دنیا ایک تھیٹر اور ایک جنگ زدہ ہیرو
اشاعت کی تاریخ: 3rd, March 2025 GMT
وائٹ ہاؤس کا اوول آفس، جہاں کبھی بڑی طاقتوں کے فیصلے ہوا کرتے تھے، ایک منفرد مکالمے کا گواہ تھا۔ میز کے ایک طرف ڈونلڈ ٹرمپ بیٹھے تھے، اپنی روایتی بے باکی اور خود پسندی کے ساتھ، اور دوسری طرف وولودیمیر زیلنسکی، ایک ایسا صدر جس کی سیاست کا دارومدار مغرب کی حمایت پر ہے۔
ٹرمپ نے کہا ” مسٹر زیلنسکی! پھر وہی پرانی کہانی؟ پیسے، ہتھیار، اور تھوڑی سی ہمدردی؟“
زیلنسکی نے مسکراتے ہوئے جواب دیا، لیکن اس مسکراہٹ میں ایک چبھتا ہوا طنز بھی تھا، ”مسٹر ٹرمپ، جنگ صرف میدانِ جنگ میں نہیں لڑی جاتی، سفارتی میز پر بھی اسی طرح کی چالاکی درکار ہوتی ہے جیسے کسی ریئلٹی شو میں۔ اور آپ تو اس کھیل کے ماسٹر ہیں! “
ٹرمپ نے قہقہہ لگایا، کندھے اچکائے، اور بولا” دیکھو، میں نے پہلے بھی کہا تھا، میں امریکہ کو چیریٹی ہاؤس کے طور پر نہیں چلاتا۔ اگر کوئی ڈیل کرنی ہے، تو کچھ دو، کچھ لو! “
زیلنسکی کی نظریں لمحہ بھر کے لیے ٹرمپ کی طرف جمی رہیں، پھر وہ آہستہ سے بولے: ” اگر یوکرین کو مضبوط رکھا جائے، تو امریکہ کی عالمی طاقت کی کہانی قائم رہے گی۔ لیکن اگر ہم کمزور پڑ گئے، تو شاید آپ کو مستقبل میں ایک اور حقیقت پسندانہ شو دیکھنا پڑے، جہاں روس اگلا کردار ہوگا! “
کمرے میں ایک لمحے کے لیے خاموشی چھا گئی۔ ٹرمپ کے چہرے پر وہی پرانی مسکراہٹ تھی، جیسے وہ سیاست کو بھی ایک کاروباری معاہدے کے طور پر دیکھ رہے ہوں۔ زیلنسکی نے اپنی بات جاری رکھی:
”ہاں، میں جانتا ہوں کہ آپ امریکہ کو سب سے پہلے رکھتے ہیں، لیکن یاد رکھیں، کبھی کبھی دوسروں کی بقا میں ہی آپ کی طاقت پوشیدہ ہوتی ہے۔“
برطانیہ میں زیلنسکی کا ایک فاتح کی طرح استقبال دیکھا تو مجھے حیرانگی اور تھوڑی سی خوشی بھی ہوئی۔
وائٹ ہاؤس میں یہ ٹھنڈی اور کاروباری ملاقات جیسے ہی ختم ہوئی، زیلنسکی لندن روانہ ہوگئے۔ لندن، جہاں استقبال کا رنگ اور تھا—یہاں وہ صرف ایک جنگ زدہ ملک کے صدر نہیں، بلکہ ایک مزاحمت کی علامت سمجھے جا رہے تھے۔
ہیتھرو ایئرپورٹ پر قدم رکھتے ہی برطانوی حکام، پارلیمنٹ کے ممبران، اور میڈیا کے نمائندے استقبال کے لیے موجود تھے۔ بینرز پر لکھا تھا:
“Glory to Ukraine!”
یہ وہی لندن تھا جہاں چرچل نے جنگِ عظیم دوم کے دوران جرمنی کے خلاف تاریخی مزاحمت کی تھی، اور آج وہی روح زیلنسکی کے گرد لپٹی محسوس ہو رہی تھی۔ بکھری ہوئی وردی، چہرے پر تھکن کے آثار، لیکن آنکھوں میں وہی چمک—یہی زیلنسکی کی طاقت تھی۔
جب وہ برطانوی وزیرِ اعظم سے ملے، تو ان کی آنکھوں میں ایک خاص اعتماد تھا۔ برطانیہ، جو ہمیشہ بڑی جنگوں میں کسی نہ کسی طور پر شامل رہا ہے، آج یوکرین کے اس رہنما کو ایک ہیرو کے طور پر پیش کر رہا تھا۔
پارلیمنٹ میں ان کی تقریر کو ایسے سُنا گیا جیسے وہ صرف یوکرین کے لیے نہیں، بلکہ جمہوریت کے مستقبل کے لیے بول رہے ہوں۔ وہ چرچل کی تاریخ کا حوالہ دیتے ہیں، اور کہتے ہیں:
”ہم بھی وہی جنگ لڑ رہے ہیں جو برطانیہ نے کئی دہائیوں قبل لڑی تھی—آزادی کی جنگ! “
ہال تالیوں سے گونج اٹھا، یہ زیلنسکی کی سفارتی جیت تھی۔ ایک ایسا لیڈر، جسے وائٹ ہاؤس میں عملی حمایت نہیں ملی، مگر لندن میں اسے ایک ہیرو کے طور پر قبول کیا گیا۔
اختتامیہ: سیاست، جنگ اور تماشہیہ ملاقاتیں ہمیں کیا سکھاتی ہیں؟
ٹرمپ کے لیے یہ سب محض ایک ڈیل تھی، جب کہ زیلنسکی کے لیے یہ بقا کی جنگ۔ برطانیہ میں وہ ایک مزاحمت کار کے طور پر دیکھے گئے، جب کہ امریکہ میں ایک مدد کے طلبگار۔ سیاست کی بساط پر یہی فرق ہوتا ہے۔ کبھی آپ مہمانِ خصوصی ہوتے ہیں، اور کبھی صرف ایک درخواست گزار۔
لیکن تاریخ بتاتی ہے کہ سیاست میں کچھ بھی مستقل نہیں۔ آج ٹرمپ مسکراتے ہوئے زیلنسکی سے بات کر رہے تھے، کل شاید انہیں دوبارہ کسی اور موقع پر زیلنسکی سے ہاتھ ملانا پڑے۔ شاید ایک مختلف منظر نامے میں، ایک مختلف طاقت کے ساتھ۔
دنیا ایک تھیٹر ہے، اور سیاست اس کا سب سے دلچسپ ڈرامہ
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: کے طور پر میں ایک کے لیے
پڑھیں:
جب جب بھارت کو پاکستان میں سبکی کا سامنا کرنا پڑا؟
پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی کی ایک طویل تاریخ ہے، جس میں کئی مواقع ایسے آئے جب بھارت نے جارحیت کی راہ اپنائی، مگر ہر بار پاکستان نے نہ صرف بھرپور دفاع کیا بلکہ بھارت کو ایسی شکست دی جس نے اسے عالمی سطح پر شرمندگی سے دوچار کیا۔ چند ایسے تاریخی لمحات کا جائزہ لیتے ہیں جب جب بھارت کو پاکستان کے ہاتھوں سبکی اٹھانا پڑی۔
1965 کی جنگ: بھارتی آرمی چیف کا خواب، لاہور میں چائے؟بھارتی آرمی چیف جنرل جے این چودھری نے 1965 کی جنگ سے پہلے دعویٰ کیا تھا کہ ہم شام کی چائے لاہور میں پئیں گے۔ لیکن پاک فوج نے ان کے خواب کو چکنا چور کر دیا۔ صرف لاہور ہی نہیں، سیالکوٹ، چونڈہ اور دیگر محاذوں پر بھی بھارتی فوج کو پسپا ہونا پڑا۔
چونڈہ کا میدان دنیا کی سب سے بڑی ٹینکوں کی لڑائیوں میں شمار ہوتا ہے، جہاں پاکستانی جوانوں نے بھارتی ٹینکوں کا قبرستان بنادیا تھا۔
ایم ایم عالم: 5 بھارتی جہاز، ایک منٹ میں تباہ7 ستمبر 1965 کو اسکواڈرن لیڈر محمد محمود عالم نے تاریخ رقم کی۔ انہوں نے F-86 سیبر طیارے میں سوار ہو کر صرف 60 سیکنڈ میں بھارتی فضائیہ کے 5 ہنٹر طیارے مار گرائے اور بھارتی فضائیہ کی کمر توڑ دی تھی۔
یہ کارنامہ آج بھی عالمی فضائی جنگی ریکارڈز میں ایک مثال کے طور پر درج ہے۔
ایٹمی دھماکے: چاغی کا گونجتا ہوا جواب11 اور 13 مئی 1998 کو بھارت نے پوکھران میں ایٹمی دھماکے کیے۔ وزیر اعظم واجپائی نے انہیں بھارت کی تاریخی کامیابی کہا اور احساس برتری میں پڑوسیوں کو چوکنا رہنے کی ذومعنی بات بھی کی۔ لیکن 28 مئی کو وزیر اعظم نواز شریف نے بلوچستان کے مقام چاغی میں 5 دھماکوں کے ذریعے بھارت کو کرارا جواب دیکر جوہری برتری کا خواب خاک میں ملادیا۔
وزیراعظم نواز شریف نے 28 مئی 1998 کو کہا تھا کہ ’ہم نے ایٹمی دھماکے نہیں کیے، ہم نے قوم کی غیرت کو زندہ کیا ہے‘۔ یہ دن یومِ تکبیر کے نام سے یادگار بن گیا، اور جنوبی ایشیا میں طاقت کا توازن بحال ہو گیا۔
کلبھوشن یادیو: بھارت کا جاسوس رنگے ہاتھوں پکڑا گیا2016 میں بلوچستان سے بھارتی نیوی کے حاضر سروس افسر کلبھوشن یادیو کو گرفتار کیا گیا، جو پاکستان میں دہشتگردی اور تخریب کاری کے نیٹ ورک کا حصہ تھا۔
اس نے خود ویڈیو بیان میں اعتراف کیا کہ میں بھارتی نیوی کا افسر ہوں اور را کے لیے کام کرتا ہوں۔ اس اعترافی بیان اور ثبوتوں کے بعد بھارت کو دنیا کے سامنے صفائیاں دینا پڑیں، اور پاکستان نے ایک بار پھر سفارتی میدان میں بازی مارلی۔
یہ گرفتاری بھارت کے لیے زبردست سفارتی شرمندگی کا باعث بنی اور پاکستان کے مؤقف کو دنیا بھر میں تقویت ملی۔
ابھینندن کا انجام: ’ٹی از فنٹاسٹک‘فروری 2019 میں بھارت نے لائن آف کنٹرول عبور کر کے بالاکوٹ پر سرجیکل اسٹرائیک کا دعویٰ کیا۔ پاکستان نے اگلے ہی دن بھرپور جوابی کارروائی کی اور 2 بھارتی طیارے مار گرائے۔ بھارتی ونگ کمانڈر ابھینندن ورتھامن گرفتار ہوا اور جب ویڈیو میں اسے چائے پیش کی گئی تو اس نے کہا تھا ’ٹی از فنٹاسٹک‘۔
پاکستان نے بعد ازاں اسے امن کے پیغام کے طور پر رہا کردیا تھا، جس پر عالمی سطح پر پاکستان کو سراہا گیا جبکہ بھارت کو آج تک سبکی اور شرمندگی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اس واقعے نے بھارت کے تمام بیانیے کی قلعی بھی کھول دی اور پاکستان نے اس پائلٹ کو رہا کر کے دنیا بھر میں سفارتی اخلاقیات کی مثال قائم کی۔
’اے وطن تو نے پکارا تو لہو کھول اُٹھا‘بھارت جب جب پاکستان پر برتری کا خواب لے کر آیا، اسے منہ کی کھانا پڑی۔ پاکستان نے نہ صرف عسکری بلکہ سفارتی اور دفاعی میدان میں بھی ہر موقع پر اپنی برتری منوائی۔
آج بھی دنیا تسلیم کرتی ہے کہ پاکستان ایک مضبوط، خوددار اور پرعزم قوم ہے، جو اپنے دفاع کے لیے ہر قربانی دینے کو تیار ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ابھینندن ورتھامن ایٹمی دھماکے ایم ایم عالم بھارت جنرل جے این چودھری چاغی کلبھوشن یادیو لاہور میں چائے