3بچوں کی ماں کا طلاق کے بعد جشن،ویڈیوسامنے آگئی
اشاعت کی تاریخ: 9th, March 2025 GMT
اسلام آباد(نیوز ڈیسک) طلاق عام طور پر دو خاندانوں اور خاص طور پر مرد اور عورت کیلئے انتہائی تکلیف دہ مرحلہ ہوتا ہے۔ لیکن آج کل اس رشتے سے چھٹکارا پانا ایک سوگ نہیں بلکہ خوش نصیبی سمجھی جاتی ہے جسے بھرپور طریقے سے منایا جارہا ہے۔
تفصیلات کے مطابق ایسے میں ایک اور ویڈیو منظر عام پر آئی جس میں ایک خاتون کو اپنی طلاق کا دھوم دھام سے جشن مناتے دیکھا گیا۔
سوشل میڈیا پر وائرل کنٹینٹ کریئیٹرعظیمہ احسان نے اپنے انسٹاگرام اکاؤنٹ پر ایک ویڈیو شیئر کی جس میں انہیں ان دقیانوسی تصورات کو توڑ کراپنی زندگی کو ایک نیا موقع دینے کی خوشی میں جشن مناتے دیکھا گیا۔
وائرل ویڈیو میں اس خاتون کو خوب سج دھج کر کوک اسٹوڈیو کے گانے پر رقص کرتے دیکھا گیا اورساتھ ہی انہوں نے یہ انکشاف بھی کیا کہ وہ طلاق یافتہ ہونے کے باوجود خوش اور کامیاب زندگی گزار رہی ہیں۔
A post shared by Λzima (@azima_ihsan)
غرارا اور لانگ شرٹ زیب تن کیے خاتون نے اپنے فینز کو بتایا کہ،’پاکستانی معاشرے میں طلاق کو عام طور پر موت کی سزا سمجھا جاتا ہے، خاص طور پر خواتین کے لیے۔ مجھے بھی کہا گیا تھا کہ میری زندگی ختم ہو چکی ہے اور مجھے اس فیصلے پر پچھتاوا ہوگااور میری زندگی برباد ہو جائے گی اور یہاں تک کہ خوشی نام کی چیز کو تو بالکل بھول ہی جاؤ!’۔
عظیمہ مزید لکھتی ہیں کہ،’آج بھی لوگ مجھے جج کرتے ہیں، لیکن پتہ ہے کیا؟ میں اس پر رقص کرتی ہوں۔ میں ہنستی ہوں۔ زندگی ویسی نہیں ہے جیسی مجھے ڈرایا گیا تھا، بلکہ اس کے برعکس ہے’۔
انہوں نے اپنی دلی کیفیت کو بیان کرتے ہوئے مزید لکھا کہ،‘ہم طلاق کو ایک گناہ یا برا لفظ سمجھتے ہیں، جبکہ اسے ایک نئے آغاز کے طور پر دیکھا جانا چاہیے۔ ہاں، یہ مشکل ہوتا ہے، دل توڑ دینے والا بھی ہوتا ہے۔ ہاں، کبھی کبھار تنہائی بھی محسوس ہوتی ہے۔ لیکن ایسے رشتے میں قید رہنا جہاں آپ سانس نہ لے سکیں، وہ اس سے کہیں زیادہ بدتر ہے۔’
ناکام شادی پر بات کرتے ہوئے وہ مزید لکھتی ہیں کہ،’ایک ناخوشگوار شادی میں زندگی گزارنا طلاق یافتہ ہونے سے زیادہ اذیت ناک ہے۔ میں نے یہ فیصلہ ہلکے میں نہیں لیا، بلکہ میں نے کبھی نہیں چاہا تھا کہ میری شناخت ایک طلاق یافتہ عورت کے طور پر ہو۔ لیکن میرے لیے اور میرے تین بچوں کے لیے یہ آزادی تھی۔ یہاں تک کہ میرے سابق شوہر کے لیے بھی یہ بہترین فیصلہ ثابت ہوا۔’
شادی کو کامیاب بنانے والے عناصر پر بات کرتے ہوئے تین بچوں کی والدہ نے مزید یہ بھی لکھا کہ،‘شادی محبت اور عزت پر قائم ہونی چاہیے، نہ کہ معاشرتی بدنامی کے خوف پر۔ میں بہت سی پاکستانی خواتین کو دیکھتی ہوں جو صرف ’ طلاق یافتہ’ کا لیبل لگنے کے ڈر سے اپنی زندگی قربان کر دیتی ہیں تو ان سے میں کہنا چاہتی ہوں کہ،’تمہاری خوشی اہم ہے، سکون (سکونِ قلب) اہم ہے، زندگی چلتی رہتی ہے۔ خوفزدہ مت ہو!’۔
طلاق کے تجربے پر بات کرتے ہوئے عظیمہ احسان نے طویل کیپشن کا کچھ اسطرح اختتام کیا کہ،‘دو سال بعد، میں جیتی جاگتی مثال ہوں،آپ ایک ساتھ رو سکتے ہیں، ٹھیک ہو سکتے ہیں، اور پھر یوں ناچ سکتے ہیں جیسے کوئی دیکھ نہیں رہا (سوائے انسٹاگرام کے، جو کہ… ہاں سب دیکھ رہا ہے! میں اپنا کماتی ہوں۔ اپنا کھاتی ہوں۔ اپنے آپ کو سنبھالتی ہوں۔ اپنے نخرے خود اٹھاتی ہوں۔ اپنے آپ کی فیورٹ ہوں۔ کوئی مرد کی ٹینشن نہیں ہے۔
تاہم انٹرنیٹ پر کچھ لوگوں نے تنقید کی،مگر اکثریت نے ان کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کیا اور دعا کی کہ وہ ہمیشہ خوش رہیں۔
مزیدپڑھیں:سابق وزیراعظم آزاد کشمیر سردار تنویر الیاس کا آئی پی پی چھوڑنے کا فیصلہ
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: طلاق یافتہ کرتے ہوئے کے لیے
پڑھیں:
ڈاکٹر، مگر کونسا؟
آج عید کا دن ہے یعنی خاص دن سو صاحب آج کا کالم بھی خاص ہی ہونا چاہیے!
ہم سے بہت لوگ پوچھتے ہیں کہ کسی بھی بیماری کا علاج کروانے سے پہلے ڈاکٹر کا انتخاب کیسے کیا جائے؟ مشکل سوال ہے جناب اور جواب ڈھونڈنا اس سے بھی مشکل۔
پہلے یہ سمجھ لیجیے کہ جس طرح ڈرائیونگ کی کتاب پڑھنے سے کوئی اچھا ڈرائیور نہیں بنتا یا فلائنگ لائسنس لینے سے اچھا پائلٹ نہیں بنتا بالکل اسی طرح ڈگریاں لینے سے کوئی بھی اچھا ڈاکٹر نہیں بنتا لیکن جس طرح جہاز اڑانے کے لیے لائسنس ہونا ضروری ہے اسی طرح مریض کا علاج کرنے کے لیے ڈگریاں اور لائسنس دونوں ضروری ہیں، سو ڈاکٹر کی قابلیت کا نمبر بعد میں آئے گا ۔
پہلے ڈگریوں کی بات کر لیں۔
ایم بی بی ایس مخفف ہے بیچلر آف سرجری / بیچلر آف میڈیسن۔ 5 برس کے اس کورس میں سرجری، میڈیسن، گائنی، ای این ٹی، آئی، سکن، میڈیکو لیگل، اناٹومی، فزیالوجی، بائیو کیمسٹری، پیتھالوجی، کمیونٹی میڈیسن، فارماکالوجی، جنیٹکس، ریسرچ اور پیڈیٹرکس کی بنیادیں پڑھائی جاتی ہیں۔ ساتھ ساتھ اسپتال میں ہسٹری لینا اور مریض کا معائنہ کرنا سکھایا جاتا ہے۔ کورس اتنا وسیع ہے کہ کوئی بھی طالب علم اسے مکمل طور پہ نہیں پڑھ سکتا۔ بہت اچھے طالب علم بھی 70، 75 فیصد تک محدود رہتے ہیں۔
ان 5 سالوں میں وارڈوں میں ڈیوٹی ضرور لگتی ہے لیکن معاملہ ابتدائی اصول سیکھنے تک ہی رہتا ہے۔ یاد رہے کہ ان 5 برسوں میں آزادانہ طور پہ علاج کرنا سکھایا نہیں جاتا۔ جو بھی مریض داخل ہوں ان پہ کلاسیں لی جاتی ہیں لیکن ہر مریض میں سب علامات نہیں ہوتیں اور اسی طرح 5 برس گزر جاتے ہیں مگر بہت سی بیماریوں کا تذکرہ زبانی کلامی ہوتا ہے کیوں کہ ان کا مریض اس ہسپتال میں آتا ہی نہیں اور اگر کبھی آئے بھی تو جو بھی طالب علم اس دن موجود نہیں ہوں گے وہ اسے دیکھنے سے محروم رہ جائیں گے۔
یہ اور بات ہے کہ ایک بڑی تعداد زمانہ طالب علمی میں مریضوں کے پاس ہی نہیں پھٹکتی، انہیں ہسٹری اور معائنہ انتہائی بورنگ لگتا ہے۔
ایم بی بی ایس کے بعد ہاؤس جاب کرنے کی باری آتی ہے۔ وہ لازمی ٹریننگ ہے اور اس کے بعد ہی پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل کسی بھی ڈاکٹر کو رجسٹر کرتی ہے۔
ہاؤس جاب کرنے کی مدت ایک سال ہے اور حالیہ برسوں میں اس کا طریقہ کار ہمارے زمانے سے بدل چکا ہے۔ ہمارے دور میں فریش گریجویٹ یہ فیصلہ کرتا تھاکہ اسے کسی ایک مضمون میں ایک سال یا کسی 2 مضامین میں 6، 6 مہینے عملی ٹریننگ کرنی ہے جن میں اس کی دل چسپی ہو اور وہ اس میں سپیشلائزیشن کر سکے۔
جیسے ہم نے 6 ماہ گائنی اور 6 ماہ میڈیسن میں ہاؤس جاب کیا۔ 36 گھنٹے کی ڈیوٹی کرنے کے بعد بھی ہم صرف اس قابل تھے کہ بغیر کسی پیچیدگی کے، انتہائی آسان سے مریض خود سے دیکھ سکیں۔ نہ تو آزادانہ تشخیص کرنے کے قابل تھے اور نہ ہی دوائیں اعتماد سے لکھ سکتے تھے۔ یاد رہے کہ ہم ان اچھے طالب علموں میں شامل تھے جو اعزاز کے ساتھ پاس ہوئے تھے اور جنہیں سیکھنے میں بے انتہا دل چسپی تھی سو اگر ہمارا یہ حال تھا تو سوچ لیجیے کہ ایک درمیانے قسم کے طالب علم کو کیا آتا ہو گا؟
آج کل ہاؤس جاب کا طریقہ بدل چکا ہے۔ دورانیہ تو ایک برس ہی ہے لیکن اب 4 مضامین میں 3، 3 ماہ کا عملی تجربہ حاصل کرنا ہوتا ہے۔
5 برس ایم بی بی ایس اور ایک سال ہاؤس جاب کے بعد پی ایم ڈی سی یعنی پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل ڈاکٹر کو آر ایم پی بنا دیتی ہے جو ڈاکٹرز نے اپنے نام کے ساتھ لکھا ہوتا ہے۔ عوام اسے ایک اور ڈگری سمجھتی ہے جبکہ اس کا مطلب ہے کہ رجسٹرڈ میڈیکل پریکٹیشنرز۔
ملک عزیز میں یہ گریجویٹس، رجسٹرڈ میڈیکل پریکٹیشنرز شہر شہر پھیل جاتے ہیں اور اپنی دکان کھول کر پریکٹس کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ پریکٹس کی اجازت تو ہے مگر سوال یہ ہے کہ کیا کام بھی آتا ہے؟
جس کا اگر ایمانداری سے جواب دیاجائے تو وہ ہوگا، نہیں۔
ایم بی بی ایس کاعلم اتنا ہی ہے جتنا کسی بی اے پاس کا یعنی بیچلر آف آرٹس، یا بی بی اے کا یعنی بیچلر آف بزنس ایڈمنسٹریشن یا بی کام یعنی بیچلر آف کامرس۔
اب مسئلہ یہ ہے کہ بی اے، بی بی اے یا بی کام والے اگر کوئی غلطی کریں تو صبر کیا جا سکتا ہے کہ یا حساب کتاب میں غلطی ہو گی یا کسی بزنس تیکنیک میں یا آرٹس کے مضامین میں لیکن اگر ایم بی بی ایس والا غلطی کرے تو یہ غلطی انتہائی مہلک ثابت ہوتی ہے کہ اس سے انسانی جسم متاثر ہوتا ہے۔
اب آپ یہ اندازہ بھی لگا لیں کہ اگر ایم بی بی ایس والوں کا یہ حال ہے جو 6 برس کی محنت کے بعد میڈیکل کالج سے نکلے ہیں تو ڈسپنسرز، دائی یا ایل ایچ وی کا کیا عالم ہو گا جس میں کچھ مہینوں کی ٹریننگ دی جاتی ہے اور ٹریننگ کے علاوہ زبانی پڑھائی جانے والے مختصر کورس کے مضامین پہ بھی دسترس نہیں ہوتی۔
اب بات کرتے ہیں اسپیشلائزیشن کرنے والے ڈاکٹرز کی۔ چونکہ ہمارا تعلق گائنی سے ہے سو اسی کی مثال دیں گے مگر اس کلیے کا سب مضمونوں پہ اطلاق ہو گا۔
وطن عزیز میں اسپیشلائزیشن کرنے کے بعد مختلف ڈگریاں دی جاتی ہیں۔ پہلے ڈگریوں کا نام بتا دیتے ہیں اور پھر ان میں دی جانے والی عملی ٹریننگ کی تفصیل بتائیں گے۔
ڈی جی او – ڈپلوما ان گائنی آبس
ایم ایس گائنی – ماسٹرز آف سرجری گائنی
ایم سی پی ایس – ممبر آف کالج آف فزیشنز اینڈ سرجنز
ایف سی پی ایس – فیلو آف کالج آف فزیشنز اینڈ سرجنز
کالج آف فزیشنز اینڈ سرجنز پاکستان ایک ریگولیٹری ادارہ ہے جو ڈاکٹرز کی اسپیشلائزیشن کے دورانیے اور عمل کی نگرانی کرتا ہے اور پھر ٹریننگ کی مدت کے بعد امتحان لے کر پاس یا فیل کرتا ہے۔ اس ادارے سے پاس ہونے کے بعد پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل ڈاکٹر کو اسپیشلسٹ یا کنسلٹنٹ کے طور پہ رجسٹر کر لیتی ہے اور ڈاکٹر کو لائنسس مل جاتا ہے کہ وہ اب اسپیشلسٹ ڈاکٹر کے مطابق مریض کا علاج کرے گا۔
اس سے پہلے کہ آگے چلیں، سوال پھر وہی ہے ڈگری لینے کے بعد قابلیت کا فیصلہ کیسے کریں؟
باقی آئندہ
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں