کراچی میں کٹا ہوا انسانی بازو ملنے سے خوف و ہراس پھیل گیا
اشاعت کی تاریخ: 9th, March 2025 GMT
ملنے والے بازو کا فنگر پرنٹس لینے کے بعد نادرا حکام کو بھجوائے جائیں گے، تاکہ یہ معلوم ہو سکے کہ بازو کس کا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ شہر قائد کے علاقے گلشن اقبال واقع رہائشی اپارٹمنمٹ کی دیوار کے قریب سے کٹا ہوا انسانی بازو ملنے پر علاقے میں خوف و ہراس پھیل گیا۔ تفصیلات کے مطابق گلشن اقبال بلاک 19 میں واقع رہائشی اپارٹمنمٹ کی دیوار کے قریب سے کٹا ہوا انسانی بازو ملنے پر علاقے میں خوف و ہراس پھیل گیا۔ اطلاع ملنے پر ایدھی فاؤنڈیشن کے رضاکار موقع پر پہنچ گئے، ایدھی رضا کار انسانی بازوں اٹھا کر عزیز بھٹی تھانے لے گئے، جہاں عزیز بھٹی پولیس نے انسانی بازو کو جناح اسپتال منتقل کرنے کی ہدایت کر دی۔
ایس ایس پی ایسٹ ڈاکٹر فرخ رضا کا کہنا ہے کہ ملنے والا بازو کس انسان کا ہے، فنگر پرنٹس کے ذریعے شناخت کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جائے وقوع سے لاش کے دیگر ٹکڑے نہیں ملے ہیں، شبہ ہے کہ انسانی بازو کو کہیں اور سے لا کر پھینکا گیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ملنے والے بازو کا فنگر پرنٹس لینے کے بعد نادرا حکام کو بھجوائے جائیں گے، تاکہ یہ معلوم ہو سکے کہ بازو کس کا ہے، اس حوالے سے مزید تفتیش کی جا رہی ہے۔
ذریعہ: Islam Times
پڑھیں:
انٹربینک میں ڈالر کی قدر میں مزید کمی، روپے کو استحکام ملنے لگا
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
پاکستانی کرنسی کے مقابلے میں انٹربینک میں امریکی ڈالر معمولی کمی کے بعد مزید سستا ہوگیا ہے۔
اسٹیٹ بینک کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق پیر کے روز ڈالر ایک پیسہ کم ہوکر 281 روپے 45 پیسے پر بند ہوا، جبکہ ہفتے کے روز یہ 281 روپے 46 پیسے کی سطح پر تھا۔ بظاہر یہ تبدیلی بہت معمولی ہے، مگر ملکی معیشت کے تناظر میں زرِ مبادلہ کی شرح میں اتار چڑھاؤ ہمیشہ اہمیت رکھتا ہے۔
ماہرین کے مطابق روپے کی قدر میں کمی درآمدی اخراجات میں اضافہ کرتی ہے، کیونکہ مشینری، ایندھن اور روزمرہ استعمال کی اشیاء مہنگی پڑتی ہیں۔ اس کے نتیجے میں افراطِ زر میں اضافہ ہوتا ہے اور عام شہریوں کی زندگی کے اخراجات بڑھ جاتے ہیں۔ خاص طور پر پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ دیگر تمام شعبوں پر دباؤ ڈال دیتا ہے۔
دوسری جانب ڈالر کی قدر میں معمولی کمی برآمدی شعبے کے لیے مثبت ثابت ہو سکتی ہے۔ روپے کی گرتی ہوئی قدر پاکستانی مصنوعات کو عالمی منڈی میں سستا کرتی ہے، جس سے ٹیکسٹائل، زراعت اور چمڑے کی صنعتوں کو زیادہ آرڈرز ملنے کا امکان ہوتا ہے۔ اس کے ذریعے زرِ مبادلہ کے ذخائر میں بھی بہتری آ سکتی ہے۔
تاہم، یہ حقیقت بھی نظر انداز نہیں کی جا سکتی کہ ڈالر مہنگا ہونے سے پاکستان کے غیر ملکی قرضوں کا بوجھ بڑھ جاتا ہے، کیونکہ ڈالر میں لیے گئے قرض کی ادائیگی کے لیے زیادہ روپے درکار ہوتے ہیں۔ اسی لیے ماہرین کا کہنا ہے کہ روپے کی قدر میں استحکام برقرار رکھنا حکومت اور اسٹیٹ بینک کے لیے سب سے بڑا چیلنج ہے۔