چینی افراد کو بھی موٹاپے کا مسئلہ درپیش
اشاعت کی تاریخ: 9th, March 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 09 مارچ 2025ء) چینی حکومت اس وقت ملک میں بڑھتے ہوئے موٹاپے کے مسئلے سے نمٹنے کی خواہاں ہے۔ ایک اعشاریہ چار ملین آبادی والے اس ملک میں کبھی بھوک اور خوراک کا بحران ایک بڑا مسئلہ ہوا کرتا تھا۔ لیکن اب موٹاپا ایک بڑا مسئلہ بن چکا ہے۔
نیشنل ہیلتھ کمیشن کے وزیر لی ہائیچاؤ نے اتوار کو بیجنگ میں پیپلز کانگریس کے موقع پر ایک پریس کانفرنس کے دوران کہا ، "کچھ کامریڈز کو اپنے وزن پر قابو پانے میں مشکل ہورہی ہے، وزن زیادہ ہونے کی وجہ سے وہ دائمی بیماریوں میں بھی مبتلا ہورہے ہیں۔
"ہائیچاؤ نے کہا کہ اس مسئلے کا حل ڈھونڈنے کے لیے طبی ادارے آنے والے برسوں میں صحت کے بارے میں مزید معلومات کی فراہمی کو یقینی بنائیں گے۔
(جاری ہے)
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ آؤٹ پیشنٹ کونسلنگ سینٹرز بھی قائم کیے جائیں گے۔ ہوٹلوں کو بھی اس بات پر آمادہ کیا جائے گا کہ وہ کمروں میں وزن ناپنے والی مشین رکھیں تاکہ عوام اور کاروباری افراد اپنے وزن پر نظر رکھ سکیں۔
کسی زمانے میں "ہنگر ناٹ اوبیسیٹی" یعنی 'بھوک، موٹاپا نہیں‘ چین کی خصوصیت سمجھی جاتی تھی۔ تاہم اب موٹاپے کے مسئلے سے نمٹنا بیجنگ کے لیے نسبتاﹰ ایک نیا چیلنج ہے۔ چین ایک ایسا ملک ہے جس نے گزشتہ صدی کے وسط میں خوارک کا شدید بحران بھی جھیلا ہے۔
گزشتہ برس ایک پریس ریلیز میں موٹاپے کے مسئلے سے نمبرد آزما ہونے کے لیے ملک کی پہلی کثیر الضابطہ ہدایات کا اعلان کرتے ہوئے حکام نے تسلیم کیا تھا کہ چین نے اتنی بڑی آبادی کی خوارک کی ضروریات پوری کرنے کے لیے سخت جدوجہد کی ہے۔
اس میں کہا گیا کہ 1970 کی دہائی کے آخر میں، اصلاحات اور معیشت بہتر ہونے سے پہلے، بھوک اس ملک کے بنیادی مسائل میں سے ایک تھا۔ لیکن بڑھتی ہوئی خوشحالی نے صورتحال بدل دی ہے۔ لی نے کہا کہ اب ذیابیطس اور قلبی امراض جیسی دائمی بیماریاں چینی آبادی کے لیے ایک بڑا خطرہ ہیں اور ان کا طرز زندگی سے گہرا تعلق ہے۔
ہیلتھ کمیشن کی ایک رپورٹ کے مطابق 2020 تک اس ملک میں پچاس فیصد آبادی، جو اس وقت سن بلوغت میں تھی، کا وزن زیادہ تھا تاہم یہ تعداد 2030 میں 65.
ر ب/ م ا (ڈی پی اے)
ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے کے لیے
پڑھیں:
چین نے اپنا سب سے کم عمر خلا باز چینی خلائی اسٹیشن پر بھیج دیا
چین نے اپنا نیا خلائی مشن شین ژو 21 کامیابی سے روانہ کردیا۔
خبرایجنسی کے مطابق یہ مشن تیانگونگ خلائی اسٹیشن کے لیے بھیجا گیا ہے اور اس میں تین خلاباز شامل ہیں، جن میں چین کے سب سے کم عمر خلاباز بھی شامل ہیں۔
مشن کو شمال مغربی چین کے جیوچوان سیٹلائٹ لانچ سینٹر سے لانچ کیا گیا، جہاں راکٹ نے مقررہ وقت پر کامیابی سے اڑان بھری۔ چینی خلائی ادارے کے مطابق خلاباز تقریباً چھ ماہ تک خلا میں قیام کریں گے اور اسٹیشن پر مختلف سائنسی تجربات اور سسٹمز اپ گریڈز انجام دیں گے۔
یہ مشن سال 2022 میں تعمیر ہونے والے تیانگونگ خلائی مرکز سے روانہ ہونے والا ساتواں خلائی مشن ہے۔ چینی حکام نے شین ژو-اکیس کو ملک کے بڑھتے ہوئے خلائی پروگرام میں ایک اور اہم سنگِ میل قرار دیا ہے۔
چین کا کہنا ہے کہ یہ مشن نہ صرف سائنسی تحقیق میں نئی راہیں کھولے گا بلکہ مستقبل میں خلائی اسٹیشن کی توسیع اور طویل المدتی انسانی مشنوں کی بنیاد بھی فراہم کرے گا۔