متعدد ایشیائی ممالک ٹرمپ کی بھاری محصولات پالیسی کی زد میں
اشاعت کی تاریخ: 6th, March 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 06 مارچ 2025ء) امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے چین، میکسیکو اور کینیڈا پر نئے تجارتی محصولات کے آغاز کے ساتھ ہی دنیا میں ایک اور تجارتی جنگ شروع ہو گئی ہے۔ وہ ایشیائی ممالک بھی مشکلات میں گِھر گئے ہیں جو ایک پیچیدہ اور مربوط عالمی سپلائی چین کا حصہ ہیں۔
چین کی امریکی محصولات کے خطرے کا مقابلہ کرنے کی تیاریاں
نہ کم نہ زیادہ، ٹرمپ کا ’برابر کا جواب‘ دینے کا فیصلہ
ویتنام، تائیوان اور تھائی لینڈ امریکہ کے ساتھ برآمدات اور جی ڈی پی کے تناسب میں اضافے کی وجہ سے امریکی محصولات میں اضافے کے خطرات کا سب سے زیادہ سامنا کر رہے ہیں۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپکی جانب سے سیمی کنڈکٹر، فارماسوٹیکل، اسٹیل اور ایلومینیم جیسے شعبوں پر محصولات عائد کرنے کی تجویز کے بعد توقع ہے کہ جنوبی کوریا، جاپان، ملائیشیا، فلپائن اور تائیوان سے ہونے والی ایک چوتھائی سے زائد برآمدات متاثر ہوسکتی ہیں۔
(جاری ہے)
ملائشیا، جنوبی کوریا اور تھائی لینڈ شمالی امریکہ کی سپلائی چین سے زیادہ جڑے ہوئے ہیں، جس کی وجہ سے وہ کینیڈا اور میکسیکو پر لگنے والے امریکی محصولات سے متاثر ہونے کے خطرے سے دوچار ہیں۔
اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ ملائیشیا کی جی ڈی پی کا 0.
چین کی امریکہ کو برآمدات میں تائیوان اور ویتنام سے آنی والی اشیا کا بھی حصہ ہوتا ہے، جس کا مطلب ہے کہ وہ امریکہ چین تجارتی تناؤ سے بہت زیادہ متاثر ہوسکتے ہیں۔
تجارتی سرپلس رکھنے والے ممالک بھی خطرے کا شکاراگرچہ ٹرمپ کی طرف سے دعویٰ کیا جاتا ہے کہ ان کی طرف سے عائد کیے جانے والے نئے محصولات تجارتی عدم توازن کو دور کرنے کے لیے تین ممالک کو ہدف بناتے ہیں، لیکن خیال ہے کہ ان ممالک کے خلاف بھی اضافی محصولات عائد ہو سکتے ہیں، جو امریکہ کے ساتھ سب سے زیادہ تجارتی سرپلس رکھتے ہیں۔
امریکی محکمہ خزانہ کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق ایشیا میں چین، ویتنام، جاپان اور تائیوان کا امریکہ کے ساتھ سب سے زیادہ تجارتی سرپلس رکھتے ہیں۔کچھ ایشیائی معیشتوں کو بھی اضافی محصولات کے خطرات کا سامنا ہے کیونکہ صدر ٹرمپ کا منصوبہ ہے کہ ان ممالک پر جوابی محصولات عائد کیے جائیں جو امریکی درآمدات پر امریکی محصولات کے مقابلے میں زیادہ محصولات عائد کرتے ہیں۔
آکسفورڈ اکنامکس نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے، ''اگر موجودہ امریکی انتظامیہ صرف محصولات کے فرق کی بنیاد پر باہمی محصولات کا فیصلہ کرتی ہے تو اس بات کا امکان ہے کہ ایشیا میں، بھارت، تھائی لینڈ اور جنوبی کوریا کو سب سے زیادہ خطرہ ہو گا اور انہیں تقریباﹰ پانچ پی پی ٹی اضافی محصولات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔‘‘
ا ب ا/ش ر (روئٹرز)
ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے امریکی محصولات محصولات عائد سب سے زیادہ محصولات کے کے ساتھ
پڑھیں:
امریکا کا جنوب مشرقی ایشیا سے سولر پینلز کی درآمد پر 3500 فیصد ڈیوٹی عائد کرنے کا فیصلہ
امریکا نے پیر کے روز جنوب مشرقی ایشیا کے سولر پینلز پر 3521 فیصد تک محصولات عائد کرنے کے ارادے کا اعلان کیا ہے، جس کا مقصد اس شعبے میں مبینہ چینی سبسڈی اور ڈمپنگ کا مقابلہ کرنا ہے۔
نجی اخبار میں شائع خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کی رپورٹ کے مطابق کمبوڈیا، تھائی لینڈ، ملائیشیا اور ویتنام کی کمپنیوں پر محصولات کی جون میں بین الاقوامی تجارتی کمیشن کے اجلاس میں توثیق کی ضرورت ہوگی۔
یہ فیصلہ تقریباً ایک سال قبل متعدد امریکی اور دیگر سولر مینوفیکچررز کی جانب سے اینٹی ڈمپنگ اور کاؤنٹر ویلنگ ڈیوٹی کی تحقیقات کے بعد سامنے آیا ہے۔
ان کمپنیوں نے ’غیر منصفانہ طریقوں‘ کو نشانہ بنایا جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس نے امریکی مقامی سولر مارکیٹ کو متاثر کیا ہے، خاص طور پر جنوب مشرقی ایشیائی ممالک سے باہر کام کرنے والی چینی ہیڈکوارٹر والی کمپنیوں پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
پیر کو یہ اقدام ایک سال کی طویل تحقیقات کے بعد سامنے آیا ہے لیکن یہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے دنیا بھر میں محصولات کے ذریعے شدید تجارتی جنگ شروع کرنے کے بعد سامنے آیا ہے۔
محکمہ تجارت کے بیان میں کہا گیا ہے کہ سولر سیلز پر نئے تجویز کردہ محصولات کی خاص وجہ ’بین الاقوامی سبسڈیز‘ ہے۔
بیان میں کاؤنٹر ویلنگ ڈیوٹی تحقیقات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ کمبوڈیا، ملائیشیا، تھائی لینڈ اور ویتنام سے متعلق سی وی ڈی تحقیقات میں محکمہ تجارت نے پایا کہ ہر ملک کی کمپنیاں چین کی حکومت سے سبسڈی وصول کر رہی تھیں۔
محصولات کو حتمی شکل دینے کے لیے انٹرنیشنل ٹریڈ کمیشن کے پاس حتمی فیصلہ کرنے کے لیے جون کے اوائل تک کا وقت ہے۔
محکمہ تجارت کے مطابق کمبوڈیا کی مصنوعات پر 3521 فیصد تک ڈیوٹی عائد کی جائے گی۔
جنکو سولر کو ملائیشیا سے برآمدات پر 40 فیصد اور ویتنام سے مصنوعات پر 245 فیصد ڈیوٹی کا سامنا کرنا پڑے گا، تھائی لینڈ میں ٹرینا سولر پر 375 فیصد سے زیادہ اور ویتنام کی مصنوعات پر 200 فیصد سے زیادہ ڈیوٹی ہوگی۔ 2023 میں امریکا نے ان ممالک سے 11.9 ارب ڈالر کے شمسی سیل درآمد کیے۔
Post Views: 1