Express News:
2025-11-03@07:28:53 GMT

چھ نسلوں سے جاری مزاحمت (قسط دوم)

اشاعت کی تاریخ: 3rd, March 2025 GMT

پہلی عالمی جنگ کے اختتامی دنوں میں بالفور ڈیکلریشن کے نتیجے میں فلسطین پر برطانوی قبضے کے بعد یورپی یہودیوں نے جس بے فکری سے فلسطینی ساحلوں پر اترنا شروع کیا۔اس کے سبب صدیوں سے آباد فلسطینی عربوں اور نووارد قبضہ گروپ کے درمیان خونی لکیر کھنچنا ناگزیر تھا۔گزشتہ مضمون میں ہم نے انیس سو بیس اور اکیس کے فسادات کا بالتفصیل ذکر کیا۔ ہر نیا فساد گزشتہ سے زیادہ شدید ہوتا گیا اور پھر انیس سو انتیس کا خونی سنگِ میل آ گیا۔اسے عبور کرنے کے بعد برطانیہ کی زیرِ نگرانی خانہ جنگی کا ایک طویل دور شروع ہوا اور اختتام بشکلِ اسرائیل اس خطے کے سینے میں مغربی استعماری میخ گڑنے پر ہوا۔

فلسطین کی عرب سیاسی قیادت نے انیس سو بیس کے عشرے میں یہ برطانوی تجویز قبول کر لی کہ مستقبل کے سیاسی ڈھانچے میں آبادی کے ہر طبقے کو حصہ بقدرِ جثہ ملنا چاہیے۔مگر چھ فیصد یہودیوں کی قیادت نے اس تجویز کو مسترد کر دیا کیونکہ وہ ایک قاش کے بجائے پورا سیب لینا چاہتی تھی۔

اگرچہ انیس سو اکیس کے فسادات کے بعد قابض برطانوی انتظامیہ نے امیگریشن کو محدود کرنے کے علاوہ مقامی زمینوں کی بلااجازت خرید و فروخت پر بظاہر پابندی عائد کر دی مگر چور دروازے سے دونوں کام جاری رہے اور برطانوی انتظامیہ نے یوں ظاہر کیا گویا اسے چور دروازے کا علم ہی نہ ہو۔

چھ اگست انیس سو انتیس کو تل ابیب میں مسلح یہودی ملیشیا ہگانہ اور دیگر شدت پسند تنظیموں کے چھ ہزار حامیوں کا جلسہ ہوا جس میں انیس سو اٹھائیس میں ہونے والے اس فیصلے کو مسترد کر دیا گیا کہ پورا اقصی کمپاؤنڈ مسلم اوقاف کی ملکیت ہے اور عبادت کے خواہش مند غیر مسلم صرف طے شدہ جگہ تک ہی جا سکتے ہیں اور اپنے ساتھ کوئی ایسی شے نہیں لا سکتے جس سے جارحیت کا احتمال ہو۔

چودہ اگست کو یروشلم میں کمپاونڈ کی مقدس مغربی دیوار تک لگ بھگ سات ہزار یہودی جلوس کی صورت میں پہنچے اور وہاں بعض مقررین نے اردن تا ساحلِ بحیرہِ روم ارضِ اسرائیل کے نعرے لگا کے کشیدگی کئی گنا بڑھا دی۔دوسری جانب سے بھی اعلانِ جہاد ہو گیا اور پمفلٹ تقسیم ہونے لگے کہ یہودی پورا کمپاؤنڈ ہتھیانا چاہ رہے ہیں۔چھرے نکل آئے اور املاک کو آگ لگنے لگی۔

ایسے حالات کنٹرول کرنے کے لیے برطانوی انتظامیہ کے پاس افرادی قوت مضحکہ خیز حد تک کم تھی۔پورے فلسطین میں سو سے بھی کم برطانوی فوجی ، پانچ سے چھ جنگی طیارے اور چھ بکتر بند گاڑیاں تھیں۔پولیس کی نفری لگ بھگ ڈیڑھ ہزار تھی۔اس میں تقریباً پونے دو سو برطانوی افسر اور سپاہی تھے۔

برطانوی انتظامیہ نے یہودیوں کے تحفظ کے لیے اٹھارہ سابق یہودی فوجیوں ، اکتالیس یہودی پولیس کانسٹیبلوں اور ساٹھ سویلینز کو ڈنڈے اور دیگر ہتھیار رکھنے کی اس شرط پر خصوصی اجازت دی کہ یہ طاقت صرف املاک پر حملے سے دفاع میں استعمال ہو گی۔جب کہ عرب اکثریت کو اپنے تحفظ کے لیے ایسی کوئی سہولت نہیں دی گئی۔مگر جس طرح سے یہ مسلح طاقت استعمال ہوئی۔اس کے صرف چار دن بعد ہی انتظامیہ نے یہ اسلحہ واپس لے لیا۔

انیس سو انتیس کے فسادات کے بعد جو برطانوی تحقیقاتی کمیشن جسٹس والٹر شا کی سربراہی میں بنا اس کے مطابق فساد کی فوری وجہ چودہ اور پندرہ اگست کو یروشلم کے قدیم شہر میں مسجدِ اقصی کمپاؤنڈ کی مغربی دیوار تک عبادت کے لیے جانے والے یہودی جلوس کی جانب سے ہیکل سلیمانی کو بحال کرنے کے لیے اشتعال انگیز نعرے تھے۔

نیز انیس سو پچیس میں طے ہونے والے معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مظاہرین اپنے ساتھ کرسیاں بھی لائے اور عورتوں اور مردوں کو الگ کرنے والی ایک پارٹیشن بھی کی۔اس کے سبب عربوں کا یہ خدشہ بدظنی میں بدل گیا کہ یہودی بتدریج پورا کمپاؤنڈ ہتھیانا چاہتے ہیں۔عرب قیادت نے بھی تحمل و بردباری دکھانے کے بجائے اس طرح کے پمفلٹ تقسیم کیے کہ یہودی مسجدِ اقصی کی جگہ ہیکل سلیمانی دوبارہ تعمیر کرنے آ رہے ہیں۔

 افواہوں کے بازار نے یروشلم سے باہر دیگر قصبات تک پھیل کر جلتی پر تیل کا کام کیا۔پہلے سے بھرے بیٹھے لوگوں کو تشدد کا موقع مل گیا۔کمیشن کے مطابق برطانوی انتظامیہ نے بھی امن و امان کے بگڑتے آثار دیکھنے کے باوجود تشفی بخش پیشگی انتظامات نہیں کیے۔پولیس میں ڈسپلن کی کمی دیکھی گئی۔شا کمشن نے یہ نتیجہ بھی اخذ کیا کہ یورپ سے پناہ گزینوں ( یہودیوں ) کی مسلسل آمد نے مقامی عرب آبادی کو معاشی اور زمینی محرومی کے خدشات میں مبتلا کر دیا ہے۔ ان خدشات کا ازالہ کیے بغیر حالات مزید بگاڑ کی طرف جا سکتے ہیں۔

تئیس تا انتیس اگست کے خونی ہفتے میں سرکاری طور پر ایک سو تینتیس یہودی ہلاک اور تین سو انتالیس زخمی ہوئے۔ جب کہ ایک سو سولہ عرب ہلاکتوں اور دو سو بتیس زخمیوں کا شمار کیا گیا۔مگر عرب قیادت کا دعوی تھا کہ ایک سو سولہ تو صرف پولیس نے مارے ہیں۔لگ بھگ پچاس دیگر عرب یہودیوں کے ہاتھوں مرے۔

ان فسادات میں ملوث ہونے کے الزام میں ایک سو چوہتر عربوں اور ایک سو نو یہودیوں پر قتل اور اقدامِ قتل کی فردِ جرم عائد ہوئی۔ان میں سے چالیس فیصد عرب اور تین فیصد یہودی ملزموں کو ہی سزائیں سنائی گئیں۔

بدترین واقعہ ہیبرون ( الخلیل ) میں پیش آیا۔جب چوبیس اگست کو مشتعل عرب ہجوم کے حملے میں چھ سو میں سے پینسٹھ یہودی ہلاک اور اٹھاون زخمی ہوئے۔گزشتہ روز جافا میں ایک یہودی پولیس کانسٹیبل اور اس کے ساتھیوں نے ایک مقامی امام سمیت خاندان کے چھ افراد کو مسجد سے متصل گھر میں گھس کے قتل کر دیا۔یروشلم میں ایک یہودی گروہ نے نبی عکاشہ مسجد اور مزار کو آگ لگا دی۔انتیس اگست کو سفید نامی قصبے میں عرب ہجوم نے اٹھارہ تا بیس یہودیوں کو ہلاک اور لگ بھگ اسی کو زخمی کر دیا۔ رفتہ رفتہ حالات قابو میں آ گئے۔مگر یہ امن نہیں تھا بلکہ اگلے بڑے طوفان سے پہلے کی خاموشی تھی۔

اس سے پہلے کہ ہم انیس سو چھتیس تا انتالیس کے پہلے عرب انتفادہ ( شورشِ عام ) کی ہڑبونگ میں داخل ہوں۔ایک عرب رہنما عز الدین القسام کا ذکر ضروری ہے۔ القسام نے عرب مزاحمتی نفسیات کو انیس سو تیس کے عشرے میں ایک نیا رخ دیا۔( جاری ہے )۔

(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.

com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: برطانوی انتظامیہ نے کمپاو نڈ اگست کو میں ایک کرنے کے کے بعد کر دیا ایک سو کے لیے

پڑھیں:

اسموگ فری پنجاب: ’ایک حکومت، ایک وژن، ایک مشن، صاف فضا‘

وزیرِاعلیٰ پنجاب مریم نواز کی قیادت میں پنجاب حکومت نے صوبے کو اسموگ فری بنانے کے لیے بڑے پیمانے پر اقدامات تیز کر دیے۔

بھارتی سرحدی علاقوں سے آنے والی آلودہ مشرقی ہواؤں کے باوجود لاہور کا فضائی معیار قابو میں آنا شروع ہو گیا ہے۔ لاہور کا اوسط اے کیو آئی 280 ریکارڈ کیا گیا ہے۔

محکمہ ماحولیات کی مسلسل مانیٹرنگ اور انسدادِ اسموگ آپریشن جاری

محکمہ ماحولیات کے مطابق صبح کے وقت سرد موسم، کم ہوا کی رفتار (1 تا 4 کلومیٹر فی گھنٹہ) اور بارش نہ ہونے سے آلودگی کے بکھراؤ میں کمی ہوئی ہے، تاہم دوپہر 1 سے 5 بجے کے دوران ہواؤں کی رفتار بڑھنے سے فضائی معیار میں بہتری کا امکان ہے۔

پنجاب حکومت کے تمام متعلقہ ادارے وزیرِاعلیٰ مریم نواز کی ہدایت پر 3 شفٹوں میں انسداد اسموگ آپریشن میں مصروف ہیں، جن میں ٹریفک کنٹرول، پانی کے چھڑکاؤ اور انڈسٹری چیکنگ مہم شامل ہے۔

جدید مانیٹرنگ سسٹم اور ٹیکنالوجی کا استعمال

شہر کے مختلف علاقوں میں پی ایم 2.5 اور پی ایم 10 کی سطح کی نگرانی کے لیے جدید اسٹیشن متحرک کر دیے گئے ہیں۔

محکمہ ماحولیات نے شہریوں کو غیر ضروری سفر سے گریز اور ماسک کے استعمال کی ہدایت کی ہے۔ حکام کے مطابق صورتحال قابو میں ہے اور کسی قسم کی گھبراہٹ کی ضرورت نہیں۔

اینٹی اسموگ ایکشن پلان پر عملدرآمد کی رفتار مزید تیز

وزیرِاعلیٰ مریم نواز کی قیادت میں پنجاب حکومت نے اسموگ فری اور ماحول دوست صوبہ بنانے کے لیے اینٹی سموگ ایکشن پلان پر عملدرآمد تیز کر دیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:اینٹی اسموگ گنز سے لاہور میں پانی کا بحران مزید گہرا ہونے کا خدشہ، ماہرین نے خبردار کردیا

پنجاب کی تاریخ میں پہلی بار ہر شعبے میں آلودگی کے خاتمے کی حکمت عملی اپنائی گئی ہے۔

فصل کی باقیات جلانے کی روک تھام

فصل کی باقیات جلانے کے بجائے 5 ہزار سپر سیڈرز، 814 کابوٹا مشینیں، ہارویسٹرز اور 91 بیلرز فراہم کیے گئے، جن سے اب تک 6 لاکھ سے زائد بیلز تیار ہو چکے ہیں۔ نگرانی کے لیے ’ہاک آئیز تھرمل ڈرونز‘ کا پہلی بار استعمال کیا جا رہا ہے۔

دھول، مٹی اور صنعتی آلودگی پر قابو پانے کے اقدامات

تعمیراتی مقامات پر پانی کے چھڑکاؤ، مٹی کو ڈھانپنے اور دھول نہ اڑنے دینے کے اقدامات جاری ہیں۔گاڑیوں کی فٹنس کے تحت اب تک 3 لاکھ سرٹیفکیٹ جاری کیے جا چکے ہیں۔

صنعتوں کے دھوئیں کی پڑتال کے لیے سینسرز نصب کیے گئے ہیں اور بھٹوں کی زگ زیگ ٹیکنالوجی پر منتقلی جاری ہے۔ 8500 صنعتی یونٹس کی اے آئی پر مبنی سینٹرل مانیٹرنگ ہو رہی ہے۔

پہلا ’ایمی شن ٹیسٹنگ سسٹم‘ متعارف

گاڑیوں سے دھوئیں کے اخراج پر قابو پانے کے لیے پاکستان کی تاریخ کا پہلا ’ایمی شن ٹیسٹنگ سسٹم‘ متعارف کرایا گیا ہے، جب کہ صوبے بھر میں 371 مقامات پر ’مسٹ اسپرنکلر سسٹم‘ نصب کیے جا چکے ہیں۔ 8596 صنعتی یونٹس کی اے آئی اور ڈرونز سے نگرانی بھی جاری ہے۔

ڈیجیٹل فورکاسٹنگ کا نیا ماحولیاتی نظام

وزیرِاعلیٰ مریم نواز کے ’کلین اینڈ گرین پنجاب‘ وژن کے تحت پہلی بار پنجاب کا اپنا اے آئی بیسڈ ایئر کوالٹی فورکاسٹنگ سسٹم قائم کیا گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:بھارت میں دیوالی کی آتش بازی کے باعث لاہور اور قصور میں شدید اسموگ، پنجاب حکومت متحرک

سینیئر صوبائی وزیر مریم اورنگزیب کے مطابق سموگ سے پاک پنجاب کا وژن عملی تعبیر پا رہا ہے، یہ مہم صحت مند طرزِ زندگی کی تبدیلی لانے کا ذریعہ بنے گی۔

مریم اورنگزیب کا بیان

انہوں نے کہا کہ ڈیجیٹل فورکاسٹنگ، ماحولیاتی بہتری اور تحفظ کی طرف انقلابی قدم ہے، کلین اینڈ گرین پنجاب آنے والی نسلوں کو صاف ماحول دینے کی عملی پیش رفت ہے۔”

احتیاطی ہدایات برائے شہری

محکمہ ماحولیات نے شہریوں کو ہدایت کی ہے کہ ماسک پہنیں، غیر ضروری سفر سے گریز کریں، بچے اور بزرگ گھر میں رہیں، اور موٹر سائیکل یا گاڑی کا استعمال کم کریں۔

پنجاب حکومت کا کہنا ہے کہ صاف، صحت مند اور محفوظ فضا کے لیے مشترکہ کوششیں جاری ہیں، اور وزیرِاعلیٰ مریم نواز کی قیادت میں صوبہ آلودگی سے پاک، سرسبز و شاداب پنجاب کی جانب بڑھ رہا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

اسموگ اسموگ فری پنجاب پنجاب فصلوں کی باقیات مریم نواز

متعلقہ مضامین

  • برطانوی حکومت کا معزول شہزادہ اینڈریو سے آخری فوجی عہدہ واپس لینے کا اعلان
  • کراچی میں ڈاکو راج، مزاحمت کرنے پر 18 سالہ نوجوان جاں بحق
  • کراچی: براق پیٹرول پمپ سچل موڑ کے قریب  ڈکیتی کی واردات کے دوران مزاحمت پر بھتیجا جاں بحق، چچا زخمی
  • انتہا پسند یہودیوں کے ظلم سے جانور بھی غیرمحفوظ
  • غزہ و لبنان، جنگ تو جاری ہے
  • دشمن کو رعایت دینے سے اسکی جارحیت کو روکا نہیں جا سکتا، حزب اللہ لبنان
  • اسلام آباد میں ریسٹورنٹس اور فوڈ پوائنٹس کیلیے نئے ایس او پیز جاری
  • اسموگ فری پنجاب: ’ایک حکومت، ایک وژن، ایک مشن، صاف فضا‘
  • برطانوی شاہ چارلس نے اپنے بھائی سے ’پرنس‘ کا لقب واپس لے لیا
  • ٹرمپ پیوٹن کی سربراہی ملاقات منسوخ