اسلام آباد:

پاسپورٹ ہیڈ کوارٹرز میں جدید ٹیکنالوجی سے لیس نئے پرنٹرز پہنچا دیے گئے۔

جرمنی سے درآمد کیے گئے ان پرنٹرز میں دو جدید ای پرنٹرز اور چھ ڈیسک ٹاپ پرنٹرز شامل ہیں۔  

ڈی جی پاسپورٹس مصطفیٰ جمال قاضی نے ای پرنٹرز سیکشن کا دورہ کیا اور غیر ملکی ماہرین کی جانب سے پرنٹرز کی انسٹالیشن کے عمل پر بریفنگ لی۔ پرنٹرز کی تنصیب کے لیے ایک غیر ملکی تکنیکی ٹیم بھی پاکستان پہنچی ہے جو جلد انسٹالیشن کا عمل مکمل کرے گی۔  

ڈی جی پاسپورٹس کے مطابق یہ جدید پرنٹرز ایک گھنٹے میں ایک ہزار پاسپورٹس پرنٹ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے پرنٹنگ کے معیار میں بھی بہتری آئے گی گی۔  

ڈی جی پاسپورٹس مصطفیٰ جمال قاضی نے بتایا کہ آئندہ ماہ مزید ای پرنٹرز بھی پاکستان پہنچیں گے جس سے پاسپورٹ پرنٹنگ کے عمل میں مزید تیزی آئے گی۔

.

ذریعہ: Express News

پڑھیں:

ملکی معیشت مسلسل زوال کا شکار رہی ،پاکستان بزنس فورم

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251104-06-20

 

کراچی(کامرس رپورٹر) پاکستان بزنس فورم نے ایک تفصیلی رپورٹ جاری کی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ گزشتہ پانچ دہائیوں کے دوران بار بار روپے کی قدر میں کمی کے باوجود ملک کی معیشت مسلسل زوال کا شکار رہی ہے۔غیر جانب دار اور غیر منافع بخش تنظیم پی بی ایف کے مطابق روپے کی قدر میں کمی نے نہ تو پاکستان کی برآمدی مسابقت کو بہتر بنایا ہے اور نہ ہی پائیدار معاشی ترقی کو فروغ دیا ہے۔1955 سے 1971 تک پاکستان کو معیشت کا سنہری دور قرار دیا جاتا ہے، جب روپے کی قدر ایک امریکی ڈالر کے مقابلے میں 4.75 روپے مستحکم رہی۔ اس عرصے میں صنعتی ترقی، معتدل افراطِ زر اور مضبوط برآمدی ماحول دیکھنے میں آیا۔ تاہم 1971 کے بعد مسلسل گراوٹ کا سلسلہ شروع ہوا۔1975 تک ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر 9.99 روپے تک گر گئی اور 2025 میں یہ تقریباً 284 روپے فی ڈالر تک پہنچ چکی ہے۔ اس بڑی گراوٹ کے باوجود برآمدات میں کوئی نمایاں بہتری نہیں آئی۔رپورٹ کے مطابق، پاکستان میں روپے کی قدر میں کمی کو بنیادی معاشی مسائل کے حل کے بجائے ایک وقتی حل کے طور پر استعمال کیا گیا ہے۔ سرکاری اور اوپن مارکیٹ کے ایکسچینج ریٹس میں فرق مصنوعی ڈالر قلت پیدا کرتا ہے، جس سے کرنسی ذخیرہ کرنے والے اور ٹیکس چور فائدہ اٹھاتے ہیں۔ علاوہ ازیں، تیل اور خوردنی تیل جیسی بڑی درآمدی اشیاء پر انحصار کی وجہ سے کمزور کرنسی کے فوائد زائل ہو جاتے ہیں، نتیجتاً افراطِ زر میں اضافہ ہوتا ہے اور برآمدات متاثر ہوتی ہیں۔پاکستان بزنس فورم کے مطابق، پاکستان کی معیشت کی زیادہ تر پیداواری لاگت ڈالر سے منسلک ہے ، خام مال، مشینری، توانائی اور ٹیکنالوجی کی درآمدات پر انحصار کی وجہ سے روپے کی قدر میں کمی سے پیداواری لاگت بڑھتی ہے نہ کہ مسابقت میں اضافہ ہوتا ہے۔فورم نے خبردار کیا ہے کہ جب تک بنیادی ڈھانچوں کی کمزوریوں کو دور نہیں کیا جاتا، روپے کی گراوٹ، افراطِ زر اور برآمدی زوال کا چکر جاری رہے گا۔ رپورٹ میں پالیسی سازوں پر زور دیا گیا ہے کہ وہ کرنسی کی قدر میں ہیرا پھیری کے بجائے حقیقی اصلاحات، پیداواری صلاحیت میں اضافے، کم پیداواری اخراجات اور کاروباری مؤثریت پر توجہ دیں۔پاکستان بزنس فورم کے مطابق، برآمدی مسابقت صرف روپے کی قدر میں کمی سے حاصل نہیں کی جا سکتی بلکہ اس کے لیے پیداواری بہتری، شرحِ سود میں کمی، پالیسی استحکام، اختراعات اور کارکردگی میں اضافے کی ضرورت ہے۔فورم نے حکومت، صنعت اور مالیاتی اداروں سے اپیل کی ہے کہ وہ خود انحصاری، تکنیکی ترقی اور پائیدار معاشی نمو پر مبنی طویل المدتی حکمتِ عملی تشکیل دیں تاکہ پاکستان معاشی استحکام، سرمایہ کاری اور برآمدی ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکے۔

کامرس رپورٹر

متعلقہ مضامین

  • ’اسرائیلی بیانیہ نازی پروپیگنڈا جیسا ہے‘، جرمنی میں اردن کی ملکہ رانیہ کا خطاب
  • محسن نقوی کا نادرا، پاسپورٹ آفس کا دورہ، شہریوں کے مسائل فوری حل کرنے کی ہدایت
  • پاکستان نے ای این آئی سے منگوائے جانے والے 21 ایل این جی کارگو منسوخ کر دیے
  • جرمنی کا شامی پناہ گزینوں کی وطن واپسی کے لیے اقدامات تیز کرنے کا اعلان
  • ضلع اٹک میں تیل و گیس کے بڑے ذخائر دریافت
  • ملکی معیشت کے لیے خوشخبری ، اٹک میں تیل و گیس کے بڑے ذخائر دریافت
  • غیر ملکی کمپنیوں کے منافع کی ترسیل پر تین سال سے عائد پابندیوں میں نرمی
  • ملکی معیشت مسلسل زوال کا شکار رہی ،پاکستان بزنس فورم
  • تربیلا ڈیم کے سونے کے ذخائر ملکی قرضہ اتار دیں گے، حنیف گوہر
  • کراچی: فلیٹ سے 80 لاکھ کے زیورات اور غیر ملکی کرنسی چوری