آرمی ایکٹ کے ماتحت جرائم سویلینز کرینگے تو کیا ہوگا؟ جسٹس جمال
اشاعت کی تاریخ: 11th, March 2025 GMT
اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) سپریم کورٹ میں سویلینز کے ملٹری ٹرائل سے متعلق کیس کی سماعت میں جسٹس جمال نے ریمارکس دیے کہ مسئلہ یہ ہے کہ آرمی ایکٹ کے ماتحت جرائم اگر سویلینز کریں تو کیا ہوگا؟ وکیل حامد خان نے کہا کہ فوجی عدالتیں صرف فوج کے ممبران کے لیے قائم رہ سکتی ہیں، جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ اگر ایسا ہے تو پھر تسلیم کرنا پڑے گا کہ فوجی عدالتیں متوازی عدالتی نظام ہیں۔ حامد خان نے پاکستان میں مارشل لا اور ملٹری کورٹس کی تاریخ کا بتایا۔ پاکستان کے تاریخی تناظر میں مارشل لا اور فوجی عدالتوں کے حوالے سے دلائل دیے تھے۔ سپریم کورٹ کا راولپنڈی بار کیس کا فیصلہ عدالت کے سامنے رکھا۔ کسی بھی حالات میں سویلینز کو اتنے بڑے پیمانے پر فوجی عدالتوں میں ٹرائل نہیں کیا جاسکتا۔ فوجی عدالتیں آئینی ترمیم کے بغیر قائم نہیں ہوسکتیں۔ فوجی عدالتوں کے حوالے سے آئینی ترمیم پر بھی اصول طے شدہ ہیں۔ فوجی عدالتوں کے حوالے سے آئینی ترمیم مخصوص مدت کے لیے ہوسکتی ہے۔ اس صورت میں فوجی عدالتوں کے فیصلوں کیخلاف اپیل کا حق بھی دیا جانا ضروری ہے۔ موجودہ حالات میں ایسی کوئی صورتحال نہیں۔ جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ 26ویں ترمیم کے بعد فوجی عدالتوں کے فیصلوں کیخلاف اپیل کہاں ہوسکتی ہے؟ جس پر حامد خان نے بتایا کہ ہائیکورٹ میں رٹ دائر کی جاسکتی ہے، مگر اسکا دائرہ اختیار محدود ہوتا ہے۔ فوج ایگزیکٹو کا حصہ ہے جو عدالتی اختیارات استعمال نہیں کرسکتی۔ آرمی ایکٹ کو ایک طرف رکھیں تو آئین میں فوجی عدالتوں کی گنجائش نہیں۔ جسٹس جمال نے ریمارکس دیے کہ ایف بی علی کیس میں طے ہوا کہ آرمی ایکٹ فوج کے ممبران کے لیے بنا۔ مگر ایف بی علی میں یہ بھی کہا گیا کہ آرمی ایکٹ کا سیکشن ڈی اس مقصد کے لیے نہیں بنا۔ اب تنازعہ یہ ہے کہ وہ کہہ رہے ایف بی علی کیس میں سویلینز کے ٹرائل کی بھی اجازت تھی۔ آپ کہہ رہے ہیں کہ اجازت نہیں۔حامد خان نے کہا کہ فوجی عدالتوں کے حق میں دلائل دینے والوں کا انحصار آئین کے آرٹیکل 8(3) پر ہے۔جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ ایف بی علی میں کہا گیا کہ پارلیمان اس معاملے پر 2 سال میں ریوو کر سکتی ہے۔ مگر آج تک پارلیمان نے اس معاملے پر کچھ نہیں کیا۔جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ تنازعہ یہ نہیں کہ فوجی عدالتوں میں سویلین کا ٹرائل کیا جائے یا نہیں، مسئلہ یہ ہے کہ آرمی ایکٹ کے ماتحت جرائم اگر سویلینز کریں تو کیا ہوگا؟ آرمی ایکٹ میں درج جرائم کرنے پر اس کا دائرہ اختیار سویلینز تک بڑھایا جاسکتا ہے یا نہیں۔ جسٹس جمال نے پوچھا کہ آپ یہ بتائیں کہ عدلیہ کو ایگزیکٹو سے الگ کس نے کرنا تھا؟ آرٹیکل 175(3) کے تحت عدلیہ ایگزیکٹو سے خود بخود الگ تصور ہوگی؟ یا عدلیہ کے ایگزیکٹو سے الگ ہونے کی ڈیکلریشن عدلیہ دے گی یا پارلیمان؟حامد خان نے بتایا کہ آئین کے الفاظ واضح ہیں، پارلیمان کے ڈیکلریشن کی ضرورت نہیں۔جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ سپریم کورٹ کے اکثریتی فیصلے میں کہا گیا کہ فوجی عدالتیں آئین کے آرٹیکل 175(3) کے زمرے میں نہیں آتیں۔ سپریم کورٹ کے فیصلے میں فوجی عدالتوں کو تاریخی تناظر میں دیکھا گیا۔جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آپ کے مطابق آرٹیکل 175(3) کے تحت عدلیہ خود بخود ایگزیکٹو سے الگ تصور ہوگی۔ تو اس کا مطلب ہے کہ اس آرٹیکل کے 14 سال بعد فوجی عدالتیں فوج کے ممبران کے لیے بھی قائم نہیں رہ سکتیں۔حامد خان نے کہا کہ فوجی عدالتیں صرف فوج کے ممبران کے لیے قائم رہ سکتی ہیں۔جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ اگر ایسا ہے تو پھر آپ کو یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ فوجی عدالتیں متوازی عدالتی نظام ہیں۔ یہ بہت اہم ہے کہ اس معاملے میں آرٹیکل 175(3) کو واضح ہونا ہوگا۔وکیل حامد خان کے دلائل مکمل ہونے پر وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث روسٹرم پر آئے اور انہوں نے جواب الجواب کا آغاز کیا۔ جسٹس امین الدین خان نے استفسار کیا کہ آپ جواب الجواب کے لیے کتنا وقت لیں گے، جس پر خواجہ حارث نے بتایا کہ بہت سے اہم نکات سامنے آئے ہیں۔ جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ لگتا ہے آپ کو جواب الجواب دلائل میں پورا ہفتہ لگ جائے گا، جس پر خواجہ حارث نے کہا کہ ہو سکتا ہے ایک ہفتہ لگ جائے۔
.ذریعہ: Nawaiwaqt
کلیدی لفظ: جسٹس محمد علی مظہر نے فوج کے ممبران کے لیے نے ریمارکس دیے کہ فوجی عدالتوں کے کہ آرمی ایکٹ ایگزیکٹو سے سپریم کورٹ ایف بی علی آرٹیکل 175 3 جسٹس جمال نے کہا کہ
پڑھیں:
سینئر اداکار فردوس جمال کو لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ سے نواز دیا گیا
پاکستان شوبز کے صدارتی ایوارڈ یافتہ سینئر اداکار فردوس جمال کو دلدار پرویز بھٹی لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ سے نواز دیا گیا۔
رپورٹ کے مطابق سینئر اداکار فردوس جمال کو لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ سے نوازنے کیلئے فن، ادب اور مزاح کے شہسوار نامور ٹی وی میزبان دلدار پرویز بھٹی کی یاد میں الحمرا ہال لاہور میں ایک رنگا رنگ ایوارڈ شو کا انعقاد کیا گیا۔
تقریب میں فردوس جمال، محسن گیلانی سمیت نامور فنکاروں اور ممتاز گلوکاروں کی پرفارمنس نے ایوارڈ شو کی شان بڑھا دی۔ لاہور آرٹس کونسل الحمرا میں ہونے والی تقریب میں دلدار بھٹی لوورز فورم کے روح رواں میاں فراز، فلمی ہیرو التمش بٹ، پنجاب تھیٹر آرٹسٹ پروڈیوسر ایسوسی ایشن کے چیئرمین قیصر ثنا اللہ، گلوکارہ شیزا جہاں، بی اے شاکر ، سدرہ نور سمیت نامور فنکاروں کی بڑی تعداد شریک ہوئی۔
تقریب میں نامور گلوکاروں کی جانب سے شاندار پرفارمنس بھی پیش کی گئی جس نے محفل میں سماں باندھ دیا۔ تقریب نے نہ صرف دلدار پرویز بھٹی کی فنی خدمات کو خراج تحسین پیش کیا بلکہ فن و ثقافت سے جڑے چہروں کو ایک بار پھر روشنیوں میں لا کھڑا کیا۔
تقریب میں سینئر اداکار فردوس جمال کو لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ سے نوازا گیا، جبکہ علیشا جعفری، مون پرویز، محسن گیلانی سمیت دیگر فنکاروں کو دلدار بھٹی ایوارڈز پیش کیے گئے۔