دنیا بھر کی اسٹاک مارکیٹس میں شدید مندی دیکھی جا رہی ہے، جس کی بڑی وجہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے پیر کے روز دیا گیا بیان تھا، جس میں انہوں نے تسلیم کیا کہ ان کی تجارتی پالیسیوں کی وجہ سے امریکی معیشت کساد بازاری (recession) کا شکار ہو سکتی ہے۔ اس بیان کے بعد امریکی مارکیٹ میں زبردست فروخت (sell-off) دیکھی گئی، جس کے اثرات عالمی منڈیوں تک پہنچ گئے۔

وال اسٹریٹ پر شدید مندی

نیویارک اسٹاک ایکسچینج میں ٹیکنالوجی سے بھرپور نیسڈیک انڈیکس کو 2022 کے بعد سب سے بڑے نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔ ایس اینڈ پی 500 انڈیکس اپنی فروری کی بلند ترین سطح سے 8 فیصد نیچے چلا گیا، جبکہ ڈاؤ جونز انڈسٹریل ایوریج میں بھی 2 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی، جو نومبر 4 کے بعد اس کی کم ترین سطح ہے۔نیسڈیک کمپوزٹ انڈیکس 4 فیصد گر کر چھ ماہ کی کم ترین سطح پر پہنچ گیا، جبکہ عالمی اسٹاک انڈیکس ایم ایس سی آئی 2 فیصد سے زائد کمی کے ساتھ جنوری 13 کے بعد سب سے کم سطح پر آ گیا۔ٹیکنالوجی اسٹاکس کو سب سے زیادہ نقصان اٹھانا پڑا، جہاں ایلون مسک کی ٹیسلا کے حصص 15.

4 فیصد گر گئے، جبکہ چپ ساز کمپنی اینویڈیا 5 فیصد نیچے آ گئی۔ میٹا، ایمازون اور الفابیٹ کے حصص میں بھی نمایاں گراوٹ دیکھی گئی۔

ایشیائی اور یورپی مارکیٹس بھی دباؤ کا شکار

منگل کے روز جاپان کے نکئی 225 انڈیکس میں 2.5 فیصد، جنوبی کوریا کے کوسپی میں 2.3 فیصد، اور آسٹریلیا کے ایس اینڈ پی/اے ایس ایکس 200 انڈیکس میں 1.8 فیصد کمی دیکھی گئی۔بھارتی اسٹاک مارکیٹ بھی عالمی رجحان کے زیر اثر دیکھی جا رہی ہے، جہاں نِفٹی 50 انڈیکس 14.5 فیصد کمی کے ساتھ اپنی ستمبر 2024 کی بلند ترین سطح سے نیچے چلا گیا۔یورپی اسٹاک مارکیٹ میں بھی زبردست مندی دیکھی گئی، جہاں پین-یورپی اسٹاکس 600 انڈیکس 1.29 فیصد نیچے بند ہوا۔

امریکی بانڈ ییلڈز میں کمی

ٹرمپ کے بیان کے بعد سرمایہ کار محفوظ اثاثوں کی طرف منتقل ہو گئے، جس کی وجہ سے امریکی بانڈز کی طلب میں اضافہ ہوا اور ییلڈز میں کمی دیکھی گئی۔

دو سالہ امریکی حکومتی بانڈ کا ییلڈ 10.4 بیسز پوائنٹس کی کمی کے ساتھ 3.898 فیصد پر آ گیا، جبکہ 10 سالہ بانڈ کا ییلڈ 9.3 بیسز پوائنٹس کم ہو کر 4.225 فیصد پر آ گیا۔ 30 سالہ بانڈ ییلڈ 6.9 بیسز پوائنٹس گر کر 4.548 فیصد ہو گیا۔

کرنسی مارکیٹ میں غیر یقینی صورتحال
کرنسی مارکیٹ میں بھی غیر یقینی صورتحال دیکھی گئی، جہاں امریکی ڈالر جاپانی ین کے مقابلے میں 0.5 فیصد کم ہو کر 147.29 پر آ گیا۔ تاہم، یورو معمولی 0.06 فیصد کمی کے ساتھ 1.0826 ڈالر پر ٹریڈ کر رہا تھا، جبکہ برطانوی پاؤنڈ 0.45 فیصد گر کر 1.2862 ڈالر پر آ گیا۔

خام تیل اور سونے کی قیمتوں میں کمی
عالمی منڈی میں خام تیل کی قیمتوں میں بھی کمی دیکھی گئی، جہاں امریکی خام تیل 1.51 فیصد گر کر 66.03 ڈالر فی بیرل پر آ گیا، جبکہ برینٹ کروڈ 1.53 فیصد کمی کے ساتھ 69.28 ڈالر فی بیرل پر ٹریڈ کر رہا تھا۔

سونے کی قیمت میں بھی کمی دیکھی گئی، جہاں اسپاٹ گولڈ 0.86 فیصد گر کر 2,885.63 ڈالر فی اونس پر آ گیا، جبکہ امریکی گولڈ فیوچرز 0.76 فیصد کمی کے ساتھ 2,882.70 ڈالر فی اونس پر بند ہوا۔

کرپٹو کرنسی مارکیٹ میں بھی زوال
بٹ کوائن کی قیمت میں 4.88 فیصد کمی ہوئی اور یہ 79,028.58 ڈالر تک گر گیا، جو نومبر کے بعد اس کی کم ترین سطح ہے۔

ٹرمپ کا مؤقف اور سرمایہ کاروں کے خدشات
صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے تسلیم کیا کہ امریکی معیشت ایک ”منتقلی کے دور“ سے گزر رہی ہے اور مستقبل قریب میں مشکلات ہو سکتی ہیں۔ انہوں نے کہا، ’یہ ایک بڑی تبدیلی ہے، ہم دولت کو امریکہ واپس لا رہے ہیں، اور یہ بہت اہم ہے۔‘

وال اسٹریٹ کے ماہرین کے مطابق، ٹرمپ انتظامیہ بظاہر اسٹاک مارکیٹ میں گراوٹ اور یہاں تک کہ کساد بازاری کو بھی اپنے وسیع تر اہداف کے لیے قبول کر رہی ہے۔ ماہر معاشیات راس میفیلڈ نے روئٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ’یہ وال اسٹریٹ کے لیے ایک بڑا جھٹکا ہے، کیونکہ پہلے یہ خیال کیا جاتا تھا کہ ٹرمپ اسٹاک مارکیٹ کی کارکردگی پر زیادہ انحصار کرتے ہیں۔ لیکن اب ایسا نہیں لگتا۔‘

امریکی صدر کے غیر متوقع بیانات اور عالمی اقتصادی غیر یقینی صورتحال کے باعث سرمایہ کار محتاط نظر آ رہے ہیں، جبکہ مارکیٹ میں مزید اتار چڑھاؤ کی توقع کی جا رہی ہے۔

ذریعہ: Daily Ausaf

پڑھیں:

امریکی انخلا ایک دھوکہ

اسلام ٹائمز: العمشانی مایوسی اور بدبینی کے ساتھ مستقبل کی طرف دیکھتے ہوئے کہتا ہے کہ حقیقی امریکی انخلاء کا کوئی نام و نشان نہیں ہے۔ امریکہ نے ابھی عرب اور اسلامی اقوام کو رسوا کرنے اور صیہونی حکومت کو مضبوط کرنے کا اپنا مشن مکمل نہیں کیا ہے۔ عراقی تیل کی اسمگلنگ جاری ہے اور ان راستوں سے ہوتی ہے، جن پر مرکزی حکومت کا کوئی کنٹرول نہیں ہے۔ یہ سب کچھ ظاہر کرتا ہے کہ واشنگٹن اپنی موجودگی کو جاری رکھنا چاہتا ہے، چاہے اس کا نام اور کور بدل جائے۔ انٹرویو: معصومہ فروزان

عراق سے امریکی افواج کی تعداد میں کمی یا انخلاء کے بارہا اعلانات کے باوجود زمینی حقیقت یہ ظاہر کرتی ہے کہ امریکہ اب بھی اپنی فوجی موجودگی جاری رکھنے کے وسیع منصوبے پر عمل پیرا ہے۔ عراقی تجزیہ کاروں نے خبردار کیا ہے کہ میڈیا جسے "جزوی انخلاء" کے طور پر پیش کرتا ہے، وہ دراصل ایک طرح کی حکمت عملی ہے، جس سے محفوظ علاقوں میں دوبارہ تعیناتی اور منتقلی۔ اس انخلا کے اعلان سے وہ عوامی دباؤ اور مزاحمتی گروپوں کی طرف سے ممکنہ خطرات کو کم کرنا چاہتا ہے۔ عین الاسد اور اربیل کے علاقوں جیسے اڈوں کا نہ صرف فوجی کردار ہے، بلکہ ایک وسیع لاجسٹک اور اسٹریٹجک کردار بھی ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ مغربی ایشیاء اور شمالی افریقہ کے علاقے میں اپنی موجودگی کو مستحکم کرنے اور عراق کے اہم وسائل کو کنٹرول کرنے کے لئے عراق میں بدستور رہنا چاہتا ہے۔ ایک عراقی یونیورسٹی کے تجزیہ کار اور پروفیسر "صلاح العمشانی" کے خیالات کو جانچنے کی کوشش کرتے ہیں، جو عراق میں امریکی موجودگی پر تنقیدی اور دستاویزی نظر رکھتے ہیں۔

امریکہ عراق سے اپنی افواج کے "بتدریج انخلاء" کی بات کرتا ہے، اس عمل کی نوعیت کے بارے میں بہت سے سوالات پیدا ہوتے ہیں۔ مثلاً کیا واشنگٹن واقعی عراق چھوڑنے کا ارادہ رکھتا ہے یا یہ صرف محفوظ اور کم مہنگے علاقوں میں افواج کی منتقلی اور دوبارہ ترتیب کا خواہشمند ہے۔؟ "اسلام ٹائمز" کے ساتھ انٹرویو میں سیاسی تجزیہ کار اور عراقی یونیورسٹی کے پروفیسر، صلاح العمشانی نے وضاحت کی ہے کہ کسی کو سرکاری امریکی پروپیگنڈہ سے بے وقوف نہیں بننا چاہیئے، کیونکہ امریکہ کا عراق سے نکلنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ جو اعلان کیا گیا ہے، وہ صرف ان علاقوں میں افواج کی منتقلی اور دوبارہ تعیناتی ہے، جو خطے میں امریکی مفادات کے مطابق ہیں۔ امریکی عراق میں موجودگی کو تربیت اور فوجی مشاورت کا نام دیتے ہیں۔

امریکی افواج کو مشیر یا ٹرینر کہنا سراسر جھوٹ ہے۔ عراقی فوج میں ایسے افسران اور کمانڈر موجود ہیں، جن کا تجربہ بہت سے امریکی مشیروں کی عمروں سے بھی زیادہ ہے۔ ایک ٹینک ڈرائیور یا ایک عام سپاہی راتوں رات مشیر کیسے بن سکتا ہے۔؟ ہمیں بنیادی طور پر ایسی تربیت کی ضرورت نہیں ہے۔ وہ عراقی فوج کی مدد کے لیے نہیں بلکہ اپنی افواج تیار کرنا چاہتے ہیں۔ خود داعش کا تجربہ اس دعوے کا بہترین ثبوت ہے۔ "العمشانی" کے خیال میں شمالی عراق میں افواج کی منتقلی کا مطلب نہ صرف انخلا کے معاہدے کی پاسداری نہيں ہے، بلکہ یہ ایک قسم کا سیاسی فریب بھی ہے۔ امریکہ 2020ء سے عوام کی رائے اور عراقی پارلیمنٹ کی قرارداد کے انخلاء کے دباؤ کا شکار ہے۔ آج اربیل یا شمالی عراق میں افواج کی منتقلی بھی معاہدوں کی بظاہر پاسداری کا مظاہرہ کرنے کی کوشش ہے جبکہ حقیقت کچھ اور ہے۔

عراقی یونیورسٹی کے پروفیسر نے  "عین الاسد" بیس کے کردار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ اڈہ عراق میں سب سے بڑا امریکی اڈہ ہے اور بدقسمتی سے سنی علاقوں میں واقع ہے۔ جہاں کچھ مقامی سیاست دان امریکی موجودگی کی حمایت کرتے ہیں اور یہاں تک کہ اپنے ایجنڈوں میں امریکہ سے ہم آہنگ ہوتے ہیں۔ تاہم رائے عامہ کے دباؤ اور مزاحمتی گروپوں کی دھمکیوں نے امریکہ کو اپنی افواج کو محفوظ علاقوں میں منتقل کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ اربیل کو اب بھی ایک خاص حیثیت کیوں حاصل ہے۔؟ جس پر "العمشانی" نے جواب دیتے ہوئے کہا: اربیل امریکی جاسوسی مراکز کی پناہ گاہ اور عراق اور اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف مشتبہ سرگرمیوں کا اڈہ بن چکا ہے۔ اسی علاقے میں صیہونی حکومت کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے کانفرنسیں منعقد کی گئیں، مقامی حکام کی نظروں کے سامنے جنہوں نے نہ صرف ردعمل ظاہر نہیں کیا، بلکہ خود ایسی ملاقاتوں کی میزبانی بھی کی۔

وہ اس واقعے کی مقبول جہت پر بھی زور دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ عراقی رائے عامہ امریکی موجودگی کے سخت مخالف ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ اس موجودگی نے ملک کے رہنماؤں اور مہمانوں کے قتل و غارت کے سوا کچھ نہیں دیا۔ اس موجودگی کے خلاف بڑے پیمانے پر مظاہرے ہوئے ہیں اور عوام حکومت پر دباؤ ڈال رہے ہیں کہ وہ اسے ختم کرنے کے لیے عملی اقدامات کرے۔ "صلاح العمشانی" نے مزید کہا: جسے امریکہ "جزوی انخلاء" کہتا ہے، وہ درحقیقت ایک سیاسی شو ہے۔ امریکہ اپنے وعدوں اور معاہدوں پر کبھی قائم نہیں رہا۔ جیسا کہ وہ بہت سے بین الاقوامی معاہدوں سے دستبردار ہوگیا ہے۔، کیا یہ یقین کیا جا سکتا ہے کہ وہ عراق کے ساتھ معاہدے پر قائم رہے گا؟ وہ دن آئے گا، جب آزاد عراقی مزاحمت کریں گے اور امریکیوں کو 2011ء کی طرح ملک سے نکال باہر کریں گے۔

آخر میں، العمشانی مایوسی اور بدبینی کے ساتھ مستقبل کی طرف دیکھتے ہوئے کہتا ہے کہ حقیقی امریکی انخلاء کا کوئی نام و نشان نہیں ہے۔ امریکہ نے ابھی عرب اور اسلامی اقوام کو رسوا کرنے اور صیہونی حکومت کو مضبوط کرنے کا اپنا مشن مکمل نہیں کیا ہے۔ عراقی تیل کی اسمگلنگ جاری ہے اور ان راستوں سے ہوتی ہے، جن پر مرکزی حکومت کا کوئی کنٹرول نہیں ہے۔ یہ سب کچھ ظاہر کرتا ہے کہ واشنگٹن اپنی موجودگی کو جاری رکھنا چاہتا ہے، چاہے اس کا نام اور کور بدل جائے۔

متعلقہ مضامین

  • ٹرمپ کے مطالبہ منظور، امریکی سینٹرل بینک نے شرح سود میں کمی کردی
  • فلسطینی بچوں سے یکجہتی، جماعت اسلامی کے تحت ”کراچی چلڈرن غزہ مارچ“ لبیک یا اقصیٰ کے نعرے
  • اسٹاک ایکسچینج میں تیزی، انڈیکس میں 1300 پوائنٹس سے زائد اضافہ
  • اسٹاک ایکسچینج میں تیزی کا رجحان برقرار، انڈیکس میں 200 پوائنٹس سے زائد اضافہ
  • امریکہ کی ایماء پر غزہ شہر پر اسرائیل کے زمینی حملے کا آغاز
  • امریکہ ہر جگہ مسلمانوں کے قتل عام کی سرپرستی کر رہا ہے، حافظ نعیم
  • ڈالر کی قیمت میں کمی، اسٹاک مارکیٹ 1,56,000 پوائنٹس کی حد پر بحال
  • امریکی انخلا ایک دھوکہ
  • دوحہ پر حملے سے 50 منٹ پہلے صدر ٹرمپ کو خبر تھی، امریکی میڈیا کا دھماکہ خیز انکشاف
  • ٹرمپ عمر رسیدہ ، صدارت کے اہل نہیں؟ امریکی سیاست میں نئی بحث چھڑ گئی