Daily Ausaf:
2025-11-04@06:18:21 GMT

ابن حجر عسقلانی، تاریخ اسلام کے عظیم مفکر

اشاعت کی تاریخ: 7th, March 2025 GMT

اسلامی تاریخ کے عظیم مفکر، محدث،فقیہ، تاریخ دان، مصنف اور منصف ابن حجر عسقلانی فلسطین کے شہر عسقلان سے نسبت رکھتے تھے اسی نسبت سے عسقلانی کہلائے،جبکہ ان کی جنم بھومی مصر ہے جہاں وہ 1372 میں علم کے عظیم گہوارے قاہرہ میں پیدا ہوئے اور ذوق علم کی ساری پیاس قدیم تہذیب کے گہوارے مصرہی میں بجھائی۔ آپ کا پورا نام شہاب الدین احمد بن علی بن محمد بن حجر العسقلانی ہے۔ ماں باپ کا سایہ بچپن ہی میں سر سے اٹھ گیا، تاہم ایک متمول ومعزز خاندان نے آپ کی پرورش کی ذمہ داری اٹھالی۔بچے کے رجحانات کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے اس کی بہترین تعلیم و تربیت کا اہتمام کیا۔ بچپن میں کلام پاک کے حفظ کی سعادت نے ان کی فکری صلاحیتوں کو مہمیز لگائی اور انہوں نے دینی علوم کی طرف بھرپور توجہ دینا شروع کردی، تاریخ، فقہ اور حدیث کے ساتھ ساتھ ادب کو حرز جاں بنایا۔
حصول علم کا شوق پورا کرنے کے لئے زین الدین العراقی، ولی الدین عراقی، ابن الملقن اور شمس الدین البرماوی جیسے جید اساتذہ کی شاگردی نصیب کا حصہ بنی، مکہ مکرمہ، مدینہ منورہ، یمن اور شام کا علمی سفر کیا اور وہاں کے علماء و ادباء سے علمی استفادہ کیا۔ ابن حجر عسقلانیؒ نے اول اول علم حدیث کو ذوق نظر بنایا اور امام بخاریؒ کی تصنیف ’’صحیح بخاری کی شرح ‘‘ ’’فتح الباری شرح صحیح بخاری‘‘ لکھی جو عالم اسلام میں چاردانگ مشہور و معروف ہوئی،جو اب تک’’صحیح البخاری‘‘ کی جامع ترین اور مستند شرح گردانی جاتی ہے۔ اس میں ابن حجر عسقلانیؒ نے مختلف علمی نکات پرسیرحاصل بحث کی ہے۔ خصوصاً حدیث کے الفاظ اور زبان وبیان اور ان کے لغوی اور نحوی پہلوئوں کا عمیق تجزیہ، قرات اور لہجوں کی روشنی میں الفاظ کے ممکنہ معانی کی تلاش کابیان، متضاد نظر آنے والی احادیث میں تطبیق اور ایک حدیث کو دوسری حدیث کو قرآن یا اجماع امت کے حوالے سے سمجھانے کی سعی کی۔حدیث کے فقہی رموز میں آئمہ اربعہ کے اختلافات کواجاگر کیا اور ہر مسلک کی تائید یا تنقید بارے دلیل کا اہتمام کیا۔
راویان پر ہونے والی جرح، تعدیل یا ثقاہت و تضعیف سے متعلق محدثین کی آرا پیش کیں۔ابن حجر عسقلانی ؒکا وصف یہ ہے کہ حدیث کے سیاق و سباق کی وضاحت کے لئے حدیث کا تاریخی پس منظر بیان کرتے ہیں ساتھ ہی عرب کی سماجی و ثقافتی روایات کے تناظر میں حدیث کی صراحت فرماتے ہیں۔ ابن حجر نے شرح لکھتے ہوئے صحہ ستہ کی تمام کتب کا تقابلی مطالعہ بھی ضرورت کے مطابق پیش کیا اور اس امر کی وضاحت کی کہ امام بخاریؒ نے کس اسلوب یا طرز ترتیب کے تحت باب بندی کی۔بعض مقامات جہاں امام بخاری کسی حدیث کا ذکر نہیں کرتے تو اس امر کا سبب تلاش کرکے بتایا ہے۔
ابن حجر عسقلانی کی ایک اہم کتاب’’ الدررالکامنہ فی اعیان الما الثامن‘‘ ہے جو تذکرہ نویسی کا شاہکار ہے،جس میں آٹھویں صدی ہجری یعنی چودھویں صدی عیسوی کے علماء ، محدثین، صوفیاء ، سلاطین، قاضیوں اور ادیبوں کے حالات رقم فرمائے ہیں۔یہ کتاب چارجلدوں پر محیط ہے اورتقدیم و تاخیر کادھیان رکھتے ہوئے شخصیات کا ذکرحروف تہجی کے اعتبار سے کیا ہے۔کتاب میں تقریباً پانچ ہزار شخصیات کا تذکرہ ہے اور غیر جانبداری کے ساتھ ہر شخصیت کا مختصر اور جامع ذکر کیا ہے۔ یہ کتاب آٹھویں صدی کے عجوبہ روزگار خزانے کی حیثیت رکھتی ہے،جس میں علماء ، محدثین، فقہاء اور مورخین کے ساتھ ساتھ اس دور کی علمی تحریکوں اور علمی رجحانات و میلانات کو بھی احاطہ تحریر میں لایا گیا ہے۔ علمائے امت’’ الدررالکامنہ‘‘ کو اسلام کا قیمتی اثاثہ تصور کرتے ہیں۔کتاب مذکورہ میں محدثین میں تقی الدین سبکیؒ، ابن کثیر ؒ، ابن تیمیہ ؒ، علامہ ذہبی اور امام ابن تیمیہ کے شاگرد ابن القیم الجوزیہ کا ذکر ہے۔
شعرا میں لسان الدین ابن الخطیب، اندلس کے معروف شاعر، سیاستدان اورمورخ جو غرناطہ کے دربار سے بھی وابستہ تھے۔ شمس الدین ابن جابر الاندلسی، عربی زبان کے شاعر،صلاح الدین الصدفی جبکہ ادباء اور تاریخ دانوں میں ابن فضل اللہ العمری، جغرافیہ دان، فلسفی مورخ اور ادیب،ابن خلدون ماہرعمرانیات، فلسفی اور مورخ، ابن الوردی، مشہور ادیب، شاعر اور تاریخ نویس، قاضی القضا رہے جبکہ اپنی کتاب میں مدینہ کے قاضی ابن فرحون جو فقہ مالکی کے عالم بھی تھے ان کا ذکرکیا، برہان الدین ابن مفلح حنبلی کے ممتاز فقیہ،ابن رجب حنبلی محدث اور فقیہ،صوفیاء و مشائخ میں ابن عطاء اللہ اسکندری، ابن سبعین، صوفی اور ماہر فلسفی،بن نبات المصری جو صوفی اور خطیب تھے،جن کے ملفوظات آج بھی اہل تصوف کے یہاں اہم سمجھے جاتے ہیں۔غرض ابن حجر عسقلانی نے آٹھویں صدی ہجری کے تمام شعبوں سے متعلق نابغہ روزگار لوگوں کو اپنی تصنیف میں ان کے مقام کے مطابق جگہ دی.

ابن حجر قاہرہ کی معروف درسگاہ جامع الازہر میں ایک عرصہ درس و تدریس سے وابستہ رہے۔ اس کے علاوہ بھی بہت سارے مدارس میں مدرس کے طور پر فرائض سرانجام دیتے رہے۔ ابن حجر کی دیگر کتب میں’’ تقریب التہذیب‘‘ ’’نزھ النظر‘‘ اور’’ الاصابہ فی تمیز الصحابہ‘‘ شامل ہیں،جن کی اہمیت اور وقعت سے کبھی سرف نظر نہیں کیا گیا۔ آپ کی وفات 12 فروری 1449عیسوی میںمصر ہی میں ہوئی اور اپنی جنم بھومی ہی میں آسودہ خاک ہوئے۔ اللہ غریق رحمت فرمائے۔

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: ابن حجر عسقلانی حدیث کے ہی میں

پڑھیں:

مبلغ کو علم کے میدان میں مضبوط ہونا چاہیے، ڈاکٹر حسین محی الدین قادری

صدر منہاج القرآن نے کہا کہ دعوت کا مقصد صرف تبلیغ نہیں بلکہ دلوں کو نرم کرنا، نفرتوں کو مٹانا اور محبتِ مصطفیٰ ﷺ کے رنگ میں معاشرے کو ڈھالنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آج کے نوجوان کو دلیل، فہم اور کردار کے ساتھ متاثر کیا جا سکتا ہے۔ جدید ذرائع ابلاغ جیسے سوشل میڈیا، ویڈیوز، اور ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کو مثبت انداز میں استعمال کیا جائے تاکہ دین کا پیغام وسیع پیمانے پر اور جدید انداز میں عام ہو۔ اسلام ٹائمز۔ تحریکِ منہاج القرآن کی مرکزی نظامتِ دعوت کے اسکالرز کے وفد نے نائب ناظمِ اعلیٰ علامہ رانا محمد ادریس قادری کی قیادت میں صدر منہاج القرآن انٹرنیشنل پروفیسر ڈاکٹر حسین محی الدین قادری سے ملاقات کی۔ پروفیسر ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مبلغ کو کردار اور علم کے میدان میں مضبوط ہونا چاہئے۔ جدید ذرائع ابلاغ کو اصلاح معاشرہ کیلئے استعمال کیا جائے۔ استاد، مبلغ یا داعی ہر معاشرہ کے رول ماڈل افراد ہوتے ہیں۔ داعی کی تربیت پر سخت محنت ناگزیر ہے۔موجودہ دور کا داعیِ اسلام صرف علم ہی نہیں بلکہ کردار اور ابلاغ کے میدان میں بھی مضبوط ہونا چاہیے۔ علم کے بغیر دعوت گہرائی کھو دیتی ہے، کردار کے بغیر اثر ختم ہو جاتا ہے، اور ابلاغ کے بغیر پیغام نہیں پہنچتا۔

انہوں نے کہا کہ دعوت کا مقصد صرف تبلیغ نہیں بلکہ دلوں کو نرم کرنا، نفرتوں کو مٹانا اور محبتِ مصطفیٰ ﷺ کے رنگ میں معاشرے کو ڈھالنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آج کے نوجوان کو دلیل، فہم اور کردار کے ساتھ متاثر کیا جا سکتا ہے۔ جدید ذرائع ابلاغ جیسے سوشل میڈیا، ویڈیوز، اور ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کو مثبت انداز میں استعمال کیا جائے تاکہ دین کا پیغام وسیع پیمانے پر اور جدید انداز میں عام ہو۔ انہوں نے کہا کہ علمائے کرام اور اسکالرز کو چاہیے کہ وہ نوجوان نسل کے ذہنی و فکری رجحانات کو سمجھ کر دین کو اُن کی زبان میں پیش کریں۔ ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے مزید کہا کہ تحریکِ منہاج القرآن علم و کردار کے حسین امتزاج کی نمائندہ تحریک ہے جس کا مقصد معاشرے میں علمی بیداری، فکری تطہیر اور عملی تبدیلی لانا ہے۔

انہوں نے نظامتِ دعوت کے اسکالرز کو ہدایت کی کہ وہ اپنے خطابات، دروس، اور تحریروں میں دین کے اخلاقی و روحانی پہلو کو اجاگر کریں تاکہ نئی نسل اسلام کی اصل روح سے روشناس ہو سکے۔ اس موقع پر مرکزی ناظمِ دعوت علامہ جمیل احمد زاہد، قاری ریاست علی چدھڑ اور دیگر اسکالرز بھی ملاقات میں شریک تھے۔ 

متعلقہ مضامین

  •  مصر : عظیم الشان عجائب گھر کا افتتاح
  • باجوڑ میں فورسز کی کارروائی‘سیاسی رہنمائوں کے قتل میں ملوث دہشتگرد ہلاک
  • باجوڑ میں سیکیورٹی فورسز کی کارروائی، پی ٹی آئی اور اے این پی رہنما کے قتل میں ملوث دہشتگرد مارا گیا
  • مصر کے عظیم الشان عجائب خانے نے دنیا کیلئے اپنے دروازے کھول دیے
  • خوبصورت معاشرہ کیسے تشکیل دیں؟
  • ہنگو، پولیس کے قافلے پر بم حملہ، ایس ایچ او سمیت 2 اہلکار زخمی
  • ہنگو: پولیس قافلے پر حملہ، ایس ایچ او سمیت 3 اہلکار زخمی
  • ہنگو پولیس کے قافلے پر بم حملہ، ایس ایچ او سمیت 2 اہلکار زخمی
  • رنگِ ادب کا اقبال عظیم نمبر
  • مبلغ کو علم کے میدان میں مضبوط ہونا چاہیے، ڈاکٹر حسین محی الدین قادری