مرحلہ وار تمام افغان مہاجرین کو واپس بھجوایا جائےگا
اشاعت کی تاریخ: 11th, March 2025 GMT
پاکستان میں چار قسم کے افغان مہاجرین رہتے ہیں، پہلی قسم وہ ہے جن کے پاس دستاویزات نہیں ہیں ان کی بڑی تعداد کو نکالا جا چکا ہے۔ دوسرے اے سی سی کارڈ ہولڈر ہیں، ان کی تعداد 9 لاکھ ہے۔ پی او آر یعنی وہ افغان جن کے پاس پروف آف رجسٹریشن ہے ان کی تعداد 14 لاکھ ہے۔ چوتھی قسم وہ ہے جو افغان طالبان کی کابل واپسی کے بعد پاکستان آئے تھے، یہ لوگ امریکا اور یورپ جانے کے لیے ویزا پراسیس مکمل ہونے کا انتظار کررہے ہیں۔
29 جنوری کو وزیراعظم آفس میں ایک اہم میٹنگ ہوئی، جس میں افغان مہاجرین کے حوالے سے پالیسی کی منظوری دی گئی۔ تمام اقسام کے افغان مہاجرین کو 31 مارچ تک اسلام آباد اور راولپنڈی کی حدود سے نکالنے کا فیصلہ ہوا۔ اے سی سی کارڈ ہولڈرز کو 31 مارچ تک کی مہلت دی گئی، جبکہ پی او آر کارڈ ہولڈرز کے حوالے سے کہا گیا کہ انہیں 30 جون 2025 تک پہلے ہی مہلت دی جا چکی ہے، انہیں دوسرے مرحلے میں نکالا جائےگا۔
اپنے ویزوں کے لیے انتظار میں بیٹھے افغان مہاجرین کو اسلام آباد راولپنڈی سے 31 مارچ تک نکالنے کا فیصلہ ہوا، وزارت خارجہ کی ڈیوٹی لگائی گئی کہ وہ بیرونی سفارتخانوں سے رابطہ کرکے تفصیلات حاصل کرے کہ جن افغان مہاجرین کے کاغذات مسترد ہو چکے ہیں یا جن کو نئی امریکی پالیسی کی وجہ سے ویزے نہیں ملنے ان سب کو واپس افغانستان بھجوا دیا جائے۔
پہلے مرحلے میں اے سی سی کارڈ ہولڈرز سے کہا گیا ہے کہ وہ 31 مارچ تک پاکستان چھوڑ دیں، اس حکم نامے سے 9 لاکھ افغان مہاجرین متاثر ہوں گے۔ پاکستان نے اکتوبر 2023 سے افغان مہاجرین کو نکالنے کا عمل شروع کیا تھا۔ یو این ایچ سی آر کے مطابق اکتوبر 2023 سے اب تک 8 لاکھ 42 ہزار افغان پاکستان سے جا چکے ہیں، ان میں سے 40 ہزار افراد کو ڈی پورٹ کیا گیا تھا۔
افغان طالبان کے خلاف کارروائی صرف پاکستان میں ہی نہیں ہورہی، انہیں یورپ، ترکیہ اور ایران سے بھی واپس بھجوایا جارہا ہے۔ کابل میں ایرانی سفیر نے ایک بیان میں کہا ہے کہ افغان طالبان حکومت کے ساتھ اتفاق ہوگیا ہے کہ وہ ایران میں مقیم غیر قانونی افغان مہاجرین کو واپس قبول کرے گی۔ جرمنی کے متوقع حکومتی اتحاد نے بھی افغان مہاجرین کو قبول کرنے کے پروگرام روکنے کا فیصلہ کیا ہے۔
افغان طالبان کی کابل واپسی کے بعد پاکستان میں دہشت گردی میں اضافہ ہوا ہے، سابق افغان نیشنل آرمی اور انٹیلیجنس کے اہلکار بھی بڑی تعداد میں پاکستان آگئے تھے، ان کی اکثریت اپنے ویزا پراسیس مکمل کروا کر یورپ اور امریکا جانے کے لیے پاکستان میں عارضی طور پر آئی تھی۔
پاکستانی فیصلہ سازوں میں یہ تاثر مستحکم ہوچکا ہے کہ افغانوں کو اب واپس بھیجنے کا وقت آگیا ہے، اس بے دخلی سے معاشی دباؤ بھی کم ہوگا، امن و امان کی صورتحال بھی بہتر ہوگی۔ امریکا اور یورپ میں جس طرح غیر قانونی مہاجرین کے خلاف فضا بنی ہوئی ہے، یہ مناسب موقع سمجھا جارہا ہے کہ پاکستان بھی افغان مہاجرین سے جان چھڑا لے۔
پاکستان کے اس فیصلے پیچھے سیکیورٹی صورتحال، افغان طالبان حکومت کے ساتھ تناؤ، ٹی ٹی پی کے خلاف افغان طالبان کا کارروائی نہ کرنا، افغان مہاجرین کی واپسی کے بعد امن و امان میں بہتری اہم وجوہات ہیں۔ افغان مہاجرین کی واپسی سے غیر دستاویزی معیشت کے بھی سکڑنے کا اندازہ لگایا گیا ہے۔
اس بے دخلی سے افغانستان کے اندر ایک بڑا انسانی المیہ جنم لے سکتا ہے، افغان طالبان حکومت اتنے لوگوں کو سنبھالنے کی سکت نہیں رکھتی، لاکھوں کی تعداد میں مہاجرین کی واپسی افغانستان کی سیاسی و معاشی صورتحال کو مکمل تبدیل کر سکتی ہے۔ افغان طالبان جو خواتین کی تعلیم اور روزگار کے حوالے سے سخت گیر مؤقف اپنائے ہوئے ہیں، ان کے لیے نئے چیلنجز سامنے آ جائیں گے۔ افغان طالبان کے وزیر برائے مہاجرین مولوی عبدالکبیر کا کہنا ہے کہ پاکستان اور ایران صبر اور برداشت کا مظاہرہ کریں اور مربوط انداز میں مرحلہ وار افغانوں کو واپس بھجوایا جائے، زبردستی اور جلدی نہ کی جائے۔
پاکستان میں مقیم افغان مہاجرین کی بڑی تعداد اپنا خرچ بیرون ملک سے آئی ترسیلات زر سے چلاتی ہے، پاکستان کی لیبر مارکیٹ میں افغان مزدور خاصے اہم ہیں، پاکستان کو بھی امریکا اور یورپ کی طرح انویسٹمنٹ اسکیم متعارف کرانی چاہیے، جو افغان پاکستان میں کاروبار کرتے ہیں اور ٹیکس دینے کو تیار ہیں ان کے لیے گنجائش نکالنی چاہیے، ایسی بھی کیا سختی سر جی، اتنی نرمی تو امیر ملک بھی کر ہی رہے ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
وسی بابا نام رکھا وہ سب کہنے کے لیے جن کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔ سیاست، شدت پسندی اور حالات حاضرہ بارے پڑھتے رہنا اور اس پر کبھی کبھی لکھنا ہی کام ہے۔ ملٹی کلچر ہونے کی وجہ سے سوچ کا سرکٹ مختلف ہے۔ کبھی بات ادھوری رہ جاتی ہے اور کبھی لگتا کہ چپ رہنا بہتر تھا۔
wenews افغان مہاجرین امریکا ایران اے سی کارڈ ہولڈر جرمنی حکومت پاکستان دہشتگردی طالبان حکومت قانونی دستاویزات مرحلہ وار واپسی ملکی معیشت وسی بابا وی نیوز یورپ.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: افغان مہاجرین امریکا ایران حکومت پاکستان دہشتگردی طالبان حکومت قانونی دستاویزات مرحلہ وار واپسی ملکی معیشت وی نیوز یورپ افغان مہاجرین کو طالبان حکومت افغان طالبان پاکستان میں مہاجرین کی مارچ تک کو واپس سی کارڈ کے لیے گیا ہے
پڑھیں:
افغان طالبان سے مذاکرات میں پاکستان کا مؤقف لکھ کر مان لیا گیا ہے، طلال چوہدری
وزیرِ مملکت برائے داخلہ طلال چوہدری نے کہا ہے کہ افغان طالبان سے مذاکرات میں پہلی مرتبہ پاکستان کا مؤقف تحریری طور پر تسلیم کر لیا گیا ہے، اور خلاف ورزی کی صورت میں پاکستان ثالثوں کو بلیک اینڈ وائٹ میں دکھا سکے گا کہ دراندازی کہاں سے ہوئی۔
یہ بھی پڑھیں: کالعدم ٹی ٹی پی کے لوگ طالبان حکومت میں شامل ہیں، وزیرِ دفاع خواجہ آصف
نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے طلال چوہدری نے کہا کہ پاک افغان مذاکرات کا اعلامیہ ثالثوں نے جاری کیا ہے، جو دونوں فریقین کے اتفاقِ رائے سے طے پایا۔ یہ پہلی بار ہے کہ افغانستان کے ساتھ معاملہ تحریری طور پر طے ہوا ہے۔ ان کے مطابق ایک میکنزم بنانے پر اتفاق ہوا ہے، فی الحال ایک عبوری جنگ بندی نافذ ہے، جب کہ مذاکرات کا اگلا دور 6 نومبر کو ہوگا جس میں جنگ بندی کی خلاف ورزی کے نکات طے کیے جائیں گے۔
پاکستان کی دوہری کامیابیانہوں نے کہا کہ یہ پاکستان کی دوہری جیت ہے کہ دنیا نے بھی ہمارا مؤقف مانا اور افغانستان کو بھی اسے تسلیم کرنا پڑا۔ ماضی میں افغان طالبان سے مختلف فورمز پر براہِ راست بات ہوئی، لیکن یہ پہلا موقع ہے کہ ثالثوں کے ذریعے بات چیت ہوئی ہے۔
افغانستان کا کردار اور بھارت سے تعلقطلال چوہدری کا کہنا تھا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ افغانستان بھارت کی پراکسی کے طور پر کام کر رہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: بھارت کے کہنے پر دہشتگردی ہوئی تو پھر ’اینج تے اینج ہی سہی‘، خواجہ آصف
انہوں نے واضح کیا کہ اگر افغان طالبان کہتے ہیں کہ وہ لکھ کر نہیں دیں گے تو اس کا مطلب ہے کہ وہ کسی چیز کو چھپا رہے ہیں۔ اگر ان کا دامن صاف ہے تو انہیں تحریری طور پر مؤقف دینا چاہیے۔
تحریری ضمانت سے پاکستان کا کیس مضبوطانہوں نے کہا کہ ہمارے پاس ٹھوس شواہد موجود ہیں جن سے انکار ممکن نہیں۔ افغان طالبان بھی نجی طور پر مانتے ہیں کہ افغان سرزمین پر دہشت گرد گروپس موجود ہیں۔ ان کی جانب سے پیشکش کی گئی کہ ٹی ٹی پی کے لوگوں کو شمالی افغانستان منتقل کیا جا سکتا ہے، تاہم اس کے لیے مالی امداد کا مطالبہ بھی کیا گیا۔
فتووں اور سزاؤں کا ذکروزیرِ مملکت نے کہا کہ جن افغان علما نے پاکستان کے خلاف فتوے دیے، انہیں گرفتار کر کے ایک سے دو ہفتوں کی معمولی سزائیں دی گئیں، حالانکہ انہی فتووں کے نتیجے میں دہشت گردی، شہادتیں اور معصوم جانوں کا ضیاع ہوا۔
ٹی ٹی پی اور کابل کی نئی سوچطلال چوہدری کے مطابق ٹی ٹی پی کو اب محسوس ہو رہا ہے کہ افغانستان لکھ کر دینے کو تیار ہے، اور افغان علما بھی فتوی دینے کو تیار ہیں کہ پاکستان میں جہاد نہیں ہو سکتا۔ اسی بنیاد پر ٹی ٹی پی کہہ رہی ہے کہ کابل بھی اب ان کے لیے دشمن تصور کیا جائے گا۔
انہوں نے ایک بار پھر کہا کہ افغان طالبان سے مذاکرات میں پہلی مرتبہ پاکستان کا مؤقف تحریری طور پر مان لیا گیا ہے، جو ایک بڑی سفارتی کامیابی ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
we news افغانستان پاکستان ترکیہ جنگ بندی قطر مذاکرات