عبدالحفیظ کاردار پاکستانی کرکٹ کے معمار تھے۔ انھوں نے اپنی اہلیت اور محنت سے پاکستانی کرکٹ کو دنیا میں متعارف کرایا۔ وہ بذاتِ خود بھی ایک عظیم آل راؤنڈر تھے۔ ان کی کپتانی میں پاکستانی کرکٹ نے بہت جلد اپنا مقام پیدا کیا۔ دیگر خوبیوں کے علاوہ وہ بہت بڑے منتظم بھی تھے۔ ان کا ایک رعب اور دبدبہ بھی تھا۔ کسی کھلاڑی کی مجال نہ تھی کہ وہ نظم و ضبط کی خلاف ورزی کرے۔ پاکستانی کرکٹ ٹیم کو منظم کرنے اور ٹیلنٹ کو تلاش کرنے میں ان کا کوئی ثانی نہیں تھا۔ خان محمد، امتیاز احمد، حنیف محمد اور فضل محمود نامور کرکٹرز انھی کی کاوشوں کا ثمر تھے۔
ایم سی سی کے خلاف اپنی تاریخی پرفارمنس سے فضل محمود نے پاکستانی ٹیم کو دنیائے کرکٹ میں جو شہرت بخشی، اسے کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ اپنی بے مثل باؤلنگ سے انھوں نے ایم سی سی کی ٹیم کو شکستِ فاش دلانے میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ جب کوئی باؤلر کھلاڑیوں کو آؤٹ کردیتا تھا تو اسے باؤلڈ کہا جاتا تھا لیکن اگر کھلاڑی فضل محمود کے ہاتھوں آؤٹ ہوجاتا تھا تو اسے’’ فضلڈ‘‘کہا جاتا تھا۔ یہ اعزاز دنیا کے کسی بھی باؤلر کو حاصل نہیں ہوا۔ کاردار کی کپتانی میں پاکستانی کرکٹ نے بہت کم عرصہ میں غیر معمولی کامیابی حاصل کی۔
پاکستانی کرکٹ ٹیم کی ورلڈ کپ 1992 میں غیرمعمولی پرفارمنس کے نتیجے میں ٹیم کے کپتان کو بے حد مقبولیت حاصل ہوئی۔ اس کے بعد اور بھی کپتان آئے جنھوں نے پاکستان کا نام روشن کیا لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ دنیائے کرکٹ میں جو مقام اس کپتان نے حاصل کیا اس نے انھیں وزیرِ اعظم کے منصب تک پہنچا دیا۔
نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ پاکستان کرکٹ کا زوال مسلسل جاری ہے اور وہ اپنے نکتہ عروج سے گرکر دنیا کی کمزور ترین ٹیم ہوگئی ہے۔ یہ سانحہ ایک دکھ بھری طویل داستان ہے۔ پے در پے ہونے والی شکستوں نے ہماری ٹیم پیچھے رہ گئی ہے جس کے اسباب میں کھلاڑیوں کا میرٹ پر انتخاب نہ ہونا سرِفہرست ہے۔
سیاست جس نے وطنِ عزیز کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا ہے جس کا سلسلہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا، پاکستانی کرکٹ کا بیڑا غرق کردیا ہے۔ ایک خیال یہ بھی ہے کہ کرکٹ کے کھیل سے نابلد چیئرمینوں کا تقرر بھی پاکستان کرکٹ کے زوال کا ایک بڑا سبب ہے۔ ہمیں اس وقت ایئر مارشل نور خان یاد آرہے ہیں جو بذاتِ خود کوئی کھلاڑی نہیں تھے لیکن ان کے سنہری دور میں مختلف کھیلوں بشمول کرکٹ کے علاوہ دیگر کھیلوں میں مثلاً ہاکی اور اسکواش میں پاکستان نے کامیابی کے جھنڈے گاڑ دیے تھے۔
اس سے ثابت ہوتا ہے کہ کھیلوں کے فروغ کے لیے سربراہ کا کھلاڑی ہونا کوئی معنی نہیں رکھتا بلکہ لازمی بات یہ ہے کہ وہ شخص غیر معمولی انتظامی صلاحیت اور ذاتی پسند ناپسند کے بجائے میرٹ کی بنیاد پر انتخاب کرنے کا حامل ہو۔ ایئر مارشل نور خان کا یہ کارنامہ ان کی شاندار کامیابی کا سبب تھا۔
اب آئیے پی سی بی کے ان چیئرمینوں کی طرف جن کا کرکٹ سے براہِ راست کوئی تعلق اور واسطہ نہیں تھا۔ اس سلسلے میں نجم سیٹھی کا ذکر نہ کرنا سراسر زیادتی اور ناسپاسی ہوگی۔ موصوف نے جس وقت پی سی بی کی چیئرمین شپ سنبھالی تو اس وقت بھی کچھ ناقدوں کو اس کا اندازہ نہیں تھا کہ ان کی کارکردگی کیا ہوگی لیکن جو کچھ ہوا وہ عیاں ہے۔ایئر مارشل نور خان کی طرح انھوں نے بھی یہ ثابت کردیا کہ ضروری نہیں کہ پی سی بی کا چیئرمین کوئی کرکٹر ہی ہو۔ نجم سیٹھی کو اپنی صلاحیتوں پر اعتماد تھا اور وہ پاکستان کرکٹ کے انتظامی امور میں کسی کو خاطر میں نہیں لائے اور اپنے فرائضِ منصبی کو بہ حسن و خوبی سرانجام دیا۔
بابر اعظم نے ٹیم میں شامل ہونے کے بعد بحیثیت اوپننگ بیٹر ٹیم کی تنِ مردہ میں روح پھونک دی اور کپتان کی حیثیت سے بہت کم وقت میں عالمگیر شہرت حاصل کر لی۔ بابر اعظم اور وکٹ کیپر بیٹسمین محمد رضوان کی جوڑی نے اپنی غیر معمولی کامیابی سے اوپننگ بیٹروں کی کمی کا مسئلہ حل کردیا لیکن بابر اعظم کے آؤٹ آف فارم ہونے کی وجہ سے یہ تسلسل ٹوٹ گیا۔ شائقینِ کرکٹ کو یہ تشویش لاحق ہے کہ پاکستان کرکٹ کی بحالی کس طرح کی جائے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: پاکستانی کرکٹ پاکستان کرکٹ کرکٹ کے
پڑھیں:
شائقین کرکٹ کا انتظار ختم، ایشیا کپ 2025 کی ممکنہ تاریخیں اور مقام آشکار
ایشیا کپ 2025 کے مجوزہ شیڈول اور میزبان ملک سے متعلق اہم تفصیلات سامنے آ گئی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: ایشیا کپ 2025: پاک بھارت ٹاکرے کی راہیں ہموار، بھارتی حکومت کا گرین سگنل
رپورٹ کے مطابق ٹورنامنٹ 8 سے 28 ستمبر کے درمیان منعقد ہونے کا امکان ہے جبکہ ابتدائی مرحلہ 5 سے 10 ستمبر تک کھیلا جائے گا۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق کرکٹ کے میدان میں پاکستان اور بھارت کا آمنا سامنا 7 ستمبر کو ہونے کا امکان ہے تاہم مکمل شیڈول کی تاحال باضابطہ تصدیق نہیں کی گئی۔
ٹورنامنٹ کا فارمیٹ اور ٹیمیں
ایشیا کپ 2025 اس بار ٹی 20 فارمیٹ میں کھیلا جائے گا تاکہ ٹی 20 ورلڈ کپ 2026 کی تیاری کی جا سکے جو بھارت اور سری لنکا کی میزبانی میں فروری میں منعقد ہوگا۔
مزید پڑھیے: بنگلہ دیش نے بھارت کو شکست دے کر انڈر 19 ایشیا کپ کا ٹائٹل جیت لیا
ٹورنامنٹ میں 8 ٹیموں کی شرکت متوقع ہے جن میں پاکستان، بھارت، سری لنکا، بنگلہ دیش، افغانستان، متحدہ عرب امارات، عمان اور ہانگ کانگ شامل ہیں۔
ٹورنامنٹ میں گروپ اسٹیج، سپر فور اور فائنل کا مرحلہ ہوگا جہاں دو ٹاپ ٹیمیں فائنل میں آمنے سامنے آئیں گی۔
میزبانی کا تنازع اور ممکنہ مقامابتدائی طور پر اس ایونٹ کی میزبانی بھارت کو دی گئی تھی مگر بھارت اور پاکستان کے درمیان سیاسی کشیدگی کے باعث اب ٹورنامنٹ کو متحدہ عرب امارات (یو اے ای) منتقل کیے جانے کا امکان ہے۔
پاکستان کرکٹ بورڈ نے اپنی ٹیم بھارت بھیجنے سے انکار کر دیا تھا جس کے بعد بھارت اور پاکستان نے ایک دوسرے کے ملک میں نہ کھیلنے پر اتفاق کیا۔ اس فیصلے کے بعد غیر جانبدار مقام کا انتخاب ناگزیر ہو گیا۔
دبئی اور ابوظہبی میں زیادہ تر میچز منعقد ہونے کی توقع ہے۔ یو اے ای کو اس حوالے سے ترجیح دی گئی ہے کیونکہ وہاں ماضی میں بھی کامیابی سے ایشیا کپ، آئی پی ایل اور دیگر بین الاقوامی ایونٹس منعقد ہو چکے ہیں۔
دیگر ممکنہ مقامات پر بھی غور کیا گیا مگر بھارت اور بنگلہ دیش کے درمیان حالیہ تجارتی کشیدگی اور ورلڈ چیمپئن شپ آف لیجنڈز میں پاک بھارت میچ کی منسوخی جیسے واقعات کے باعث ان مقامات کو غیر موزوں قرار دیا گیا۔
مزید پڑھیں: سری لنکا کو شکست، افغانستان نے ایمرجنگ ٹیمز ٹی20 ایشیا کپ کا تاج سر پر سجا لیا
ایشین کرکٹ کونسل (اے سی سی) کی سالانہ جنرل میٹنگ (24 اور 25 جولائی) ڈھاکہ میں جاری ہے جہاں ٹورنامنٹ کے شیڈول، فارمیٹ اور مقام کو حتمی شکل دی جا رہی ہے۔
بی سی سی آئی کے نائب صدر راجیو شکلا اجلاس میں آن لائن شرکت کر رہے ہیں جبکہ پی سی بی اور دیگر رکن بورڈز بھی اس مشاورت کا حصہ ہیں۔
دوسری جانب بی سی سی آئی کے سیکریٹری دیواجیت سائیکا نے واضح کیا ہے کہ بھارت کی ایشیا کپ سے دستبرداری کی کوئی تجویز زیر غور نہیں اور اس حوالے سے سامنے آنے والی رپورٹس کو بے بنیاد قرار دیا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ایشا کپ ایشیا کپ پاک بھارت میچ ایشیا کپ شیڈول