Express News:
2025-11-03@17:54:15 GMT

ناجائز منافع خوروں کے خلاف محض دعوے

اشاعت کی تاریخ: 28th, February 2025 GMT

کمشنر کراچی نے اعلان کیا ہے کہ ناجائز منافع خوروں کو جرمانے کے ساتھ گرفتار بھی کیا جائے گا۔ اس سلسلے میں گراں فروشی پر پچاس گرفتاریاں ہو چکی ہیں اور رمضان المبارک میں منافع خوروں کی گرفتاریوں میں مزید تیزی آئے گی اور گراں فروشی کی شکایات پر نہ صرف ازالہ ہوگا بلکہ قانونی کارروائی بھی کی جائے گی اور اس بار ناجائز منافع خوروں سے رعایت نہیں برتی جائے گی اب گرفتاریاں ہوں گی۔ کراچی انتظامیہ نے ہول سیل گروسرز کے اشتراک سے جوڑیا بازار میں شکایتی مرکز قائم کر دیا گیا ہے جہاں 9 بجے سے شام 7بجے تک شکایات کا اندراج کرایا جاسکے گا۔

کراچی انتظامیہ کی طرف سے رمضان المبارک سے قبل ایسے انتباہی اعلانات معمول رہے ہیں۔ رمضان المبارک میں کمشنر اور ڈپٹی کمشنرز تو زیادہ تر مصروف رہتے ہیں اور بہت کم ہی اپنے دفاتر سے نکل کر مارکیٹوں یا بڑے بازاروں میں تھوڑی دیر کے لیے جاتے ہیں، البتہ اسسٹنٹ کمشنر رمضان کے پہلے عشرے یا نصف رمضان تک شہر میں چھاپے مارتے اور جرمانے کرتے نظر آتے ہیں اور گرفتاریاں برائے نام ہی ہوتی ہیں اور ناجائز منافع خور جیل جانے سے قبل ہی ضمانت کرا کر باہر آ جاتے ہیں اور ان چھاپوں کے باوجود ناجائز منافع خوری عارضی طور پر ضرور رکتی ہے مگر اے سی کے جانے کے بعد نہ صرف دوبارہ شروع ہو جاتی ہے بلکہ جرمانوں کی رقم بھی گاہکوں سے وصول کرنے کے لیے قیمتیں مزید بڑھا دی جاتی ہیں یا مصنوعی قلت پیدا کر دی جاتی ہے۔ ناجائز منافع خوروں پر چھاپوں کا فائدہ گاہکوں کو عارضی طور پر ہی ملتا ہے البتہ جرمانوں کے ذریعے لاکھوں روپے سرکاری خزانے میں مزید بڑھ جاتے ہیں۔

تقریباً ڈھائی، تین کروڑ آبادی کے ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی کی انتظامیہ کا سربراہ صرف ایک کمشنر ہے جس کے ماتحت سات اضلاع کے ڈپٹی کمشنر ہیں جن کے ماتحت بھی ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر، اسسٹنٹ کمشنر اور مختار کار ہیں جنھیں پہلے فرسٹ کلاس مجسٹریٹ کے اختیارات حاصل ہوتے تھے جب کہ ڈپٹی کمشنر کو ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ اور اے سی کو سب ڈویژنل مجسٹریٹ کے اختیارات حاصل ہوتے تھے، عدلیہ سے انتظامیہ الگ کر دیے جانے کے عدالتی حکم سے ختم ہو گئے تھے اور انتظامی افسران سے عدالتی اختیارات واپس لے لیے گئے تھے جس سے گراں فروشوں کے خلاف کارروائیاں متاثر ہوئیں اور سرکاری چھاپوں میں بھی کمی واقع ہوئی۔

 اٹھارہویں ترمیم کے بعد گراں فروشی، مہنگائی اور قیمتوں پر کنٹرول کی ذمے داری صوبائی حکومتوں پر عائد کردی گئی اور سندھ میں چار پانچ عشروں قبل بیورو آف سپلائی اینڈ پرائسز کے نام سے ایک محکمہ ڈائریکٹر جنرل کی سربراہی میں قائم تھا جو صوبے کا اکثر دورہ اور ہر ضلع میں جا کر ڈپٹی کمشنروں کے ساتھ اجلاس منعقد کرتے تھے۔ اس کے علاوہ رمضان سے قبل ہر ڈپٹی کمشنر تاجروں، بلدیاتی نمایندوں اور شہریوں کے ساتھ اجلاس منعقد کرکے اشیائے خوردنی کے جو نرخ مقررکرتے تھے جو غیر حقیقی بھی ہوتے تھے اور انتظامیہ اپنے مقررہ نرخوں پر عمل کرانے کی کوشش کرتی تھی۔

رمضان المبارک میں پھلوں اور سبزیوں کی مانگ بڑھ جاتی ہے اور پھل و سبزی منڈیوں میں مارکیٹ کمیٹیاں مقرر ہیں جو پھل و سبزیوں کے نرخ مقرر کرتی ہیں اور اشیا کے نرخ نامے چھپوا کر خوردہ فروشوں سے مقررہ نرخوں پر عمل کرانے کی پابند ہیں مگر مارکیٹوں میں ہول سیلروں کا اپنا طریقہ کار ہے اور زیادہ تر وہاں پھل اور سبزیاں نیلام ہوتی ہیں اور ماشہ خور بعد میں اپنے نرخوں پر مال فروخت کرتے ہیں جن سے اندرون شہر کے پھل و سبزی فروش مال خرید کر لاتے ہیں۔ منڈیوں میں ہی پھل و سبزیاں چھانٹ کر الگ کرکے ان کے الگ نرخ مقرر کیے جاتے ہیں۔

منڈی سے شہر کی دکانوں، چھوٹی مارکیٹوں تک ہول سیلر، ماشہ خور، دکاندار، پتھارے والے اور ریڑھی والے من مانے نرخوں پر اپنے مال کے نرخ مقرر کر کے مہنگا مال فروخت کرتے ہیں۔ بڑی منڈی کے نرخ مناسب ہوتے ہیں جو شہر آنے تک ڈبل یا اس سے بھی زیادہ ہوجاتے ہیں اور الزام منڈی کے ہول سیلرز پر لگایا جاتا ہے۔

انتظامیہ بھی سرکاری نرخ مقرر کرتے وقت مال کا اول، دوم اور سوم معیار مقرر تو کرتی ہے مگر شہر میں دو نمبر مال بھی نمبر ایک قرار دے کر فروخت کرتے ہیں۔ پنجاب حکومت اس سلسلے میں سخت ہے اور ریڑھیوں اور چھوٹی دکانوں پر پھلوں اور سبزیوں کے نرخ آویزاں کرائے جاتے ہیں جب کہ ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی میں نرخ آویزاں بالکل نہیں ہوتے اور کراچی انتظامیہ نے ناجائز منافع خوروں کو کھلا چھوڑا ہوا ہے جو نرخ آویزاں کرتے ہیں نہ رمضان المبارک میں مقررہ سرکاری نرخوں پر عمل کرتے ہیں۔

ناجائز منافع خورکراچی کے ہر علاقے میں مرضی کے نرخ مقرر کرکے سبزیاں اور پھل مہنگے فروخت کرتے ہیں کیونکہ گیارہ ماہ تک انھیں کوئی نہیں پوچھتا صرف رمضان ہی میں کراچی انتظامیہ حرکت میں نظر آتی ہے مگر وہ اکثر ناکام ہی رہی ہے اور شہر کے یہ گراں فروش یہی رونا روتے ہیں کہ ہول سیل مارکیٹ میں انھیں مہنگا مال ملتا ہے مگر کراچی انتظامیہ وہاں جا کر چھاپے مارتی ہے نہ قیمتوں پر کنٹرول کراتی ہے اور وہاں مہنگا مال فروخت کرنے والوں کے خلاف کارروائی نہیں کرتی۔ناجائز منافع خوروں کو جرمانے سے قید کی سزائیں ملیں تو ممکن ہے مہنگائی پر کنٹرول ہو جائے مگر ان کے لیے سیکڑوں اہلکار یہ اہم مسئلہ حل کرا سکتے ہیں۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: ناجائز منافع خوروں رمضان المبارک میں کراچی انتظامیہ فروخت کرتے ہیں ڈپٹی کمشنر جاتے ہیں ہیں اور کے نرخ ہے اور ہے مگر

پڑھیں:

پنجاب حکومت بلدیاتی انتخابات کرانے کی ذمہ داری پوری کرے: چیف الیکشن کمشنر

چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ نے پنجاب حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ صوبے میں بلدیاتی انتخابات کرانے کی ذمہ داری پوری کی جائے۔پنجاب میں بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کے معاملے پر چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کی زیر صدارت اجلاس ہوا۔جس دوران چیف الیکشن کمشنر کا کہنا تھا کہ پنجاب حکومت بلدیاتی انتخابات کرانے کی ذمہ داری پوری کرے اور حلقہ بندی کے لیے ضروری رولز، ڈیٹا اور نقشے مہیا کیے جائیں۔جس پر چیف سیکرٹری پنجاب نے بتایا کہ لوکل گورنمنٹ الیکشن رولز کا ڈرافٹ 15 نومبر تک الیکشن کمیشن کو بھیج دیا جائے گا۔ چیف سیکرٹری پنجاب کے مطابق درجہ بندی کے نوٹیفکیشن 22 دسمبر ، یو سیز کی تعداد کے نوٹیفکیشن 31 دسمبر اور ہر ٹاؤن، میونسپل کارپوریشن، میونسپل کمیٹی اور تحصیل کونسل کے نقشے 10 جنوری تک مہیا کر دیے جائیں گے۔

متعلقہ مضامین

  • انتظامیہ نے حکومت کی ایماء پر کوئٹہ میں جلسے کی اجازت نہیں دی، تحریک تحفظ آئین
  • کراچی،1 ہفتے میں 167 روڈ سائیڈ ہوٹلز ، چائے خانے بند
  • پاکستان میں کھجور کی سالانہ پیداوار میں حیرت انگیز اضافہ، کروڑوں ڈالرز کا منافع
  • جماعت اسلامی ہند کا بھارت میں خواتین کے خلاف بڑھتے ہوئے جنسی جرائم پر اظہار تشویش
  • سکھر: شہر بھرمیں جگہ جگہ گندگی کے ڈھیر انتظامیہ کا منہ چڑاتے ہوئے
  • سکھر میں صفائی کا فقدان، جگہ جگہ گندگی کے ڈھیر لگ گئے، انتظامیہ غائب
  • چینی کی قیمت میں کمی نہ ہوسکی، انتظامیہ دفاتر تک محدود
  • خواتین ورلڈکپ فائنل میں تاخیر، بھارتی میڈیا نے انتظامیہ پر تنقید کے تیر برسا دیے
  • رجب بٹ کی والدہ کا بیٹے کے مبینہ ناجائز تعلقات کا دفاع
  • پنجاب حکومت بلدیاتی انتخابات کرانے کی ذمہ داری پوری کرے: چیف الیکشن کمشنر