لاہور: 5 خواتین سے زیادتی کے واقعات، ایک بھی ملزم گرفتار نہیں کیا جاسکا
اشاعت کی تاریخ: 27th, February 2025 GMT
فوٹو: فائل
لاہور میں 5 خواتین سے زیادتی کے واقعات رونما ہوئے، مقدمات درج ہونے کے باوجود کسی بھی واقعے کا ملزم گرفتار نہیں کیا جا سکا۔
پولیس کے مطابق مانگا منڈی میں 4 دن قبل 5 ملزمان نے دوائی لینے جانے والی خاتون کو اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنا ڈالا۔
ڈی پی اوباجوڑ نے پریس کانفرنس کے دوران انکشاف کیا کہ پوسٹ مارٹم رپورٹ میں بچی کے ساتھ زیادتی ثابت ہوئی ہے۔
ایف آئی آر کے مطابق شاہدرہ میں ملزم نے کپڑے کی سلائی کا کام سیکھنے والی خاتون کو زیادتی کا نشانہ بنایا، ملزم ریاض نے اپنی بیوی کی غیر موجودگی میں خاتون کو پسٹل دکھا کر زیادتی کا نشانہ بنایا اور ویڈیو بنا کر بلیک میل کرکے 50 ہزار بھی ہتھیا لیے۔
برکی میں ملزم نے جواں سالہ لڑکی کو ڈیڑھ ماہ قبل زیادتی کا نشانہ بنا ڈالا ملزم مرتضیٰ نے زیادتی کا نشانہ بنا کر بلیک میل کرنا شروع کر دیا۔
پولیس کے مطابق سٹی رائیونڈ میں 11 سال کی بچی سے 3 دن قبل زیادتی کی گئی، ملزم چاند نے ساتھی عثمان کے ساتھ ملکر بچی کے ساتھ زیادتی کی۔
اے ایس پی سٹی کا کہنا ہے کہ لڑکی کو تشویش ناک حالت میں لاہور منتقل کر دیا گیا ہے۔
کوٹ لکھپت میں ملزم نے شادی کا جھانسہ دے کر مطلقہ خاتون کو جنسی درندگی کا نشانہ بنا ڈالا، ملزم اسلم نے خاتون کو اس کے شوہر سے طلاق دلواکر شادی کا جھانسہ دے کر زیادتی کا نشانہ بنا دیا۔
پولیس کا کہنا ہے کہ گزشتہ روز زیادتی کے واقعات کی ایف آئی آر درج کی گئی، ملزمان کی تلاش جاری ہے۔
.ذریعہ: Jang News
کلیدی لفظ: زیادتی کا نشانہ بنا زیادتی کے خاتون کو
پڑھیں:
کام کی زیادتی اور خاندانی ذمے داریاں، لاکھوں امریکی خواتین نے نوکریاں چھوڑ دیں
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
واشنگٹن: امریکی خواتین کے لیے رواں سال روزگار کی دنیا تاریخی لحاظ سے غیر معمولی تبدیلیوں کے ساتھ گزری ہے۔
امریکی بیورو آف اسٹیٹسٹکس کی تازہ رپورٹ کے مطابق جنوری سے اگست 2025ء کے دوران ملک بھر میں تقریباً چار لاکھ پچپن ہزار خواتین نے اپنی ملازمتیں ترک کر دیں۔ یہ تعداد کورونا وبا کے بعد جاب مارکیٹ سے خواتین کے سب سے بڑے انخلا کے طور پر ریکارڈ کی گئی ہے۔
ماہرین معاشیات اس غیر متوقع رجحان پر حیرانی کا اظہار کر رہے ہیں اور اسے امریکی سماج کی بدلتی ہوئی ترجیحات اور دباؤ کی عکاسی قرار دے رہے ہیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ملازمت چھوڑنے والی خواتین کی بڑی تعداد نے اپنی زندگی میں بڑھتے ہوئے دباؤ اور ذاتی و خاندانی ذمہ داریوں کو بنیادی وجہ بتایا۔ بچے کی پیدائش، کام کی زیادتی، مسلسل دباؤ، نیند کی کمی اور گھر و دفتر کے توازن کا بگڑ جانا وہ عوامل ہیں جنہوں نے خواتین کو ملازمت چھوڑنے پر مجبور کیا۔
متعدد خواتین نے اعتراف کیا کہ وہ اپنی جسمانی اور ذہنی صحت کو برقرار رکھنے میں ناکام ہو رہی تھیں، جبکہ مہنگی نرسریوں اور بچوں کی دیکھ بھال کے اخراجات نے بھی ان کے فیصلے پر اثر ڈالا۔
امریکا میں ایک نوزائیدہ بچے کی پرورش پر سالانہ 9 ہزار سے 24 ہزار ڈالر خرچ ہوتے ہیں، جو پاکستانی روپے میں تقریباً 25 سے 67 لاکھ کے برابر ہے۔ ایسے میں جب تنخواہ کا بڑا حصہ صرف بچوں کی نگہداشت پر خرچ ہو جائے تو کئی خواتین کے لیے نوکری پر قائم رہنا معاشی طور پر بے معنی محسوس ہوتا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اس بڑھتے ہوئے مالی دباؤ نے نہ صرف خواتین کی افرادی قوت میں شرکت کم کی ہے بلکہ امریکی معیشت میں لیبر گیپ کو بھی گہرا کر دیا ہے۔
ماہرین اس صورتحال کو سماجی پسپائی قرار دے رہے ہیں۔ ان کے مطابق پچھلے سو سال میں امریکی خواتین نے جو معاشی خودمختاری، آزادیٔ رائے اور سماجی کردار حاصل کیا تھا، وہ جدید زندگی کے بے قابو دباؤ اور نظام کی سختیوں کے باعث کمزور پڑتا جا رہا ہے۔ خواتین کے لیے مساوی مواقع کے نعرے عملاً مشکل تر ہوتے جا رہے ہیں جبکہ کام اور گھر کے درمیان توازن قائم رکھنا ایک چیلنج بن چکا ہے۔
امریکی میڈیا میں بھی اس رپورٹ پر بحث جاری ہے کہ اگر یہ رجحان برقرار رہا تو آنے والے برسوں میں نہ صرف خواتین کی نمائندگی کم ہو گی بلکہ کارپوریٹ سطح پر تنوع اور تخلیقی صلاحیتیں بھی متاثر ہوں گی۔