سنی اتحاد کونسل کے سربراہ صاحبزادہ حامد رضا کے گھر پر مبینہ چھاپہ
اشاعت کی تاریخ: 10th, March 2025 GMT
سنی اتحاد کونسل کے سربراہ صاحبزادہ حامد رضا نے دعویٰ کیا ہے کہ پارلمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے قبل ان کے گھر پر چھاپہ مارا گیا۔
صاحبزادہ حامد رضا نے پارلیمنٹ ہاؤس میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میرے گھر پر چھاپہ پڑنے کی وجہ سے میں پارلیمانی کمیٹی میں تاخیر سے پہنچا، مجھے پیغام پہنچانے کی جو کوشش کی گئی وہ مجھے موصول ہوگیا۔
صاحبزادہ حامد رضا نے کہا کہ میں بانی پی ٹی آئی کے ساتھ کھڑا ہوں، آئندہ میرے گھر پر بغیر اطلاع کے چھاپہ مارا گیا تو واپس نہیں جانے دیا جائے گا۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: گھر پر
پڑھیں:
شمالی کوریا: حکمران خاندان کے وفادار سابق علامتی سربراہِ مملکت انتقال کر گئے
شمالی کوریا کے سابق علامتی سربراہِ مملکت اور حکمران خاندان کے ساری عمر وفادار حامی رہنے والے کِم یونگ نام 97 برس کی عمر میں انتقال کر گئے۔
کورین سینٹرل نیوز ایجنسی (کے س این اے) کے مطابق یم یونگ نام 3 نومبر کو متعدد اعضا کی ناکامی کے باعث وفات پا گئے، وہ 1998 سے 2019 تک پیانگ یانگ کی سپریم پیپلز اسمبلی (پارلیمنٹ) کے صدر رہے۔
کِم یونگ نام نے شمالی کوریا کے بانی کِم اِل سُنگ، ان کے بیٹے کِم جونگ اِل، اور موجودہ رہنما کِم جونگ اُن، تینوں کے ادوار میں مختلف سفارتی عہدوں پر خدمات انجام دیں، حالاں کہ وہ کِم خاندان سے تعلق نہیں رکھتے تھے۔
کورین سرکاری خبر ایجنسی نے انہیں ایک ’پرانے دور کے انقلابی‘ کے طور پر خراجِ تحسین پیش کیا، جنہوں نے پارٹی اور ملک کی ترقی کی تاریخ میں نمایاں کارنامے سرانجام دیے، ان کا جنازہ ریاستی سطح پر ادا کیا گیا۔
کے سی این اے کے مطابق کِم یونگ نام کی پیدائش اُس وقت ہوئی تھی، جب کوریا جاپانی نوآبادیاتی دور میں تھا، وہ ایک ’جاپان مخالف محبِ وطن خاندان‘ میں پیدا ہوئے۔
انہوں نے کِم اِل سُنگ یونیورسٹی (پیانگ یانگ) سے تعلیم حاصل کی اور بعد ازاں ماسکو میں بھی تعلیم جاری رکھی، جس کے بعد انہوں نے 1950 کی دہائی میں اپنے کیریئر کا آغاز کیا تھا۔
ابتدائی طور پر وہ حکمران جماعت کے نچلے درجے کے عہدیدار تھے، مگر آہستہ آہستہ ترقی کرتے ہوئے وزیرِ خارجہ بنے اور بعد ازاں تقریباً پورے کِم جونگ اِل کے دورِ اقتدار میں سپریم پیپلز اسمبلی کے چیئرمین کے طور پر خدمات انجام دیتے رہے۔
اگرچہ اصل طاقت ہمیشہ کِم خاندان کے ہاتھوں میں رہی، مگر کِم یونگ نام کو اکثر بین الاقوامی سطح پر شمالی کوریا کا چہرہ سمجھا جاتا تھا۔
2018 میں انہوں نے سرمائی اولمپکس کے موقع پر جنوبی کوریا میں شمالی کوریا کے وفد کی قیادت کی، جہاں انہوں نے اُس وقت کے جنوبی کوریا کے صدر مون جے اِن سے ملاقات کی تھی، اس وفد میں کِم جونگ اُن کی بااثر بہن، کِم یو جونگ بھی شامل تھیں۔
کِم یونگ نام نے اس سے قبل 2 سابق جنوبی کوریائی صدور کِم ڈی جونگ (2000) اور رو مو ہْیون (2007) سے بھی بین الکوریائی سربراہی اجلاسوں میں ملاقات کی تھی۔
جنوبی کوریا کے وزیر برائے اتحاد چُنگ ڈونگ یونگ نے تعزیت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ان کی کِم یونگ نام کے ساتھ ’کورین جزیرہ نما میں امن کے بارے میں بامعنی گفتگو‘ ہوئی تھی۔
شمالی کوریا کے سابق سفارتکار تھے یونگ ہو (جو اب جنوبی کوریا میں آباد ہیں) نے بی بی سی کو بتایا کہ کِم یونگ نام نے کبھی ایسا لفظ نہیں کہا جو حکومت کو ناپسند ہو۔
انہوں نے کہا کہ ’آنجہانی نے کبھی اپنی رائے ظاہر نہیں کی، ان کے قریبی حامی تھے نہ دشمن، اُنہوں نے کبھی کوئی نیا نظریہ یا پالیسی پیش نہیں کی، صرف وہی دہراتے رہے جو کِم خاندان کہتا تھا‘۔
تھے یونگ ہو کے مطابق کِم یونگ نام اس بات کی بہترین مثال ہیں کہ شمالی کوریا میں طویل عرصہ زندہ اور محفوظ کیسے رہا جا سکتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ انہوں نے اپنی شہرت صاف ستھری رکھ کر پارٹی کے اندرونی تنقید سے اپنا بچاؤ کیا۔
شمالی کوریا کے دیگر اعلیٰ حکام کے برعکس، کِم یونگ نام کو کبھی برطرف یا تنزلی کا سامنا نہیں کرنا پڑا، حتیٰ کہ اقتدار کِم خاندان کی 3 نسلوں تک منتقل ہوتا رہا۔
انہوں نے اپریل 2019 میں ریٹائرمنٹ اختیار کرلی تھی۔
ان کی طویل سروس غیر معمولی تھی، کیوں کہ دیگر کئی اعلیٰ عہدیداروں پر ریاستی پالیسیوں کی خلاف ورزی کا شبہ کیا گیا تو انہیں برطرف، جبری مشقت کیمپوں میں بھیجا یا قتل کر دیا گیا تھا۔
مثال کے طور پر، کِم جونگ اُن نے 2013 میں اپنے ماموں چانگ سونگ تھایک کو ’غداری کے اقدامات‘ کے الزام میں سزائے موت دلوا دی تھی۔