Islam Times:
2025-11-03@14:56:40 GMT

ٹرمپ کی یکہ تازیاں اور یورپ پر اس کے اثرات

اشاعت کی تاریخ: 28th, February 2025 GMT

ٹرمپ کی یکہ تازیاں اور یورپ پر اس کے اثرات

اسلام ٹائمز: یورپ کو اب تک یوکرین جنگ کا بھاری تاوان ادا کرنا پڑا ہے اور وہ اپنی معیشت، سلامتی اور حتی سیاسی عمل اور حکمرانی کو خطرے کا شکار محسوس کر رہا ہے۔ جرمنی، ہالینڈ، برطانیہ اور فرانس جنہوں نے تین سال پہلے یوکرین جنگ میں اہم کردار ادا کیا تھا اب ڈونلڈ ٹرمپ کے برتاو کو امریکہ اور یورپ کے تعلقات میں فیصلہ کن موڑ قرار دے رہے ہیں۔ خاص طور پر یہ کہ امریکہ کی جانب سے یورپ کے خلاف نئی ٹیکس پالیسی نے درآمدات پر منحصر جرمنی اور یورپ کی معیشت کو ایک نئے دھچکے کا شکار کر دیا ہے۔ یورپ جو نیٹو کے خاتمے کا انتظار کر رہا ہے اب ایک بار پھر یورپی دفاعی اتحاد تشکیل دینے کے بارے میں سوچنے لگا ہے۔ اس کی نظر میں ٹرمپ کی جانب سے یورپ کو نظرانداز کر کے روس سے براہ راست مذاکرات انجام دینے کا مطلب یورپ کو روس سے درپیش خطرات کے مقابلے میں اکیلا چھوڑ دینا ہے۔ تحریر: ہادی محمدی
 
ڈونلڈ ٹرمپ نے صدارتی امیدوار کی حیثیت سے اپنی الیکشن کمپین میں یوکرین جنگ جلد از جلد ختم کرنے کا نعرہ لگایا تھا۔ دوسری طرف اس نے بھرپور انداز میں یکطرفہ انداز اپنا رکھا ہے جس کے باعث اس نعرے کو عملی جامہ پہنانے میں شدید رکاوٹوں کا سامنا ہو رہا ہے۔ یوں دکھائی دیتا ہے کہ یوکرین جنگ کا خاتمہ مناسب حالات کا محتاج ہے اور کسی اور وقت انجام پائے گا۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور روسی صدر ولادیمیر پیوتن کے درمیان ٹیلی فونک مذاکرات انجام پا چکے ہیں جبکہ سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں بھی روسی اور امریکی حکام کے درمیان چار گھنٹے تک ملاقات اور بات چیت ہوئی ہے۔ روسی صدر ولادیمیر پیوتن نے ان مذاکرات کو دوطرفہ اعتماد بحال کرنے کی کوشش قرار دی ہے۔ دوسری طرف یوکرین کے صدر زیلنسکی اور یورپی یونین نے اس پر فوری ردعمل ظاہر کیا ہے۔
 
پیرس اجلاس میں یوکرینی صدر اور یورپی حکام نے ٹرمپ کی پالیسیوں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے یوکرین کی حمایت اور روس سے ہر قسم کے مذاکرات میں یورپ کی شرکت پر زور دیا ہے۔ روسی اور امریکی حکام کے درمیان ملاقات یا روسی صدر اور امریکی صدر کے درمیان ٹیلی فونک مذاکرات نے عملی طور پر یوکرین اور یورپ کو پوری طرح نظرانداز کر دیا ہے۔ اس ملاقات میں دوطرفہ دلچسپی کے معاملات اور یوکرین جنگ کے خاتمے کے لیے ضروری مقدمات نیز روسی صدر ولادیمیر پیوتن کی نظر میں ریڈ لائنز پر بات چیت ہوئی ہے۔ روس کی نظر میں یوکرین کے مشرقی علاقے روس میں ضم ہو جانے چاہئیں اور یوکرین پر بھی کسی یونین یا فوجی اتحاد میں شمولیت اختیار کرنے پر پابندی ہو گی۔ اسی طرح روس نے یہ شرط بھی پیش کی ہے کہ یوکرین میں کسی مغربی ملک کی فوج تعینات نہیں کی جائے گی جبکہ ٹرمپ نے یہ شرطیں قبول کی ہیں۔
 
ڈونلڈ ٹرمپ کی نظر میں یوکرین جنگ کی موجودہ صورتحال ایسی نہیں جس کے ذریعے اصل مقصد حاصل کیا جا سکتا ہو جو روس کو گھٹنے ٹیک دینے پر مجبور کرنے پر مشتمل ہے۔ ٹرمپ اس بات پر زور دیتا ہے کہ یورپ اپنی جی ڈی پی کا پانچ فیصد حصہ یوکرین کی مدد کے لیے مختص کر دے اور یہ مدد مغربی فوجی اتحاد نیٹو کے ذریعے کرے۔ دوسری طرف یورپ اس وقت مختلف قسم کے اقتصادی بحرانوں سے روبرو ہے جنہوں نے عملی طور پر یورپ کی سلامتی کو شدید چیلنج سے روبرو کر دیا ہے۔ امریکہ روس سے دوطرفہ تعلقات میں اپنے اسٹریٹجک مفادات حاصل کرنے کے درپے ہے اور اسی طرح ان وسیع اخراجات سے بچنا چاہتا ہے جو جنگ جاری رہنے کی صورت میں امریکہ اور یورپ کو برداشت کرنا پڑیں گے۔
 
درحقیقت امریکہ کو درپیش مالی اور اقتصادی بحران ڈونلڈ ٹرمپ کی ان نئی پالیسیوں کا باعث بنا ہے جن کے نتیجے میں بہت سے اندرونی ادارے بند ہو جائیں گے اور عالمی سطح پر امریکہ بہت سے ممالک کو دی جانے والی امداد بھی روک دے گا۔ اگرچہ روس نے ریاض میں انجام پانے والے امریکہ اور روس کے درمیان مذاکرات یا ٹرمپ اور پیوتن کے درمیان ٹیلی فونک بات چیت کا خیر مقدم کیا ہے لیکن وہ یوکرین میں جنگ بندی کا مطالبہ قبول نہیں کر رہا اور ایک ایسے وسیع معاہدے کی تلاش میں ہے جس میں یوکرین میں تین سال سے جاری جنگ کے تمام پہلووں کا جائزہ لیا جائے گا۔ روس بات چیت اور مذاکرات کے ذریعے امریکہ سے موجود مختلف تنازعات جیسے قطب شمالی، انرجی، عدالتی امور، امریکہ میں منجمد شدہ اثاثے، دوطرفہ سرکاری تعلقات وغیرہ حل کرنے کا خواہاں ہے۔
 
یورپ کو اب تک یوکرین جنگ کا بھاری تاوان ادا کرنا پڑا ہے اور وہ اپنی معیشت، سلامتی اور حتی سیاسی عمل اور حکمرانی کو خطرے کا شکار محسوس کر رہا ہے۔ جرمنی، ہالینڈ، برطانیہ اور فرانس جنہوں نے تین سال پہلے یوکرین جنگ میں اہم کردار ادا کیا تھا اب ڈونلڈ ٹرمپ کے برتاو کو امریکہ اور یورپ کے تعلقات میں فیصلہ کن موڑ قرار دے رہے ہیں۔ خاص طور پر یہ کہ امریکہ کی جانب سے یورپ کے خلاف نئی ٹیکس پالیسی نے درآمدات پر منحصر جرمنی اور یورپ کی معیشت کو ایک نئے دھچکے کا شکار کر دیا ہے۔ یورپ جو نیٹو کے خاتمے کا انتظار کر رہا ہے اب ایک بار پھر یورپی دفاعی اتحاد تشکیل دینے کے بارے میں سوچنے لگا ہے۔ اس کی نظر میں ٹرمپ کی جانب سے یورپ کو نظرانداز کر کے روس سے براہ راست مذاکرات انجام دینے کا مطلب یورپ کو روس سے درپیش خطرات کے مقابلے میں اکیلا چھوڑ دینا ہے۔
 
گذشتہ دو ماہ کے دوران ٹرمپ کے سیاسی بیانات اور اقدامات کا جائزہ لینے سے شاید یوں محسوس ہو کہ یوکرین میں جنگ ختم ہو جانے کے بعد ممکن ہے کچھ مدت تک امریکہ اور روس کے درمیان کچھ حد تک پرسکون حالات جنم لیں لیکن یورپ اور روس کے درمیان موجود سیکورٹی اور اقتصادی تضادات اس قدر شدید ہیں کہ وہ فوری طور پر حل نہیں ہو سکتے۔ اس کشمکش میں سب سے بڑی ہار یوکرین کو ہو گی جس کی سرزمین اور تشخص ختم ہو کر رہ جائے گا۔ ڈونلڈ ٹرمپ ایک وسیع حل کے درپے ہے اور تمام مشکلات حل کرنا چاہتا ہے جبکہ روسی صدر نے اس کے سامنے جو شرائط رکھی ہیں وہ پوری ہونے کے لیے طویل مدت کی محتاج ہیں۔ یوں روس اور امریکہ کے درمیان برف پگھلنے کا امکان پایا جاتا ہے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: کی جانب سے یورپ یوکرین میں امریکہ اور یوکرین جنگ ڈونلڈ ٹرمپ میں یوکرین کی نظر میں کے درمیان کر رہا ہے کر دیا ہے اور یورپ ٹرمپ کی اور روس بات چیت کا شکار یورپ کی یورپ کو یورپ کے ہے اور

پڑھیں:

ممکنہ تنازعات سے بچنے کے لیے امریکا اور چین کے درمیان عسکری رابطوں کی بحالی پر اتفاق

امریکا اور چین نے کسی بھی ممکنہ تنازع یا غلط فہمی کو کم کرنے کے لیے فوج سے فوج کے براہِ راست رابطے بحال کرنے پر اتفاق کیا ہے۔

یہ فیصلہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور چینی صدر شی جن پنگ کی جنوبی کوریا میں ہونے والی تاریخی ملاقات کے بعد کیا گیا۔

امریکی وزیرِ دفاع پیٹ ہیگستھ نے بتایا کہ انہوں نے اپنے چینی ہم منصب ڈونگ جون سے فون پر بات چیت کے دوران یہ فیصلہ کیا، تاکہ دونوں ممالک کے درمیان تنازعات کو کم کرنے کے طریقہ کار قائم کیے جا سکیں۔

یہ بھی پڑھیے: ٹرمپ اور شی جن پنگ کی ملاقات کے اثرات آنا شروع، ٹرمپ نے چین پر عائد ٹیکس میں کمی کا اعلان کردیا

ہیگستھ کے مطابق دونوں رہنماؤں نے اتفاق کیا کہ امن، استحکام اور مضبوط تعلقات دونوں طاقتور ممالک کے مفاد میں ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ امریکا خطے میں طاقت کا توازن برقرار رکھنے کے لیے پرعزم ہے، جبکہ چین نے تائیوان کے معاملے پر واشنگٹن کو محتاط رہنے کا مشورہ دیا۔

یہ پیشرفت ایسے وقت میں ہوئی ہے جب گزشتہ برسوں میں بحیرہ جنوبی چین اور تائیوان آبنائے میں امریکی اور چینی افواج کے درمیان متعدد خطرناک تصادم کے واقعات پیش آئے تھے۔

ماہرین کے مطابق یہ عسکری رابطے دونوں ممالک کے درمیان غلط فہمیوں اور ممکنہ تصادم سے بچنے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

امریکا ٹرمپ چین شی جی پنگ فوجی رابطہ

متعلقہ مضامین

  • پاکستان، چین اور روس خفیہ طور پر ایٹمی ہتھیاروں کے تجربات کر رہے ہیں، ٹرمپ کا دعوی
  • پاکستان، چین اور روس خفیہ ایٹمی تجربات کر رہے ہیں، ٹرمپ کا دعویٰ
  • ایران اور امریکہ جوہری معاملے پر دوبارہ مذاکرات شروع کریں، بحرین
  • ممکنہ تنازعات سے بچنے کے لیے امریکا اور چین کے درمیان عسکری رابطوں کی بحالی پر اتفاق
  • خطرناک تر ٹرمپ، امریکہ کے جوہری تجربات کی بحالی کا فیصلہ
  • پینٹاگون کی یوکرین کو ٹوماہاک میزائل دینے کی منظوری
  • پینٹاگون نے یوکرین کو طویل فاصلے تک مار کرنیوالے ٹوماہاک میزائل فراہم کرنےکی منظوری دیدی
  • امریکہ، بھارت میں 10 سالہ دفاعی معاہدہ: اثرات دیکھ رہے ہیں، انڈین مشقوں پر بھی نظر، پاکستان
  • پاکستان نے امریکہ اور بھارت کے درمیان ہونے والے دفاعی معاہدے کا نوٹس لیا ہے، ترجمان دفتر خارجہ
  • روس کے یوکرین سے سخت مطالبات، پیوٹن ،ٹرمپ ملاقات منسوخ کردی گئی