ساڑھے 10 کروڑ پاکستانی خط غربت سے نیچے جا چکے ہیں، مفتاح اسماعیل
اشاعت کی تاریخ: 3rd, March 2025 GMT
سیکرٹری جنرل عوام پاکستان پارٹی کا کہنا تھا کہ تنخواہ دار طبقے پر ٹیکسوں کا بوجھ ڈالا ہوا ہے، حکومت نے ہر چیز پر ٹیکس بڑھا دیا ہے، حکومت کو اپنے اخراجات کم کرنے چاہئیں اور تعلیم کے نظام کو بہتر کرنا ہو گا۔ اسلام ٹائمز۔ سیکرٹری جنرل عوام پاکستان پارٹی و سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے کہا ہے کہ ساڑھے 10 کروڑ پاکستانی خط غربت سے نیچے ہے۔ ایک نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں میں گفتگو کرتے ہوئے مفتاح اسماعیل کا کہنا تھا کہ گزشتہ 3 سالوں سے پاکستانی غریب ہوتےجا رہے ہیں، اشیا مہنگی اور تنخواہیں نہیں بڑھ رہیں۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ ملک میں 10 کروڑ 50 لاکھ پاکستانی خط غربت سے نیچے ہے، پتہ نہیں یہ کس بات کی خوشی منانے کی بات کر رہے ہیں، ہم چاہتے ہیں آئی ایم ایف پروگرام چلتا رہے، حکومت نے اصلاحات بارے کچھ نہیں کیا۔ سیکرٹری جنرل عوام پاکستان پارٹی کا کہنا تھا کہ تنخواہ دار طبقے پر ٹیکسوں کا بوجھ ڈالا ہوا ہے، حکومت نے ہر چیز پر ٹیکس بڑھا دیا ہے، حکومت کو اپنے اخراجات کم کرنے چاہئیں اور تعلیم کے نظام کو بہتر کرنا ہو گا۔
.ذریعہ: Islam Times
پڑھیں:
بھارتی فوج بھی انتہاپسند ہندوتوا ایجنڈے کے رنگ میں رنگ گئی
حالیہ دنوں میں بھارتی آرمی چیف جنرل اوپندر دویدی کی مذہبی سرگرمیوں نے سوشل میڈیا سے لے کر سیاسی حلقوں تک میں ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے کہ کیا اب انڈین فوج محض دفاعی ادارہ نہیں رہی بلکہ ہندوتوا کے ایجنڈے کی محافظ بن چکی ہے؟
جنرل دویدی نے حال ہی میں وردی میں نہ صرف کیدارناتھ کے مندر میں حاضری دی بلکہ رام بھدرآچاریہ کے آشرم میں بھی ماتھا ٹیکتے دکھائی دیے۔ سادہ الفاظ میں کہا جائے تو انہوں نے فوجی وردی کو ہندو عقیدت کا لباس بنا ڈالا۔
سوال یہ نہیں کہ کسی کا ذاتی عقیدہ کیا ہے، سوال یہ ہے کہ جب ایک سیکولر ملک کی مسلح افواج کا سربراہ وردی میں مذہبی رسومات ادا کرے تو اس کے کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں؟ کیا فوجی وردی صرف ہندو دیوی دیوتاؤں کی خدمت کےلیے مخصوص ہوچکی ہے؟
بھارتی آئین کی شقیں شاید کتابوں میں اب بھی سیکولرزم کا دعویٰ کرتی ہوں، مگر زمین پر حقیقت کچھ اور ہی ہے۔ بھارتی فوج جسے تمام قومیتوں، مذاہب اور ثقافتوں کا محافظ ہونا چاہیے تھا، اب زعفرانی رنگ میں رنگتی جا رہی ہے۔ جنرل دویدی کے مذہبی مندر دوروں سے یہ تاثر ملتا ہے جیسے وہ صرف ایک مخصوص اکثریتی مذہب کے وفادار ہوں، اور اقلیتوں کے لیے ان کی فوجی قیادت سوالیہ نشان بن چکی ہو۔
اگر آرمی چیف ہندو مندر میں ماتھا ٹیک سکتے ہیں، تو کیا وہ کسی مسجد میں دو گھڑی سکون کی دعا کے لیے رکیں گے؟ کیا وہ کسی چرچ جا کر دعائیہ کلمات سنیں گے؟ سکھوں کے گوردوارے میں عقیدت سے جھکیں گے؟ یا یہ سب صرف آر ایس ایس کی ’’ہندو راشٹر‘‘ کی مہم کا حصہ ہے، جہاں وردی کو ایک مذہبی پرچم میں بدل دیا گیا ہے؟
یہ سارا معاملہ صرف ایک فرد کا مذہبی رجحان نہیں بلکہ اس پورے ادارے کے غیر جانب دار تشخص پر ایک سنجیدہ سوال ہے۔ جب جنرل دویدی میڈیا کے سامنے وردی میں پوجا پاٹ کرتے ہیں تو وہ نہ صرف آئین کے سیکولر اصولوں کی نفی کرتے ہیں بلکہ اقلیتوں کو بھی ایک واضح پیغام دیتے ہیں کہ ان کی نمائندگی اس فوج میں شاید صرف کاغذوں کی حد تک رہ گئی ہے۔
بھارت میں ہندوتوا کی سیاسی اور سماجی بالادستی اب اتنی گہری ہو چکی ہے کہ ملک کا ہر ادارہ اس کی جھلک دکھانے لگا ہے، حتیٰ کہ فوج جیسا حساس اور غیر جانبدار ادارہ بھی۔ اس تناظر میں جنرل دویدی کی مندر یاترا صرف ایک ذاتی عقیدے کا اظہار نہیں بلکہ ایک طاقتور پیغام ہے، اور وہ پیغام یہ ہے کہ نئی دہلی کی راہ صرف ہندوتوا کے قدموں کی چاپ سننے کو تیار ہے۔
کیا ہندوستانی سپہ سالار اب صرف ایک عقیدے کا نمائندہ ہے؟ اگر ایسا ہے تو اقلیتوں کو سوچ لینا چاہیے کہ ان کی حفاظت کے دعوے صرف کاغذی تحریر رہ گئے ہیں، کیونکہ وردی پہنے وہ ہاتھ جو ملک کی سرحدوں کے محافظ کہلاتے ہیں، اب شاید صرف ایک مخصوص مذہب کے سامنے جھکنے کے لیے اٹھتے ہیں۔