ایم ڈی اے انتظامیہ عرفان بیگ پر قابو پانے میں ناکام
اشاعت کی تاریخ: 1st, March 2025 GMT
گریڈ پانچ کا ملازم گریڈ انیس کی تنخواہ اور مراعات کیسے لیتارہا، ڈی جی سے رپورٹ طلب
عرفان بیگ سے سرکاری ویگو ابھی تک ریکور نہیں کی جا سکی،پرانے ساتھی منہ موڑ نے لگے
ملیرڈیولپمنٹ اتھارٹی میں انتظامی تبدیلیوں کے باوجود عرفان بیگ نامی پانچ گریڈ کے میل ویکسی نیٹر پر قابو نہیں پایا جاسکا۔ اطلاعات کے مطابق نئی انتظامیہ کے لیے تاحال عرفان بیگ درد سر بنا ہوا ہے۔ عرفان بیگ سے سرکاری ویگو ابھی تک ریکور نہیں کی جا سکی۔ تفصیلات کے مطابق گریڈ پانچ کا ملازم آج کل اپنی کرپشن اور لینڈ گیربنگ کی وجہ سے بری طرح پھنسا پڑا ہے ۔عرفان بیگ نے دن رات اپنے ہی ادارے کو جن لوگوں کے باعث ٹیکا لگایا اور ایم ڈی اے کے الاٹیز کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ، وہ تمام عرفان بیگ سے منہ موڑ گئے ہیں اور عرفان بیگ کو بے یارو مددگار چھوڑ دیا ہے ۔ لوکل گورنمنٹ ڈیپارٹمنٹ نے کافی عرصے بعد لوکل گورنمنٹ پر احسان کرتے ہوئے ڈی جی ایم ڈی اے کو ایک مراسلہ جاری کیا، اس میں عرفان بیگ کی سروس اور 27 ؍فروری 2024 کو لوکل گورنمنٹ واپسی کے حوالے سے پوچھا گیا کہ ایک گریڈ پانچ کا ملازم گزشتہ دس ماہ سے کیسے گریڈ انیس کی تنخواہ اور مراعات غیر قانونی طریقے سے حاصل کرتا رہا اور اس غیر قانونی اقدام کی پوری رپورٹ ایم ڈی اے کے ڈائریکٹر جنرل سے طلب کی گئی ہے۔ ذرائع کے مطابق ایم ڈی اے کی طرف سے ابھی تک کوئی خاطر خواہ جواب لوکل گورنمنٹ کو موصول نہیں ہوا اور نہ ہی ابھی تک عرفان بیگ سے سرکاری ویگو لی گئی ہے جو ابھی تک عرفان بیگ کے زیر استعمال ہے۔ ذرائع کے مطابق عرفان بیگ25؍ جنوری 2025 والے لوکل گورنمنٹ ڈیپارٹمنٹ کے مراسلے کو لے کر کافی پریشان ہے اور بڑی بڑی آفر زکی جارہی ہیں کہ میری سروس سے متعلق ہاتھ ہلکا رکھا جائے ۔
.ذریعہ: Juraat
کلیدی لفظ: لوکل گورنمنٹ عرفان بیگ سے ایم ڈی اے کے مطابق ابھی تک
پڑھیں:
جنوبی ایشیا میں زندان میں تخلیق پانے والے ادب کی ایک خاموش روایت
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 23 جولائی 2025ء) جنوبی ایشیا میں جیلیں صرف قید و بند کی جگہیں نہیں رہیں، یہ تاریخ کے وہ خاموش گوشے بھی ہیں جہاں کئی نسلوں کے سیاسی خواب، جدوجہد، اذیتیں اور اصولی اقدار کاغذ پر منتقل ہوتے رہے ہیں۔ جیل کے سناٹے میں لکھی گئی یہ تحریریں نہ صرف فرد کی مزاحمت کا بیانیہ ہیں، بلکہ پورے عہد کا عکاس بھی۔
برصغیر میں زندان ادب یا زندانوں میں تخلیق پانے والے ادب کی روایت نے آزادی کی تحریک کے دوران جڑ پکڑی، جب برطانوی راج کے خلاف اٹھنے والی آوازوں کو جیل کی دیواروں کے پیچھے دھکیل دیا گیا۔ نہرو، گاندھی، بھگت سنگھ اور خان عبدالغفار خان جیسے رہنماؤں نے جیل کو ایک فکری خلا کے بجائے تخلیق کا میدان بنایا۔ لاہور جیل میں بھگت سنگھ کی مشہور تحریر ’وائے آئی ایم این ایتھیئسٹ‘ ہو یا خان عبدالغفار خان کی خود نوشت 'مائی لائف مائی اسٹرگل‘ یہ تحریریں آج بھی وقت سے ماورا سچ بولتی ہیں۔
(جاری ہے)
کتاب سے اسکرین تک، ادب کی بے ادبی
پاکستان میں تخلیقی عمل اور جدت پسندی کے فقدان کے اسباب
آزادی کے بعد سیاسی جبر کی شدت کم ہوئی، اور یوں جیل ادب بھی طویل وقفے میں داخل ہو گیا۔ مگر پھر 1975ء میں بھارت میں اس وقت کی وزیر اعظم اندرا گاندھی کی طرف سے لگائی گئی ایمرجنسی نے اسے دوبارہ جنم دیا۔ صحافی کلدیپ نئیر نے اپنی اسیری کی کہانی ’اِن جیل ایمرجنسی ری ٹولڈ‘ میں لکھی، جبکہ جے پرکاش نارائن اور لال کرشن اڈوانی جیسے سیاستدانوں نے بھی جیل کو اپنے فکری سفر کا سنگ میل بنایا۔
پاکستان میں چونکہ آمریت اور مارشل لا کے ادوار آتے جاتے رہے، اس لیے وہاں زندانوں میں تخلیق پانے والے ادب کا سفر جاری رہا۔
پاکستانی فوجی سربراہ ایوب خان کے 1958ء سے 1969ء تک جاری رہنے والے مارشل لا کے دوران فیض احمد فیض نے ’زندان نامہ‘ اور ’دست صبا‘ جیسی شاہکار شاعری تخلیق کی۔
اسی طرح جنرل ضیا الحق کی طرف سے لگائے گئے مارشل لاء کے دوران ذوالفقار علی بھٹو کی جیل ڈائریاں اور کتابیں منظر عام پر آئیں، جو انہوں نے موت کی سزا کا انتظار کرتے ہوئے جیل کی سلاخوں کے پیچھے لکھیں۔
اکیسویں صدی میں بھارت میں جب ایک بار پھر صحافیوں، کارکنوں اور سیاستدانوں پر ریاستی شکنجہ کسنے لگا، جیل ادب نے ایک نئی کروٹ لی۔ ممبئی کے استاد عبدالوحید شیخ نے، جو 2006ء کے ٹرین دھماکوں کے جھوٹے الزام میں نو برس تک قید و بند میں رہے نہ صرف اپنی روداد لکھی، بلکہ انہوں نے دیگر جیل ڈائریوں اور جیل ادب کو یکجا کر کے ان پر ڈاکٹریٹ کےلیے مقالہ بھی لکھا۔
حال ہی میں ان کو ایک یونیورسٹی نے انہیں اس کاوش کے لیے ڈاکٹریٹ سے نوازا۔عبدالوحید شیخ کے مطابق، ’’جیل کے اندر نعت، حمد، نظم، غزل، ڈائری اور خودنوشت تک ہر صنف کو برتا گیا ہے۔ یہ ادب یا تو دل سے نکلا ہوا جذباتی اظہار ہے یا مزاحمت کی پرزور صدا۔‘‘
وہ مزید کہتے ہیں، ’’یہ بھارت کی بدقسمتی ہے کہ آزادی کے بعد ایسے قیدیوں کی تحریروں کو وہ مقام نہیں دیا گیا جن پر ریاست نے ملک مخالف قوانین تھوپے۔
‘‘سینئر صحافی افتخار گیلانی نے، جو 2002ء میں آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت نو ماہ قید میں رہے، 1975ء کے بعد بھارت میں قید و بند کے حوالے سے پہلی یاداشت لکھی۔ ان کی انگریزی کتاب 'مائی ڈیز اِن پریزن‘ 2005ء میں جبکہ اس کا اردو ورژن ’تہاڑ میں میرے شب و روز‘ 2006ء میں منظر عام پر آئی۔
قید خانے میں تخلیق پانے والے ادب کے بارے میں وہ کہتے ہیں، ’’ایمرجنسی کے بعد تین دہائیوں تک جیل ادب جیسے خاموش ہو گیا تھا، مگر اب جب پھر سے اختلافِ رائے کو جرم بنا دیا گیا ہے، یہ روایت پھر سے زندہ ہو رہی ہے۔
‘‘اسی سلسلے میں سدھا بھردواج، جی این سائبابا اور ڈاکٹر بنائک سین، کوبڈ گاندھی جیسے سماجی کارکنوں نے بھی اپنی قید کی کہانیاں قلمبند کی ہیں، جو صرف ذاتی اذیت کی داستانیں نہیں بلکہ ریاست اور فرد کے بیچ جاری کشمکش کا آئینہ بھی ہیں۔
جنوبی ایشیا کا زندان ادب دراصل ان آوازوں کا مجموعہ ہے جنہیں دبانے کی کوشش کی گئی، مگر مرزا غالب کے اس شعر کے مصداق:
پاتے نہیں جب راہ تو چڑھ جاتے ہیں نالے
رکتی ہے میری طبع تو ہوتی ہے رواں اور
جیلوں اور قید خانوں کی دیواریں ان آوازوں کو قید رکھنے میں ناکام رہیں۔ یہ صرف قیدیوں کا ادب نہیں، یہ گواہی ہے اس سچ کی جسے طاقت نے بارہا قید کرنے کی کوشش کی، مگر ہر بار قلم نے آزاد کیا۔