اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 06 مارچ 2025ء) امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے چین، میکسیکو اور کینیڈا پر نئے تجارتی محصولات کے آغاز کے ساتھ ہی دنیا میں ایک اور تجارتی جنگ شروع ہو گئی ہے۔ وہ ایشیائی ممالک بھی مشکلات میں گِھر گئے ہیں جو ایک پیچیدہ اور مربوط عالمی سپلائی چین کا حصہ ہیں۔

چین کی امریکی محصولات کے خطرے کا مقابلہ کرنے کی تیاریاں

نہ کم نہ زیادہ، ٹرمپ کا ’برابر کا جواب‘ دینے کا فیصلہ

ویتنام، تائیوان اور تھائی لینڈ امریکہ کے ساتھ برآمدات اور جی ڈی پی کے تناسب میں اضافے کی وجہ سے امریکی محصولات میں اضافے کے خطرات کا سب سے زیادہ سامنا کر رہے ہیں۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپکی جانب سے سیمی کنڈکٹر، فارماسوٹیکل، اسٹیل اور ایلومینیم جیسے شعبوں پر محصولات عائد کرنے کی تجویز کے بعد توقع ہے کہ جنوبی کوریا، جاپان، ملائیشیا، فلپائن اور تائیوان سے ہونے والی ایک چوتھائی سے زائد برآمدات متاثر ہوسکتی ہیں۔

(جاری ہے)

ملائشیا، جنوبی کوریا اور تھائی لینڈ شمالی امریکہ کی سپلائی چین سے زیادہ جڑے ہوئے ہیں، جس کی وجہ سے وہ کینیڈا اور میکسیکو پر لگنے والے امریکی محصولات سے متاثر ہونے کے خطرے سے دوچار ہیں۔

اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ ملائیشیا کی جی ڈی پی کا 0.

59 فیصد اس تجارت سے منسلک ہے۔ کینیڈا اور میکسیکو کو کی جانے والی یہ برآمدات ان اشیا میں استعمال ہوتی ہیں جو وہ امریکہ کو فراہم کرتے ہیں۔

چین کی امریکہ کو برآمدات میں تائیوان اور ویتنام سے آنی والی اشیا کا بھی حصہ ہوتا ہے، جس کا مطلب ہے کہ وہ امریکہ چین تجارتی تناؤ سے بہت زیادہ متاثر ہوسکتے ہیں۔

تجارتی سرپلس رکھنے والے ممالک بھی خطرے کا شکار

اگرچہ ٹرمپ کی طرف سے دعویٰ کیا جاتا ہے کہ ان کی طرف سے عائد کیے جانے والے نئے محصولات تجارتی عدم توازن کو دور کرنے کے لیے تین ممالک کو ہدف بناتے ہیں، لیکن خیال ہے کہ ان ممالک کے خلاف بھی اضافی محصولات عائد ہو سکتے ہیں، جو امریکہ کے ساتھ سب سے زیادہ تجارتی سرپلس رکھتے ہیں۔

امریکی محکمہ خزانہ کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق ایشیا میں چین، ویتنام، جاپان اور تائیوان کا امریکہ کے ساتھ سب سے زیادہ تجارتی سرپلس رکھتے ہیں۔

کچھ ایشیائی معیشتوں کو بھی اضافی محصولات کے خطرات کا سامنا ہے کیونکہ صدر ٹرمپ کا منصوبہ ہے کہ ان ممالک پر جوابی محصولات عائد کیے جائیں جو امریکی درآمدات پر امریکی محصولات کے مقابلے میں زیادہ محصولات عائد کرتے ہیں۔

آکسفورڈ اکنامکس نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے، ''اگر موجودہ امریکی انتظامیہ صرف محصولات کے فرق کی بنیاد پر باہمی محصولات کا فیصلہ کرتی ہے تو اس بات کا امکان ہے کہ ایشیا میں، بھارت، تھائی لینڈ اور جنوبی کوریا کو سب سے زیادہ خطرہ ہو گا اور انہیں تقریباﹰ پانچ پی پی ٹی اضافی محصولات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔‘‘

ا ب ا/ش ر (روئٹرز)

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے امریکی محصولات محصولات عائد سب سے زیادہ محصولات کے کے ساتھ

پڑھیں:

بھارت اور امریکا کے درمیان تجارتی مذاکرات کا پہلا مرحلہ ناکام

نئی دہلی میں بھارت اور امریکا کے درمیان ہونے والے اہم تجارتی مذاکرات کسی نتیجے پر نہ پہنچ سکے۔ 

مذاکرات میں امریکی وفد کی قیادت برینڈن لنچ جبکہ بھارتی وفد کی قیادت راجیش اگروال نے کی۔ دونوں فریقین نے مزید ملاقاتوں پر تو اتفاق کیا لیکن بڑے مسائل پر پیش رفت نہ ہوسکی۔

بھارتی وزیر تجارت سنیل برتھوال نے میڈیا سے گفتگو میں بتایا کہ امریکا کے ساتھ کئی سطحوں پر بات چیت جاری ہے تاہم روس سے تیل کی خریداری کے معاملے پر اختلافات برقرار ہیں اور واشنگٹن اس پر مسلسل دباؤ ڈال رہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ امریکا چاہتا ہے بھارت زرعی مصنوعات، دودھ اور گندم پر عائد بلند ٹیکسز کم کرے تاکہ تجارتی ڈیل آگے بڑھ سکے۔ یاد رہے کہ امریکی صدر ٹرمپ پہلے ہی بھارت پر روس سے تیل خریدنے پر 50 فیصد ٹیرف عائد کر چکے ہیں۔

 

متعلقہ مضامین

  • چین اور امریکہ کے اقتصادی اور تجارتی مذاکرات کے نتائج مشکل سے حاصل ہوئے ہیں، چینی میڈیا
  • ترکی کا اسرائیلی سے تجارتی بندھن
  • بھارت اور امریکا کے درمیان تجارتی مذاکرات کا پہلا مرحلہ ناکام
  • اسامہ بن لادن امریکی پروڈکٹ تھا، خواجہ آصف
  • شیرانی، دہشتگردوں کا تھانے پر حملہ، دو اہلکار شہید، متعدد زخمی
  • ٹک ٹاک بارے معاہدہ طے، عوام دوبارہ موقع دے امریکا کو مضبوط بنائیں گے، ڈونلڈ ٹرمپ
  • امریکہ: پاکستانی حکام پر پابندیاں عائد کرنے کا بل متعارف
  • دوحہ پر حملے سے 50 منٹ پہلے صدر ٹرمپ کو خبر تھی، امریکی میڈیا کا دھماکہ خیز انکشاف
  • عرب جذبے کے انتظار میں
  • یورپ میں امریکا چین تجارتی ملاقات بہت کامیاب رہی، ڈونلڈ ٹرمپ