رمضان المبارک میں اسرائیلی ظلم جاری، مسجد اقصیٰ میں فلسطینی نمازیوں پر حملہ
اشاعت کی تاریخ: 14th, March 2025 GMT
مقبوضہ بیت المقدس: قابض اسرائیلی فوج نے رمضان المبارک کے دوران مسجد اقصیٰ پر دھاوا بول دیا اور فجر کی نماز کے لیے جمع فلسطینی نمازیوں پر حملہ کیا۔
الجزیرہ عربی کی رپورٹ کے مطابق، اسرائیلی فورسز نے مقبوضہ بیت المقدس میں واقع اسلام کے تیسرے مقدس ترین مقام، مسجد اقصیٰ کے صحن میں گھس کر نمازیوں کو ہراساں کیا۔
قابض اسرائیلی حکام نے مغربی کنارے سے آنے والے فلسطینیوں پر مزید سخت پابندیاں عائد کر دی ہیں، تاکہ وہ رمضان میں مسجد اقصیٰ میں عبادت نہ کر سکیں۔
فلسطینی عوام کی عبادات میں رکاوٹ ڈالنے اور ان کے مقدس مقامات کی بے حرمتی پر عالمی سطح پر مذمت کی جا رہی ہے۔
ذریعہ: Express News
پڑھیں:
29 فلسطینی بچے اور بزرگ بھوک سے موت کے منھ میں چلے گئے، اقوام متحدہ کا الرٹ جاری
جنیوا: اقوام متحدہ کی تازہ رپورٹ کے مطابق غزہ میں شدید غذائی قلت کے شکار بچوں کی شرح تین گنا بڑھ چکی ہے، خاص طور پر اس وقفے کے بعد جب رواں سال کے آغاز میں جنگ بندی کے دوران امداد کی رسائی ممکن ہوئی تھی۔
یہ رپورٹ ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب فلسطینی علاقے میں امداد کی ترسیل پر عالمی توجہ مرکوز ہے۔ حالیہ ہفتوں میں امدادی مراکز کے قریب فائرنگ کے واقعات سامنے آئے ہیں، خاص طور پر امریکہ کی حمایت سے قائم کیے گئے امدادی نظام کے قریب، جن میں کئی افراد شہید ہوئے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مارچ میں جنگ بندی ٹوٹنے کے بعد اسرائیل نے غزہ کے لیے 11 ہفتوں تک امدادی سامان پر سخت پابندی عائد کی، جسے اب جزوی طور پر ہی ہٹایا گیا ہے۔ اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ حماس امداد چوری کرتی ہے، تاہم حماس اس الزام کی تردید کرتا ہے۔
اقوام متحدہ اور امدادی اداروں کے اتحاد "نیوٹریشن کلسٹر" کے مطابق مئی کے دوسرے حصے میں پانچ سال سے کم عمر کے تقریباً 50,000 بچوں کو جانچا گیا، جن میں سے 5.8 فیصد شدید غذائی قلت کا شکار پائے گئے۔ مئی کے آغاز میں یہ شرح 4.7 فیصد تھی، جبکہ فروری میں، جنگ بندی کے دوران، یہ شرح اس سے تقریباً تین گنا کم تھی۔
مزید یہ کہ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ بچوں میں "شدید غذائی قلت" کے کیسز میں بھی اضافہ ہوا ہے، جو ایک جان لیوا حالت ہے اور مدافعتی نظام کو شدید نقصان پہنچاتی ہے۔ ایک فلسطینی وزیر کے مطابق گزشتہ ماہ صرف چند دنوں میں بچوں اور بزرگوں کی بھوک سے 29 اموات ہوئیں۔
شمالی غزہ اور جنوبی علاقے رفح میں موجود وہ مراکز جہاں شدید کیسز کا علاج کیا جاتا تھا، اب بند ہو چکے ہیں، جس کی وجہ سے متاثرہ بچوں کو جان بچانے والا علاج دستیاب نہیں۔