نئی دہلی _ بھارت نے محدود صلاحیتوں کے حامل جنگی طیاروں کی کمی پوری کرنے کے لیے نجی کمپنیوں کی خدمات حاصل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

بھارتی وزارتِ دفاع کی ایک اعلیٰ اختیاراتی کمیٹی نے لائٹ کمباٹ ایئر کرافٹ(ایل سی اے) MK1A کی تیاری کے لیے ایک رپورٹ وزیرِ دفاع راج ناتھ سنگھ کو پیش کی ہے اور انہوں نے کمیٹی کی سفارشات کو مرحلہ وار نافذ کرنے کا حکم دیا ہے۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ہلکے جنگی طیاروں کی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے نجی شعبے کی خدمات کا فیصلہ خود انحصاری کی جانب ایک قدم ہو گا اور اس سے فوج کی صلاحیتوں میں بھی اضافہ ہوگا ۔

بھارتی وزارتِ دفاع نے ایک بیان میں بتایا ہے کہ اعلیٰ اختیاراتی کمیٹی نے ایرو اسپیس سیکٹر میں خود انحصاری پر زور دیتے ہوئے فضائیہ کی آپریشنل صلاحیتوں میں اضافے کے لیے قلیل مدتی، وسط مدتی اور طویل مدتی حکمتِ عملی کی سفارش کی ہے۔

بھارتی فضائیہ کے سربراہ ایئر چیف مارشل امر پریت سنگھ (اے پی سنگھ) نے 28 فروری کو ہی ایک تقریب سے خطاب کے دوران کہا تھا کہ جنگی طیاروں کی تعداد کے حوالے سے فضائیہ کی صورتِ حال بہت خراب ہے۔

’چانکیہ ڈائیلاگ کنکلیو، بھارت 2047: جنگ میں خود منحصر‘ کے موضوع پر ہونے والی اس تقریب کے دوران اُن کا کہنا تھا کہ نجی صنعت کی شرکت سے ملک میں طیاروں کی پیداوار کی شرح کو بڑھانے میں مدد مل سکتی ہے تاکہ دنیا کی چوتھی بڑی فضائیہ کی بڑھتی ضرورتوں کو پورا کیا جا سکے۔

بھارتی فضائیہ کو سرکاری کمپنی ہندوستان ایروناٹکس لمیٹیڈ (ایچ اے ایل) ہلکے جنگی طیارے سپلائی کرتی ہے۔




ایئر مارشل (ر) کپل کاک کا کہنا ہے کہ سرکاری کمپنی فضائیہ کی ضرورت پوری نہیں کر پا رہی اور صرف سرکاری سیکٹر پر انحصار کی وجہ سے گزشتہ 10 برس سے بھارت کے پاس صرف 30 اسکواڈرن ہیں۔

ایک اسکواڈرن 12 سے 24 طیاروں پر مشتمل ہوتا ہے اور ضرورت کے مطابق اس میں اضافہ بھی ہو سکتا ہے۔

کپل کاک کے بقول اسکواڈرن کی کمی کی ایک وجہ امریکہ کی کمپنی جنرل الیکٹرک (جی ای) کی جانب سے انجنوں کی سپلائی میں تاخیر بھی ہے۔ معاہدے کے مطابق کمپنی کو 2029 تک 99 ایف 404 انجن سپلائی کرنا ہیں۔ لیکن سپلائی چین کے ایشوز کی وجہ سے وہ یہ تعداد پوری نہیں کر پا رہی۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’جنرل الیکٹرک‘ نے گزشتہ سال کہا تھا کہ وہ 11 انجن سپلائی کرے گی لیکن تاحال کوئی انجن نہ آ سکا جب کہ معاہدے کے مطابق 10 سال کے اندر تمام انجنوں کی سپلائی ہونا ہے۔

کپل کاک کے مطابق بھارتی وزیرِ اعظم نریند رمودی نے اپنے حالیہ دورۂ امریکہ کے دوران صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے سامنے اس مسئلے کو اٹھایا تھا۔


بھارتی فضائیہ کے ایک حالیہ محکمۂ جاتی مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ عسکری ضرورتوں کو پورا کرنے اور پرانے طیاروں کی تبدیلی کے لیے ہر سال دو جنگی اسکواڈرن شامل کیے جانے کی ضرورت ہے۔

یہ رپورٹ ایسے وقت آئی ہے جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھار ت کو ایف۔35 اے جنگی طیاروں کی پیشکش کی ہے جب کہ روس نے بھی بھارت میں اپنے ایس یو۔57 اسٹیلتھ جنگی طیارے مشترکہ طور پر تیار کرنے کی پیشکش کی ہے۔

کپل کاک کہتے ہیں کہ بھارت کو ایف۔35 اے پر توجہ دینے کے بجائے ففتھ جنریشن فائٹر کے پروگرام کو چھوڑ کر سکستھ جنریشن فائٹر بنانے پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔

ان کے بقول بھارت میں نجی سیکٹر دفاع کے لیے بہت اہم ہے۔ ٹاٹا ایڈوانسڈ سسٹم، لارسن اینڈ ٹوبرو، مہیندرا اینڈ مہیندرا اور گودریج اور کئی دیگر نجی کمپنیوں کی خدمات حاصل کی جا سکتی ہیں۔

لیفٹیننٹ جنرل (ر) شنکر پرساد کا کہنا ہے کہ بھارت اگر دفاع کے شعبے میں دوسرے ملکوں پر انحصار کرے گا تو وہ ایک مضبوط ملک نہیں بن پائے گا اور نہ ہی اس کی دفاعی صلاحیتیں اعلیٰ پیمانے کی ہوں گی۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے شنکر پرساد نے کہا کہ بھارت کو جنگی طیاروں، بحری جہازوں، پن ڈبیوں، ٹینکس، چھوٹے ہتھیاروں اور دیگر آلات کی تیاری کے لیے نجی سیکٹر کی شمولیت ضروری ہے۔

انہوں نے کہا کہ بھارت کی نجی سول انڈسٹری اور ڈیفنس انڈسٹری دونوں کے پاس صلاحیتوں کی کمی نہیں ہے جس سے فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہے۔




اعلیٰ اختیاراتی دفاعی کمیٹی کی رپورٹ میں ڈیفنس پبلک سیکٹر انڈرٹیکنگ (ڈی پی ایس یو) اور ڈیفنس ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ آرگنائزیشن (ڈی آر ڈی او) کے ساتھ نجی سیکٹر کے اشتراک کی توسیع کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے۔

تجزیہ کاروں کے مطابق فضائیہ کے سامنے خود انحصاری اور نئے ہتھیاروں کی شمولیت کے درمیان توازن قائم کرنے کا چیلنج ہے۔ وزارتِ دفاع اُن مسائل کو حل کرنے پر کام کر رہی ہے جن کی وجہ سے ’ایم کے ون اے‘ جنگی طیاروں کی شمولیت میں تاخیر ہو رہی ہے۔

بھارتی فضائیہ نے فروری 2021 میں 480 ارب روپے کے 83 ایم کے ون اے فائٹر کا آرڈر دیا تھا۔ اس کے علاوہ وہ 670 ارب روپے کے مزید 97 فائٹر خریدنے کا ارادہ رکھتی ہے۔

شنکر پرساد کہتے ہیں یہ پہلی بار نہیں ہے کہ بھارتی دفاعی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے نجی سیکٹر کی خدمات حاصل کرنے کی بات کی گئی ہے۔ پہلے بھی اشتراک کیا جاتا تھا لیکن پہلے حکومت کی جانب سے کوئی گارنٹی نہیں ہوتی تھی۔




انہوں نے مثال سے سمجھاتے ہوئے کہا کہ اگر کسی نجی کمپنی کو کوئی ہتھیار بنانے کا آرڈر دیا گیا اور جب کئی سال کے بعد وہ بن کر تیار ہوا تو کہا گیا کہ وہ ہمارے معیار کے مطابق نہیں ہے اس لیے اسے نہیں لے سکتے۔ تاہم اب اس پالیسی میں بنیادی تبدیلی کی گئی ہے۔

ان کے بقول اب ہتھیاروں کی تیاری کے لیے ایک ضابطہ بنایا جائے گا اور جو آرڈر دیا جائے گا اسے خریدا بھی جائے گا۔ تاکہ ہتھیار بنانے والی نجی کمپنی کو کوئی نقصان نہ ہو۔

شنکر پرساد کے مطابق نجی سطح پر طیاروں کی تیاری میں ممکنہ طور پر دوسرے ملکوں سے ٹیکنالوجی کا تبادلہ کرنا پڑے گا لیکن جب کام شروع ہوگا تو بھارت کے پاس دیسی ساخت کے ہتھیار ہوں گے اور وہ اس میدان میں دوسرے ملکوں پر منحصر نہیں رہے گا۔

کپل کاک کا کہنا ہے کہ بھارت کووسط اور طویل مدتی اسکیم کے تحت ’ایم کے ون اے‘ پر ہی توجہ دینی چاہیے۔ اگر 83 اور 97 طیارے اندرونِ ملک تیار کیے جاتے ہیں اور اس کے ساتھ دوسرے ملکوں سے طیارے خریدنا بھی ہیں تو یہ پروگرام رفتار پکڑ لے گا۔

.

ذریعہ: Al Qamar Online

کلیدی لفظ: کرنے کے لیے نجی جنگی طیاروں کی بھارتی فضائیہ کا کہنا ہے کہ دوسرے ملکوں نجی سیکٹر فضائیہ کی کی خدمات انہوں نے کی ضرورت کے مطابق کہ بھارت کی تیاری کو پورا کی کمی کہا کہ

پڑھیں:

کراچی: نالہ متاثرین کو حکومت سندھ کی جانب سے پلاٹ فراہمی میں تاخیر، سپریم کورٹ سے نوٹس لینے کامطالبہ

کراچی:

گجر، اورنگی اور محمود آباد کے نالہ متاثرین نے حکومت سندھ کی جانب سے پلاٹ فراہمی میں تاخیر حربے آزمانے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے سپریم کورٹ سے اس معاملے پر نوٹس لینے کا مطالبہ کردیا۔

کراچی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے  گجر، اورنگی، محمود آباد کے نالہ متاثرین نے کہا کہ پلاٹ کی الاٹمنٹ تک ہر خاندان  کو 30 ہزار روپے ماہانہ بطور عارضی کرایہ فوری طور پر ادا کیا جائے اور ہر متاثرہ خاندان کو 30 لاکھ روپے تعمیراتی رقم دی جائے تاکہ کم از کم ایک معیاری گھر تعمیر ہوسکے ۔

نالہ متاثرین نے متاثرین نے سپریم کورٹ سے عدالتی حکم کے باوجود حکومت سندھ کی جانب سے پلاٹ نہ دینے، تعمیراتی رقم میں اضافے اور پلاٹ کی الاٹمنٹ تک کرائے کی ادائیگی کے مطالبات کردیے اور کہا کہ انہیں اب تک ان کا حق نہیں دیا گیا اور حکومت کی غفلت، افسران کی بدعنوانی اور انصاف کی نفی کے خلاف عدالت عظمیٰ سےنوٹس لینے کی اپیل کردی۔

کراچی بچاؤ تحریک کے تحت خرم علی نیئر، عارف شاہ اور دیگر نے کراچی پریس کلب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ  پانچ سال قبل 2020 کی تباہ کن بارشوں اور سیلاب کے بعد کراچی کو جو نقصان پہنچا، اس کا گزشتہ برسوں کے دوران سارا ملبہ کچی آبادیوں پر ڈالا گیا، 2021 میں گجر، اورنگی اور محمودآباد نالوں کے اطراف کے ہزاروں مکان مسمار کیے گئے اور تقربیاً 9 ہزار سے زائد گھروں کی تباہی سے 50 ہزار سے زائد افراد بے گھر ہو چکے ہیں۔

 انہوں نے کہا کہ گجر نالے کے عوام کے بھرپور احتجاج کی وجہ سے کم سے کم عدالت نے ان متاثرین کو دوبارہ آباد کرنے کا فیصلہ دیا اور جب تک انہیں آباد نہیں کیا جاتا انہیں کرایہ فراہم کرنے کا حکم جاری کیا تھا مگر متاثرین کو فقط دسمبر 2023 تک کرائے جاری کیے گئے۔

ان کا کہنا تھا کہ عدالت عظمیٰ کے آخری حکم نامے میں ہر متاثرہ خاندان  کو ہر مسمار مکان کے عوض 80 گز کا پلاٹ اور تعمیراتی رقم جاری کرنے کا حکم دیا گیا تھا مگر  حکومت سندھ نے محض معمولی تعمیراتی رقم جاری کی، جس سے ایک کمرہ بنوانا مشکل تھا جبکہ پلاٹ 2027 تک دینے کا بھی کوئی ارادہ نہیں رکھتی۔

 متاثرین نے مطالبہ کیا کہ فی خاندان30 ہزار  روپے ماہانہ بطور عارضی کرایہ فوری طور پر ادا کیا جائے، جب تک پلاٹ الاٹ اور تعمیر ممکن نہ ہو اس وقت تک ہر متاثرہ خاندان کو 30 لاکھ روپے تعمیراتی رقم دی جائے تاکہ کم از کم ایک معیاری گھر تعمیر ہو سکے۔

انہوں نے مزید کہا کہ جو دو ہزار سے زائد شکایات خارج کی گئیں ان کا فوری اندراج کیا جائے اور اندراج کا عمل مکمل طور پر شفاف اور عوامی نگرانی میں ہو، نیز  پلاٹس 90 دن کے اندر الاٹ کیے جائیں اور متبادل اراضی فراہم کی جائے۔

 متاثرین نے مطالبہ کیا کہ سپریم کورٹ کے احکامات کا فوری نفاذ یقینی بنایا جائے، عدالت نے جو 80 گز پلاٹ اور تعمیراتی معاوضہ طے کیا تھا، اس میں کسی قسم کی تاخیر یا من مانی قبول نہیں ہوگی۔

مزید کہا کہ جو لوگ بے گھر ہونے کے نتیجے میں دل کے دورے پڑنے یا حادثات میں ہلاک ہوئے، ان کے لواحقین کو مناسب معاوضہ اور سرکاری امداد دی جائے اور تمام چیک کا اجرا، پلاٹ الاٹمنٹ اور اندراج کا عمل آن لائن شفاف ریکارڈ میں ڈال دیا جائے اور متاثرین اور سول سوسائٹی کی مستقل نگرانی ممکن بنائی جائے۔

متاثرین نے کہا کہ اگر ان مطالبات کو ایک ہفتے تک پورا نہیں کیا گیا تو کراچی بچاؤ تحریک متعلقہ قانونی راستوں کے ساتھ ساتھ پر امن مگر سخت عوامی احتجاج، دھرنے اور سڑکوں پر مؤثر تحریک شروع کرے گی۔

انہوں نے کہا کہ ہم عدالت عظمیٰ کے سامنے بھی اپیل کریں گے کہ وہ فوری طور پر عملی اقدام کرے اور حکومت اور بیوروکریسی کو  نوٹس جاری کرے۔

متعلقہ مضامین

  • مسابقتی کمیشن کی اسٹیل سیکٹر کو درپیش چیلنجز اور پالیسی خلا کی نشاندہی
  • کمپیٹیشن کمیشن کی چین و بھارت کی طرز پر اسٹیل کی علیحدہ وزارت کے قیام کی سفارش
  • برطانوی حکومت کا معزول شہزادہ اینڈریو سے آخری فوجی عہدہ واپس لینے کا اعلان
  • مٹیاری وگردنواح میں منشیات کا استعمال بڑھ گیا، پولیس خاموش
  • عقیل شہزاد آرائیں کو کمیونٹی خدمات پر تعریفی سرٹیفکیٹ سے نوازا گیا
  • کراچی: نالہ متاثرین کو حکومت سندھ کی جانب سے پلاٹ فراہمی میں تاخیر، سپریم کورٹ سے نوٹس لینے کامطالبہ
  • گرائونڈ طیاروں کی بحالی،قائمہ کمیٹی دفاع نے پی آئی اے حکام کو طلب کرلیا
  • پنجاب حکومت بلدیاتی انتخابات کرانے کی ذمہ داری پوری کرے: چیف الیکشن کمشنر
  • متحدہ عرب امارات کے طیاروں کے ذریعے سوڈان میں جنگی ساز و سامان کی ترسیل کا انکشاف
  • غیر ملکی طیاروں نے سوڈان میں اعصابی گیس بموں سے بمباری کی ہے، یو این میں نمائندے کا بیان