حکومت سندھ کا پرنٹڈ شاپنگ بیگ کے پیسے وصول کرنے والی کمپنیوں، دکانداروں کیخلاف کارروائی کا فیصلہ
اشاعت کی تاریخ: 1st, March 2025 GMT
حکومت سندھ نے کراچی سمیت صوبہ بھر کے شہریوں سے پرنٹ شدہ لوگو والے شاپنگ بیگ کے پیسے وصول کرنے والی کمپنیز اور دکانداروں کے خلاف سخت کارروائی کا فیصلہ کیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق یہ فیصلہ کراچی کے شہری سے ایک نجی کمپنی کی جانب سے پرنٹ شدہ لوگو والے شاپنگ بیگ کے پیسے وصول کرنے کی شکایت پر کیا گیا۔
اس سلسلے میں محکمہ زراعت سندھ کے بیورو آف سپلائی پرائسز کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر میر شاہنواز کا کہنا تھا کہ کراچی کے شہری نے پرنٹ شدہ لوگو والے شاپنگ بیگ کے پیسے وصول کرنے کے خلاف ایک نجی کمپنی کے خلاف شکایت درج کرائی تھی جس پر کمپنی کو نوٹس جاری کیا گیا مگر کمپنی جواب دینے میں ناکامی رہی۔
رپورٹ کے مطابق شکایت ڈسٹرکٹ کنزیومرپروٹیکشن کورٹ ساؤتھ کراچی میں جمع کردی گئی جس کا کنزیومرپروٹیکشن کورٹ ساؤتھ میں کیس کا آغاز 6 مارچ کو ہوگا۔
شکایت درج کرانے والے شہری کا کہنا تھا کہ نجی کمپنی کی دکان سے جوتوں کا ایک جوڑا خریدا تھا جس پر مجھ سے شاپنگ بیگ کے 30 روپے اضافی وصول کیے گئے جو کہ غیر قانونی ہے۔
شہری نے بتایا کہ اس سے متعلق وزیراعظم پورٹل پر شکایت درج کروائی تھی جس پرمحکمہ بیوروآف سپلائی سندھ نےنوٹس لیتےہوئےکاروائی کا آغاز کردیا ہے۔
.ذریعہ: Express News
پڑھیں:
لیاقت آباد،فرنیچر اور کپڑا مارکیٹ کے دکانداروں کا لوڈ شیڈنگ کیخلاف احتجاج،مرکزی شاہراہ بند
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
250916-02-25
کراچی (اسٹاف رپورٹر) لیاقت آباد کے فرنیچر اور کپڑا مارکیٹ کے دکانداروں اور فرنیچر فیکٹری مالکان نے بجلی کی طویل اور بار بار ہونے والی لوڈ شیڈنگ کے خلاف شدید احتجاج کرتے ہوئے ڈاکخانہ چورنگی سے لیاقت آباد نمبر 10 جانے والی مرکزی شاہراہ بند کردی، جس سے علاقے کی تجارتی زندگی اور ٹریفک بدستور معطل رہی۔ احتجاجی رہنماؤں اور دکانداروں کا مؤقف ہے کہ گزشتہ کئی ہفتوں سے بجلی کی غیر متوقع بندش نے فروخت، پیداواری عمل اور ملازمین کی موجودگی کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ فرنیچر فیکٹریاں پیداوار روکنے پر مجبور ہیں اور کپڑے کے تاجروں نے کہا کہ گاہک بازار آنے سے خوفزدہ ہیں جس کے باعث روزانہ کا کاروبار دھڑام سے کم ہو گیا ہے۔ ایک نام ظاہر نہ کرنے والے دکاندار نے کہا ہم روزانہ کے اخراجات اور مزدوروں کی تنخواہوں کا حساب لگا کر چلتے ہیں۔ طویل لوڈ شیڈنگ کے سبب ہماری زندگیاں گُھٹ کر رہ گئی ہیں۔ مظاہرین نے انتظامی ٹیم کو متنبہ کیا کہ اگر مسئلے کا فوری حل نہ نکالا گیا اور نقصانات کا ازالہ نہ کیا گیا تو احتجاج کو مزید تیزی سے وسعت دیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ کئی دکاندار جنریٹر چلانے کی استطاعت نہیں رکھتے، جب کہ جنریٹر چلانے والوں پر ایندھن کا بوجھ بڑھ گیا ہے اور گاہکوں کی آمد نہ ہونے کے باعث سرمایہ کاری کے اخراجات پورے نہیں ہو رہے۔ پولیس نے احتجاج کے دوران مرکزی شاہراہ پر نفری تعینات کی اور راستے کو خالی کرانے کی کوششیں کیں، تاہم چند گھنٹوں تک اہم راستہ بند رہا جس سے شہریوں کو جدوجہد کرنا پڑی۔ علاقہ مکینوں نے احتجاج کی حمایت بھی کی اور کہا کہ روزانہ کی بنیاد پر لوڈ شیڈنگ کی طوالت بچوں، بزرگوں اور کاروبار کو نقصان پہنچا رہی ہے۔ دکانداروں نے مطالبہ کیا کہ بجلی کی مستقل اور شیڈولڈ فراہمی کو یقینی بنایا جائے، متاثرہ تاجروں کو وقتی مالی امداد یا ریلیف پیکج دیا جائے۔ جن علاقوں میں فریکوئنسی/ٹرانسفارمر مسائل ہیں‘ ان کی فوری مرمت ہو، طویل مدتی حل کے لیے حکام اور اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ باقاعدہ مذاکرات ہوں۔ حکومتی یا بجلی فراہم کرنے والے محکمے کی جانب سے تاحال احتجاج کے حوالے سے باضابطہ بیان سامنے نہیں آیا۔ پولیس نے کہا ہے کہ ہفتے کے اندر اگر حکام کو کوئی حل نہ ملا تو حالات کے مطابق احتجاج کو منطقی شکل دی جائے گی۔ شہریوں نے متبادل راستے اختیار کیے اور حکومتِ سے فوری مداخلت کا مطالبہ کیا۔ مظاہرین اور دکانداروں نے اعلان کیا ہے کہ وہ متعلقہ محکموں سے باضابطہ میٹنگ کا انتظار کریں گے، بصورتِ دیگر احتجاج کو بڑھائیں گے۔