3 اسلامی ممالک کا 2 مارچ کو رمضان المبارک کا پہلا روزہ ہونے کا اعلان
اشاعت کی تاریخ: 28th, February 2025 GMT
جکارتہ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 28 فروری2025ء) 3 اسلامی ممالک کا 2 مارچ کو رمضان المبارک کا پہلا روزہ ہونے کا اعلان، انڈونیشیا، ملائیشیا اور برونائی دارالاسلام میں ماہ مبارک کا چاند نظر نہ آنے کا اعلان، آسٹریلیا میں یکم مارچ کو پہلا روزہ ہو گا۔ جبکہ پاکستان میں پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں بھی چاند نظر نہیں آیا۔ لاہور کی زونل رویت ہلال کمیٹی کا اجلاس ختم ہو گیا جس کے بعد بتایا گیا ہے کہ صوبائی دارالحکومت سے چاند کی کوئی شہادت موصول نہ ہوئی، چاند کی رویت کا حتمی اعلان چئیرمین مرکزی رویت ہلال کمیٹی کی جانب سے کیا جائے گا۔
مزید بتایا گیا ہے کہ ماہ مبارک کے چاند کی پیدائش پاکستان کے معیاری وقت کے مطابق جمعہ کی صبح 5 بج کر 45 منٹ پر ہو چکی، رمضان المبارک کا چاند دیکھنے کیلئے مرکزی رویت ہلال کمیٹی کا اجلاس پشاور میں جاری ہے۔(جاری ہے)
ملک بھر کی زونل رویت ہلال کمیٹیوں کے اجلاس بھی جاری ہیں۔ چاند کی رویت کا حتمی اعلان چئیرمین مرکزی رویت ہلال کمیٹی کی جانب سے کیا جائے گا۔
دوسری جانب پاکستان اور سعودی عرب میں رمضان المبارک کے چاند کی رویت سے متعلق سپارکو ماہرین کی پیشن گوئی سامنے آئی ہے۔ سپارکو ترجمان کے مطابق نئے چاند کی پیدائش 28 فروری 2025 کو پاکستان کے معیاری وقت کے مطابق پانچ بج کر 45 منٹ پر ہو گی اور 28 فروری کو غروب افتاب کے وقت چاند کی عمر 12 گھنٹے ہوگی۔ سپارکو کے مطابق 28 فروری کو غروب آفتاب کے وقت چاند کی عمر 12 گھنٹے اور بلندی 5 ڈگری ہوگی، فاصلے اور کم بلندی کی وجہ سے اس کا نظر آنا مشکل ہے۔ سپارکو کے مطابق 28 فروری کو چاند اور سورج کے درمیان زوایے کا فاصلہ 7 ڈگری ہوگا جس کی وجہ سے چاند کو انسانی آنکھ سے نہیں دیکھا جائے گا۔ اس پیش گوئی کے پیش نظرپاکستان میں رمضان المبارک 2 مارچ 2025 سے شروع ہونے کا امکان ہے۔ سپارکو کا یہ بھی کہنا ہے کہ سعودی عرب میں 28 فروری کو ہلال نظر آسکتا ہے، سعودی عرب میں رمضان یکم مارچ سے شروع ہوگا، شوال کا چاند 30 مارچ کو متوقع ہے، عید الفطر 31 مارچ کو ہوسکتی ہے۔ سپارکو ترجمان نے یہ بھی واضح کیا کہ رمضان اور عید الفطر کے کے چاند کی رویت کا حتمی فیصلہ رویت ہلال کمیٹی کے پاس ہے۔ جبکہ ماہرین موسمیات کی بھی اہم پیشن گوئی سامنے آئی ہے۔ رواں سال ماہ صیام کا آغازموسم سرما کے اختتام اور موسم بہارکا آغاز پر ہورہا ہے،گزشتہ سالوں کی نسبت روزے قدرے ٹھنڈے ہوں گے۔ توقع ہے کہ کئی عرب ممالک مثلا سعودی عرب ، امارات ، قطر ، کویت اور مصر سمیت دنیا کے بیشتر ممالک میں رمضان کے ابتدائی ایام میں روزے کا دورانیہ تقریباً 13 گھنٹے ہوگا۔.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے رویت ہلال کمیٹی رمضان المبارک چاند کی رویت کے مطابق فروری کو مارچ کو
پڑھیں:
عرب جذبے کے انتظار میں
اسلام ٹائمز: ماضی میں بھی یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ جب بھی اسلامی ممالک نے آپس میں متحد ہو کر ایک فوجی اتحاد تشکیل دیا تو اس کے نتیجے میں اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم بھی پیچھے ہٹنے پر مجبور ہو گئی۔ مثال کے طور پر 1973ء میں ماہ مبارک رمضان کی جنگ میں مصر اور شام آپس میں متحد ہوئے اور انہوں نے مل کر اسرائیل کا مقابلہ کیا جس کے نتیجے میں کینال سویز پر مصر کی رٹ بھی قائم ہوئی اور صیہونی رژیم کی جنگی مشینری بھی رک گئی۔ آج بھی خطے میں موجود صلاحیتوں کو بروئے کار ہوتے ہوئے ایک علاقائی فوجی اتحاد تشکیل پانا چاہیے تاکہ اس طرح اسلامی دنیا کی دفاعی طاقت بھی بحال ہو اور ہر قسم کی جارحیت کا سدباب بھی کیا جا سکے۔ امریکہ کا مشہور تجزیہ کار جرج فریڈمین بھی کہتا ہے کہ اسرائیل مغربی ایشیا میں امریکہ کا اسٹریٹجک اتحادی ہے اور امریکہ ہر گز اس کے مقابلے میں عرب ممالک کو ترجیح نہیں دے گا۔ تحریر: سید رضا حسینی
دوحا شہر پر غاصب صیہونی رژیم کی فوجی جارحیت کے آثار ختم ہونے سے پہلے پہلے قطر کے حکمران تل ابیب کی فوجی مہم جوئی کی روک تھام کے لیے عرب اسلامی اتحاد کی اہمیت ہر وقت سے زیادہ محسوس کرنے لگے ہیں۔ آل ثانی خاندان نے امریکی فوجیوں کی میزبانی کر کے ان سے ہر قسم کی فوجی جارحیت کا مقابلہ کرنے کی امیدیں لگا رکھی تھیں لیکن اسرائیلی حملے کے بعد اب انہوں نے اپنی پالیسی تبدیل کی ہے اور گروہی سلامتی کے اصول پر کاربند ہو چکے ہیں۔ اسی سلسلے میں قطر کی وزارت خارجہ نے اعلان کیا ہے کہ پیر کے دن عرب اور اسلامی ممالک کا ہنگامی اجلاس دوحا میں منعقد کیا جائے گا جس میں قطر پر اسرائیلی جارحیت کا جائزہ لیا جائے گا اور مستقبل میں ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے مناسب راہ حل تلاش کیا جائے گا۔
خلیجی ریاستوں کی جانب سے قومی سلامتی کے تحفظ کے لیے امریکہ کی فوجی طاقت پر اعتماد کرنے کا تجربہ ناکام ہو جانے کے بعد اسلامی جمہوریہ ایران کی اعلی قومی سلامتی کونسل کے سیکرٹری جنرل علی لاریجانی نے ایکس پر اپنے ایک پیغام میں اس بات پر زور دیا ہے کہ قطر کے دارالحکومت دوحا میں منعقد ہونے والے عرب اسلامی سربراہی اجلاس میں صرف زبانی کلامی حد تک اسرائیل کی مذمت نہ کی جائے ورنہ اسرائیل کے جارحانہ اقدامات جاری رہیں گے۔ انہوں نے اپنے پیغام میں مزید لکھا: "صیہونی جنون کے مقابلے میں ایک مشترکہ آپریشن روم تشکیل پانا چاہیے۔" علی لاریجانی نے مزید لکھا: "یہی فیصلہ صیہونی رژیم کے مالک کو تشویش میں مبتلا کر دے گا اور وہ عالمی امن قائم کرنے اور نوبل انعام حاصل کرنے کی خاطر ہی سہی صیہونی رژیم کو ایسے مزید اقدامات انجام دینے سے روکے گا۔"
اتحاد یا نابودی
دوسری جنگ عظیم کے بعد سے مغربی ایشیا پر استعماری طاقتوں کے قبضے اور اثرورسوخ کے باعث عرب اسلامی ممالک اب تک گروہی تحفظ تشکیل دینے میں ناکام رہے ہیں جس کے باعث یہ خطہ عام طور پر مغربی اور مشرقی طاقتوں کے درمیان رسہ کشی کا میدان بنا رہا ہے۔ سرد جنگ کے دوران امریکہ نے سینٹکام (مغربی ایشیا میں امریکہ کی مرکزی فوجی کمان) کے ذریعے خطے کی سلامتی یقینی بنانے کا نظریہ پیش کیا جو آج تک جاری تھا۔ عرب حکمرانوں کا تصور تھا کہ وہ امریکہ کو اپنے اپنے ملک میں فوجی اڈے بنانے کی اجازت دے کر اپنی قومی سلامتی بھی یقینی بنا سکتے ہیں اور یوں کمزور فوج اور فوجی طاقت کا بھی ازالہ کر سکتے ہیں۔ لیکن قطر کے دارالحکومت دوحا پر حالیہ اسرائیلی جارحیت نے انہیں غفلت کی نیند سے بیدار کر دیا ہے۔
آج عرب حکمرانوں پر واضح ہو گیا ہے کہ امریکہ صرف اس وقت تک ان کا دفاع کرے گا جب تک اس کے اپنے مفادات اس بات کا تقاضا نہ کریں کہ عرب ممالک کی قومی سلامتی خطرے میں پڑے۔ لہذا جیسے ہی اسرائیل نے ایک عرب ملک کو فوجی جارحیت کا نشانہ بنانے کا منصوبہ بنایا تو اس ملک میں موجود امریکہ کا جدید ترین میزائل دفاعی نظام خاموش تماشائی بنا رہا اور اسرائیلی میزائل اپنے مطلوبہ اہداف کو نشانہ بناتے رہے۔ وال اسٹریٹ جرنل اپنی ایک رپورٹ میں لکھتا ہے: "اسرائیلی میزائل بحیرہ احمر کے مشرقی ساحل سے اسرائیلی جنگی طیاروں کے ذریعے فائر کیے گئے تھے لہذا اسرائیل نے سعودی عرب کی فضائی حدود کی بھی خلاف ورزی کی ہے۔ سعودی عرب ایسا ملک ہے جو طوفان الاقصی آپریشن سے کچھ دن پہلے تک اسرائیل سے تعلقات معمول پر لانے کے لیے بالکل تیار کھڑا تھا۔ لہذا اسرائیل کے اقدامات نے خلیجی ریاستوں پر بھی اتحاد کی اہمیت واضح کر دی ہے۔"
دنیا کے مسلمانو متحد ہو جاو
ایران کی اعلی قومی سلامتی کونسل کے سیکرٹری جنرل علی لاریجانی نے جو وارننگ جاری کی ہے وہ منافقت اور اجنبی طاقتوں پر تکیہ ختم کر کے آپس میں متحد ہو جانے کی ضرورت پر مبنی ہے۔ گذشتہ چند سالوں سے اسلامی ممالک کے متعدد اجلاس منعقد ہو چکے ہیں لیکن وہ غزہ میں جاری فلسطینیوں کی نسل کشی اور غزہ کے خلاف ظالمانہ محاصرہ ختم کرنے میں کیوں ناکامی کا شکار ہوئے ہیں؟ اس کی واحد وجہ اسلامی ممالک کا آپس میں متحد نہ ہونا اور اپنے دفاع اور سیکورٹی امور کے لیے اجنبی طاقتوں پر تکیہ کرنا ہے۔ اسلامی ممالک اور اسلامی دنیا کی دفاعی طاقت کا ایک ہی راز ہے اور وہ خطے کی سطح پر دفاعی اتحاد اور اداروں کی تشکیل ہے۔ صرف اسی صورت میں اسرائیل کی سرکش اور وحشی صیہونی رژیم کو بھی لگام دیا جا سکتا ہے۔
ماضی میں بھی یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ جب بھی اسلامی ممالک نے آپس میں متحد ہو کر ایک فوجی اتحاد تشکیل دیا تو اس کے نتیجے میں اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم بھی پیچھے ہٹنے پر مجبور ہو گئی۔ مثال کے طور پر 1973ء میں ماہ مبارک رمضان کی جنگ میں مصر اور شام آپس میں متحد ہوئے اور انہوں نے مل کر اسرائیل کا مقابلہ کیا جس کے نتیجے میں کینال سویز پر مصر کی رٹ بھی قائم ہوئی اور صیہونی رژیم کی جنگی مشینری بھی رک گئی۔ آج بھی خطے میں موجود صلاحیتوں کو بروئے کار ہوتے ہوئے ایک علاقائی فوجی اتحاد تشکیل پانا چاہیے تاکہ اس طرح اسلامی دنیا کی دفاعی طاقت بھی بحال ہو اور ہر قسم کی جارحیت کا سدباب بھی کیا جا سکے۔ امریکہ کا مشہور تجزیہ کار جرج فریڈمین بھی کہتا ہے کہ اسرائیل مغربی ایشیا میں امریکہ کا اسٹریٹجک اتحادی ہے اور امریکہ ہر گز اس کے مقابلے میں عرب ممالک کو ترجیح نہیں دے گا۔