برطانیہ میں ماہ رمضان اور مسلمان
اشاعت کی تاریخ: 5th, March 2025 GMT
ونڈسر کاسل ایک وسیع و وعریض رقبے پر محیط تاریخی و قدیمی شاہی محل ہے جہاں شاہی خاندان کی سرکاری رہائش گاہیں ہیں، یہ شاہی محل برطانیہ کی ریاستی تقریبات اور سرکاری مہمانوں کی میزبانی کے لیے استعمال ہوتا ہے جس کے رانڈ ٹاورقلعے کا ایک نمایاں حصہ سیاحوں کے لئے خاص دلچسپی رکھتا ہے اس سال 2 مارچ بروز اتوار رمضان المبارک کی آمد کے ساتھ ہی کچھ پہلی بار عجوبہ ہوگیا کہ عالی شان اس شاہی محل میں ایک ہزار سال کے بعد مسلمانوں کے لئے افطار پارٹی کا اہتمام کیا گیا تقریباً ساڑھے تین سو سے زائد مسلمانوں نے کھجوروں اور مشروبات سے روزہ افطار کیا آذان مغرب کی صدائیں اللہ و اکبر اللہ و اکبر کی گونچ شاہی محل کے چاروں کونوں سے ٹکرا گئیں مسلمانوں نے باجماعت نماز مغرب ادا کی اور کھانا تناول کیا۔
یہاں افطاری کرنے والوں نے اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے بتایا کہ ایک حیرت انگیز ماحول تھا ایسا لگتا ہی نہیں کہ یہ حقیقت بھی ہوسکتی ہے، سینٹ جارج ہال میںیہ مفت تقریب لندن کی فلاحی تنظیم رمضان ٹینٹ پروجیکٹ نے منعقد کی تھی۔
ونڈسر کاسل کے وزیٹر آپریشنز ڈائریکٹر، سائمن میپلز نے کہا کہ بادشاہ عالی جناب چارلس سوئم کئی سالوں سے جس مذہبی تنوع کے فروغ اور بین المذاہب مکالمے کی حوصلہ افزائی کر رہے تھے یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ ایک طویل سفر طے ہوا ۔ ہم واقعی ایک طویل راستہ طے کر چکے ہیں۔ شاہی مہمان نوازی روزہ افطاری، مسلم شناخت کو اس تاریخی پس منظر کے ساتھ جوڑنا واقعی ایک اعزاز ہے اس تقریب کے برطانیہ یورپ مغربی سوسائٹی پر دورس نتائج ہوں گے۔
رمضان المبارک کا ماہ مقدس مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کا موقع فراہم کرتا ہے تاکہ وہ اپنی دنیا اور آخرت اس ماہ مبارک میں سنوار سکیں عزیز و اقارب، پڑوسیوں اور دوسروں کے حقوق پورے کرنے کے ساتھ ساتھ معاشرے میں عدل و انصاف کے تقاضے پورے کرکے دوسروں کو بھی اس کی تلقین کریں جبکہ روزہ صبروشکر کا نام ہے اور مومن کی پوری زندگی صبر وشکر کا خلاصہ ہے ۔اسلامی ممالک میں آباد مسلمانوں کی اکثریت کی طرح کوئی تقریباً 4ملین برطانوی مسلمان رمضان المبارک میں عبادات کا پوری طرح اہتمام کرتے ہیں ۔ تقریباً چار ہزار سے زائد مساجد میں باجماعت نمازوں، تراویح اور نوافل کا پوری طرح اہتمام کیا جاتا ہے۔ مسلمان آبادی والے شہروں میں تو ہر مسلک اور عقیدے اور ملک بلکہ علاقے کے مسلمانوں کی مساجد ہیں جبکہ اجتماعی افطاریوں کے مواقعوں پر خصوصی محفلوں، ذکر و اذکار اور دعائوں کے مناظر دیدنی ہوتے ہیں۔
بعض شہروں میں تو افطاری کے وقت مختلف دکانوں پر شاپنگ کرنے والوں کا رش اس قدر بڑھ جاتا ہے کہ جیسے پاکستان کے کسی شہر میں ہیں ۔ تاہم یہ امر افسوس ناک ہے کہ بعض ایشیائی مسلمانوں کی دوکانوں پر منافع خوری کی غرض سے اشیا ء خورد و نوش کی قیمتیں بڑھا دی جاتی ہیں۔ کھجوروں ، گوشت اور دیگر روزانہ استعمال ہونے والی اشیا ء مہنگی کر دی جاتی ہیں جبکہ غیر مسلموں کے بڑے بڑے سپر سٹورز پر رمضان المبارک کی خصوصی رمضان آفرز لگائی جاتی ہیں اور آٹا دال، چاول اور دوسری روزمرہ کی اشیاء کی قیمتیں کم نرخوں پر فروخت کی جاتی ہیں ۔ برطانیہ میں دین اسلام عیسائیت کے بعد دوسرا بڑا مذہب ہے۔
بڑے شہروں میں بعض مساجد میں ظہر، عصر اور مغرب کی اذانیں لاوڈ سپیکرز پر کھلے عام دینے کی اجازت ہے جو پورے شہر میں سنائی دیتی ہیں ۔مسلمانوں کو اپنی عبادات کی پوری آزادی حاصل ہے۔ جمعہ کی نماز کی ادائیگی کے وقت بعض شہروں میں پارکنگ کی پابندی کے قوانین میں بھی نرمی کی جاتی ہے تاکہ مسلمان آسانی سے جمعہ کی نماز ادا کرسکیں لیکن یہاں کے مسلمان بھی مسجد میں جاتے وقت اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کرتے کہ کسی دوسرے کا راستہ بند ہوگا بعض اوقات بسیں اور ایمبولینس بھی پھنس جاتی ہیں۔ مسلمانوں کے اکثریتی شہروں میں جمعہ اور تراویح کی نمازوں کی جماعتیں بھی دو دو ہوتی ہیں جبکہ نماز کے اوقات کار میں تو پولیس کا گشت بھی بڑھا دیا جاتا ہے تاکہ کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہ آئے۔
رمضان میں مسلمان نوجوان جو یہاں کے اداروں میں ملازمتیں کرتے ہیں ان کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ رمضان کے آخری عشرے میں اپنی تعطیلات مختص کرلیں تاکہ وہ سکون سے اپنا روزہ رکھ سکیں موسم گرما میں روزہ یورپ میں تقریباً 19 گھنٹوں کا ہوتا ہے ان نوجوانوں کے لئے روزے کی سختی ایک کھٹن مرحلہ ہے ان کے بعض مالکان نے اس حد تک چھوٹ دے رکھی ہوتی ہے کہ وہ گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ کام کے اوقات سے پہلے گھر چلے جائیں اور پھر جب کرسمس کا موقعہ ہو تو اس وقت وہ اپنے عیسائی ورک میٹس یا ساتھیوں کی اس وقت مدد کریں اور کام سے کمی پوری کر دیں ۔اس معاشرے کی انسانی قدروں کی بلندیوں اور باہم احترام کی ایسی مثالیں دیدنی ہیں۔
(جاری ہے)
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: رمضان المبارک جاتی ہیں شاہی محل
پڑھیں:
امریکہ کا دورہ مکمل کرنے کے بعد پاکستانی سفارتی وفد برطانیہ پہنچ گیا
لندن(ڈیلی پاکستان آن لائن) گزشتہ دنوں پاکستان کا سفارتی وفد بلاول بھٹو زرداری کی قیادت میں امریکہ پہنچا تھا جہاں اقوام متحدہ میں مختلف ممالک کے نمائندوں، امریکی کانگریس ارکان اور دیگر حکومتی ارکان سے ملاقاتیں کیں۔
اب پاکستان کا سفارتی وفد امریکہ سے برطانیہ پہنچ گیا۔ لندن میں نجی ٹی وی جیو نیوز سے گفتگو میں پاکستانی سفارتی وفد کے رکن فیصل سبزواری کا کہنا تھاکہ ہم نے اپنا دورہ اقوام متحدہ سے شروع کیا اور پاکستان کا مقدمہ پیش کیا، ہم نے فوجی سبقت دکھائی پھر بھی ہم امن کی دعوت دینے آئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ چاہتے ہیں کہ عالمی طاقتیں بھارت کو یہ بتائیں کہ دو ایٹمی ممالک ایسے خطرناک ماحول میں آگے نہیں بڑھ سکتے، بھارت کوشش کررہا ہے کہ ایسی استثنیٰ ملے کہ بغیرثبوت کے جارحیت کرے، پہلگام واقعے پر بھی کہا کہ ثبوت پیش کریں لیکن بھارت نے حملہ کردیا۔
ان کا کہنا تھاکہ امریکی محکمہ خارجہ اور ارکان پارلیمنٹ کے سامنے پاکستان کا مؤقف پیش کیا، امن پر مبنی ہمارے مؤقف کو بہت حد تک پذیرائی ملی ہے، خطے میں امن کا پیغام لے کر آئے ہیں یہ بھارت کی ناکامی اور پاکستان کی کامیابی ہے۔
شیری رحمان نے کہا کہ ہم امن چاہتے ہیں، کشمیر پر مذاکرات چاہتے ہیں، بھارتی وفد کے دورے کا جائزہ لے کر پتا چلتا ہے کہ ان کا مقصد صرف پاکستان پر الزام تراشی کرنا ہے۔
سفارتی وفد کے رکن خرم دستگیر خان کہناتھاکہ امریکیوں کا یہ خیال تھا کہ ٹرمپ نے سیز فائر کرادیا، مزید مداخلت کی ضرورت نہیں، ہمارا مشن ان کو یہ سمجھانا تھا کہ بھارت نہ غیر جانب دارانہ انکوائری اور نہ بات کرنا چاہتا ہے، اس لیے دنیا کی مداخلت کی ضرورت ہے۔
بشریٰ انجم بٹ کا کہنا ہے کہ پاکستانی وفد کو نیویارک اور واشنگٹن میں بہت پذیرائی ملی، سندھ طاس معاہدے اور کشمیر پر پاکستان نے اپنا مؤقف بہت عمدہ انداز میں پیش کیا۔
جنوبی وزیرستان میں بچوں کی گاڑی پر فائرنگ
مزید :