اسلام آباد +وزیر آباد+ گکھڑ منڈی(اپنے سٹا ف رپو رٹر سے+نامہ نگار+ نوائے وقت رپورٹ) وفاقی وزیر اطلاعات عطاء اللہ تارڑ کی قیادت میں وزارت اطلاعات و نشریات نے گزشتہ ایک سال کے دوران وزارت اطلاعات میں نمایاں اصلاحات نافذ کیں جن میں ڈیجیٹل ترقی، میڈیا کے ساتھ تعاون اور تعمیری صحافت کے فروغ پر خصوصی توجہ دی گئی۔ وفاقی وزیر اطلاعات نے قومی ترقی میں ٹیکنالوجی کے کلیدی کردار کو تسلیم کرتے ہوئے اپنے ایک سالہ دور میں وزارت میں انقلابی تبدیلیاں متعارف کروائیں۔ انقلابی تبدیلیوں کا یہ سال بنیادی طور پر اعلیٰ انتظامیہ کی واضح حکمت عملی کے وژن کا نتیجہ تھا جس کا مقصد ایک باخبر اور ہم آہنگ معاشرے کو فروغ دینا اور میڈیا کی ترقی کو آگے بڑھانا ہے۔ موجودہ دور میں روایتی طریقوں کی جامع اصلاح، ڈیجیٹلائزیشن، آٹومیشن اور سٹریٹجک ریفارمز پر زور دیا گیا ہے تاکہ میڈیا کے ابھرتے ہوئے منظر نامے کے ساتھ بہتر طور پر ہم آہنگ ہوا جا سکے۔3  اکتوبر 2024ء کو ڈیجیٹل کمیونیکیشن ڈیپارٹمنٹ (ڈی سی ڈی) کا قیام ایک اہم کامیابی تھی جس کا مقصد غلط معلومات، سائبر وار فیئر اور ہائبرڈ تنازعات کے بڑھتے ہوئے خطرات سے نمٹنا ہے۔ دریں اثناء ڈائریکٹوریٹ آف الیکٹرانک میڈیا اینڈ پبلی کیشنز(DEMP)  نے اعلیٰ معیار کی موضوعاتی دستاویزی فلمیں تیار کر کے قومی بیانیہ کی تشکیل اور اسے فروغ دینے میں اہم کردار ادا کیا جو موثر طریقے سے قومی اور بین الاقوامی سطح پر پاکستان کے امیج کو بہتر بناتے ہوئے اہم پالیسی مقاصد کے فروغ میں کردار ادا کر رہا ہے۔4.

45  ارب روپے مالیت کے چار پی ایس ڈی پی منصوبوں کی تکمیل نے اہم میڈیا اداروں کی آپریشنل صلاحیتوں کو نمایاں طور پر اپ گریڈ کیا۔ اس میں پاکستان براڈ کاسٹنگ کارپوریشن (پی بی سی) کے سٹوڈیوز اور ماسٹر کنٹرول رومز کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنا بھی شامل ہے۔ اس کے علاوہ پرتشدد انتہاپسندی کا موثر جواب دینے کے لئے ایک مخصوص میڈیا سیل کا قیام بھی عمل میں لایا گیا جو اہم سکیورٹی چیلنجز سے نمٹنے کے عزم کا مظہر ہے۔ ایس او ایز ایکٹ 2023ء کے تحت پی ٹی وی اور پی بی سی کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کی تشکیل سے گورننس اور جوابدہی کے نظام کو مزید مستحکم بنایا گیا۔ ایڈورٹائزمنٹ پالیسی 2021ء کے تحت ڈیجیٹل میڈیا ایڈورٹائزمنٹ گائیڈ لائنز کی تیاری نے سرکاری اشتہارات کی تقسیم میں زیادہ شفافیت اور منصفانہ طرز عمل کو یقینی بنایا۔ گزشتہ ایک سال کے دوران چین اور ایران کے ساتھ فلم کی مشترکہ پروڈکشنز کے لئے مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط اور ترکیہ کے تعاون سے ریڈیو پاکستان میوزیم کے قیام نے میڈیا سیکٹر میں بین الاقوامی شراکت داری کو مزید مستحکم بنایا۔ وزارت نے اپنی ریگولیٹری کارکردگی اور فوری ردعمل کو بہتر بنانے پر خصوصی توجہ دی۔ اے بی سی کی جانب سے نئے محفوظ سرکولیشن سرٹیفیکیٹ کے اجرا اور آئی ٹی این ای کیسز کے موثر حل جن کے تحت 5.5  کروڑ روپے کی مالی مدد فراہم کی گئی، شفاف اور منصفانہ طرز عمل کے عزم کا مظہر ہیں۔ مزید برآں، ای آفس سسٹم پر منتقلی نے انتظامی امور کو منظم کرنے اور کارکردگی میں نمایاں بہتری پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات عطاء اللہ تارڑ نے گکھڑ منڈی وزیرآباد کا دورہ مختلف ترقیاتی منصوبوں کا افتتاح کیا افطار ڈنر سے خطاب میں انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ ن کی حکومت ملک کو ڈیفالٹ کے دہانے سے نکال لائی ماضی گواہ ہے کہ ملک کی معاشی ترقی میں ہمیشہ مسلم لیگ ن کا کردار سب سے بہتر رہا ہے، پاکستان کے معاشی اعشاریوں کی پوری دنیا تعریف کر رہی ہے، ملک پر جب بھی سخت آزمائش یا بحران آیا نواز شریف کی جماعت نے کا مقابلہ کیا اور ملک کو بحرانوں سے نکالا، انہوں نے گکھڑ کے عوام سے مخاطب ہو کر کہا کہ جب ہم پر جھوٹے مقدمات درج ہوتے تھے تب بھی گکھڑ کے عوام ہمارے ساتھ کھڑے رہے، سیاسی تحریکوں میں ہمیشہ اہل گکھڑ نے ہمارا ساتھ دیا اور بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ کوئی سال ڈیڑھ سال پہلے کچھ ناعاقبت اندیش لوگ کہتے تھے کہ ملک ڈیفالٹ کر جائے گا، بد بخت ملک کے ڈیفالٹ کی بد دعائیں دیتے تھے کچھ لوگ آئی ایم ایف کو خط لکھ رہے تھے یہ وہی ٹولہ تھا پنکی ،گوگی اور کپتان کا لیکن آج ملک کہاں کھڑا ہے ملک ترقی کی سمت گامزن ہے، معاشی اشارے مثبت، دنیا ہماری معاشی پوزیشن کی تعریف کر رہی ہے، ڈیفالٹ کے دہانے سے میاں شہباز شریف نے ملک کو نکال لیا۔ تم وہ لوگ ہو تم نے 9 مئی کو ملکی اداروں پر حملہ کیا جبکہ نواز شریف نے 28 مئی کو ایٹمی دھماکے کر کے ملکی دفاع کو مضبوط کیا، میاں نواز شریف نے موٹر ویز کا جال بچھایا، ملک کو لوڈ شیڈنگ سے نجات دلوائی مریم نواز پنجاب میں ترقی کا سفر طے کر رہی ہے۔ سوشل میڈیا پر منفی پروپیگنڈا کا بخار اتر رہا ہے، انہوں نے لوگوں کو تقسیم کیا ان کی اپنی پارٹی دس گروہوں میں بٹ چکی ہے یہ پاک فوج کو للکارتے ہیں۔ الزام تراشیاں کرتے ہیں، فوج کے خلاف بیانیے بنا رہے ہیں آج ان کی اپنی یہ حالت ہے کہ ان کے جلسوں میں بندے پورے نہیں ہو رہے۔ جھوٹ اور نفرت کی سیاست اب دفن ہو رہی ہے۔ عطاء اللہ تارڑ کا گکھڑ منڈی وزیرآباد میں ترقیاتی منصوبوں، 8 کلو میٹر پیر کوٹ تا کلیر روڈ کا افتتاح، ڈرین اور جی ٹی روڈ پر انڈر پاس و سٹریٹ لائٹس تنصیب کے افتتاح کے موقع پر سابق ایم پی اے بلال فاروق تارڑ و ایم پی اے وقار چیمہ ، چوہدری عنصر محمود سندھو کے ہمراہ افطار ڈنر سے خطاب اور کارکنوں سے گفتگو کی۔ عطاء اللہ تارڑ نے کہا کہ پی ٹی آئی نے نفرت کی سیاست کو پروان چڑھایا آج خود تقسیم کا شکار ہے۔ آج پورا پاکستان مسلم لیگ ن کی قیادت سے خوش ہے، ماضی میں سابقہ حکومت نے عوام کو اندھیرے کی طرف دھکیلا، مسلم لیگ کی حکومت ہمیشہ عوام کے لئے تعمیر و ترقی کی علامت رہی ہے۔ حکومتی اقدامات سے معیشت درست سمت میں گامزن ہے۔ بانی پی ٹی آئی نے 190 ملین پاؤنڈ کی ڈکیتی کی۔ پی ٹی آئی نے ملک کو بہت نقصان پہنچایا، یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے پاکستان کی بہتری کے لئے ایک اینٹ نہیں لگائی۔ پی ٹی آئی نے اپنے دور حکومت میں ملکی ترقی کا سفر روکا۔ آج پی ٹی آئی دس حصوں میں تقسیم ہو چکی ہے۔ اس پارٹی نے ہمیشہ نفرت اور لوٹ مار کی سیاست کی۔گکھڑ منڈی سے نامہ نگار کے مطابق عطاء تارڑ نے کہا کہ سابقہ چیئرمین وسیم یعقوب بٹ بلال فاروق تارڑ بہترین لیڈر ہیں جس کو سیاست کے میدان میں اتارا اس کا مقصد صرف اور صرف عوامی ترقی کے منصوبے تھے اور آج جو لوگوں کے دلوں پر راج کر رہا ہے، گکھڑ کے عوامی حلقوں میں بلال فاروق تارڑ کے سوا کوئی جگہ نہیں لے سکتا۔ وسیم یعقوب بٹ، عنصر سندھو، وقار چیمہ، ایڈووکیٹ مستنصر گوندل بلال فاروق تارڑ نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا۔

ذریعہ: Nawaiwaqt

کلیدی لفظ: عطاء اللہ تارڑ پی ٹی آئی نے مسلم لیگ تارڑ نے ملک کو رہا ہے کے لئے کہا کہ رہی ہے

پڑھیں:

تماشا دکھا کر مداری گیا!!

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251104-03-7

 

 

اسماعیل صدیقی

آج نیویارک میں مئیر کا الیکشن ہونے جارہا ہے جس نے نہ صرف نیویارک اور امریکا بلکہ پوری دنیا کی توجہ حاصل کی ہوئی ہے۔ اس سے پہلے نیویارک میں ہونے والے مئیر کے الیکشن میں لوگوں کی عدم دلچسپی کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ چار سال پہلے ہونے والے الیکشن میں فقط تیئس ۲۳ فی صد ووٹ ڈالے گئے تھے۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ عام الیکشن سے پہلے ہونے والی ابتدائی (early) ووٹنگ میں تقریباً ساڑھے سات لاکھ ووٹ ڈالے جاچکے ہیں جو پچھلی دفعہ کے مقابلے میں پانچ گنا زیادہ ہیں۔ اس دفعہ بھی شاید عوامی بے رُخی پچھلی دفعہ والی ہوتی اگر یوگینڈا میں پیدا ہونے والے ہندوستانی نژاد امیدوار ظہران ممدانی میدان میں نہ ہوتے جو خود کو مسلم سوشلسٹ کہہ کر متعارف کرواتے ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام کا گڑھ کہلانے والے نیویارک میں ان کے اس تعارف کے دونوں حصے ’’مسلمان‘‘ اور ’’سوشلسٹ‘‘ دہکتے ہوئے انگاروں کی مانند ہیں۔

تاریخی طور پر نیویارک میں سفید فاموں کے علاوہ اطالوی نژاد امریکی، یہودی اور سیاہ فام میئرز منتخب ہوتے آئے ہیں۔ ایسے میں ایک مسلمان امیدوار کا سنجیدگی سے انتخابی دوڑ میں شامل ہونا کبھی بعید از قیاس سمجھا جاتا تھا۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ ظہران ممدانی کی مقبولیت ان کے مسلمان ہونے کی وجہ سے نہیں بلکہ مسلمان ہونے کے باوجود ہے۔ دولت کی غیر منصفانہ تقسیم کے خلاف ان کا پیغام عوام کے دل کی آواز بن چکا ہے۔

امریکا میں عوام اس وقت دولت کی ظالمانہ حد تک غیر منصفانہ تقسیم سے تنگ آئے ہوئے ہیں۔ خصوصی طور پر نیویارک میں جہاں ایک طرف لوگوں کو فقط مکان کا کرایہ ادا کرنے کے لیے دو نوکریاں کرنی پڑ رہی ہیں وہاں امرا کی دولت میں بے تحاشا اضافہ ہورہا ہے۔ اس وقت امریکا میں بالائی ایک فی صد طبقہ دولت کے تیس فی صد سے زائد حصے پر قابض ہے جبکہ زیریں پچاس فی صد کے حصے میں فقط تین فی صد دولت آئی ہے۔ کسی کمپنی کے ایک عام آدمی کی تنخواہ اور ایک سی ای او کی تنخواہ میں ایک اور ساڑھے چار سو کا تناسب ہے۔ دولت کی اس قدر غیر منصفانہ تقسیم پر امریکا میں شدید اضطراب پایا جاتا ہے۔ گزشتہ سال نیویارک میں ہونے والا ایک واقعہ یوں تو معمولی واقعہ تھا مگر وہ عوام میں پائی جانے والی اس بے چینی کا عکاس ہے۔

چار دسمبر 2024 کی ایک سرد صبح امریکا کی سب سے بڑی ہیلتھ انشورنس کمپنی یونائیٹڈ ہیلتھ کئیرکے سی ای او برائین تھامپسن کو دنیا کے سرمایہ دارانہ نظام کے گڑھ نیویارک کے تجارتی علاقے مین ہیٹن میں گولی مار کر ہلاک کردیا گیا۔ یہ قتل کوئی انوکھا واقعہ نہیں تھا۔ امریکا میں ہر سال تقریباً بیس ہزار قتل ہوتے ہیں۔ جو چیز انوکھی تھی وہ اس قتل کے بعد آنے والا رد عمل تھا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ لوگ مقتول سے ہمدردی کرتے مگر لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد قاتل کو سراہنے لگی۔ تھامپسن کے جسم میں پیوست تین گولیوں پر ’’deny, defend, depose‘‘ کے الفاظ کندہ تھے۔ یہ تین الفاظ دراصل وہی حربے ہیں جن کے ذریعے ہیلتھ انشورنس کمپنیاں اپنی تنخواہ سے ماہانہ رقم کٹوانے کے باوجود صارفین کو وقت پڑنے پر علاج کے لیے رقم دینے سے گریز کرتی ہیں۔ چند ہی دنوں میں ملزم لوئیجی منجیونی گرفتار کر لیا گیا، مگر وہ ایک عوامی ہیرو بن چکا تھا۔ اس نے اپنے مینی فیسٹو میں لکھا کہ ان خون چوسنے والے طفیلیوں (parasites) کو یہ دن دیکھنا ہی تھا۔ اس کی مقبولیت سے خوف زدہ حکام نے قتل کے ساتھ ساتھ اس پر دہشت گردی کے الزامات بھی عائد کیے، مگر گزشتہ ماہ عدالت نے دہشت گردی کے الزامات مسترد کر دیے ہیں۔ اگرچہ کہ نیویارک کے قانون میں سزائے موت نہیں ہے مگر اس کیس کو وفاقی کیس بنا کر لوئیجی کو سزائے موت دلوانے کی کوشش کی جارہی ہے تاکہ اس کو نشان عبرت بنایا جاسکے۔

لوئیجی منجیونی کی عوامی حمایت امریکا میں سیاسی تقسیم کی نوعیت میں تبدیلی کا ایک اشارہ تھی۔ یہ معاملہ دائیں یا بائیں بازو کا نہیں تھا، بلکہ بالائی اور زیریں طبقے کے درمیان ایک واضح لکیر کا تھا۔ دونوں بڑی جماعتوں کے غریب طبقے میں لوئیجی ایک ہیرو تھا، جب کہ امرا کی نظروں میں وہ ایک سفاک قاتل تھا۔ یہی بالائی اور زیریں تقسیم نیویارک کے موجودہ مئیر کے الیکشن میں نظر آتی ہے۔ اس وقت ڈیموکریٹک پارٹی کے اپنے منتخب امیدوار ظہران ممدانی کو ان کی پارٹی کی اعلیٰ قیادت نے جو اشرافیہ پر مشتمل ہے اپنی حمایت مہیا کرنے سے انکار کردیا ہے جن کی سیاست کا انحصار ان بلینرز کی دولت پر ہے جن سے عوام تنگ آئے ہوئے ہیں۔ اس وقت ان بلینرز کا کسی قسم کا پروپیگنڈا عوام پر کام کرتا نظر نہیں آرہا۔ نیویارک میں ان بلینرز کی ایک بہت بڑی تعداد صہیونی یہودیوں پر مشتمل ہے جنہوں نے ظہران ممدانی کو شکست دینے کے لیے اپنی تجوریوں کے منہ کھول دیے ہیں۔ غزہ میں جاری نسل کشی کی حمایت کی وجہ سے ان بلینرز کے خلاف پہلے ہی سے عوامی جذبات موجود تھے۔

۲۰۰۸ میں بھی جب امریکا کو ان دولت کے بھوکے بے لگام بلینرز کی وجہ سے اقتصادی بحران سے گزرنا پڑا تھا اور ان بلینرز کو اپنے اعمال کی سزا بھگتنے کے لیے چھوڑنے کے بجائے ان کمپنیوں کو حکومت نے Too big to fail کے عنوان کے تحت بیل آؤٹ کیا تھا اس وقت بھی عوامی رد عمل میں امریکی معاشرہ دائیں بازو اور بائیں بازو کی تقسیم کے بجائے بالائی اور زیریں طور پر منقسم نظر آیا۔ جہاں ایک طرف بائیں بازو کی طرف Occupy Wall Street کی تحریک نظر آئی وہیں دائیں بازو کی طرف Tea Party Movement موجود تھی۔ بیک وقت اٹھنے والی یہ دونوں تحریکیں اگرچہ کہ بالکل مختلف محرکات کے تحت اٹھی تھیں مگر ان دونوں تحریکوں کا ہدف اشرافیہ سے تعلق رکھنے والا طبقہ تھا۔ بائیں بازو کا ہدف کارپوریشنز اور دائیں بازو کا ہدف حکومت کا حجم اور اس کی طرف سے عائد کردہ ٹیکس اور عوامی زندگی میں بڑھتی مداخلت تھی۔ حکومت کی جانب سے امریکی معیشت کا بیڑہ غرق کرنے والی کارپوریشنوں اور ان کو چلانے والے بلینرز کی عوام کے دیے ہوئے ٹیکسوں سے بیل آؤٹ سے دونوں اطراف پر یہ واضح ہوچلا تھا کہ حکومت اور کارپوریشنز ایک ہی سکے کے دو رُخ ہیں اور دونوں کے درمیان ایک ریولونگ ڈور موجود ہے۔ امریکا اس وقت انقلاب کے دہانے پر نظر آرہا تھا۔ مگر سرمایہ دار کی مکر کی چالوں سے انتہائے سادگی سے مزدور مات کھا گیا اور امریکا کی سیاست کو پھر مصنوعی طور پر بائیں اور دائیں بازو کی سیاست میں تقسیم کرکے رکھا گیا جبکہ حقیقی تقسیم اوپر اور نیچے کی تھی۔

صہیونی سرمایہ داروں کی طرف سے اس وقت پھر اس تقسیم پر پردہ ڈالنے کے لیے ظہران ممدانی کے خلاف اسلاموفوبیا پر مبنی ایک مہم چلائی جارہی ہے جس کی شدت اتنی ہے جس کی ماضی میں کوئی نظیر نہیں ملتی۔ اس الیکشن کے نتائج کچھ بھی ہوں مگر ایک مرد درویش کا قول ذہن میں گونجتا ہے کہ: ’’ایک وقت آئے گا کہ کمینوزم کو ماسکو میں پناہ نہ ملے گی اور سرمایہ دارانہ جمہوریت خود واشنگٹن اور نیویارک میں لرزہ براندام ہوگی‘‘۔

اسماعیل صدیقی

متعلقہ مضامین