آئیفا ایوارڈز 2025: لاپتا لیڈیز بہترین فلم سمیت کئی ایوارڈز کے ساتھ سرِ فہرست
اشاعت کی تاریخ: 11th, March 2025 GMT
ویب ڈیسک _ بالی وڈ فلم انڈسٹری کے سب سے معتبر انٹرنیشنل فلم اکیڈمی ایوارڈز (آئیفا) میں عامر خان اور کرن راؤ کی فلم ‘لاپتا لیڈیز’ بہترین فلم سمیت کئی ایوارڈز اپنے نام کر کے نمایاں رہی۔
آئیفا کے 25 ویں ایڈیشن یعنی سلور جوبلی کی دو روزہ تقریبات بھارت کے شہر جے پور کے ایگزیبیشن اینڈ کنونشن سینٹر میں ویک اینڈ پر ہوئیں۔
تقریب کا انعقاد دو حصوں میں ہوا۔ ہفتے کو ‘آئیفا ڈیجیٹل ایوارڈز’ یعنی او ٹی ٹی پلیٹ فارمز پر ریلیز ہونے فلموں اور سیریز کے لیے بھی ایوارڈز کا اعلان کیا گیا جب کہ اتوار کو مرکزی تقریب منعقد ہوئی جس میں سنیما انڈسٹری کے لیے ایوارڈز کا اعلان کیا گیا۔
تقریب کی میزبانی اداکار کارتک آریان اور کرن جوہر نے کی۔
یہ پہلا موقع ہے جب آئیفا نے ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کی فلموں اور سیریز کے لیے الگ ایوارڈز کا اعلان کیا ہو۔
کون کون سی فلمیں اور اداکار ایوارڈز اپنے نام کرنے میں کامیاب ہوئے؟ چلیں جانتے ہیں۔
فلم ‘لاپتا لیڈیز’ بہترین فلم سمیت بہترین ہدایت کار، بہترین اسٹوری، بہترین میوزک ڈائریکٹر اور بہترین اسکرین پلے جیسے ایوارڈز اپنے نام کر کے آئیفا کی شام نمایاں رہی۔
اداکار کارتک آریان کو فلم ‘بھول بھلیاں 3’ کے لیے بہترین اداکار کا ایوارڈ ملا جب کہ اداکارہ کریتی سینن فلم ‘دو پتی’ کے لیے بہترین اداکارہ قرار پائیں۔
بہترین گلوکار کا ایوارڈ جبن نوٹیال کو فلم ‘آرٹیکل 370’ کے گانے ‘دعا’ کے لیے ملا۔
گلوکارہ شریا گھوشال کو بھول بھلیاں تھری کے گانے ‘آمی جے تومار 3.
اب بات کرتے ڈیجیٹل کے ایوارڈز کی جس میں بہترین فلم ‘امر سنگھ چمکیلا’ قرار پائی۔ اس کے علاوہ بہترین ہدایت کار کا ایوارڈ بھی امر سنگھ چمکیلا کے امتیاز لی کو ملا۔
سیریز کی کیٹیگری میں’ پنچایت’ کے تیسرے سیزن کو بہترین سیریز کے ایوارڈ سے نوازا گیا جب کہ بہترین ہدایت کار کا ایوارڈ بھی پنچایت سیزن تھری کے ڈائریکٹر دیپک کمار مشرا کو ملا۔
بہترین ڈاکیومینٹری سیریز کا ایوارڈ ‘یو یو ہنی سنگھ: فیمس’ کو دیا گیا۔
ذریعہ: Al Qamar Online
کلیدی لفظ: بہترین فلم کا ایوارڈ کے لیے
پڑھیں:
قدرت سے جڑے ہوئے ممالک میں نیپال نمبر ون، پاکستان فہرست سے خارج
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
برطانوی اخبار دی گارڈین نے ایک نئی عالمی تحقیق کے حوالے سے انکشاف کیا ہے کہ دنیا کے وہ ممالک جو فطرت اور قدرت سے سب سے زیادہ قریبی تعلق رکھتے ہیں، ان میں نیپال سرفہرست ہے جب کہ پاکستان اس فہرست میں شامل نہیں۔
یہ تحقیق بین الاقوامی جریدے ایمبیو (AMBIO) میں شائع ہوئی ہے، جس کی تیاری میں برطانیہ اور آسٹریا کے ماہرین نے حصہ لیا ہے۔ اس تحقیق نے دنیا بھر میں انسانی رویوں اور فطرت کے درمیان تعلق کے بارے میں دلچسپ پہلو اجاگر کیے ہیں۔
تحقیق کرنے والی ٹیم میں برطانیہ کی یونیورسٹی آف ڈربی کے معروف ماہر پروفیسر مائلز رچرڈسن شامل تھے، جو قدرت سے وابستگی پر اپنے کام کی وجہ سے شہرت رکھتے ہیں۔ ان کے مطابق یہ تحقیق اس بات کو سمجھنے کے لیے کی گئی کہ مختلف سماجی، معاشی، ثقافتی اور جغرافیائی پس منظر رکھنے والے لوگ قدرت کے ساتھ کس قدر گہرا ربط محسوس کرتے ہیں اور اس احساس پر روحانیت، مذہب اور طرزِ زندگی کا کتنا اثر ہوتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق سروے میں دنیا کے 61 ممالک کے 57 ہزار افراد سے رائے لی گئی۔ نتائج نے حیران کن طور پر یہ ظاہر کیا کہ فطرت سے وابستگی کا سب سے گہرا تعلق مذہبی عقائد اور روحانیت سے ہے، یعنی وہ لوگ جو مذہب یا روحانی نظامِ فکر کے قریب ہیں، وہ قدرت کے ساتھ زیادہ ہم آہنگ زندگی گزارتے ہیں۔
فہرست کے مطابق نیپال کو دنیا کا سب سے زیادہ قدرت سے جڑا ہوا ملک قرار دیا گیا۔ نیپال کے بعد دوسرے نمبر پر ایران ہے، جب کہ جنوبی افریقا، بنگلادیش اور نائیجیریا بالترتیب تیسرے، چوتھے اور پانچویں نمبر پر آئے۔
جنوبی امریکا کا ملک چلی چھٹے نمبر پر رہا۔ سرفہرست 10 ممالک میں یورپ کے صرف 2 ملک شامل ہیں ، کروشیا ساتویں اور بلغاریہ نویں نمبر پر ہے۔ اسی طرح آٹھویں نمبر پر افریقی ملک گھانا اور دسویں پر شمالی افریقا کا ملک تیونس ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ مغربی ممالک جنہیں عام طور پر ماحولیاتی آگہی میں نمایاں سمجھا جاتا ہے، وہ قدرت سے وابستگی کے لحاظ سے نچلے درجے پر ہیں۔ فرانس فہرست میں 19ویں نمبر پر ہے، جب کہ برطانیہ 55ویں نمبر پر پایا گیا۔
اسی طرح نیدرلینڈز، کینیڈا، جرمنی، اسرائیل اور جاپان جیسے ترقی یافتہ ممالک بھی آخری نمبروں میں شامل ہیں۔ رپورٹ کے مطابق 61 ممالک کی فہرست میں اسپین سب سے آخری یعنی 61ویں نمبر پر ہے۔
تحقیق میں ایک اور دلچسپ نکتہ یہ سامنے آیا کہ کاروبار میں آسانی یا معاشی سرگرمیوں کے فروغ سے قدرت سے وابستگی میں کمی آتی ہے۔ یعنی جہاں معاشی نظام زیادہ مضبوط اور مارکیٹ زیادہ متحرک ہوتی ہے، وہاں انسان فطرت سے نسبتاً دور ہوتا جاتا ہے۔
پروفیسر مائلز رچرڈسن کے مطابق صنعتی ترقی اور شہری مصروفیات نے جدید انسان کو قدرتی ماحول سے جدا کر دیا ہے، جس سے اس کے ذہنی سکون، تخلیقی صلاحیت اور مجموعی صحت پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ مذہبی یا روحانی رجحان رکھنے والے معاشروں میں لوگ فطرت کو ایک مقدس امانت سمجھتے ہیں، جب کہ مادی معاشروں میں اسے صرف وسائل کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ یہی فرق ان معاشروں میں قدرت سے تعلق کے معیار کو متعین کرتا ہے۔
ماہرین کے مطابق یہ تحقیق عالمی پالیسی سازوں کے لیے ایک انتباہ ہے کہ ترقی کی دوڑ میں فطرت سے رشتہ کمزور ہونا انسانی بقا کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ نیپال، ایران اور افریقا کے کچھ ممالک کی مثالیں ظاہر کرتی ہیں کہ سادگی، روحانیت اور قدرت سے قرب نہ صرف ثقافتی طور پر اہم ہیں بلکہ پائیدار طرزِ زندگی کے لیے بھی ناگزیر ہیں۔