پاکستان میں صہیونیت کا اثرورسوخ تیزی سے بڑھ رہا ہے، علامہ جواد نقوی
اشاعت کی تاریخ: 5th, March 2025 GMT
لاہور میں خطاب کرتے ہوئے تحریک بیداری امت مصطفیٰ کے سربراہ نے کہا کہ بعض پاکستانی سیاستدان اور مقتدر شخصیات اسرائیل نواز اور یہودی شخصیات سے رابطہ رکھتی ہیں، یہ عناصر میڈیا میں چرب زبانی کیساتھ جھوٹا بیانیہ گھڑ رہے ہیں، تاکہ عوام کو گمراہ کر سکیں۔ ایک مخصوص طبقہ براہِ راست اسرائیل سے منسلک ہے۔ خود اسرائیلی اخبارات اعتراف کر چکے ہیں کہ پاکستان میں بعض بڑے سیاستدان اور مقتدر شخصیات اسرائیل نواز ہیں، اور ان کے یہودی خاندانوں سے روابط ہیں، ان کا کام پاکستان میں صیہونیت کیلئے فضا ہموار کرنا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ تحریک بیداری امت مصطفیٰ کے سربراہ علامہ سید جواد نقوی نے اپنے خطاب میں کہا ہے کہ پاکستان میں ایک نیا فتنہ سر اٹھا رہا ہے، جو درحقیقت پہلے سے اپنی جڑیں رکھتا تھا، مگر اب کھل کر سامنے آ رہا ہے، اور وہ ہے صیہونیت کا فروغ، باقاعدہ طور پر صیہونیت کی تبلیغ اور ترویج کی جا رہی ہے، خصوصاً سوشل میڈیا کے ذریعے اس کیلئے زمین ہموار کی جا رہی ہے۔ مختلف طریقوں سے لوگوں کے ذہنوں میں شبہات، وسوسے اور ایک مخصوص پروپیگنڈا پھیلایا جا رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ مہم خاص طور پر ان طبقات میں زور پکڑ رہی ہے، جن کے دلوں میں اسلام، شہداء، مجاہدین کیخلاف بغض و عناد بھرا ہوا ہے، یہ عناصر، جو پہلے پس پردہ تھے، اب کھل کر صیہونیت کو فروغ دے رہے ہیں، خواہ وہ نادانی کی وجہ سے ہو یا مفاد پرستی کی بنیاد پر، کچھ افراد نادان اور بے شعور ہیں، جو محض اپنے چینلز اور سوشل میڈیا پیجز کی ریٹنگ کے چکر میں اس پروپیگنڈے کا حصہ بن رہے ہیں، یہ سراسر حماقت ہے اور ایسا احمق منافقین کیساتھ ملنے میں دیر نہیں لگاتا۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ یہودیت اور صیہونیت میں فرق ہے، یہودیت ایک مذہب ہے، جس طرح عیسائیت اور اسلام ہیں، مگر صیہونیت ایک سیاسی نظریہ اور فتنہ ہے، اس کا مقصد اسلامی سرزمینوں پر، خصوصاً فلسطین میں اور مزید وسیع تر خطے میں یہودی ریاست قائم کرنا ہے، گریٹر اسرائیل کے اس منصوبے میں مصر، فلسطین، اردن، عراق، سعودی عرب، شام، اور لبنان شامل ہیں، جیسا کہ حال ہی میں اسرائیلی جلاد نیتن یاہو نے اپنے تین ہزار سالہ ریاستی نقشے میں دکھایا ہے۔ انہوں نے کہا کہ صیہونی ہونے کیلئے یہودی ہونا ضروری نہیں، صیہونی کوئی بھی ہو سکتا ہے،عیسائی، مسلمان، ہندو، سیکولر، لبرل، یا ملحد۔ جو بھی اسلامی مزاحمت کیخلاف ہے، جو یہودی ریاست کے قیام کو قبول کرتا ہے، جو خاموشی سے اس کی حمایت کرتا ہے وہ صیہونی ہے۔ عربوں میں عربی صیہونیت موجود ہے، مسلمانوں میں مسلم صیہونیت موجود ہے، اور اب پاکستان میں بھی صیہونی ایجنڈا کھل کر سامنے آ رہا ہے۔
پاکستان میں صیہونیت کے فروغ کی وجہ بتاتے ہوئے علامہ جواد نقوی نے کہا کہ اس کی ایک بڑی وجہ غزہ کے پندرہ ماہ کے معرکے پر پاکستانی قوم، علماء اور مختلف طبقات کی مجرمانہ خاموشی ہے، جب پاکستانی عوام، خواص اور دینی حلقے فلسطین کیلئے آواز نہیں اٹھاتے، تو یہ پیغام جاتا ہے کہ پاکستان میں ہر بے شرمی اور ہر غداری ممکن ہے اور کوئی اس پر اعتراض نہیں کرے گا۔ اسی خاموشی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پاکستان میں صیہونی ایجنڈے کے مروّج اور مبلغین متحرک ہو گئے ہیں۔ اب انہوں نے کھل کر مجاہدین، شہداء، قرآن، اہلبیتؑ اور حماس و فلسطین کی مخالفت شروع کر دی ہے۔ یہ عناصر میڈیا میں چرب زبانی کیساتھ جھوٹا بیانیہ گھڑ رہے ہیں، تاکہ عوام کو گمراہ کر سکیں۔ ایک مخصوص طبقہ براہِ راست اسرائیل سے منسلک ہے۔ خود اسرائیلی اخبارات اعتراف کر چکے ہیں کہ پاکستان میں بعض بڑے سیاستدان اور مقتدر شخصیات اسرائیل نواز ہیں، اور ان کے یہودی خاندانوں سے روابط ہیں، ان کا کام پاکستان میں صیہونیت کیلئے فضا ہموار کرنا ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: کہ پاکستان میں نے کہا کہ رہے ہیں کھل کر رہا ہے
پڑھیں:
مقبوضہ کشمیر، 05 اگست 2019ء سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں تیزی آئی
سیاسی ماہرین اور تجزیہ کاروں نے خبردار کیا کہ تنازعہ کشمیر کی وجہ سے جنوبی ایشاء کو مسلسل ایک غیر یقینی صورتحال کا سامنا ہے اور کشمیری بھی سخت مشکلات کا شکار ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی ہندوتوا بھارتی حکومت کیطرف سے اگست 2019ء میں 370 اور 35 اے دفعات کی منسوخی کے بعد بھارت کے غیر قانونی زیر قبضہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں بڑے پیمانے پر تیزی آئی ہے۔ ذرائع کے مطابق بھارتی فورسز نے اگست 2019ء سے اب تک مقبوضہ علاقے میں کئی خواتین سمیت 1 ہزار 43 افراد کو شہید کیا۔ شہید ہونے والوں میں اکثر نوجوان تھے۔ اس عرصے کے دوران 2 ہزار 6 سو 56 سے زائد افرار کو زخمی جبکہ 29 ہزار 9 سو 97 سے زائد کو شہریوں کو گرفتار کیا گیا۔ دریں اثنا بھارتی فورسز نے اپنی ریاستی دہشت گردی کی مسلسل کارروائیوں میں گزشتہ ماہ(اکتوبر) میں 2 کشمیریوں کو ایک جعلی مقابلے میں شہید کیا۔بھارتی فوجیوں، پولیس، پیرا ملٹری اہلکاروں اور بدنام زمانہ تحقیقاتی اداروں نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی (این آئی اے)، سٹیٹ انویسٹی گیشن ایجنسی (ایس آئی اے) کی ٹیموں نے محاصرے اور تلاشی کی 244 کارروائیوں اور گھروں پر چھاپوں کے دوران 42 شہریوں کو گرفتار کیا، جن میں زیادہ تر سیاسی کارکن، نوجوان اور طلباء شامل ہیں۔
گرفتار کیے جانے والوں میں سے بیشتر کے خلاف ”پبلک سیفٹی ایکٹ اور یو اے پی اے“ جیسے کالے قوانین کے تحت مقدمات درج کیے گئے۔ اس عرصے کے دوران 20 کشمیریوں کے مکان، اراضی اور دیگر املاک ضبط کی گئیں جبکہ دو کشمیری مسلم ملازمین کو نوکریوں سے برطرف کیا گیا۔ بھارتی فورسز اہلکاروں نے اکتوبر میں دو کشمیری خواتین کو بے حرمتی کا نشانہ بنایا۔ ادھر کل جماعتی حریت کانفرنس کے چیئرمین مسرت عالم بٹ، محمد یاسین ملک، شبیر احمد شاہ، آسیہ اندرابی، ناہیدہ نسرین، فہمیدہ صوفی، نعیم احمد خان، ایاز اکبر، پیر سیف اللہ، معراج الدین کلوال، فاروق احمد شاہ ڈار، سید شاہد شاہ،، ایڈوکیٹ میاں عبدالقیوم، مشتاق الاسلام، ڈاکٹر حمید فیاض، شاہد الاسلام، بلال صدیقی، مولوی بشیر عرفانی، ظفر اکبر بٹ، نور محمد فیاض، عبدالاحد پرہ، ڈاکٹر محمد قاسم فکتو، ڈاکٹر محمد شفیع شریعتی، رفیق احمد گنائی، فردوس احمد شاہ، سلیم ننا جی، محمد یاسین بٹ، فیاض حسین جعفری، عمر عادل ڈار، انسانی حقوق کے محافظ خرم پرویز اور صحافی عرفان مجید سمیت 3 ہزار سے زائد کشمیری جھوٹے مقدمات میں جیلوں اور عقوبت خانوں میں بند ہیں جہاں انہیں طبی سمیت تمام بنیادی سہولیات سے محروم رکھا گیا ہے۔
سیاسی ماہرین اور تجزیہ کاروں نے وادی کشمیر میں بھارت کی جانب سے بین الاقوامی قوانین کی کھلم کھلا خلاف ورزیوں پر اقوام متحدہ اور دیگر عالمی طاقتوں کی خاموشی پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے سوال کیا کہ کیا دنیا جنوبی ایشیا میں ایک اور فلسطین جیسی صورتحال پیدا ہونے کا انتظار کر رہی ہے۔ بی جے پی کی ہندو انتہا پسند بھارتی حکومت بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ متنازعہ علاقے میں انسانی حقوق اور بین الاقوامی قوانین کی سنگین پامالی کررہی ہے جس کا واحد مقصد کشمیریوں کی آزادی کی آواز کو دبانا ہے۔ سیاسی ماہرین اور تجزیہ کاروں نے خبردار کیا کہ تنازعہ کشمیر کی وجہ سے جنوبی ایشاء کو مسلسل ایک غیر یقینی صورتحال کا سامنا ہے اور کشمیری بھی سخت مشکلات کا شکار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ اور عالمی طاقتوں کو چاہیے کہ وہ مقبوضہ علاقے میں نہتے لوگوں پر جاری بھارتی جبر و تشدد کا نوٹس لیں اور تنازعہ کشمیر کے حل کیلئے بھارتی حکومت پر دباﺅ ڈالے۔