پاکستان چین کے ساتھ معیشت، ٹیکنالوجی میں گہرے تعاون کا خواہاں ہے، سفیر خلیل ہاشمی
اشاعت کی تاریخ: 11th, March 2025 GMT
بیجنگ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 11 مارچ2025ء)چین میں پاکستانی سفیر خلیل ہاشمی نے کہا ہے کہ پاکستان چین کے ساتھ معیشت، ٹیکنالوجی میں گہرے تعاون کا خواہاں ہے، چین کی مسلسل 5فیصد اقتصادی ترقی ایک قابل ذکر کارنامہ ہے۔چائنہ اکنامک نیٹ کے ساتھ بات کرتے ہوئے خلیل ہاشمی نے کہا کہ چین کی توجہ نئی معیاری پیداواری قوتوں،گرین ٹیکنالوجی اور ڈیجیٹلائزیشن پر مستقبل کی ترقی کو آگے بڑھائے گی۔
سفیر خلیل ہاشمی نے چین کے سالانہ دو اجلاسوں کے اہم نکات پر روشنی ڈالی، جس میں سی پیک فیز2کے تحت اقتصادی اعتماد، تکنیکی جدت اور پاک چین تعاون پر زور دیا۔انہوں نے کہا کہ معیشت اور ٹیکنالوجی میں چین ایک بڑی طاقت ہے اور اس کی ملکی پالیسیوں کے عالمی اثرات ہیں۔ چین کا عالمی جنوبی اور ترقی پذیر ممالک کے لیے بہت فراخدلانہ رویہ ہے۔(جاری ہے)
پاکستان اے آئی، بلاک چین اور اگلی نسل کی کمیونیکیشن ٹیکنالوجیز میں تعاون کو مضبوط بنا نے کا خواہاں ہے جبکہ چین کی پیٹنٹ فائلنگ اور قابل تجدید توانائی، الیکٹرک گاڑیاں، اور اے آئی میں کامیابیوں کے ساتھ دونوں ممالک میں مشترکہ تحقیق اور تعاون کے بے پناہ امکانات موجود ہیں۔
انہوں نے کہا کہ سی پیک فیز II کے تحت، پاکستان حکومت سے حکومت (جی ٹوجی)اور بزنس ٹو بزنس (بی ٹو بی )تعاون کو ترجیح دے رہا ہے۔ زراعت، آئی ٹی ، اور مینوفیکچرنگ جیسے شعبوں کو فعال طور پر ترقی دی جا رہی ہے، حالیہ مہینوں میں 600ملین ڈالر سے زائد مالیت کے 45 نئے ایم او یوز پر دستخط کیے گئے ہیں۔سفیر ہاشمی نے تعلیم اور تکنیکی تربیت کو بڑھانے کی کوششوں پر روشنی ڈالی، تحقیق کو تجارتی نفاذ سے جوڑ تے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان کے پہلے خلاباز کے چینی خلائی مشن میں شامل ہونے کے ساتھ، خلائی تعاون ایک اور امید افزا شعبہ ہیچین کی اعلی سطح کی فراخ دلانہ پالیسی پاکستان کے لیے تجارت، سیاحت اور سرمایہ کاری کے مواقع فراہم کرتی ہے۔انہوں نے کہا کہ اس سال آٹھ اہم شعبوں پر سٹریٹجک فوکس کے ساتھ، پاکستان چین سے سرمایہ کاری کو متحرک کرنے کے لیے پرعزم ہے، جس سے دونوں ممالک کے درمیان دوستی کو مزید مضبوط کیا جائے گا۔انہوں نے مزید کہا کہ زراعت اور مینوفیکچرنگ میں مشترکہ کوششوں ، آئی ٹی، مصنوعی ذہانت، روبوٹکس، اور بلاک چین جیسے شعبوں میں مشترکہ اقدامات اور منصوبوں سے توقع کی جاتی ہے کہ مشترکہ تحقیق اور ترقی کے ذریعے اختراعی پیش رفت کو فروغ ملے گا۔ اس تعاون سے چین کے علاقائی اثر و رسوخ اور اقتصادی روابط کو بڑھاتے ہوئے، گلوبل ساتھ میں ترقی کو آگے بڑھانے میں ایک اہم شراکت دار کے طور پر چین کی پوزیشن کو مزید تقویت ملتی ہے۔.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے انہوں نے کہا کہ خلیل ہاشمی ہاشمی نے کے ساتھ چین کی چین کے
پڑھیں:
پاکستانی فضائیہ بمقابلہ بھارتی فضائیہ: صلاحیت، ٹیکنالوجی اور حکمت عملی کا موازنہ
مقبوضہ جموں و کشمیر کے سیاحتی مقام پہلگام میں ہونے والے حملے میں کم از کم 28 افراد ہلاک اور 20 سے زائد زخمی ہوئے۔ ہلاک ہونے والوں میں بھارتی نیوی،انٹیلیجنس ایجنسیز کے اہلکار اور سیاح شامل تھے۔ اس حملے کی ذمہ داری ’دی ریزسٹنس فرنٹ‘ (TRF) نے قبول کی، جس نے دعویٰ کیا کہ حملے کا مقصد غیر مقامی افراد کی آبادکاری کے خلاف مزاحمت کرنا تھا، جسے وہ 2019 میں آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد کشمیر میں ہونے والی آبادیاتی تبدیلی کا حصہ سمجھتے ہیں۔
اس واقعہ نے ایک بار پھر پاکستان اور بھارت جو جنوبی ایشیا کے دو ایٹمی قوت رکھنے والے ممالک کے درمیان دفاعی توازن اور خصوصاً فضائی طاقت کے موازنے کو توجہ کا مرکز بنا دیا ہے۔ دونوں ممالک نہ صرف زمینی اور بحری محاذوں پر بلکہ فضائی میدان میں بھی مسلسل ایک دوسرے سے برتری کی دوڑ میں شامل ہیں۔
پاکستان ایئر فورس (PAF) کی ریڑھ کی ہڈی JF-17 تھنڈر طیارے ہیں، جن کا جدید ترین ورژن JF-17 Block III ہے۔ یہ طیارے AESA ریڈار، جدید BVR میزائلز اور ڈیجیٹل ایویونکس سے لیس ہیں۔ اس کے علاوہ پاکستان کے پاس چین کا J-10C جو ایک جدید 4.5+ جنریشن کا ملٹی رول فائٹر جیٹ ہے اور امریکی F-16 طیارے بھی موجود ہیں، جو ڈاگ فائٹنگ میں فضائی برتری کے لیے بہترین سمجھے جاتے ہیں۔
دوسری جانب بھارتی فضائیہ (IAF) کے پاس فرانس سے حاصل کردہ Rafale طیارے موجود ہیں، جو Meteor بی وی آر میزائل، SCALP کروز میزائل اور جدید الیکٹرانک وارفیئر سسٹمز سے لیس ہیں۔اور اس کے علاوہ بھارت کے پاس Su-30MKI کی بڑی تعداد موجود ہے جبکہ مقامی سطح پر تیار کردہ Tejas LCA بھی بھارتی فضائیہ کا حصہ بن چکے ہیں لیکن یہ طیارے ابھی تک مکمل آپریشنل سطح پر دنیا کی بڑی فضائی طاقتوں کا مقابلہ کرنے کے قابل نہیں سمجھے جاتے۔
بھارت کے پاس تقریباً 600 سے زائد فائٹر جیٹس موجود ہیں جبکہ پاکستان کے پاس یہ تعداد 350 کے لگ بھگ ہےلیکن جب بات آتی ہے آپریشنل ایفی شینسی (operational efficiency) اور فوری فیصلوں کی اہلیت (decision-making agility) کی، تب پاکستان کو JF-17 جیسے cost-effective اور highly integrated پلیٹ فارمز کی وجہ سے برتری حاصل ہے۔
پاکستانی فضائیہ کی دفاعی حکمت عملی، تربیت اور پیشہ ورانہ مہارت اسے کم تعداد میں بھی ایک بہترین فضائیہ بناتی ہے۔ بالاکوٹ واقعہ اس کی واضح مثال ہے جہاں پاکستان نے بھارتی MiG-21 طیارہ مار گرایا اور ونگ کمانڈر ابھی نندن کو گرفتار کر کے دنیا کو یہ پیغام دیا کہ صرف ہتھیاروں کی تعداد نہیں، بلکہ تربیت، تجربہ اور فوری ردعمل کی صلاحیت بھی فیصلہ کن ہوتی ہے۔
بھارتی فضائیہ کے پاس ٹیکنیکل تنوع، بڑی تعداد اور زیادہ فنڈنگ کے فوائد تو ہیں لیکن سسٹمز کے انضمام میں انہیں کئی مشکلات کا سامنا ہے۔ اس کے برعکس پاکستان کے پاس کم وسائل کے باوجود مربوط منصوبہ بندی، ہم آہنگ ٹیکنالوجی اور متحرک کمانڈ سسٹمز ہیں جو کسی بھی ہنگامی صورتحال میں فوری ردعمل کی صلاحیت رکھتے ہیں جدید فضائی جنگ صرف طاقت یا تعداد کا نام نہیں ہے بلکہ اسٹریٹیجک برتری، تیز اور درست فیصلے اور مؤثر تربیت ہی وہ عناصر ہیں جو کسی بھی فضائیہ کو برتری دلواتے ہیں اور اس میدان میں پاکستان بھارت پر سبقت رکھتا ہے۔