اسلام آباد: اپوزیشن لیڈر عمر ایوب نے کہا ہے کہ صدر زرداری ان کے خطاب میں کوئی خاص بات نہیں تھی، شہبازشریف کی رجیم میں کیا خاص بات ہے جو یہ شہنائیاں بجا رہے ہیں۔ بیرسٹر گوہر نے کہا کہ صدرزرداری وفاق کی علامت نظرنہیں آئے۔
پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹرگوہر کے ہمراہ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے عمرایوب نے کہا کہ صدر آصف زرداری کے خطاب میں کوئی خاص بات نہیں، شہبازشریف کی رجیم میں کیا خاص بات ہے جو یہ شہنائیاں بجا رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ کراچی کا پانی بیچا جا رہا ہے، انہوں نے 4 ہزار ارب سے زیادہ قرضہ چڑھا دیا ہے، مہنگائی عروج پر ہے گندم کا بحران سر پر ہے۔
اپوزیشن لیڈر نے کہا کہ بلوچستان میں پٹرولیم کی اسمگلنگ عروج پر ہے، 3 دن سے کوئٹہ میں لاک ڈاؤن ہے، فوج بھی میری ہے ملک بھی میرا ہے۔
عمر ایوب نے کہا کہ پاکستان میں رول آف لا نہیں جس سےغیرملکی سرمایہ کاری نہیں آ رہی، ملک میں مزید 2 کروڑ لوگ غربت کی لکیر سے نیچے آ گئے ہیں۔
چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر نے کہا کہ صدر زرداری وفاق کی علامت نظرنہیں آئے، اس وجہ سے ہم نے احتجاج سے استقبال کیا۔
اس سے قبل پارلیمنٹ ہاؤس کے مشترکہ اجلاس میں اسپیکر قومی اسمبلی نے صدر آصف علی زرداری کو خطاب کی دعوت دی تو اپوزیشن نے شدید نعرے بازی اور شور شرابہ شروع کر دیا، پی ٹی آئی ارکان نے ڈیسک بجا کر احتجاج شروع کیا جبکہ شدید نعرے بازی کے باعث صدر نے کانوں پر ہیڈ فون لگا لیے۔
اس کے علاوہ وزیر شہباز شریف نے بھی ہیڈ فون لگا لیے جبکہ صدر مملکت تقریر کے دوران اپوزیشن کی جانب دیکھ کر مسکراتے رہے۔
احتجاج کے دوران اپوزیشن لیڈر عمر ایوب مکے مار مار کر ڈیسک بجاتے رہے، پی ٹی آئی کی جانب سے بانی پی ٹی آئی عمران خان کے حق میں نعرے بازی ہوتی رہی۔

Post Views: 4.

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: پی ٹی ا ئی نے کہا کہ خاص بات کہ صدر

پڑھیں:

باتیں علی امین گنڈا پور کی

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

ہم ہتھیار لے کر آئیں گے، سینے پر گولی ماریں گے تو ان کی کمر پر گولی ماریں گے۔ علی امین گنڈا پور کا یہ تازہ فرمان سامنے آیا ہے بالکل ٹھیک کہا یہ ایسا کر سکتے ہیں، جس شخص کے پاس چند بوتلیں ہوں اور یہ پکڑی جائیں تو شہد کی بوتلیں بن جائیں، آخر کوئی تو طاقت اس شخص کے پاس ہوگی ناں کہ بوتلیں نہ پکڑی جائیں تو ان کا کوئی اور ہی رنگ اور نشہ ہوتا ہے، پکڑی جائیں تو شہد کی بن جائیں۔ یہ کام کسی جادو سے کم نہیں ہے۔ ہوسکتا ہے ان کے پاس جادو کی کوئی نئی قسم آئی ہوگی۔ علی امین ایک عوامی آدمی ہیں، اپنے علاقے میں یہ شیخ رشید کی مانند سیاست کرتے ہیں لہٰذا ان کے بیانات کو بھی بالکل اسی طرح لیا جائے جیسے شیخ رشید کے بیانات ہوتے تھے یا ہوتے ہیں۔ عمران خان کے ہامی کہتے ہیں کہ انہوں نے بہت اصولوں کی سیاست کی ہے۔ کرپشن نہیں کی، ایمان دار ہیں، جی دار ہیں، جرأت مند ہیں، جی ہوسکتا ہے کہ ایسے ہی ہوں جیسا کہ ان کے ہامی خیال کر رہے ہیں لیکن یہ دنیا ہے اور سیاست ہے یہاں دعوئوں کی نہیں عمل کی اہمیت ہے۔ دعوے تو ضیاء الحق نے بھی کیے تھے، پرویز مشرف نے کیا کم دعوے کیے تھے! نواز شریف ہوں یا دیگر سیاست دان کم دعویٰ کرتے ہیں؟ ہم ا ن کا عمل دیکھتے ہیں۔ ہم سے مراد عوام ہیں۔ ابھی کل کی بات ہے اور یہ بات ریکارڈ پر ہے عمران خان کبھی بھی اس بات کو جھٹلا نہیں سکیں گے۔ ریفرنڈم میں انہوں نے پرویز مشرف کی حمایت اس لیے کی تھی کہ انہیں یقین دلایا گیا کہ وزارت عظمیٰ کے لیے وہی بہترین چوائس ہیں۔ پھر جب حالات نے پلٹا کھایا تو عمران خان صرف اپنی نشست میاں والی سے جیت سکے بلکہ ڈاکٹر شیر افگن خان نیازی نے قومی اسمبلی کے فلور پر کہا تھا کہ عمران خان کو جتوایا گیا ہے۔ اس کے جواب میں عمران خان نے کہا کہ وہ تسلیم کرتے ہیں کہ ایسا ہی ہوا اس لیے تو کہہ رہا ہوں کہ انتخابات میں دھاندلی کی تحقیقات ہو۔
2002 کے عام انتخابات کی ’’بنیادی سائنس‘‘ یہ تھی جو بھی سیاسی جماعت انتخابات میں حصہ لے رہی ہے اس کا کم از کم ایک امیدوار تو ضرور جیت جانا چاہیے اور اسے اسمبلی میں لایا جائے اسی لیے مولانا طارق اعظم، عبد الرئوف مینگل، علامہ طاہر القادری، عمران خان، شیخ رشید احمد جیسے راہنماء اسمبلی میں جیت کر آئے۔ راجا ظفر الحق ایک مدبر سیاست دان ہیں، جہاں دیدہ ہیں، انہیں بھی پرویز مشرف نے ملاقات میں کہا تھا، تیار ہوجائیں وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالیے اسمبلی میں وہی آئے گا جس کے سر پر وہ ہاتھ رکھیں گے۔ راجا صاحب نے کہا کہ ابسلیوٹلی ناٹ۔ پھر کیا ہوا؟ انتخابات ہوئے تو راجا صاحب شکست کھا گئے۔ اس انتخابات میں مسلم لیگ(ن) اور پیپلزپارٹی کے لیے کوئی گنجائش نہیں تھی تاہم انہیں اتنی نشستیں مل گئیں کہ وہ اسمبلی سے باہر رہنے کا رسک نہیں لے سکتی تھیں۔ بس یوں کہہ لیں یہ ایسے انتخابات تھے جن میں سب کچھ پہلے سے طے تھا کہ کون کیا بنے گا اور کون کن نشستوں پر بیٹھے گا۔ ملک کی سیاست آج بھی اسی ڈگر پر چل رہی ہے سب کچھ طے ہے کہ کون کہاں بیٹھے گا؟ کون اندر ہوگا کون اندر نہیں ہوگا‘ باقی ہمارے سیاست دانوں کی مرضی ہے وہ جس طرح کے چاہیں بیان دے سکتے ہیں۔ بیان دینے پر تو کوئی پابندی نہیں ہے۔ ہاں مگر پابندی ہے کہ جو کچھ طے ہے اسے نہیں چھیڑنا بس ایک خاص دائرے میں رہ، جو بھی بیان دینے ہیں دیتے چلے جائو۔
ایک بات اگر پلے باندھ لی جائے تو اس ملک کی سیاست بھی درست ہوسکتی ہے وہ بات یہ ہے کہ سیاست دان اپنی ذمے داری پہچانیں۔ عوام کی طاقت سے جمہوریت لائیں۔ پارلیمنٹ میں آنے اور پھر حکومت کرنے کے لیے کسی سہارے کی تلاش میں نہ رہیں۔ اگر عوام انہیں مسترد کردیں تو عوام کا فیصلہ قبول کریں۔ کسی کے کہنے پر دھرنے نہ دیں، احتجاج کے لیے کنٹینر نہ سجائیں، ملک کو آگے چلنے دیں۔ عوام میں جائیں اپنے حق میں رائے عامہ ہموار کریں تو اس ملک میں جمہوریت آسکتی ہے ورنہ نہیں آسکتی۔ الٹے بھی لٹک جائیں اس ملک میں جمہوریت نہیں آسکتی۔ یہ بات بھی سمجھ لیجیے جمہوریت ہوتی یا نہیں ہوتی، یہ نیم جمہوری نظام، کنٹرولڈ جمہوری نظام، ہائبرڈ جمہوری نظام، جمہوریت نہیں ہوتی، اسے بندوبست کہتے ہیں، ایک عارضی بندوبست، اسے جمہوریت کہنا ہی جمہوریت کی توہین ہے اور جو جو بھی اس طرح کے نظام کا حصہ ہے یا رہا ہے یا رہنے کا خواہش مند ہے وہ جمہوریت کا ہامی نہیں ہے وہ اپنے لیے کسی بندو بست کا منتظر ہے۔ سیاست دان اپنی سمت درست کرلیں تو سیاست دانوں کو سدھارنے والے اور انہیں چلانے، لانے اور نکالنے والے بھی اپنی سمت درست کرلیں گے۔
جب ملک کے سیاست دانوں کی ایک بڑی اکثریت یہ کہہ رہی ہو کہ ’’آجا تینوں اکھیاں اڈھیک دیاں دل واجاں مار دا‘‘ تو ان کا دل نہیں کرتا کہ سیاست دانوں کی آواز اور کوک سنیں لہٰذا کسی کو برا مت کہیں، سیاست دان خود درست ہوں، حقیقی معنوں میں عوام کی نبض پر ہاتھ رکھیں اور ان کے ووٹ سے پارلیمنٹ میں آئیں۔ اگر ایسا ہو جائے تو پھر بجٹ بھی عوام کے لیے ہی آئیں گے آئی ایم ایف کے لیے نہیں۔ پھر جمہوری حکومت کی مرضی ہوگی، کسی کو توسیع دے نہ دے اور کوئی چوں بھی نہیں کرسکے گا۔ جو سیاست دانوں کی اپنی کوئی رائے نہ ہوگی تو جو قوت میں ہوگا رائے تو پھر اسی کی ہوگی۔ پھر وہی فیصلہ کرے گا کہ جمہوریت کو کس ناکے پر روکنا ہے جب اسلحہ اٹھا کر اسلام آباد چڑھائی کی دھمکی دی جائے گی اور اسے ہی سیاست سمجھا جائے گا تو پھر جان لیجیے جس کے لیے اسلحہ اٹھانے کی بات ہورہی ہے وہ بے چارہ ملاقاتیوں کے انتظار میں ہی بیٹھا رہے گا۔ کوئی اسے اصول پسند کہے یا نیلسن مینڈیلا، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔

 

متعلقہ مضامین

  • کیا کوئی اس جنگ کو روک سکتا ہے؟
  • ایران اسرائیل جنگ، پٹرول بحران کا خدشہ ہے، حکومت کے پاس کوئی پلان نہیں. عمرایوب
  • کارآمد تجویز
  • مجھ میں اور شہباز شریف میں کوئی فرق نہیں: نواز شریف
  • کراچی: اپوزیشن لیڈر کے ایم سی و نائب امیر جماعت اسلامی کراچی سیف الدین ایڈووکیٹ چنیسر ٹاؤن کے چیئر مینوں ، ٹاؤن کی مارکیٹوں ، تا جرتنظیموں کے عہدیداران کے ساتھ چنیسر ٹاؤن آفس سندھی مسلم سوسائٹی میں پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے ہیں
  • یہ بھی میری ہی جنگ ہے
  • بجٹ پاس کروانے کیلیے کسی مدد یاووٹ کی ضرورت نہیں‘ناصرشاہ
  • کوئی فرق نہیں
  • باتیں علی امین گنڈا پور کی
  • سینیٹ اجلاس میں اپوزیشن نے بجٹ کو امیر پرور اور غریب کش قرار دیدیا