وی ایکسکلوسیو: جعفر ایکسپریس واقعہ پر سیاسی جماعتوں کو اداروں کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے: قمر زمان کائرہ
اشاعت کی تاریخ: 13th, March 2025 GMT
پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے سینیئر رہنما اور سابق وفاقی وزیر قمر زمان کائرہ نے کہا ہے کہ جعفر ایکسپریس واقعے پر سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کے بجائے اس وقت ملک بچانے کے لیے تمام سیاسی جماعتوں کو اداروں کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے۔
وی نیوز کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو میں قمر زمان کائرہ نے کہاکہ نہری پانی کے معاملے پر پنجاب کا کیس بھی مضبوط ہے مگر سندھ کے ساتھی جذباتی ہورہے ہیں، باہمی اعتماد سازی تک اس معاملے کو مؤخر کر دینا چاہیے تاکہ مزید دراڑیں نہ پڑیں۔
یہ بھی پڑھیں پیپلزپارٹی کا وزیراعظم شہباز شریف کی قیادت میں قائم حکومت پر مکمل اعتماد کا اظہار
’میں اور آپ (دہشت گردوں سے) نہیں لڑ سکتے، جو لڑ رہے ہیں وہ جانوں کے نذرانے دے رہے ہیں، وہ زخمی اور معذور ہورہے ہیں، ہمیں ان کا ساتھ دینا چاہیے۔ ‘
قمر زمان کائرہ کا کہنا تھا کہ ان کی دست بدستہ گزارش ہے کہ سیاسی جماعتیں بھی صورتحال کی نزاکت کو سمجھیں۔
ان کا کہنا تھا کہ تنقید کرنا بہت آسان ہے، یہ کہنا کہ اداروں کا کام ٹھیک نہیں ہے، کارکردگی ٹھیک نہیں ہے۔ ’فورسز کے لوگوں کے چیلنجز ہوتے ہیں، وہ دہشت گردوں کے مقابلے کے دوران بھی محتاط رہتے ہیں کہ سویلین نقصان نہ ہو اور اسی کاوش میں زیادہ قربانیاں دیتے ہیں۔ ‘
انہوں نے کہاکہ بلوچستان میں ایک سال سے پیپلز پارٹی کی سربراہی میں اتحادی حکومت ہے مگر یہ مسئلہ ایک سال پرانا نہیں کئی سال پرانا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں صوبائی حکومتیں ہوں یا مرکزی حکومت ہو وہ ڈری سی رہتی ہیں، کوئی کسی مذہبی گروپ سے ڈری ہوتی ہیں، کوئی کسی پریشر گروپ سے ڈری ہوئی ہوتی ہیں۔
نہری نظام پر پیپلز پارٹی کے اعتراضات:نہری نظام کے حوالے سے صدر آصف زرداری اور بلاول بھٹو کے بیانات پر ان کا کہنا تھا کہ یہ ایک جمہوری طریقہ ہے کہ ہم دونوں جماعتیں آپس میں مل جل کر ہر بات طے کریں، ہم کہتے ہیں کہ اتحادیوں کو اعتماد میں لیا جاتا رہے۔ 26ویں آئینی ترمیم پر بھی پیپلز پارٹی نے حکومت کا ساتھ دیا، پیکا قوانین پر بھی ہم نے اپنی تجاویز دیں۔
قمر زمان کائرہ نے کہاکہ ہم اگر حکومت کی سپورٹ سے پیچھے ہٹ جائیں تو نظام گر جائے گا مگر ہم کوئی مزید بحران پیدا نہیں کرنا چاہتے۔ یہ ہماری سوچی سمجھی رائے ہے، یہی وجہ ہے کہ ہم بار بار وزیراعظم سے ملاقاتیں کرتے ہیں۔ ہونا یہ چاہیے کہ جو وعدے ہوئے تھے وہ پورے ہو جائیں، ہمیں اعتماد میں لے کر چلیں۔
انہوں نے کہاکہ پانی کی تقسیم کا معاملہ ہمیشہ حساس ہوتا ہے اس کا کوئی مستقل حل نہیں ہوتا کیونکہ پانی ہمیشہ ایک جیسا نہیں بہتا اور اس کی ضرورت بھی بدلتی رہتی ہے، اس مسئلے کو ارسا بنا کر حل کرنے کی کوشش کی گئی۔1991 میں ایک معاہدہ کیا گیا کہ صوبوں کو اتنا اتنا پانی ملے گا۔
پیپلزپارٹی رہنما نے کہاکہ پانی کے معاملے پر پنجاب کے مقدمے میں بھی بہت جان ہے، لیکن سندھ والے بھائی جذباتی ہورہے ہیں اور وہ بھی جائز ہیں۔
انہوں نے کہاکہ ضرورت اس بات کی ہے کہ پانی کے استعمال کے جدید ذرائع کی طرف جانا چاہیے، اگر ہم پاکستان کے پانی کا صرف 5 فیصد بچا لیں تو سمجھیں کہ ایک تربیلا ڈٖیم بچا لیا جو لاکھوں ایکڑ کو سیراب کرسکے۔
قمر زمان کائرہ نے کہاکہ پہلے اعتماد سازی ہو جائے تو پھر ہم زیادہ قربانی دے سکیں گے مگر آج یہ پوزیشن نہیں ہے ہمیں آپسی بداعتمادیوں کو دور کرنے والے اقدامات کرنے چاہییں۔
وزارتیں نہ لینا کیا درست فیصلہ ہے؟اس سوال پر قمر زمان کائرہ کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی کسی سہارے سے الیکشن نہیں جیتی اس لیے ہمیں عوام کی بات سننا پڑتی ہے۔ جماعت کے اندر اس پر لوگوں کی مختلف رائے ہے مگر بڑی رائے یہ ہے کہ وزارتیں نہیں لینی چاہییں۔
انہوں نے کہاکہ ماضی میں اس معاملے میں اچھے تجربات نہیں ہوئے اس لیے ہم نے سوچا کہ ملک جن بحرانوں کا شکار ہے کسی ایک جماعت کو حکومت کرنی چاہیے۔ بلاول بھٹو کو آفر کی گئی کہ اڑھائی اڑھائی سال کی حکومت تقسیم کرلیں مگر بلاول بھٹو نے صاف انکار کیاکہ حکومت 5 سال پورے کرے، یہ صریحاً ملکی مفاد کا فیصلہ تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ حکومت 5 سال پورے کرےگی کیونکہ اس کے سوا کوئی چارہ نہیں۔
پیکا قانون کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ بہت سارے قانون نیک نیتی سے بنے اور بدنیتی سے استعمال ہوئے۔ پیکا کے معاملے میں ایسا نہیں ہونا چاہیے۔
پیپلز پارٹی پنجاب سے ختم ہوگئی ہے؟ایک سوال کے جواب میں قمر زمان کائرہ نے تسلیم کیاکہ پنجاب میں پیپلز پارٹی کمزور ہو چکی ہے تاہم ان کا کہنا تھا کہ جماعت ختم نہیں ہوئی اور آج بھی پیپلز پارٹی کے کارکنان موجود ہیں۔
’ہاں ہم کمزور ہوئے ہیں اور جیتنے والی پوزیشن نہیں رہی، اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ ہمارے خلاف ایک مائینڈ سیٹ تھا، ہمیں آہستہ آہستہ سائیڈ پر کیا گیا۔ ہماری توڑ پھوڑ پنجاب میں کی گئی اور مذہبی طبقے کو سامنے لایا گیا۔ ‘
عمران خان نے قوم کو کیا شعور دیا ہے؟اس سوال پر کہ عمران خان نے قوم کو کیا شعور دیا ہے؟ ان کا کہنا تھا کہ وہ نہیں سمجھتے کہ شعور دیا ہے۔ ’کیا صرف گالی دے کر اور بالکل جھوٹ بول کر بیانیے کے ساتھ سیاست کرنا شعور ہے؟ ‘
انہوں نے کہاکہ پی ٹی آئی بتائے عمران خان نے اپنے دور حکومت میں عوام کی کیا خدمت کی ہے، کوئی خارجہ پالیسی بنائی ہو، برآمدات بڑھائی ہوں یا ایسا کوئی اور کام کیا ہو؟
ان کا کہنا تھا کہ سوشل میڈیا کو میں ان سوشل میڈیا کہتا ہوں۔ اتنی بڑی تباہی ہمارے ملک کے اندر سوشل میڈیا لایا ہے کہ ہم اپنا دماغ استعمال کرنا چھوڑ گئے ہیں۔
انہوں نے کہاکہ سوشل میڈیا پر لوگ سوچے سمجھے بغیر مواد آگے بھیج دیتے ہیں، پھر اس سے خوفناک ٹرینڈز بنتے ہیں، لوگ سوچتے بھی نہیں کہ کیا یہ بات درست بھی ہے۔
یہ بھی پڑھیں پیپلزپارٹی سے ہمیں کوئی خطرہ نہیں، حکومت آئینی مدت پوری کرےگی، وزیر اطلاعات عطااللہ تارڑ
قمر زمان کائرہ نے کہاکہ بہت سارے گروپس عوامی رائے کو ٹوئسٹ کرتے ہیں، یہ ایریا پیپلز پارٹی کی کمزوری ہے مگر ہم آج بھی دوسروں سے بہتر ہیں، ہم خواتین کے حوالے سے پرسنل ہوں تو سینیئر قیادت فوراً روکتی ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
wenews پاکستان پیپلزپارٹی پنجاب جعفر ایکسپریس واقعہ حکومت حکومتی اتحادی سیکیورٹی ادارے عمران خان قمر زمان کائرہ وفاقی کابینہ وی نیوز.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: پاکستان پیپلزپارٹی جعفر ایکسپریس واقعہ حکومت حکومتی اتحادی سیکیورٹی ادارے قمر زمان کائرہ وفاقی کابینہ وی نیوز قمر زمان کائرہ نے کہاکہ ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے کہاکہ پیپلز پارٹی سوشل میڈیا ہے کہ ہم کے ساتھ کہ پانی ہے مگر
پڑھیں:
پی ٹی آئی کا بھارتی جارحیت کے حوالے سے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلانے کا مطالبہ
اسلام آباد:پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے بھارت کے جارحانہ بیانات کے پیش نظر متفقہ جواب دینے کے لیے تمام جماعتوں سے بات کرنے اور پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلانے کا مطالبہ کر دیا۔
پی ٹی آئی کے مرکزی رہنما علی محمد خان نے ایکسپریس نیوز کے پروگرام ‘سینٹر اسٹیج’ میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس فوری بلانا چاہیے، مطالبہ کرتا ہوں کہ حکومت کو آج رات یا کل ہی مشترکہ اجلاس بلا لینا چاہیے تھا۔
انہوں نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ سب کو اس اجلاس میں شرکت کرنی چاہیے، حکومت کو کہوں گا کہ اجلاس بلائیں، بانی پی ٹی آئی سمیت تمام جماعتوں کو انگیج کریں۔
علی محمد خان کا کہنا تھا کہ جب پاکستان پر بات آجائے تو ہمیں متفقہ طور پر جواب دینا چاہیے، ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ قومی یک جہتی چاہیے تو حکومت اپنی ذات سے نکلے، حکومت کو بانی پی ٹی آئی کو ساتھ لانا ہو گا۔
رہنما پی ٹی آئی نے کہا کہ ایک تصویر آجائے جس میں بانی پی ٹی آئی، وزیر اعظم شہباز شریف اور دیگر ایک ساتھ نظر آجائیں، اگر یہ ایک تصویر آ جائے اور بھارت دیکھ لے تو بھارت کی جرات نہیں ہو گی، حکومت انگیج کرے تو میں جا کر بانی پی ٹی آئی سے بات کرتا ہوں۔
انہوں نے کہا کہ حکومت کو قومی یک جہتی چاہیے تو سب کو انگیج کرے، یہ وقت کھل کر مضبوط فیصلے کرنے کا ہے، بھارتی جارحیت کے خلاف ہم سب ایک ہیں، اکیلے کوئی جنگ نہیں جیت سکتے، ملک کو تقسیم کر کے کوئی جنگ نہیں جیت سکتے، ہمیں پاکستانی بن کر جواب دینا ہے، میرا لیڈر اس وقت جیل میں ہے۔
رہنما پی ٹی آئی نے کہا کہ میرے لیڈر نے کہا تھا کہ ہم جواب دینے کا سوچیں گے نہیں بلکہ جواب دیں گے، پاکستان کے دفاع کے پیچھے ہٹنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
ان کا کہنا تھا کہ قوم انتظار میں ہے کہ نواز شریف کا اس پر کیا جواب آتا ہے، نواز شریف کو خاموشی اختیار نہیں کرنی چاہیے، کھل کر بات کرنی چاہیے۔
علی محمد خان نے کہا کہ سب کو ایک پیج پر ہونا چاہیے، ہم بھائی ہیں، بھائی آپس میں لڑتے بھی ہیں لیکن جب ماں پر بات آ جائے تو بھائی بھائی کے ساتھ کندھا ملا کر کھڑا ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت والے دوست ممالک جائیں، دوست ممالک کو بھی انگیج کریں، حکومت والوں کو سعودی عرب، چین اور روس بھی جانا پڑے تو جائیں، یہ تنقید کا وقت نہیں ہے، ہم مشورہ دینے کا حق رکھتے ہیں کہ اگر ہم حکومت میں ہوتے تو کیا کرتے۔
ایک سوال پر ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے جو کیا ہے وہ اچھا اقدام ہے لیکن یہ ردعمل ہے، ہمیں پیشگی اقدامات کرنے چاہئیں تھے، ہمیں دشمن کے خلاف تیار رہنا چاہیے تھا۔
علی محمد خان نے کہا کہ بھارت نے ہمارے ملک میں کئی دہشت گردی کے واقعات کیے، افغان طالبان نے کبھی پاکستان پر حملہ نہیں کیا، افغان طالبان نہیں بلکہ کالعدم ٹی ٹی پی نے پاکستان میں حملے کیے ہیں۔