ریاست سب کچھ کرنے کو تیار ہے لیکن صبر سے کام لے رہی ہے، وزیر اعلیٰ بلوچستان
اشاعت کی تاریخ: 12th, March 2025 GMT
بلوچستان اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے سرفراز بگٹی کا کہنا تھا کہ معصوم نہتے مسافروں کو نشانہ بنایا جاتا ہے، ان کیمرہ بریفنگ میں کئی بار بتا چکا ہوں وہ لوگ ڈائیلاگ کیلئے تیار نہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ لوگ معصوم اور نہتے لوگوں کا خون بہا رہے ہیں، کب تک پاکستان توڑنے کی باتیں برداشت کریں گے۔ اسلام ٹائمز۔ بلوچستان کے وزیر اعلیٰ سرفراز بگٹی نے کہا ہے کہ ریاست، حکومت اب بھی صبر سے کام لے رہی ہے، حکومت سب کچھ کرنے کو تیار ہے۔ بلوچستان اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے سرفراز بگٹی کا کہنا تھا کہ معصوم نہتے مسافروں کو نشانہ بنایا جاتا ہے، ان کیمرہ بریفنگ میں کئی بار بتا چکا ہوں وہ لوگ ڈائیلاگ کیلئے تیار نہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ لوگ معصوم اور نہتے لوگوں کا خون بہا رہے ہیں، کب تک پاکستان توڑنے کی باتیں برداشت کریں گے، ریاست، حکومت اب بھی صبر سے کام لے رہی ہے، حکومت سب کچھ کرنے کو تیار ہے۔ وزیر اعلیٰ بلوچستان کا کہنا تھا کہ حالات کے حوالے سے کنفیوژن دور کرنا پڑے گی، ایک تو معصوموں کا خون بہا رہے ہیں اور دوسرے ٹی وی پر باتیں کر رہے ہیں، ابھی تک ریاست نے لڑنا شروع نہیں کیا۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے پورے پاکستان کو دہشت گردی کے معاملے پر کنفیوژ کیا ہے، وہ آپ کو مار رہے ہیں، آپ جرگہ کرنے کی بات کر رہے ہیں جو ریاست کو توڑنے کی بات کرے گا، بندوق اٹھائے گا ریاست اس کا قلع قمع کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں کون قتل و غارت کررہا ہے؟ ہم ان کا نام لینے سے کیوں گھبراتے ہیں؟ عام بلوچ کو تو گلے لگایا جائے گا لیکن دہشت گردوں کو نہیں چھوڑا جائے گا۔ سرفراز بگٹی نے کہا کہ بلوچ تاریخ دلیری اور مہمان نوازی سے بھری پڑی ہے، یہ کون سی تاریخ ہے کہ آپ نہتے لوگوں پر حملہ کرتے ہیں، ٹرین پر حملہ کرتے ہیں، یرغمال بناتے ہیں۔
.ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: انہوں نے کہا کہ سرفراز بگٹی رہے ہیں وہ لوگ
پڑھیں:
ریاست سے ناراضی کا مطلب یہ نہیں کہ ہتھیار اٹھا لئے جائیں، سرفراز بگٹی
کوئٹہ میں ینگ پارلیمنٹرین فورم کے اراکین سے گفتگو کرتے ہوئے وزیراعلیٰ سرفراز بگٹی نے کہا کہ بیڈ گورننس دہشتگردی کو تقویت، جبکہ اچھی طرز حکمرانی ریاست کو مستحکم بناتی ہے۔ ہم بلوچستان میں گڈ گورننس کے فروغ کیلئے ہر سطح پر شفافیت اور جوابدہی کو یقینی بنا رہے ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ وزیراعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی نے کہا ہے کہ بلوچستان کو درپیش مسائل کو سمجھنے کے لئے اس کے تاریخی تناظر کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ ریاست سے ناراضی کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ ہتھیار اٹھا لئے جائیں۔ آئین پاکستان ریاست سے غیر مشروط وفاداری کا درس دیتا ہے اور اس دائرے میں رہتے ہوئے بات کی جائے تو ہر مسئلے کا حل ممکن ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے چیف منسٹر سیکرٹریٹ کوئٹہ میں ینگ پارلیمنٹرین فورم پاکستان کے اراکین سے ملاقات کے موقع پر گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ ملاقات میں بلوچستان کی مجموعی سیاسی، سماجی اور امن و امان کی صورتحال پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا۔ وزیراعلیٰ سرفراز بگٹی نے وفد کو کوئٹہ آمد پر خوش آمدید کہا اور بلوچستان حکومت کی پالیسیوں، ترقیاتی اقدامات اور چیلنجز پر تفصیل سے روشنی ڈالی۔
سرفراز بگٹی نے کہا کہ بلوچستان کا پاکستان کے ساتھ الحاق اتفاق رائے سے ہوا تھا۔ جسے شاہی جرگے نے اکثریتی رائے سے منظور کیا۔ اس کے برعکس یہ بیانیہ کہ بلوچستان کا زبردستی الحاق ہوا، حقائق سے انحراف ہے۔ ہمیں بلوچستان سے متعلق اس تاثر کو جو باہر رائج ہے درست معلومات اور حقائق سے ہم آہنگ کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ بیڈ گورننس دہشتگردی کو تقویت، جبکہ اچھی طرز حکمرانی ریاست کو مستحکم بناتی ہے۔ ہم بلوچستان میں گڈ گورننس کے فروغ کے لئے ہر سطح پر شفافیت اور جوابدہی کو یقینی بنا رہے ہیں۔ نوجوانوں کو ترقی، تعلیم اور روزگار کے مواقع فراہم کرکے ریاست کے ساتھ جوڑ رہے ہیں، تاکہ بلوچستان کے نوجوان آگے بڑھ کر قومی ترقی میں اپنا مثبت کردار ادا کر سکیں۔
وزیراعلیٰ نے کہا کہ ریاست مخالف کوئی بھی بیانیہ، چاہے کتنا ہی مقبول ہو، محب وطن افراد کے لئے قابل قبول نہیں ہو سکتا۔ پنجابیوں کی ٹارگٹ کلنگ ایک سوچے سمجھے منصوبے کا حصہ ہے، جس کا مقصد قومی یکجہتی کو نقصان پہنچانا ہے۔ تعلیم کے شعبے میں حکومتی اقدامات کا ذکر کرتے ہوئے وزیر اعلی نے بتایا کہ ایک سال کے دوران بلوچستان میں 3200 سے زائد بند اسکولوں کو فعال کیا گیا ہے اور ہمارا عزم ہے کہ صوبے کا کوئی اسکول بند نہ رہے۔ انہوں نے بتایا کہ بے نظیر بھٹو اسکالرشپ کے تحت قومی و مقامی معاونت کے ساتھ بلوچستان کے طلبہ کو دنیا کی دو سو ممتاز جامعات میں پی ایچ ڈی کے لئے بھیجا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ اقلیتوں اور ٹرانس جینڈر افراد کے لئے بھی پہلی بار تعلیمی اسکالرشپ پروگرام متعارف کروایا گیا ہے۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ بلوچستان کابینہ میں چار خواتین کی نمائندگی ہے، جو خواتین کو بااختیار بنانے کی حکومتی پالیسی کا ثبوت ہے۔