اسلام آباد (نیوز ڈیسک)وفاقی کابینہ توسیع کو ایک ہفتہ ہونے کو آیا ،حلف اٹھانے والے بعض وزراء کی وزارتوں کا فیصلہ بھی ہوچکا ، پرویز خٹک تاحال متنازعہ ، فیصلے کو خوشدلی سے قبول نہیں کیا گیا؟ دھیمے انداز میں فیصلے کا دفاع کرنے سے معذرت، دیرینہ حریف اختیار ولی دلبرداشتہ ,کابینہ میں شامل بعض شخصیات کے انتخاب پر اعتراضات، تحفظات اور گلے شکوے بھی مدہم پڑتے جارہے ہیں لیکن تحریک انصاف کے دور میں خیبرپختونخوا کے وزیر اعلیٰ اور وزیر دفاع رہنے والے پرویز خٹک ابھی تک موضوع بحث بنے ہوئے ہیں ،اس حوالے سے نجی سیاسی محفلوں میں جو گفتگو ہو رہی ہے اس سے یہ بات سامنے آرہی ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت میں انہیں خوشدلی سے قبول نہیں کیا گیا صرف یہی نہیں کہ ان کے مشیر بنائے جانے پر کسی بھی سیاسی جماعت یا شخصیت کی جانب سے انہیں مبارکباد کا پیغام سامنے نہیں آیا ہے بلکہ یہ تاثر بھی حقیقت پر مبنی نظر آتا ہے کہ پرویز خٹک کے بطور مشیر وزیراعظم کے انتخاب پر اٹھنے والے سوالات کے حوالے سے کوئی بھی حکومتی شخصیت ان کا دفاع کرنے کیلئے تیار نہیں گوکہ اس حوالے سے اس حکومتی فیصلے کو بعض مسلم لیگی راہنما اتحادی حکومت کی مجبوریوں سے تعبیر کر رہے ہیں لیکن وہ خود بھی جس بددلی سے یہ جواز پیش کر رہے ہیں اس میں ان کی مجبوری بھی محسوس کی جاسکتی ہے البتہ مسلم لیگ (ن) سے تعلق رکھنے والے رکن اسمبلی اختیار ولی جنہوں نے پرویز خٹک کے انتخابی حلقے میں ان کے سب سے بڑے اور دیرینہ حریف کی حیثیت سے الیکشن میں انہیں ایک ایسے مرحلے میں جب خیبرپختونخوا میں پاکستان تحریک انصاف کی مقبولیت عروج پر تھی نوشہرہ سے پرویز خٹک کو شکست دی تھی وہ اعلانیہ طور پر اس فیصلے پر دل برداشتہ ہیں کیونکہ ان کا موقف ہے کہ پرویز خٹک نے پی ٹی آئی میں رہتے ہوئے بلخصوص عمران خان کے دھرنوں میں ان کی قیادت کے بارے میں جلسوں سے جو زبان استعمال کی تھی اور جس طرح ان کی تضحیک کی گئی اس کے باوجود انہیں کابینہ کا حصہ بنانا غلط ہے، میں اس کے بارے میں قیادت سے بات کروں گا۔

.

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: پرویز خٹک

پڑھیں:

دوحہ کانفرنس اور فیصلے

حمیداللہ بھٹی

دوحہ پرہونے والا 9 ستمبر کا بہیمانہ اور بلا اشتعال حملہ ہر حوالے سے قابلِ مذمت ہے اِس کا واحد مقصدمشرقِ وسطیٰ میں جاری امن کوششوں کوسبوتاژکرناہے تاکہ اسرائیل کو جارحیت کے جوازحاصل رہیں۔ حملے کے اثرات ومضمرات کا جائزہ لینے اور آئندہ ایسے واقعات کے تدارک کے لیے قطر کی میزبانی میں پندرہ ستمبر کو اسلامی دنیاکی سربراہی کانفرنس ہوئی جو شرکت کے حوالے سے تو بھرپور اور جامع رہی جس میں حملے کے اثرات و مضمرات کا باریک بینی سے جائزہ لیا گیا مگر کانفرنس سے وابستہ توقعات پوری نہیں ہو سکیں۔ وجہ فیصلوں کافقدان رہا۔حالانکہ اچھا موقع تھا کہ قطر سب کو اعتماد میں لے کر اسرائیل کے معاشی و اقتصادی بائیکاٹ پر راضی کرلیتا مگرایسا کچھ نہیں ہو سکا ۔خود قطر ابھی تک اسرائیل کو گیس کی فراہمی کا سلسلہ معطل نہیں کر پارہا۔ علاوہ ازیں یو اے ای کا اسرائیل کے خلاف کسی فوجی کارروائی میں ساتھ دینے اور تعلقات پر نظرثانی کرنے سے انکار مزیدتباہ کُن ہے ۔فی کس آمدن کے لحاظ سے دنیا میں چھٹے نمبر پر شمار ہونے والا قطر جیسا امیر ملک فیصلوں میں اِتناکمزور اور بے بس ہو گا حیرت ہے۔ اسی لیے واقفانِ حال کاکہناہے قطر جوابی کارروائی کی بجائے دوحہ حملے جیسے واقعات آئندہ نہ دُہرائے جانے کی گارنٹی چاہتاہے ۔امریکہ نے ایسی یقین دہانی کرائی تو ہے مگر قطری قیادت کے شکوک وشبہات برقرار ہیں ۔وجہ یہ ہے کہ خطے میں امریکہ کے سب سے بڑے فوجی اڈے کی میزبانی اور جدیدترین ہتھیاروں کے باوجودقطری آزادی وخود مختاری کی پامالی ہو گئی مگرامریکی گارنٹر کی طرف سے کچھ نہ کرنا ملی بھگت ظاہرہوتی ہے ۔اسی بنا پر قطر مزید اعتمادکرتے ہوئے ہچکچا تو رہا ہے لیکن غیر معمولی فیصلہ کرنے کی ہمت بھی نہیں کرپارہا۔
عین ایسے وقت جب قطر پراسرائیلی حملے کے حوالے سے اسلامی ممالک غوروخوض میں مصروف تھے، امریکی وزیرِ خارجہ مارکو روبیو اپنی غیر متزلزل حمایت کا یقین دلانے کے لیے اسرائیلی قیادت سے ملاقاتیں کررہے تھے ۔یہ اشارہ ہے کہ عربوں کے غم و غصے کو امریکی وقتی اُبال سمجھتے ہیں کیونکہ عرب بادشاہتوں کا سرپرست امریکہ ہے اور وہ جانتاہے کہ سرپرستی سے دستکش ہونے کی صورت میں یہ بادشاہتیں اپناوجود کھو بیٹھیں گی ۔اسی لیے عرب بادشاہ ایسا خطرہ مول لینے کو تیار نہیں جو اقتدار سے محرومی کا باعث بنے ۔ایسی سوچ نے ہی عرب شاہوںکو غیر معمولی فیصلوں سے روک رکھا ہے اور وہ اقتدار کے لیے آزادی وخود مختاری کی خلاف ورزیاں تک برداشت کرنے پر مجبور ہیں ۔
اگر آزادی وخود مختاری کاتحفظ کرناہے تو عرب ممالک کو غیر معمولی دلیرانہ فیصلے کرنا ہوں گے جس طرح رواں برس پاکستان نے حملے کے جواب میں چند گھنٹوں میں بھارت کی اینٹ سے اینٹ بجا دی ۔جون میں اسرائیلی حملے کے وقت ایسے حالات میں جب فضائیہ نہ ہونے کے برابر تھی اِس کے باوجود ایران نے بھرپورجوابی کارروائی کی ۔پاکستان اور ایران کے بروقت اور منہ توڑ فیصلوں کاہی اثر تھا کہ جارح ممالک جنگ بندی پر مجبورہوئے۔ قطر نے بھی جوابی کارروائی کا عندیہ ظاہر کر رکھا ہے مگر حملے کو آٹھ روزگزرچکے ہیں لیکن ابھی تک اسرائیل کوبدستور گیس کی فراہمی جاری ہے ۔یہ کمزوری اور بزدلی کی انتہا ہے جب تک عرب ممالک عوامی پسند وناپسند کو ملحوظِ خاطر نہیں رکھیں گے عالمی طاقتیں کٹھ پتلیوں کی طرح نچاتی رہیں گی ۔دنیا کے ذرائع ابلاغ پر اسرائیل نواز طاقتوں کاکنٹرول ضرور ہے۔ قطر کے پاس تو الجزیرہ جیسا اہم ذریعہ موجودہے جس کی ایک ساکھ ہے۔ دنیا اُسے سنتی اور اعتماد کرتی ہے ۔اِس کے باوجود وہ کیوں اپناموقف درست طریقے سے پیش نہیں کرپارہا کہ دنیا کی ہمدردیاں حاصل کر سکے ؟
قطر پر حملہ ریاستی دہشت گردی ہے جس پر اسرائیل کو جوابدہ ٹھہرانا ہو گا۔اقوامِ متحدہ کے چارٹر کی مسلسل خلاف ورزی پر اُس کی رُکنیت معطل کرانے کی کوششیں وقت کی ضرورت ہیں ۔غزہ میں انسانیت سسک رہی ہے ۔بدترین نسل کشی کے خلاف اب بھی اگرمسلم ممالک اجتماعی اقدامات نہیں کرتے تو تاریخ اُنھیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔ دوحہ سربراہی اجلاس میں اسرائیل سے فوری اورغیر مشروط جنگ بندی کا مطالبہ توکیا گیا ہے مگر اسرائیل جیسا غاصب ملک ایسا کیوں کرے گا؟جب عدم تعمیل کی صورت میں کسی قسم کی تادیبی کارروائی کا کوئی خدشہ نہیں پاکستان نے قطر سے یکجہتی کرتے ہوئے اسرائیل کوکٹہرے میں لانے نیز اُسے توسیع پسندانہ عزائم سے روکنے کے لیے اسلامی ٹاسک فورس بنانے کی تجویز دی ہے مگر یہ تبھی ممکن ہے جب عرب ممالک میں اتحاد و اتفاق ہو ۔
عربوں کی دُرگت بننے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ انھوں نے ساراوزن امریکی پلڑے میں ڈال رکھا ہے۔ اُن کی دولت امریکہ اور مغربی ممالک کے پاس ہے۔ اسلحہ ہویا فضائیہ ،سب امریکی ومغربی ساختہ ہے ۔اسی لیے جب اسرائیل کی بات آتی ہے تو دولت ،اسلحہ اور فضائیہ سے کوئی مدد نہیں ملتی۔ محض 11571مربع کلومیٹر رقبے پر محیط قطر کا دفاعی بجٹ پاکستان سے زیادہ ہے لیکن اپنے دفاع کے پھر بھی قابل نہیں۔ اگر عرب ممالک امریکہ یامغربی ممالک پر انحصار کرنے کے بجائے متبادل کاآپشن بھی رکھیں تو حالات یکسرمختلف ہوں ترکیہ نیٹو کا رُکن ہونے کے باوجودروسی ہتھیاربھی خریدتا ہے ۔خوش قسمتی سے چین و روس کونئے اتحادیوں کی تلاش ہے۔ اِس دستیاب موقع سے فائدہ اُٹھانا ہی دانشمندی ہے۔ اِس کے لیے پاکستان کی صورت میں ذریعہ موجود ہے جس کے تجربات اور فضائیہ سے بھی عرب فائدہ اُٹھا سکتے ہیں جس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہو گا کہ ضرورت کے وقت اسلحہ اور فضائیہ کوخود استعمال کرسکیںگے ۔پاکستان اورترکیہ کے پاس اپنے عرب بھائیوں کی تربیت کرنے کی بھی صلاحیت ہے ۔یہ تبھی ممکن ہے جب امریکہ اور مغربی ممالک پر انحصار کم اور متبادل ہو۔ اسلامی سربراہی کانفرس کے فیصلوں سے توبظاہر ایساتاثر ملتا ہے جیسے امریکہ سے پوچھ کر کیے گئے ہوں ۔
قطر حملے پر پاکستان ،ترکیہ ،ملائشیااور ایران جیسے ممالک نے تو جاندار موقف اختیار کیا مگر عربوں کا موقف غیر واضح اور مُبہم ہے صرف مذمت سے حملے یا میزائل رُکتے توساری دنیا کی طرف سے مذمت کے باوجود غزہ میں بدترین نسل کشی نہ ہورہی ہوتی۔ عزت اور انصاف کے لیے بھی طاقت ضروری ہے۔ آذربائیجان ،پاکستان اور ایران یہ ثابت کرچکے پھربھی عرب ممالک سمجھ نہیں پارہے۔ ٹھیک ہے مشترکہ اعلامیے میں مسلم ممالک نے قطر کے ثالثی عمل پر حملے کو عالمی امن کوششوں پر حملہ قرار دیا ہے مگر اسرائیل کویواین اومیں بے نقاب کیوں نہیں کیا جاتا۔ سلامتی کونسل تو اسرائیل کا نام لیے بغیر قطرپر حملے کی مذمت کرتی ہے ۔امیرترین عرب ممالک کے باوجود اسرائیل غزہ میں بھوک کو بطور ہتھیار استعمال کررہا ہے۔ اِس کے باوجود نتیجہ خیز فیصلے نہیں ہورہے۔ پاکستان و ترکیہ کی دفاعی خودکفالت سے فائدہ اُٹھا کر عرب دفاعی
حوالے سے خود مختار ہو ں وگرنہ یادرکھیں باری باری سبھی عرب ممالک اسرائیل کی جارحیت کا نشانہ بنیں گے۔

متعلقہ مضامین

  • اپنے حلف کی پاسداری کرتے ہوئے جرت مندانہ فیصلے کریں. عمران خان کا چیف جسٹس کو خط
  • متنازع شو پر عائشہ عمر کی وضاحت سامنے آگئی
  • غزہ میں کسی معاہدے کا امکان نہیں، کارروائی میں توسیع کریں گے: اسرائیل نے امریکہ کو بتا دیا
  • دوحہ کانفرنس اور فیصلے
  • ویڈیو لنک کسی صورت قبول نہیں، مقصد عمران خان کو تنہا کرنا ہے، علیمہ خان
  • ویڈیو لنک کسی صورت قبول نہیں مقصد عمران خان کو آئسولیٹ کرنا ہے، علیمہ خان
  • ’ایسی چیزیں قبول نہیں کروں گی‘، سیلاب زدگان کے لیے غیر معیاری سامان ملنے پر حدیقہ کیانی پھٹ پڑیں
  • گوجرانوالہ: نوائے وقت کے نیوز ایجنٹ اقبال پرویز وفات پا گئے‘ ختم قل کل ہو گا
  • پاکستان تنازعات کے بات چیت کے ذریعے پرامن حل کا حامی ، اسرائیل کا لبنان اور شام کے بعد قطر پر حملہ ناقابل قبول ہے، نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ سینیٹر محمد اسحاق ڈار
  • ملکی سالمیت پر کوئی سمجھوتہ قابل قبول نہیں :اسحاق ڈار