جیل سے باہر آچکے ہوتے۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان کی سیاست عمران خان کے بغیر نہیں چل سکتی، بیرسٹر گوہر
بیرسٹر گوہر نے کہا کہ جب الیکشن ہورہے تھے تو ہمیں کنونشن کی اجازت نہیں تھی، ریلی کی اجازت بھی نہیں تھی اور ہمیں پوسٹر تک لگانے کی اجازت نہیں تھی، کیا کسی سیاسی جماعت نے کہا یہ غلط ہوا ہے۔
انہوں نے کہا کہ سوائے جے یو آئی اور جماعت اسلامی کے کسی نے سوال نہیں اٹھایا، جماعت اسلامی کے حافظ نعیم الرحمان نے کراچی میں سیٹیں واپس کی کہ یہ ہماری سیٹیں نہیں ہیں، کراچی میں 22 سیٹوں میں سے پیپلز پارٹی واقعی 3 سیٹیں جیت چکی تھی، باقی ہماری تھیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ہماری کراچی سے 19 سیٹوں میں سے 4 سیٹیں پیپلز پارٹی کو اور 15 سیٹیں ایم کیو ایم کو دی گئیں، حیدر آباد سے ہماری جیتی ہوئی 2 سیٹیں ایم کیو ایم کو دی گئیں، اس پر کسی سیاسی جماعت نے کچھ نہیں کہا۔
یہ بھی پڑھیں: ملاقات چیف جسٹس کی درخواست پر کی، انہیں بتایا کہ آپ کے حکم پر کوئی عملدرآمد نہیں ہوتا، بیرسٹر گوہر
چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ 26 ویں آئینی ترمیم پر بھی کوئی نہیں بولا، یہ ترمیم مارشل لا دور کے ’ایل ایف او‘ اور ’پی سی او‘ کے بعد سب سے متنازعہ قانون سازی ہے، یہ ہر صورت واپس ہونی چاہیے۔
بیرسٹر گوہر نے کہا کہ ملک کی عدلیہ سے کوئی خوش نہیں ہے، عدلیہ جب سے ہے متنازعہ رہی ہے، کتنے منیر گزر گئے، ہم افتخار چوہدری کو سروں پہ اٹھا کے لائے لیکن لوگوں کی توقعات پر پورا نہیں اترے۔
انہوں نے کہا کہ عدالیہ کبھی آزاد نہیں ہوئی، اس میں اصلاحات کی ضرور ضرورت ہے لیکن اس کی ابتدا اچھی ہونی چاہیے، اسی ابتدا کہ جس سے سسٹم بھی بچ جائے اور عدلیہ بھی آزاد ہوجائے۔
ان کا کہنا تھا ہمارا مولانا فضل الرحمان کے ساتھ 26ویں آئینی ترمیم کی کسی شق پر اتفاق نہیں ہوا تھا، 26 ترمیم کے بل پاس ہونے سے قبل ہمیں بتایا گیا کہ ہمارے پاس کوئی ڈرافٹ نہیں ہے۔
یہ بھی پڑھیں: آرمی چیف سے ہونے والی ملاقات کا انکار کیوں کیا؟بیرسٹر گوہر نے بتادیا
’20 اکتوبر کو مجھے رات کو 12 بجے فون آیا کہ آپ کے 2 سینیٹرز یہاں بیٹھے ہوئے ہیں، جے یو آئی کے بھی 2 سینیٹرز بیٹھے ہیں، کل ترمیم ہونے جارہی ہے، جو پہلے سینیٹ میں پیش ہوگا۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم مولانا کے احسان مند ہیں کہ انہوں نے ہمارا ساتھ دیا، آج جو کچھ ہوا یہ سب پی ٹی آئی گزشتہ 20 سالوں سے دیکھتی آئی ہے، آج ہمیں سب کچھ بھول کر مستقبل کے بارے لائحہ عمل تیار کرنا ہوگا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
we news اپوزیشن اسٹیبلشمنٹ اسلام اباد بیرسٹر گوہر پی ٹی آئی سیاسی جماعتیں کانفرنس مولانا فضل الرحمان.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اپوزیشن اسٹیبلشمنٹ اسلام اباد بیرسٹر گوہر پی ٹی ا ئی سیاسی جماعتیں کانفرنس مولانا فضل الرحمان بیرسٹر گوہر نے کہا کہ کمزور ہیں
پڑھیں:
مذاکرات یا احتجاج، عمران خان کا مستقبل کیا ہوگا؟
پاکستان تحریک انصاف کے بانی چیئرمین عمران خان سے اڈیالہ جیل میں ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے پی ٹی آئی رہنما کہتے ہیں کہ عمران خان صرف اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات کے لیے تیار ہیں جبکہ ساتھ میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ عمران خان نے پارٹی رہنماؤں کو ہدایت دی ہے کہ وہ پھر سے احتجاجی تحریک کے لیے تیار ہو جائیں، بہت جلد احتجاج کی تاریخ کا اعلان کیا جائے گا۔
یہ بھی پڑھیں: عمران خان عید قربان سے قبل رہا ہوجائیں گے؟
وی نیوز نے سیاسی تجزیہ کاروں سے گفتگو کی اور ان سے یہ جاننے کی کوشش کی کہ بانی پی ٹی ائی ایک طرف تو صرف اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات کے لیے تیار ہیں اور دوسری طرف احتجاجی تحریک کی تیاریوں کی بھی بات کر رہے ہیں تو اس صورتحال میں عمران خان کا مستقبل کیا ہوگا؟
سینیئر تجزیہ کار انصار عباسی نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ جو بھی وہ سیاسی فیصلہ کرتے ہیں وہ ان کے خلاف جاتا ہے، پہلے انہوں نے قومی اسمبلی سے استعفے دیے، پھر انہوں نے پنجاب اور خیبر کو پختونخوا کی اسمبلیاں تحلیل کی تو یہ سب فیصلے غلط ثابت ہوئے اس وقت بھی عمران خان کہتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ سے ڈائریکٹ مذاکرات کیے جائیں لیکن اب اسٹیبلشمنٹ یہ نہیں کرے گی کیوں وہ کہتی ہے کہ حکومت سے مذاکرات کیے جائیں اور حکومت جو بھی بات کرے وہ اسٹیبلشمنٹ کی رضامندی سے ہی کرے گی۔
انصار عباسی نے کہا کہ پی ٹی آئی صرف شرائط رکھ کر مذاکرات کرتی ہے لیکن اس طرح مذاکرات آگے نہیں بڑھ سکتے، اگر عمران خان نے جیل سے رہائی حاصل کرنی ہے تو انہیں سیاسی جماعتوں کے ساتھ مذاکرات کرنے ہوں گے، اسٹیبلشمنٹ کے حوالے سے بھی عمران خان ایک دن مذاکرات کی بات کرتے ہیں تو اگلے ہی روز آرمی چیف کے خلاف بیان دے دیتے ہیں، عمران خان کی اپنی پالیسیوں میں تسلسل نہیں ہے اور ان کے جو بھی سیاسی فیصلے ہیں ان سے عمران خان اور پی ٹی آئی دونوں کو بہت نقصان پہنچتا ہے۔
سینیئر تجزیہ کار ابصار عالم نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان اور ان کی پارٹی بہت عرصے سے فلپ فلاپ کر رہی ہے، کسی کو سمجھ نہیں آ رہا کہ عمران خان کیا چاہتے ہیں؟ بظاہر ایسا لگ رہا ہے کہ عمران خان اپنی شرائط پر مذاکرات آگے بڑھانا چاہتے ہیں، عمران خان اور ان کی پارٹی نے ماحول اتنا خراب کر دیا ہے کہ اب اسٹیبلشمنٹ کو عمران خان پر اعتماد ہی نہیں ہے اسٹیبلشمنٹ اگر عمران خان کو کوئی ریلیف دینا بھی چاہتی ہے تو عمران خان حکومت اور سسٹم کے خلاف یلغار کی بات کر دیتے ہیں۔
مزید پڑھیے: پاک بھارت جنگ کے بعد کیا عمران خان کی رہائی کے امکانات بڑھ گئے ہیں؟
ابصار عالم نے کہا کہ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ یہ چاہتی ہے کہ جس طرح معاشی حالات کو بہتر کیا گیا ہے اور سیاسی امن ہوا ہے اسے برقرار رکھا جائے لیکن عمران خان اور ان کی جماعت اس سسٹم کے ہی خلاف ہیں اس لیے مجھے نہیں لگتا کہ عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان کوئی ڈیل ہوگی کیونکہ عمران خان کی پارٹی کے اپنے ہی بعض لوگ ڈیل کے خلاف ہیں جبکہ بعض لوگ ڈیل کرنا چاہتے ہیں، عمران خان اور ان کی جماعت میں تسلسل نہیں ہے تو میرے خیال میں یہ مذاکرات کی باتیں بس باتیں اور خبریں ہی رہ جائیں گی اور اس کا نتیجہ کچھ نہیں نکلے گا۔
سینیئر صحافی احمد ولید نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان کے حوالے سے ابھی تک کچھ واضح نہیں ہو رہا کہ وہ کیا چاہتے ہیں علی امین گنڈا پور جو بھی بات کر رہے ہیں اس کا کوئی مقصد یا فائدہ نہیں ہے کیونکہ ان کے پاس کوئی اختیار نہیں ہے عمران خان جس دن چاہیں گے یا فیصلہ کریں گے اسی دن مذاکرات اگے بڑھیں گے مجھے مستقبل قریب میں مذاکرات ہوتے نظر نہیں ارہے۔
انہوں نے کہا کہ ایک دن علیمہ خان کہتی ہیں کہ جو کچھ کرنا ہے بتا دیں ہم تیار ہیں لیکن اگلے ہی روز جیل کے اندر سے خبر آجاتی ہے کہ عمران خان نے کہا ہے کہ ہم قانون کی بالادستی پہ یقین کرتے ہیں اور کسی کے ساتھ بات نہیں کریں گے۔
مزید پڑھیں: عمران خان کو کس شرط پر رہا کیا جائےگا؟ علیمہ خان نے سوال پوچھ لیا
احمد ولید نے کہا کہ ایک طرف کہا جاتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے عمران خان کو 9 مئی کے واقعات پر معافی مانگنے کی باتیں اور دوسری طرف عمران خان کا بیان آتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ 9 مئی کو کی جانے والی گرفتاریوں اور ظلم پر معافی مانگے تو یہ اس وقت ممکن نہیں نظر آرہا کہ عمران خان کو مذاکرات کی میز پر لایا جا سکے، ہر مرتبہ مذاکرات کی بات چلتی ہے تو آخر میں عمران خان کا بیان آ جاتا ہے کہ مذاکرات نہیں کرنے تو سارا معاملہ ختم ہو جاتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر عمران خان بالکل سیریس ہوں اور یکسوئی کے ساتھ مذاکرات کریں تو ہو سکتا ہے کہ بات آگے بڑھے لیکن فی الوقت ایسا نظر نہیں آرہا کہ عمران خان مذاکرات یا بات چیت کے لیے تیار ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
پی ٹی آئی پی ٹی آئی اسٹیبلشمنٹ مذاکرات عمران خان عمران خان اسٹیبلشمنٹ مذاکرات