UrduPoint:
2025-07-24@23:10:08 GMT

دہلی کے پاکستان ہاؤس میں سِمٹی تاریخ

اشاعت کی تاریخ: 10th, March 2025 GMT

دہلی کے پاکستان ہاؤس میں سِمٹی تاریخ

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 10 مارچ 2025ء) انڈیا گیٹ سے سپریم کورٹ کی طرف تلک مارگ پر گزرتے ہوئے جب بھی میں ایک مخصوص عمارت کے صحن میں پاکستانی پرچم لہراتا دیکھتی، حیرانی ہوتی۔ یہ عجیب تھا کہ پاکستانی سفارت خانہ تو چانکیہ پوری کے ڈپلومیٹک انکلیو میں واقع ہے، مگر دہلی کے قلب میں، ایک مکان پر پاکستانی پرچم کیوں؟ بعد میں معلوم ہوا کہ یہ پاکستان کے سفیر یا ہائی کمشنر کی سرکاری رہائش گاہ ہے۔

حال ہی میں پاکستانی مشن نے اس تاریخی عمارت کے دروازے میڈیا اور دیگر افراد کے لیے کھول دیے، اور مجھے بھی وہاں جانے کا موقع ملا۔ پتا چلا کہ یہ محض ایک رہائش گاہ نہیں، بلکہ متحدہ ہندوستان کی ایک تاریخ اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔ عام طور پر پاکستانی مشن کی تقریبات سفارت خانے کے وسیع و عریض لان میں منعقد ہوتی ہیں، لیکن اس بار میڈیا اور معزز شخصیات کو پاکستانی سفیر کے نجی گھر میں مدعو کیا گیا تھا۔

(جاری ہے)

اس دعوت میں پاکستانی کھانوں اور ثقافتی ورثے کا خصوصی اہتمام کیا گیا تھا۔

یہ دو منزلہ عمارت پاکستان کے پہلے وزیرِاعظم لیاقت علی خان کی رہائش گاہ تھی، جو انہوں نے اپنی اہلیہ گل رعنا کے نام پر خریدی تھی۔ اگرچہ اس عمارت کے باہر "پاکستان ہاؤس" کی تختی لگی ہے، مگر اب بھی اسے گل رعنا کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اس بنگلے کی ساخت، سرسبز لان اور اندرونی حصے کو اسی حالت میں رکھا گیا ہے جیسے لیاقت علی خان اور گل رعنا اسے چھوڑ کر گئے تھے۔

دیواروں پر آج بھی ان کے اہلِ خانہ کی خوشگوار یادیں تصاویر کی صورت میں ثبت ہیں۔

یہ بنگلہ برصغیر کی تقسیم کے ہنگامہ خیز سالوں کا خاموش گواہ ہے۔ یہی وہ جگہ ہے جہاں لیاقت علی خان نے متحدہ ہندوستان میں جواہر لال نہرو کی عبوری حکومت میں بطور وزیر خزانہ پہلا بجٹ پیش کیا تھا۔ 1947 کے پُرتشدد فسادات کے دوران یہ گھر مسلمانوں کے لیے پناہ گاہ بن گیا تھا، جن کے گھر نذرِ آتش کر دیے گئے یا جو جان کے خوف سے بے سروسامانی کی حالت میں نکلے تھے۔

کئی مہینوں تک یہ عمارت دہلی میں پاکستانی ہائی کمیشن کے دفتر کے طور پر بھی استعمال ہوتی رہی۔ بعد ازاں، 1960 کی دہائی میں پاکستانی سفارت خانہ چانکیہ پوری منتقل ہونے کے بعد اسے ہائی کمشنر کی سرکاری رہائش گاہ بنا دیا گیا۔

لیاقت علی خان نے بطور وزیر خزانہ سرکاری رہائش گاہ اختیار کرنے کے بجائے اسی گھر میں رہنے کو ترجیح دی۔ کہا جاتا ہے کہ ان کے ساتھی محمد علی بوگرا اکثر یہاں آتے اور گھنٹوں ان کے ساتھ بجٹ کی تیاری میں مصروف رہتے۔

بانیِ پاکستان، محمد علی جناح بھی یہاں باقاعدگی سے تشریف لاتے تھے۔

جب تقسیم کا اعلان ہوا اور فرقہ وارانہ فسادات بھڑک اٹھے، تو ہزاروں بےگھر مسلمان یہاں پناہ لینے پر مجبور ہو گئے۔ سابق بھارتی سفارت کار سجاد حیدر، جو بعد میں پاکستان میں سفارتی خدمات انجام دینے چلے گئے، اپنی کتاب فارن پالیسی آف پاکستان: ریفلیکشنز آف این ایمبیسیڈر میں لکھتے ہیں کہ ایک وقت ایسا بھی آیا جب اس بنگلے میں دس ہزار سے زائد افراد نے پناہ لی۔

یہاں تک کہ اس دوران کم از کم بیس بچوں کی پیدائش بھی ہوئی۔ کبھی ایک نجی رہائش گاہ رہنے والا یہ مکان، مہاجر کیمپ میں بدل گیا۔ لان میں مردوں نے ڈیرے ڈالے ہوئے تھے، جبکہ خواتین اور بچوں کے لیے اندرون عمارت اور چھت مخصوص کی گئی تھی۔ نوجوان اس کے چاروں طرف پہرہ دیتے تھے تاکہ فسادی عناصر عمارت پر حملہ نہ کر سکیں۔

مورخین کا کہنا ہے کہ مسلم لیگ کی سرگرمیوں میں تیزی آنے کے بعد لیاقت علی خان اور جناح نے دہلی میں رہائش کے لیے مکانات خریدے۔

لیاقت علی خان نے یہ مکان 8 ہارڈنگ لین (موجودہ تلک مارگ) پر خریدا، جبکہ جناح نے 10 اورنگزیب روڈ پر سکونت اختیار کی۔ جناح کی ایک بڑی کوٹھی ممبئی میں بھی تھی، جبکہ لیاقت علی خان کی وسیع جائیدادیں اتر پردیش کے مظفر نگر میں تھیں۔

یہ بھی کہا جاتا ہے کہ لیاقت علی خان کی اہلیہ، گل رعنا، جو شادی سے پہلے مسیحی تھیں اور بعد میں اسلام قبول کر کے ان سے رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئیں، نے پناہ گزینوں کے لیے اس گھر کے دروازے کھولنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔

دہلی یونیورسٹی کے اندر پرستھ کالج میں انگریزی کی پروفیسر گل رعنا، خواتین کی تعلیم کی وکالت کرنے کے ساتھ ساتھ چاندنی چوک اور کشمیری گیٹ میں شراب کی دکانوں کے خلاف احتجاجی مظاہروں میں بھی پیش پیش رہیں۔

تقسیم کے بعد جب وہ پاکستان منتقل ہوئیں، تو انہوں نے اپنے کالج سے دو ماہ کی چھٹی کے لیے درخواست دی تھی، کیونکہ انہیں امید تھی کہ وہ دہلی واپس آ سکیں گی۔

انہوں نے اپنی پرنسپل، ڈاکٹر وینا داس، کو خط لکھا کہ وہ ستمبر کے آخر تک تدریس میں واپس آجائیں گی۔ مگر یہ واپسی کبھی ممکن نہ ہو سکی۔

وقت کا ستم دیکھیں کہ جناح کا ممبئی والا گھر اب زبوں حالی کا شکار ہے اور قانونی تنازعات میں الجھا ہوا ہے، مگر لیاقت علی خان کی دہلی کی رہائش گاہ آج بھی محفوظ اور شاداب ہے۔ جناح نے دہلی چھوڑنے سے پہلے اپنا مکان بھارتی تاجر رام کرشن ڈالمیا کو ڈھائی لاکھ بھارتی روپوں میں فروخت کر دیا تھا، جو بعد میں ہالینڈ کے سفارت خانے کو فروخت کر دیا گیا۔

آج بھی دہلی میں وہ جائیداد "جناح ہاؤس" کے نام سے معروف ہے۔

مورخین کا قیاس ہے کہ جناح کے پاس وقت اور خریدار دونوں موجود تھے، اس لیے وہ اپنی جائیداد فروخت کر سکے، جبکہ لیاقت علی خان کے پاس نہ تو اتنا وقت تھا، نہ ہی فوری خریدار۔ یا شاید ان کے خاندان کو دہلی واپسی کی امید تھی۔

آج، دہلی کی ہنگامہ خیز زندگی کے بیچ یہ تاریخی "پاکستان ہاؤس" جنوبی ایشیا کی تاریخ کا ایک زندہ باب بن کر کھڑا ہے۔

اس شام، جب میں اس مکان کے سرسبز لان میں کھڑی تھی، مجھے یوں محسوس ہوا جیسے لیاقت علی خان کی پاٹ دار آواز کسی بھی لمحے گونجنے والی ہو، اور گل رعنا مہمانوں کے استقبال کے لیے کھڑی ہوں۔ مہمانوں کی ضیافت کے لیے بریانی، چپلی کباب اور کڑاہی کا اہتمام تھا، جبکہ کوک اسٹوڈیو کی مدھر دھنیں فضا میں ایک دلکش سماں باندھ رہی تھیں۔ میرے سمیت کئی مہمانوں کے لیے یہ لمحہ برصغیر کے مشترکہ ورثے کی جیتی جاگتی علامت تھا۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے لیاقت علی خان کی میں پاکستانی میں پاکستان رہائش گاہ گل رعنا کے لیے

پڑھیں:

اقوام متحدہ: تنازعات کے پرامن حل سے متعلق پاکستانی قرارداد منظور

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 23 جولائی 2025ء) اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل (یو این ایس سی) نے منگل کے روز پاکستان کے زیر اہتمام اس قرارداد کو متفقہ طور پر منظور کر لیا، جس کا مقصد تنازعات کے پرامن حل کے طریقہ کار کو مضبوط کرنا ہے۔

پاکستان کے نائب وزیر اعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار اس وقت نیویارک کے دورے پر ہیں اور انہیں کے زیر صدارت اجلاس کے دوران "تنازعات کے پرامن حل کے لیے میکانزم کو مضبوط بنانے" والی (قرارداد 2788) پیش کی گئی اور پھر کھلی بحث کے دوران منظور کر لی گئی۔

قرارداد میں کیا ہے؟

اس قرارداد میں اقوام متحدہ کے رکن ممالک پر زور دیا گیا ہے وہ تنازعات سے بچنے کے لیے احتیاطی سفارت کاری، ثالثی اور بات چیت کا راستہ استعمال کریں اور اقوام متحدہ کے چارٹر کے باب ششم کے تحت پرامن تنازعات کے حل کے لیے سلامتی کونسل کی قراردادوں پر مکمل عمل درآمد کریں۔

(جاری ہے)

قرارداد میں علاقائی اور ذیلی علاقائی تنظیموں اور اقوام متحدہ کے درمیان قریبی تعاون پر بھی زور دیا گیا ہے تاکہ تنازعات کو بات چیت اور اعتماد سازی کے اقدامات کے ذریعے حل کیا جا سکے۔

پاکستانی وزیر خارجہ نے اجلاس میں کیا کہا؟

جولائی کے مہینے میں سلامتی کونسل کے صدر کی حیثیت سے پاکستان کے وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے اس اجلاس کی صدارت کی اور بحث کے دوران قرار داد کی منظوری کو "تصادم پر سفارت کاری کے لیے عالمی عزم کی اجتماعی توثیق" قرار دیا۔

"کثیر جہتی اور تنازعات کے پرامن حل کے ذریعے بین الاقوامی امن و سلامتی کو فروغ دینا" کے عنوان پر اعلیٰ سطحی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر خارجہ نے کہا کہ کثیرالجہتی "محض سفارتی سہولت نہیں بلکہ وقت کی ضرورت ہے۔

"

ان کا مزید کہنا تھا، "تنازعات کا پرامن تصفیہ صرف ایک اصول نہیں ہے، بلکہ یہ عالمی استحکام کی لائف لائن ہے۔"

انہوں نے خبردار کیا کہ حل نہ ہونے والے تنازعات، جغرافیائی سیاسی رقابتیں اور چن چن کر سلامتی کونسل کی قراردادوں پر عمل درآمد نہ صرف بین الاقوامی امن کو نقصان پہنچا رہا ہے بلکہ کثیر جہتی اداروں میں اعتماد کو بھی ختم کر رہا ہے۔

انہوں نے سکیورٹی کونسل کے تمام اراکین کا ان کی "تعمیری مصروفیت" کے لیے شکریہ ادا کیا اور قرار داد کی متفقہ منظوری کو "تنازعات کی روک تھام کے لیے مذاکرات اور سفارت کاری کو آگے بڑھانے کے لیے اجتماعی ارادے کا خوش آئند اظہار" قرار دیا۔

کشمیر کا تنازعہ بھی اقوام متحدہ کی قرارداد کے تحت حل ہو

تنازعہ کشمیر پر بات کرتے ہوئے پاکستانی وزیر خارجہ نے ایک بار پاکستان کے موقف کو دہرایا اور کہا کہ یہ "تنازعہ اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کے ایجنڈے میں سب سے پرانی چیزوں میں سے ایک" ہے۔

انہوں نے کہا کہ "کوئی کاسمیٹک اقدام کشمیری عوام کے اس بنیادی اور ناقابل تنسیخ حق خودارادیت کا متبادل نہیں بن سکتا، جس کی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کی ضمانت دی گئی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان بھارت کے ساتھ بات چیت کے لیے تیار ہے لیکن وہ نئی دہلی سے بھی "باہمی تعاون اور اخلاص" کی توقع رکھتا ہے۔

ڈار نے نئی دہلی کی جانب سے سندھ آبی معاہدے (انڈس واٹر ٹریٹی) کو معطل کرنے کے فیصلے پر بھی تنقید کی اور اسے "غیر قانونی اور یکطرفہ" قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ 65 سال پرانا معاہدہ "کامیاب سفارت کاری کا نمونہ" ہے اور بھارت پر الزام لگایا کہ وہ 240 ملین پاکستانیوں کے لیے ضروری پانی کو روکنے کی کوشش کر رہا ہے۔

وزیر خارجہ نے کئی تنازعات کی جڑ کے طور پر "کثیرالجہتی کے بحران" کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا: "مسئلہ اصولوں کا نہیں بلکہ سیاسی ارادے کا ہے، اداروں کا نہیں بلکہ ہمت کا ہے۔

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی ساکھ دوہرے معیار اور انسانی اصولوں پر سیاست کرنے سے مجروح ہوئی ہے۔"

اپنے خطاب کے اختتام پر وزیر خارجہ نے بیان بازی کے بجائے ٹھوس کارروائی پر زور دیا۔ "اس بحث کو کثیرالجہتی میں ہمارے ایمان کے اثبات کے طور پر کام کرنے دیں اور ان لوگوں سے ایک پختہ وعدہ کریں جو اس کونسل کی جانب محض الفاظ کے لیے نہیں، بلکہ عمل کے لیے نظریں لگائیں ہیں۔

اقوام متحدہ کی 80 ویں سالگرہ کے موقع پر بات چیت کے پلیٹ فارم، انصاف اور پائیدار امن فراہم کرنے والے ادارے کے طور پر، ہمیں اسے مزید متعلقہ بنانا چاہیے۔" بھارت کی پاکستان پر تنقید

اس موقع پر اقوام متحدہ میں بھارتی مندوب نے پاکستان پر بھارتی حملوں کا یہ کہہ کر دفاع کیا کہ اس نے "دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو ہی نشانہ بنایا۔

اور کہا کہ بھارت "اقوام متحدہ کی امن فوجوں میں سب سے بڑا حصہ دینے والا ملک ہے اور امن فوج میں خواتین کو فروغ دینے میں پیش پیش ہے۔"

بھارتی مندوب ہریش نے پاکستان پر نکتہ چینی کرنے کے لیے بھارتی معیشت کی ترقی کو اجاگر کیا اور کہا بھارت ایک بڑی معیشت کے طور پر ابھر رہا ہے، جبکہ پاکستان آئی ایم ایف سے قرض کی بنیاد پر ٹکا ہے۔

انہوں نے کہا، "بھارت برصغیر میں ترقی اور خوشحالی اور ترقی کے ماڈلز کے طور پر ایک بالکل برعکس تصویر پیش کرتا ہے۔"

اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ "قوم کے خیالات اور فریقین کی رضامندی تنازعات کے پرامن حل کے حصول کے لیے مرکزی حیثیت رکھتے ہیں"، بھارتی سفارت کار نے نتیجہ اخذ کیا کہ "بھارت کثیرالجہتی اور تنازعات کے پرامن حل کے ذریعے بین الاقوامی امن اور سلامتی کے لیے کام کرنے کے لیے پرعزم ہے۔"

انہوں نے اقوام متحدہ کے کام کاج کے طور طریقوں پر بھی تنقید کی اور کہا کہ "ہم ایک ایسے وقت میں ہیں، جہاں کثیرالجہتی نظام، خاص طور پر اقوام متحدہ کے بارے میں شکوک و شبہات بڑھ رہے ہیں۔"

ادارت: جاوید اختر

متعلقہ مضامین

  • وزیراعظم ہاؤس میں جرگہ، میڈیکل کالجز اور انجینئرنگ یونیورسٹیوں میں ضم شدہ اضلاع کا کوٹا بحال
  • دلجیت دوسانجھ کس پاکستانی گلوکار کے مداح نکلے؛ مشہور گانا بھی گنگنایا
  • ٹی 20 سیریز، تیسرے میچ میں بنگلہ دیش کا پاکستان کے خلاف ٹاس جیت کر فیلڈنگ کا فیصلہ
  • ایئرانڈیا کے طیارے میں پھر خرابی، آخر وقت میں پرواز منسوخ کر دی گئی
  • وائٹ ہاؤس کا نیا اے آئی پلان: ضوابط میں نرمی، جدید ٹیکنالوجی کی راہ ہموار
  • اقوام متحدہ: تنازعات کے پرامن حل سے متعلق پاکستانی قرارداد منظور
  • 9 مئی واقعات پی ٹی آئی کی باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت تھے، طلال چوہدری
  • 1984 سکھ نسل کشی: کمال ناتھ کی موجودگی چھپانے پر دہلی حکومت کی بازپرس کا مطالبہ
  • دہلی ایئرپورٹ پر ایئر انڈیا کے طیارے میں آگ بھڑک اٹھی
  • ملک کی تاریخ میں پہلی بار روئی کی درآمدات، مقامی پیداوار سے بڑھ گئی