کابینہ توسیع، پرویز خٹک تا حال متنازع، فیصلے کو خوشدلی سے قبول نہیں کیا گیا؟
اشاعت کی تاریخ: 5th, March 2025 GMT
اسلام آباد (نیوز ڈیسک)وفاقی کابینہ توسیع کو ایک ہفتہ ہونے کو آیا ،حلف اٹھانے والے بعض وزراء کی وزارتوں کا فیصلہ بھی ہوچکا ، پرویز خٹک تاحال متنازعہ ، فیصلے کو خوشدلی سے قبول نہیں کیا گیا؟ دھیمے انداز میں فیصلے کا دفاع کرنے سے معذرت، دیرینہ حریف اختیار ولی دلبرداشتہ ,کابینہ میں شامل بعض شخصیات کے انتخاب پر اعتراضات، تحفظات اور گلے شکوے بھی مدہم پڑتے جارہے ہیں لیکن تحریک انصاف کے دور میں خیبرپختونخوا کے وزیر اعلیٰ اور وزیر دفاع رہنے والے پرویز خٹک ابھی تک موضوع بحث بنے ہوئے ہیں ،اس حوالے سے نجی سیاسی محفلوں میں جو گفتگو ہو رہی ہے اس سے یہ بات سامنے آرہی ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت میں انہیں خوشدلی سے قبول نہیں کیا گیا صرف یہی نہیں کہ ان کے مشیر بنائے جانے پر کسی بھی سیاسی جماعت یا شخصیت کی جانب سے انہیں مبارکباد کا پیغام سامنے نہیں آیا ہے بلکہ یہ تاثر بھی حقیقت پر مبنی نظر آتا ہے کہ پرویز خٹک کے بطور مشیر وزیراعظم کے انتخاب پر اٹھنے والے سوالات کے حوالے سے کوئی بھی حکومتی شخصیت ان کا دفاع کرنے کیلئے تیار نہیں گوکہ اس حوالے سے اس حکومتی فیصلے کو بعض مسلم لیگی راہنما اتحادی حکومت کی مجبوریوں سے تعبیر کر رہے ہیں لیکن وہ خود بھی جس بددلی سے یہ جواز پیش کر رہے ہیں اس میں ان کی مجبوری بھی محسوس کی جاسکتی ہے البتہ مسلم لیگ (ن) سے تعلق رکھنے والے رکن اسمبلی اختیار ولی جنہوں نے پرویز خٹک کے انتخابی حلقے میں ان کے سب سے بڑے اور دیرینہ حریف کی حیثیت سے الیکشن میں انہیں ایک ایسے مرحلے میں جب خیبرپختونخوا میں پاکستان تحریک انصاف کی مقبولیت عروج پر تھی نوشہرہ سے پرویز خٹک کو شکست دی تھی وہ اعلانیہ طور پر اس فیصلے پر دل برداشتہ ہیں کیونکہ ان کا موقف ہے کہ پرویز خٹک نے پی ٹی آئی میں رہتے ہوئے بلخصوص عمران خان کے دھرنوں میں ان کی قیادت کے بارے میں جلسوں سے جو زبان استعمال کی تھی اور جس طرح ان کی تضحیک کی گئی اس کے باوجود انہیں کابینہ کا حصہ بنانا غلط ہے، میں اس کے بارے میں قیادت سے بات کروں گا۔
.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: پرویز خٹک
پڑھیں:
وزیر اعلیٰ پنجاب کی انتخابی کامیابی کے خلاف دائر درخواست مسترد
لاہور:الیکشن ٹربیونل لاہور نے وزیرِ اعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف کی انتخابی کامیابی کے خلاف دائر درخواست مسترد کر دی۔
پی ٹی آئی کے امیدوار مہر شرافت علی نے درخواست دائر کی تھی جنہوں نے لاہور کے صوبائی حلقہ پی پی 159 سے مریم نواز کی کامیابی کو چیلنج کیا تھا۔
الیکشن ٹربیونل کے جج رانا زاہد محمود نے محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے قرار دیا کہ درخواست گزار نے الیکشن ایکٹ 2017 کے رول 144 کی شرائط پوری نہیں کیں، اس لیے درخواست قابلِ سماعت نہیں۔
فیصلے کے مطابق، درخواست گزار کے الیکشن پٹیشن کے ہر صفحے پر دستخط موجود نہیں تھے، جبکہ بیانِ حلفی میں اوتھ کمشنر کی تصدیق والے صفحے پر درخواست گزار کا نام اور والد کا نام درج نہیں تھا۔
وزیرِ اعلیٰ مریم نواز کی جانب سے پیش ہونے والے وکیل بیرسٹر اسداللہ چھٹہ نے قانونی نکات پر دلائل دیتے ہوئے مؤقف اختیار کیا کہ درخواست ناقابلِ سماعت ہے اور اس میں بنیادی قانونی تقاضے پورے نہیں کیے گئے۔
فیصلے میں کہا گیا کہ بیرسٹر اسداللہ چھٹہ کے دلائل میں وزن ہے، اور یہ کہ درخواست کو باقاعدہ ٹرائل کے لیے پیش نہیں کیا جا سکتا۔
الیکشن ٹربیونل کے فیصلے کے ساتھ ہی وزیرِ اعلیٰ پنجاب مریم نواز کی پی پی-159 سے کامیابی برقرار رہی۔