پی اے سی اجلاس، غیر سنجیدہ رویہ اپنانے،تیاری نہ ہونے پر وزارت قانون کے نمائندے کو اجلاس سے نکال دیا گیا
اشاعت کی تاریخ: 12th, March 2025 GMT
پی اے سی اجلاس، غیر سنجیدہ رویہ اپنانے،تیاری نہ ہونے پر وزارت قانون کے نمائندے کو اجلاس سے نکال دیا گیا WhatsAppFacebookTwitter 0 12 March, 2025 سب نیوز
اسلام آباد(سب نیوز)پبلک اکاونٹس کمیٹی کے چیئرمین جنید اکبر خان نے غیر سنجیدہ رویہ اپنانے اور تیاری کرکے نہ آنے والے وزارت قانون کے نمائندہ کو اجلاس سے نکال دیا۔۔ اگلے اجلاس میں سیکریٹری قانون کو طلب کر لیا گیا ۔
پی اے سی میں انکشاف ہوا کہ لاہور میں اسٹیٹ لائف انشورنس کی زمین پر تجاوزات کرتے ہوئے قبرستان بھی بنا دیا گیا ۔۔ اسٹیٹ لائف انشورنس میں ضابطے کے خلاف ایف سی کو سکیورٹی کا براہ راست کنٹریکٹ دینے بھی انکشاف ہوا۔ بدھ کو پارلیمنٹ کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا اجلاس چیئرمین جنید اکبر خان کی زیر صدارت منعقد ہوا، جس میں مختلف محکموں میں مالی بے ضابطگیوں، غیر قانونی بھرتیوں اور سرکاری زمینوں پر تجاوزات کے معاملات کا تفصیلی جائزہ لیا گیا۔ کمیٹی نے 5 سال سے 2 کروڑ 75 لاکھ روپے کے ای ڈی ایف کے استعمال نہ ہونے پر شدید برہمی کا اظہار کیا۔ چیئرمین پی اے سی نے سوال اٹھایا کہ یہ فنڈ کیوں استعمال نہیں کیا گیا، اس کے تحت طلباء کی تربیت ہونی تھی۔ کمیٹی نے معاملے کی انکوائری کر کے رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کر دی۔
اجلاس میں ٹریڈنگ کارپوریشن آف پاکستان کے قرض پر 89 ارب 72 کروڑ روپے کے اضافی سود کے معاملے پر بھی غور کیا گیا۔ کمیٹی نے وزارت تجارت کو ہدایت دی کہ وزارت خزانہ کے ساتھ مل کر ایک ماہ میں اس مسئلے کا حل نکالا جائے۔ اجلاس میں 2023-24 میں مارکیٹ سروے کے بغیر 6 رائس ملز کے پلانٹس کی فروخت کا بھی انکشاف ہوا، جس سے قومی خزانے کو 1 کروڑ 83 لاکھ روپے کا نقصان ہوا۔ کمیٹی کے رکن حسنین طارق نے سوال کیا کہ فروخت سے قبل مارکیٹ ویلیوایشن کیوں نہیں کرائی گئی؟ آڈٹ حکام نے بھی موقف اختیار کیا کہ پرانی مشینری کے باوجود اس کی مارکیٹ ویلیوایشن ضروری تھی۔ کمیٹی نے آڈٹ پیرا پر دوبارہ ڈی اے سی کرنے کی ہدایت کر دی۔ پاکستان ری انشورنس کمپنی میں سکیورٹی گارڈز کی غیر قانونی بھرتیوں سے 1 کروڑ 46 لاکھ روپے کے نقصان کا معاملہ بھی زیر بحث آیا۔ آڈٹ بریف کے مطابق کمپنی نے سکیورٹی گارڈز کے لیے 30 ملین روپے کے اشتہارات دیے، لیکن بعد میں بغیر کسی ضابطے کے ایف سی کو کنٹریکٹ دے دیا گیا۔
کمیٹی نے معاملے کی مکمل انکوائری کر کے رپورٹ طلب کر لی۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ اسٹیٹ لائف انشورنس کے پلاٹس پر غیر قانونی تجاوزات قائم ہیں، جن میں سے لاہور کے ایک پلاٹ پر تو قبرستان بھی بنا دیا گیا ہے۔ اسٹیٹ لائف حکام نے دعویٰ کیا کہ تجاوزات ہٹانے کی کوششوں کے دوران انہیں سنگین دھمکیاں بھی دی گئیں۔ کمیٹی نے تجاوزات کا معاملہ حل کرنے کے لیے متبادل زمین کے آپشن پر غور کرنے کی ہدایت کی۔ کمیٹی نے اسٹیٹ لائف انشورنس میں غیر قانونی تعیناتیوں کا بھی نوٹس لیا، جس سے 2 کروڑ 79 لاکھ روپے کا نقصان ہوا۔ آڈٹ رپورٹ کے مطابق محمود عالم کو ریٹائرمنٹ کے بعد دوبارہ تعینات کر دیا گیا تھا۔ چیئرمین پی اے سی نے وزارت قانون کے نمائندے کی غیر سنجیدگی پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے انہیں اجلاس سے نکال دیا اور اگلے اجلاس میں سیکریٹری قانون و انصاف کو طلب کر لیا۔ آخر میں کورم پورا نہ ہونے کے باعث پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا اجلاس ملتوی کر دیا گیا۔
.ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: اسٹیٹ لائف انشورنس اجلاس سے نکال دیا وزارت قانون کے لاکھ روپے اجلاس میں کمیٹی نے پی اے سی روپے کے نہ ہونے دیا گیا
پڑھیں:
ایک سال میں حکومتی قرضوں میں 10 ہزار ارب روپے کا اضافہ، مجموعی قرض 84 ہزار ارب سے تجاوز کر گیا
وزارتِ خزانہ کی تازہ رپورٹ کے مطابق گزشتہ ایک سال کے دوران پاکستان کے مجموعی حکومتی قرضوں میں 10 ہزار ارب روپے کا اضافہ ہوا، جس کے بعد ملک کا مجموعی قرضہ 84 ہزار ارب روپے سے تجاوز کر گیا ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مالی سال 2026ء سے 2028ء کے دوران قرضوں کا تناسب 70.8 فیصد سے کم ہو کر 60.8 فیصد تک آنے کا تخمینہ ہے، اور درمیانی مدت میں قرضوں کی پائیداری برقرار رہنے کی توقع ظاہر کی گئی ہے۔
اعداد و شمار کے مطابق جون 2025ء تک پاکستان پر واجب الادا قرض 84 ہزار ارب روپے سے زیادہ ہو چکا ہے۔ وزارتِ خزانہ کا کہنا ہے کہ 2028ء تک فنانسنگ کی ضروریات 18.1 فیصد کی بلند سطح پر رہیں گی، تاہم گزشتہ مالی سال میں مارک اپ ادائیگیوں میں 888 ارب روپے کی بچت ریکارڈ کی گئی۔
رپورٹ میں قرضوں کے حوالے سے درپیش اہم خطرات اور چیلنجز کی نشاندہی بھی کی گئی ہے۔ وزارت کے مطابق معاشی سست روی قرضوں کی پائیداری کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے، جبکہ ایکسچینج ریٹ، سود کی شرح میں اتار چڑھاؤ، بیرونی جھٹکے اور موسمیاتی تبدیلیاں قرضوں کے بوجھ میں اضافہ کر سکتی ہیں۔
پاکستان کے مجموعی قرضوں میں 67.7 فیصد حصہ ملکی قرضوں کا ہے، جبکہ 32.3 فیصد بیرونی قرضے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق 80 فیصد قرضے فلوٹنگ ریٹ پر حاصل کیے گئے، جس سے شرحِ سود میں اضافے کا خطرہ برقرار ہے۔ مختصر مدت کے قرضوں کا حصہ 24 فیصد ہے، جس سے ری فنانسنگ کے دباؤ میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
وزارت خزانہ کا کہنا ہے کہ زیادہ تر بیرونی قرضے رعایتی نوعیت کے ہیں جو دوطرفہ یا کثیرالطرفہ اداروں سے حاصل کیے گئے، تاہم فلوٹنگ بیرونی قرضوں کا حصہ 41 فیصد ہونے کی وجہ سے درمیانی سطح کا خطرہ برقرار ہے۔ رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ اگر کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بڑھا یا زرمبادلہ ذخائر کم ہوئے تو مالی دباؤ بڑھ سکتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق، مالیاتی نظم و ضبط، معاشی استحکام، برآمدات کے فروغ اور آئی ٹی سیکٹر کی ترقی سے قرضوں کے دباؤ میں کمی لانے کی حکمتِ عملی اپنائی گئی ہے۔ وزارتِ خزانہ کے مطابق گزشتہ مالی سال میں وفاقی مالی خسارہ 6.8 فیصد ہدف کے مقابلے میں کم ہو کر 6.2 فیصد رہا، جبکہ وفاقی پرائمری بیلنس 1.6 فیصد سرپلس میں رہا — جو کہ مالی نظم میں بہتری کی علامت ہے۔
اقتصادی اعشاریوں میں بہتری کے آثار بھی ظاہر ہوئے ہیں۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ گزشتہ سال معاشی شرحِ نمو 2.6 فیصد سے بڑھ کر 3.0 فیصد تک پہنچ گئی، اور اگلے تین سال میں یہ شرح 5.7 فیصد تک پہنچنے کی توقع ہے۔ مہنگائی کی شرح بھی نمایاں طور پر گھٹ کر 23.4 فیصد سے 4.5 فیصد تک آ گئی ہے، اور 2028ء تک 6.5 فیصد پر مستحکم رہنے کا امکان ظاہر کیا گیا ہے۔
پالیسی ریٹ میں جون 2024ء سے اب تک 1100 بیسس پوائنٹس کی کمی، زرمبادلہ مارکیٹ میں استحکام، اور بیرونی ادائیگیوں کے دباؤ میں کمی جیسے عوامل نے مالیاتی فریم ورک کو سہارا دیا ہے۔ وزارتِ خزانہ کے مطابق، اگر یہی رجحان برقرار رہا تو درمیانی مدت میں کم از کم 1.0 فیصد پرائمری سرپلس برقرار رکھنے کی توقع ہے۔
مجموعی طور پر، رپورٹ اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ اگرچہ قرضوں کا بوجھ خطرناک حد تک بڑھ چکا ہے، تاہم مالی نظم، شرحِ سود میں نرمی، اور برآمدات کے فروغ سے پاکستان درمیانی مدت میں معاشی استحکام کی طرف بڑھ سکتا ہے۔