وزیراعظم کی آئی ٹی ٹریننگ کے منصوبوں پر تیزی سے عمل درآمد یقینی بنانے کی ہدایت
اشاعت کی تاریخ: 9th, March 2025 GMT
وزیراعظم کی آئی ٹی ٹریننگ کے منصوبوں پر تیزی سے عمل درآمد یقینی بنانے کی ہدایت WhatsAppFacebookTwitter 0 9 March, 2025 سب نیوز
لاہور (سب نیوز)وزیراعظم شہباز شریف نے آئی ٹی ٹریننگ کے منصوبوں پر تیزی سے عمل درآمد یقینی بنانے کی ہدایت کرتے ہوئے آئی سی ٹی ٹریننگ پورٹل کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے اور تمام صوبوں بشمول آزاد کشمیر و گلگت بلتستان تک اس منصوبے کو وسعت دینے کا حکم دیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق وزی اعظم آفس سے جاری یبان میں کہا گیا کہ وزیراعظم محمد شہباز شریف کی زیر صدارت ہواوے ٹیکنالوجیز کے ساتھ پاکستان کے تین لاکھ نوجوانوں کو آئی سی ٹی ٹریننگ کی فراہمی کے حوالے سے جائزہ اجلاس ہوا، اجلاس میں ہواوے ٹیکنالوجیز کے وفد کے ارکان کی شرکت کی۔اجلاس میں نوجوانوں کو ڈیجیٹل مہارتوں سے آراستہ کرنے اور آئی ٹی کے شعبے میں عالمی معیار کی تربیت فراہم کرنے کے لئے مختلف اقدامات پر تبادلہ خیال کیا گیا، اجلاس میں گزشتہ برس چین میں ہواوے ٹیکنالوجیز کے ساتھ طے کئے گئے معاہدوں پر عمل درآمد کا جائزہ لیا گیا۔
وزیراعظم نے کہا کہ ٹیکنالوجی کے فروغ اور ڈیجیٹل انقلاب میں نوجوانوں کا کلیدی کردار ہے، حکومت نوجوانوں کو جدید مہارتوں سے لیس کرنے کے لئے ہر ممکن تعاون فراہم کر رہی ہے، ہواوے کے آئی سی ٹی ٹریننگ پروگرام سے آئی ٹی برآمدات میں اضافے سمیت نوجوانوں کو روزگار کے حصول میں مدد ملے گی۔ہواوے ٹیکنالوجیز کے نمائندوں نے پاکستان میں جدید تربیتی پروگرام کیلئے اپنے عزم کا اظہار کیا، ہواوے ٹیکنالوجیز اس اقدام کے تحت نوجوانوں کو مصنوعی ذہانت ، سائبر سیکورٹی، کلاڈ کمپیوٹنگ اور دیگر جدید ٹیکنالوجیز میں تربیت فراہم کرے گی۔
وزیراعظم کو بتایا گیا کہ 3 لاکھ پاکستانی نوجوانوں کو آن لائن تربیت فراہم کی جائے گی، اس مقصد کے لئے آئی سی ٹی ٹریننگ پورٹل کا باقاعدہ افتتاح وزیراعظم محمد شہباز شریف کریں گے، ہواوے ٹیکنالوجیز کی جانب سے اس وقت تک 20 ہزار 315 طلبہ کو تربیت فراہم کی جا چکی ہے۔
پروگرام کے تحت سٹوڈنٹس، ٹرینرز اور آئی سی ٹی ٹیکنالوجیز میں کام کرنے والوں کی اپ سکلنگ کی جا رہی ہے، ہواوے ٹیکنالوجیز جن ماسٹر ٹریننرز کو تربیت فراہم کرے گا وہ مقامی سطح پر نوجوانوں کو تربیت فراہم کریں گے۔وزیراعظم نے آئی ٹی ٹریننگ کے منصوبوں پر تیزی سے عمل درآمد یقینی بنانے کی ہدایت کی اور آئی سی ٹی ٹریننگ پورٹل کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کی بھی ہدایت دی، اس کے علاوہ انہوں نے تمام صوبوں بشمول آزاد کشمیر و گلگت بلتستان تک اس منصوبے کو وسعت دینے کی ہدایت کی۔
ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: آئی ٹی ٹریننگ کے منصوبوں پر تیزی سے عمل درآمد یقینی بنانے کی ہدایت آئی سی ٹی ٹریننگ تربیت فراہم نوجوانوں کو
پڑھیں:
غذائی درآمدات میں کمی یا اضافہ؟
مالی سال 2024 اور 2025 کے 9 ماہ گزر گئے، جولائی تا مارچ 2025ء کے غذائی یعنی فوڈ گروپ کے اعداد و شمار انتہائی خوش کن نظر آ رہے تھے۔ جب یہ بتایا جا رہا تھا کہ 2023-24 کے 9 ماہ کے مقابلے میں رواں مالی سال کے 9 ماہ میں فوڈ گروپ کی درآمدات میں2.74 فی صد کمی ہوئی ہے۔ درآمدات میں کمی کا ہونا وہ بھی فوڈ گروپ کی درآمدات جس میں دالیں، گندم، جب کہ غذائی اشیا میں چائے، سویابین آئل اور دیگر اشیائے خوراک شامل ہوتی ہیں۔
اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ 9 ماہ کے دوران 6 ارب 11 کروڑ 80لاکھ 13 ہزار ڈالرز کی فوڈ گروپ کی درآمد ہوئی اور اس کے مقابل جولائی 2023 تا تاریخ 2024 کی فوڈ گروپ کی کل درآمد 6 ارب 29 کروڑ 4 لاکھ67 ہزار ڈالر کے ساتھ2.74 فی صد کی کمی کا ڈنکا بجا دیا گیا جب کہ یہ حقیقت بھی ہے لیکن ذرا رکیے! سال گزشتہ کی درآمدی گندم نکال کر حساب کتاب چیک کرتے ہیں تو کہانی بالکل الٹ ہو کر رہ جاتی ہے۔
پچھلے مالی سال کے 9 ماہ میں پاکستان کے ساڑھے چونتیس لاکھ میٹرک ٹن گندم کی درآمد پر ایک ارب 51 لاکھ ڈالرز خرچ ہوئے تھے، اگر گندم نکال دی جائے تو 6 ارب کی غذائی درآمدات کو5 ارب سمجھنا چاہیے اور چونکہ اس مرتبہ گندم کی مد میں 35 ہزار ڈالر درج ہے، اس لحاظ سے یہ تقریباً 15 فی صد سے زیادہ غذائی درآمدات کا اضافہ بنتا ہے۔
اس سے زیادہ مسئلہ اس بات کا ہے کہ رواں مالی سال میں گزشتہ مالی سال کے اسی مدت کا دالوں کی درآمد سے موازنہ کرتے ہیں تو 19 کروڑ ڈالرز کی زائد دالیں درآمد ہو کر رہیں۔ آہستہ آہستہ ایسا معلوم دے رہا ہے کہ پاکستان دالیں امپورٹ کرنے والے ملکوں کی فہرست میں اپنا نام بڑھاتا چلا جا رہا ہے۔ اس طرح دالیں مہنگی ہوتی چلی جائیں گی اور کچھ عرصے میں غریب کی دسترس سے باہر ہوکر رہیں گی۔
جلد ہی گوشت بھی اشرافیہ میں سے کچھ لوگوں کی دسترس سے باہر ہونے کو ہے لہٰذا مہنگی دالوں کے گُن گائے جائیں گے اور اشرافیہ کے کچھ افراد گائے کے گوشت کو بھی خیرباد کہہ دیں گے اور وہ دال مہنگی ہو کر رہ جائے گی جو کبھی غریبوں کی پہچان تھی، اب وہ اشرافیہ کی شان بن جائے گی۔ پھر یہ نہیں کہا جائے گا کہ ’’دال میں کچھ کالا ہے‘‘ بلکہ دال اب بہت سے کالے دھن والوں کا کھاجا ہوکر رہ جائے گی۔اس مرتبہ غذا کی درآمدات میں دراصل اضافہ ہوا یا کمی ہوئی ہے۔
ان سب کو سمجھنے کے لیے دال، گندم اور غذائی درآمدات کو گڈمڈ کرنا پڑے گا۔ یعنی بات سیدھی سمجھنی ہو تو کچھ اس طرح ہے کہ گزشتہ مالی سال کے 9 ماہ کی ایک ارب ڈالر کی درآمدی گندم اور اس مرتبہ دالوں کی درآمد پر تقریباً 19 کروڑ ڈالر کی زائد درآمد کو ملا لیں یا سال گزشتہ کے اسی مدت سے گھٹا لیں تو دراصل تقریباً سوا ارب ڈالر کی اس مرتبہ غذائی درآمدات میں اضافہ ہوا ہے۔ واضح رہے کہ اس کے علاوہ کئی غذائی درآمدات میں جن کو پچھلے سیزن میں کم درآمد کیا گیا اس لیے ایک محتاط اندازہ پیش کیا جا رہا ہے۔ اب یہ سوا ارب ڈالر5 ارب ڈالر کا 25 فی صد تو بنتا ہے اس طرح گندم نکالیں دال جمع کریں تو یہ سب کچھ جب گڈمڈ ہوکر رہ جائے گا تو ایسے میں معیشت کی کمزوری ظاہر ہوکر رہے گی۔ اتنی درآمدات کے باعث درآمدی ملک بن گئے ہیں کہ کیا اب بھی ایسا معلوم دیتا ہے کہ خودکفالت کی منزل پا لیں گے یہ نعرہ بھی درآمدی نعرہ بن گیا ہے۔
حکومت سستی دال فراہم کرنے کے لیے کاشتکاروں، زمین اور مقامی دالوں کا رشتہ مضبوط کرے تاکہ سستی دال اور مقامی دال پیدا ہو، اسی سے ہم سالانہ ایک سے سوا ارب ڈالر بچا سکتے ہیں۔ چینی بھی برآمد کر رہے ہیں اور اب گندم بھی برآمد کی جائے تاکہ ملک گندم کے برآمدی ممالک میں اپنی شناخت بنا سکے۔حکومت کے پالیسی ساز غذائی درآمدات کے بل کو بار بار چیک کریں، کیونکہ جب کھانے پینے کی چیزیں ایسے ملک میں باہر سے آ رہی ہیں جو ان تمام غذائی درآمدات کو سوائے چند ایک کو چھوڑ کر مثلاً چائے یا پام آئل وغیرہ کے دیگر کئی غذائی درآمدات اس لیے کی جاتی ہیں کہ ملکی پیداوار کی نسبت کھپت زیادہ ہے۔
اب زائد کھپت کہہ دینا اور اس کے لیے زائد پیداوار کے حصول کی کسی قسم کی کوشش نہ کرنا، اب اس پالیسی کے برعکس کام کرنے کے لیے ماہرین، پالیسی ساز اب طے کر لیں کہ ملک کو خودکفالت کی طرف لے جانے کے لیے پہلے غذائی درآمدات پر گہری نظر رکھنے کی ضرورت ہوگی،کیونکہ ابتدائی طور پر آسانی کے ساتھ ایک تا ڈیڑھ ارب ڈالرز کی کفایت کی جا سکتی ہے۔
صرف پچھلے 10 سال کا سوچ کر آیندہ 5 سال کی زرعی منصوبہ بندی کر لیتے ہیں تو یہ 10 تا 12 ارب ڈالر کی بچت، غذائی درآمدی بل میں کر سکتے ہیں اور آیندہ 5 برس اگر خودکفالت حاصل کرتے ہوئے کچھ اشیا خوراک برآمد کرلیتے ہیں تو یہی 10 سے 12 ارب ڈالرکی بچت ملک کو خودکفالت کی منزل کی جانب رواں دواں کر سکتی ہے اور یوں غذائی برآمدات کو دو سے تین گنا زیادہ بڑھا سکتے ہیں۔