Express News:
2025-09-18@13:12:35 GMT

چھ نسلوں سے جاری مزاحمت (قسط دوم)

اشاعت کی تاریخ: 3rd, March 2025 GMT

پہلی عالمی جنگ کے اختتامی دنوں میں بالفور ڈیکلریشن کے نتیجے میں فلسطین پر برطانوی قبضے کے بعد یورپی یہودیوں نے جس بے فکری سے فلسطینی ساحلوں پر اترنا شروع کیا۔اس کے سبب صدیوں سے آباد فلسطینی عربوں اور نووارد قبضہ گروپ کے درمیان خونی لکیر کھنچنا ناگزیر تھا۔گزشتہ مضمون میں ہم نے انیس سو بیس اور اکیس کے فسادات کا بالتفصیل ذکر کیا۔ ہر نیا فساد گزشتہ سے زیادہ شدید ہوتا گیا اور پھر انیس سو انتیس کا خونی سنگِ میل آ گیا۔اسے عبور کرنے کے بعد برطانیہ کی زیرِ نگرانی خانہ جنگی کا ایک طویل دور شروع ہوا اور اختتام بشکلِ اسرائیل اس خطے کے سینے میں مغربی استعماری میخ گڑنے پر ہوا۔

فلسطین کی عرب سیاسی قیادت نے انیس سو بیس کے عشرے میں یہ برطانوی تجویز قبول کر لی کہ مستقبل کے سیاسی ڈھانچے میں آبادی کے ہر طبقے کو حصہ بقدرِ جثہ ملنا چاہیے۔مگر چھ فیصد یہودیوں کی قیادت نے اس تجویز کو مسترد کر دیا کیونکہ وہ ایک قاش کے بجائے پورا سیب لینا چاہتی تھی۔

اگرچہ انیس سو اکیس کے فسادات کے بعد قابض برطانوی انتظامیہ نے امیگریشن کو محدود کرنے کے علاوہ مقامی زمینوں کی بلااجازت خرید و فروخت پر بظاہر پابندی عائد کر دی مگر چور دروازے سے دونوں کام جاری رہے اور برطانوی انتظامیہ نے یوں ظاہر کیا گویا اسے چور دروازے کا علم ہی نہ ہو۔

چھ اگست انیس سو انتیس کو تل ابیب میں مسلح یہودی ملیشیا ہگانہ اور دیگر شدت پسند تنظیموں کے چھ ہزار حامیوں کا جلسہ ہوا جس میں انیس سو اٹھائیس میں ہونے والے اس فیصلے کو مسترد کر دیا گیا کہ پورا اقصی کمپاؤنڈ مسلم اوقاف کی ملکیت ہے اور عبادت کے خواہش مند غیر مسلم صرف طے شدہ جگہ تک ہی جا سکتے ہیں اور اپنے ساتھ کوئی ایسی شے نہیں لا سکتے جس سے جارحیت کا احتمال ہو۔

چودہ اگست کو یروشلم میں کمپاونڈ کی مقدس مغربی دیوار تک لگ بھگ سات ہزار یہودی جلوس کی صورت میں پہنچے اور وہاں بعض مقررین نے اردن تا ساحلِ بحیرہِ روم ارضِ اسرائیل کے نعرے لگا کے کشیدگی کئی گنا بڑھا دی۔دوسری جانب سے بھی اعلانِ جہاد ہو گیا اور پمفلٹ تقسیم ہونے لگے کہ یہودی پورا کمپاؤنڈ ہتھیانا چاہ رہے ہیں۔چھرے نکل آئے اور املاک کو آگ لگنے لگی۔

ایسے حالات کنٹرول کرنے کے لیے برطانوی انتظامیہ کے پاس افرادی قوت مضحکہ خیز حد تک کم تھی۔پورے فلسطین میں سو سے بھی کم برطانوی فوجی ، پانچ سے چھ جنگی طیارے اور چھ بکتر بند گاڑیاں تھیں۔پولیس کی نفری لگ بھگ ڈیڑھ ہزار تھی۔اس میں تقریباً پونے دو سو برطانوی افسر اور سپاہی تھے۔

برطانوی انتظامیہ نے یہودیوں کے تحفظ کے لیے اٹھارہ سابق یہودی فوجیوں ، اکتالیس یہودی پولیس کانسٹیبلوں اور ساٹھ سویلینز کو ڈنڈے اور دیگر ہتھیار رکھنے کی اس شرط پر خصوصی اجازت دی کہ یہ طاقت صرف املاک پر حملے سے دفاع میں استعمال ہو گی۔جب کہ عرب اکثریت کو اپنے تحفظ کے لیے ایسی کوئی سہولت نہیں دی گئی۔مگر جس طرح سے یہ مسلح طاقت استعمال ہوئی۔اس کے صرف چار دن بعد ہی انتظامیہ نے یہ اسلحہ واپس لے لیا۔

انیس سو انتیس کے فسادات کے بعد جو برطانوی تحقیقاتی کمیشن جسٹس والٹر شا کی سربراہی میں بنا اس کے مطابق فساد کی فوری وجہ چودہ اور پندرہ اگست کو یروشلم کے قدیم شہر میں مسجدِ اقصی کمپاؤنڈ کی مغربی دیوار تک عبادت کے لیے جانے والے یہودی جلوس کی جانب سے ہیکل سلیمانی کو بحال کرنے کے لیے اشتعال انگیز نعرے تھے۔

نیز انیس سو پچیس میں طے ہونے والے معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مظاہرین اپنے ساتھ کرسیاں بھی لائے اور عورتوں اور مردوں کو الگ کرنے والی ایک پارٹیشن بھی کی۔اس کے سبب عربوں کا یہ خدشہ بدظنی میں بدل گیا کہ یہودی بتدریج پورا کمپاؤنڈ ہتھیانا چاہتے ہیں۔عرب قیادت نے بھی تحمل و بردباری دکھانے کے بجائے اس طرح کے پمفلٹ تقسیم کیے کہ یہودی مسجدِ اقصی کی جگہ ہیکل سلیمانی دوبارہ تعمیر کرنے آ رہے ہیں۔

 افواہوں کے بازار نے یروشلم سے باہر دیگر قصبات تک پھیل کر جلتی پر تیل کا کام کیا۔پہلے سے بھرے بیٹھے لوگوں کو تشدد کا موقع مل گیا۔کمیشن کے مطابق برطانوی انتظامیہ نے بھی امن و امان کے بگڑتے آثار دیکھنے کے باوجود تشفی بخش پیشگی انتظامات نہیں کیے۔پولیس میں ڈسپلن کی کمی دیکھی گئی۔شا کمشن نے یہ نتیجہ بھی اخذ کیا کہ یورپ سے پناہ گزینوں ( یہودیوں ) کی مسلسل آمد نے مقامی عرب آبادی کو معاشی اور زمینی محرومی کے خدشات میں مبتلا کر دیا ہے۔ ان خدشات کا ازالہ کیے بغیر حالات مزید بگاڑ کی طرف جا سکتے ہیں۔

تئیس تا انتیس اگست کے خونی ہفتے میں سرکاری طور پر ایک سو تینتیس یہودی ہلاک اور تین سو انتالیس زخمی ہوئے۔ جب کہ ایک سو سولہ عرب ہلاکتوں اور دو سو بتیس زخمیوں کا شمار کیا گیا۔مگر عرب قیادت کا دعوی تھا کہ ایک سو سولہ تو صرف پولیس نے مارے ہیں۔لگ بھگ پچاس دیگر عرب یہودیوں کے ہاتھوں مرے۔

ان فسادات میں ملوث ہونے کے الزام میں ایک سو چوہتر عربوں اور ایک سو نو یہودیوں پر قتل اور اقدامِ قتل کی فردِ جرم عائد ہوئی۔ان میں سے چالیس فیصد عرب اور تین فیصد یہودی ملزموں کو ہی سزائیں سنائی گئیں۔

بدترین واقعہ ہیبرون ( الخلیل ) میں پیش آیا۔جب چوبیس اگست کو مشتعل عرب ہجوم کے حملے میں چھ سو میں سے پینسٹھ یہودی ہلاک اور اٹھاون زخمی ہوئے۔گزشتہ روز جافا میں ایک یہودی پولیس کانسٹیبل اور اس کے ساتھیوں نے ایک مقامی امام سمیت خاندان کے چھ افراد کو مسجد سے متصل گھر میں گھس کے قتل کر دیا۔یروشلم میں ایک یہودی گروہ نے نبی عکاشہ مسجد اور مزار کو آگ لگا دی۔انتیس اگست کو سفید نامی قصبے میں عرب ہجوم نے اٹھارہ تا بیس یہودیوں کو ہلاک اور لگ بھگ اسی کو زخمی کر دیا۔ رفتہ رفتہ حالات قابو میں آ گئے۔مگر یہ امن نہیں تھا بلکہ اگلے بڑے طوفان سے پہلے کی خاموشی تھی۔

اس سے پہلے کہ ہم انیس سو چھتیس تا انتالیس کے پہلے عرب انتفادہ ( شورشِ عام ) کی ہڑبونگ میں داخل ہوں۔ایک عرب رہنما عز الدین القسام کا ذکر ضروری ہے۔ القسام نے عرب مزاحمتی نفسیات کو انیس سو تیس کے عشرے میں ایک نیا رخ دیا۔( جاری ہے )۔

(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.

com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: برطانوی انتظامیہ نے کمپاو نڈ اگست کو میں ایک کرنے کے کے بعد کر دیا ایک سو کے لیے

پڑھیں:

برطانوی حکمران جماعت کے اراکین پارلیمنٹ کا اسرائیل میں داخلہ بند

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

لندن: برطانیہ کی حکمران جماعت لیبر پارٹی کے دو ارکانِ پارلیمنٹ کو اسرائیل میں داخل ہونے سے روک دیا گیا۔ غیر ملکی میڈیا کے مطابق سائمن اوفر اور پیٹر پرنسلے ایک پارلیمانی وفد کے ساتھ مقبوضہ فلسطینی علاقوں کے دورے پر گئے تھے، جہاں وہ طبی اور ریلیف سرگرمیوں کا جائزہ لینا چاہتے تھے۔

میڈیا رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ اسرائیلی حکام نے دونوں ارکانِ پارلیمنٹ کو ملک میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی۔ اس فیصلے پر ردعمل دیتے ہوئے لیبر پارٹی کے رہنماؤں نے کہا کہ وہ خطے میں صحت عامہ کے مسائل کو قریب سے دیکھنے کے خواہشمند تھے لیکن اسرائیلی حکومت نے انہیں اس موقع سے محروم کر دیا جو انتہائی افسوسناک رویہ ہے۔

برطانوی دفترِ خارجہ کے ترجمان نے اس اقدام کو ناقابل قبول قرار دیتے ہوئے کہا کہ برطانوی عوامی نمائندوں کے ساتھ اس طرح کا سلوک برداشت نہیں کیا جا سکتا۔ لندن میں اسرائیلی سفارت خانے نے اس معاملے پر تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا ہے تاہم برطانوی حکام نے اسرائیلی حکومت پر واضح کیا ہے کہ یہ اقدام دوستانہ تعلقات کے منافی ہے۔

برطانوی میڈیا کے مطابق فارن آفس منسٹر ہمیش فالکنر سمیت اعلیٰ حکام ارکانِ پارلیمنٹ سے مسلسل رابطے میں ہیں۔ یاد رہے کہ یہ پہلا موقع نہیں ہے، اس سے قبل بھی اسرائیلی حکام نے بعض برطانوی ارکانِ پارلیمنٹ کو ملک میں داخل ہونے سے روک دیا تھا، جس پر برطانیہ کی سیاسی قیادت نے سخت ردعمل دیا تھا۔

متعلقہ مضامین

  • حکومت! فوج کو عوام کے سامنے نہ کھڑا کرے، حزب‌ الله لبنان
  • یہودی تنظیم کا جرمن چانسلر پر اسرائیل کی حمایت کے لیے زور
  • لندن ، سرکاری دورے پر ٹرمپ کی آمد،عوام کا بڑا احتجاجی مظاہرہ
  • غزہ کو خالی کروا کر وہاں یہودی بستیاں آباد کی جائیں گی، سردار مسعود
  • برطانوی حکمران جماعت کے اراکین پارلیمنٹ کا اسرائیل میں داخلہ بند
  • صدر ٹرمپ سرکاری دورے پر برطانیہ پہنچ گئے، احتجاجی مظاہرے متوقع
  • اسرائیلی جارحیت سے صرف خون ریزی میں اضافہ ہو رہا ہے، برطانیہ
  • دولت مشترکہ نے پاکستانی الیکشن میں دھاندلی چھپائی،برطانوی اخبار
  • کراچی، صدر میں ڈکیتی کے دوران مزاحمت پر فائرنگ، دو افراد زخمی
  •   برطانوی پرچم کو تشدد کی علامت نہیں بننے دیں گے‘ وزیراعظم