ملک کے موجودہ چیف الیکشن کمشنر غیر آئینی ہیں‘عمر ایوب
اشاعت کی تاریخ: 14th, March 2025 GMT
لاہور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 14 مارچ2025ء)اپوزیشن لیڈر عمر ایوب نے جعفر ایکسپریس ٹرین حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔لاہور کی انسدادِ دہشت گردی عدالت کے باہر میڈیا سے گفتگو میں عمر ایوب نے کہا کہ بی ایل اے نے جو دہشت گردی کی ہے ہم شدید الفاظ میں اس کی مذمت کرتے ہیں، اس سانحے میں ہمارے جو ساتھی شہید ہوئے خدا ان کے درجات بلند فرمائے۔
(جاری ہے)
انہوں نے کہا کہ ملک میں آوے کا آوا بگڑا ہوا ہے، پنجاب میں کچے کے ڈاکوؤں نے پکے کے ڈاکوؤں کو ڈرا کر رکھا ہوا ہے، ملک کے موجودہ چیف الیکشن کمشنر غیر آئینی ہیں۔عمر ایوب کا کہنا ہے کہ کورٹ آڈر کے تحت ہم گزشتہ روز بانی پی ٹی آئی سے ملاقات کے لیے اڈیالہ جیل گئے، بانی پی ٹی آئی ایک بہادر شخص اور بشریٰ بی بی بہادر خاتون ہیں۔.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے عمر ایوب
پڑھیں:
کیا پی ٹی آئی بکھر جائے گی ؟
تحریک انصاف پاکستان کی سیاست میں ایک ایسا نام ہے جو دو دہائیوں کی سیاسی جدو جہد ، ایک کرکٹ کے ہیرو کی طلسماتی قیادت ، تبدیلی اور سستے انصاف کے نعرے پر وجود میں آئی ۔تاہم 9 مئی 2023 ء کے واقعات اور ان کے بعد کے سیاسی حالات کے حوالے سے ریاستی ردعمل نے اس جماعت کی یکجہتی ،بقا اور سیاسی مستقبل پر متعدد سوالات کھڑے کر دیئے ۔تب سے اب تک واقفان سیاست کے اذہان میں ایک ہی سوال گونج رہا ہے کہ ’’کیا پی ٹی آئی بکھر پائے گی ؟‘‘
پی ٹی آئی کا نظریاتی اثاثہ اورسیاسی بیانیہ فقط بد عنوانی کی سیاست، اسٹیٹس کو ‘ کو ریزہ ریزہ کرنے اور ادارہ جاتی شفافیت کا قیام تھا ۔عمران خان کی شخصیت اس بیانیئے کا مرکز و محور تھی۔مگر جب ریاستی اداروں کا اس پر سے اعتماد اٹھ گیا اور مقتدرہ نے اس کی پیٹھ پر سے ہاتھ اٹھا لیااور اس پر قومی املاک پر حملوں کا الزام عائد ہوا تو وہی قوتیں جو اس کے سیاسی عروج میں ممد تھیں اس کے زوال کے اسباب کا پیش خیمہ بن گئیں ۔پاکستان میں نظریاتی جماعتیں شخصیات کے کرشماتی تاثر کی اسیر رہی ہیں ۔پی ٹی آئی کے حوالے سے یہ تاثر اور رجحان اور بھی زیادہ نمایاں رہا۔
عمران خان کے بغیر پی ٹی آئی کا سیاسی وجود محض ایک ’’ برینڈ نیم‘‘ کے سوا کچھ نہ تھا۔9 مئی کے بعد پارٹی کے اندر تنظیمی ڈھانچے کے حوالے سے انحرافات پیدا ہو گئے ،قیادت کے اندر پھوٹ پڑگئی۔صف اول کے رہنما قید و بند کی صعوبتوں کا شکار ہوئے ،ان میں سے کئی سیاست سے کنارہ کش ہوگئے ،کچھ نے نئے سیاسی دھڑے بنا لئے (استحکام پاکستان پارٹی) وغیرہ اور بعض نے خاموشی اوڑھ لی‘پارٹی تنظیم کا شیرازہ بکھر گیا۔
آج 2024ء اور 2025 ء کی سیاسی صورت حال میں پی ٹی آئی کے لئے میڈیا کھلی سپورٹ سے عاجز ہے ،الیکشن کمیشن کا رویہ بھی جارحانہ ہے ان سب پر مستزاد پارٹی کی اندرونی سازشوں نے پارٹی کی بقا کو سوالیہ نشان بنایا ہوا ہے۔بانی پارٹی پر درجنوں مقدمات چل رہے ہیں جن میں سے متعددمیں سزائیں بھی سنائی جا چکی ہیں۔ وہ طویل عرصے سے پابند سلاسل ہیں ۔قانونی شکنجے نے پارٹی کی سیاسی سرگرمیوں کو عملًا محدود رکھاہوا ہے اور اندیشہ یہ ہے کہ بانی پی ٹی آئی کو نااہل قرار دے دیا گیا ،یا ان پر سیاست سے مستقل دست برداری نافذ کر دی گئی تو پارٹی اپنی اصل روح سے محروم ہوجائے گی۔
اس حقیقت سے انحراف نہیں کیا جاسکتا کہ پی ٹی آئی آج بھی ایک بڑی عوامی حمایت کی حامل ہے ،خصوصاً نوجوانوں، مستورات ،شہری طبقات اور سوشل میڈیا صارفین میں بہت گہری جڑیں رکھتی ہے ۔2024-25 ء کے تمام سروے میں واشگاف الفاظ میں اس امر کا اعادہ کیا جاتا ہے کہ ’’ عمران خان اب بھی مقبول ترین عوامی لیڈر کے طور پر پہچانے جاتے ہیں‘‘ ۔اور یہی عوامی طاقت ہی ہے جس نے پی ٹی آئی کو مکمل طور پر بکھر جانے سے بچایا ہوا ہے ۔
مستقبل کے متوقع امکانات کا جائزہ لیا جائے تو تین ہی صورتیں ہو سکتی ہیں ۔اول عدالتوں کے ذریعے بحالی کا راستہ ہموار ہوجائے ۔بانی پارٹی کسی سیاسی مفاہمت کے ذریعے باہر آئیں اور پارٹی کے شیرازے کو پھر سے سمیٹ لیں۔دوم ۔پارٹی متعدد دھڑوں میں تقسیم ہوجائے’’ نئی اسٹیبلشمنٹ پی ٹی آئی ‘‘ نظریاتی گروپ ٹھہرے اورسوئم ۔یہ کہ پارٹی کو قانونی طور پر کا لعدم قرار دے دیا جائے(کسی امکانی صورت حال کے پیش نظر اور کارکن کسی اور پرچم تلے یک جا ہو جائیں) جس کا امکان کم ہے ۔9 مئی کے واقعے کے بعد تنظیمی اعتبار سے پی ٹی آئی منتشر ہوچکی ہے ۔فواد چوہدری، اسد عمر،علیم خان اورجہانگیر ترین تو راستے تبدیل کر چکے۔ان میں سے کچھ نے مصلحت اوڑھ لی ہے تو کوئی خود ساختہ جلاوطنی کے وبال سے دوچار ہے اور شاہ محمود قریشی جیسا معتدل مزاج سیاستدان اپنے پورے خاندان سمیت پارٹی قیادت کے ساتھ حکومت کے غیر اخلاقی ہتھکنڈوں کی زد میں ہے۔
ماضی پر نگاہ دوڑائیں تو 1971 ء کے بعد مسلم لیگ مشرقی پاکستان میں ریزہ ریزہ ہوکر دفن ہوگئی،اور پیپلز پارٹی 2008 ء کے بعد کئی ٹکڑوں میں بٹ گئی،ایسے میں پی ٹی آئی کا بکھرائو یا ریزگی خارج از امکان یا انہونی بات نہیں ہوگی۔قانونی دبائو کا عالم یہ ہے کہ پارٹی کو یکے بعد دیگرے بہت سارے مقدمات کا سامنا ہے ۔سائفر کیس،توشہ خانہ ،غیر قانونی نکاح اور ریاستی راز افشا کر نے جیسے الزامات نے نہ صرف کپتان کو بلکہ پوری پارٹی کی نقل وحرکت کو محدود اور دفاعی پوزیشن پر لا کھڑا کیا ہوا ہے۔
سیاسی موئرخ عارف وقار لکھتے ہیں ’’قانونی گرفت ،سیاسی طور پر موثر ہونے کا یہی مہذب راستہ ہے ،پاکستان میں طاقت کا کھیل عدالتوں کے پردے میں کھیلا جاتا رہا ہے‘‘۔ جون 2024 ء کے گیلپ سروے ،آئی آر آئی اور پلس کنسلٹنٹ کی رپورٹس گواہیاں دے رہی ہیں کہ ’’بانی پی ٹی آئی کانام عوامی حافظے سے مٹانا آسان نہیں ہے‘‘۔روایتی میڈیا کا بلیک آئوٹ سوشل میڈیا نے بے اثر کردیا ہے اور ورچوئل مزاحمت نے اس امرپر مہر تصدیق کردی ہے کہ نسل نو کا پلیٹ فارم پارٹی کو زندہ رکھے ہوئے ہے۔نامور امریکی دانشور اور سیاسی تجزیہ نگار نوم چومسکی کا قول ہے کہ ’’ جب طاقتور میڈیا چپ سادھ لے تو عوام سوشل میڈیا کو ابلاغ کا ذریعہ بناتے ہیں ‘‘۔سیاسی مفاہمت کا راستہ عمران کے ریلیف کا آخری راستہ ہے جس سے اس کی تحریک پھر سے زور پکڑ سکتی ہے ،بحال ہوسکتی ہے ۔
بصورت دیگر پارٹی اسٹیبلشمنٹ دوست ،وفادار اور نظریاتی دھڑوں میں تقسیم ہو جائے گی۔بہر حال اگر بانی پی ٹی آئی کو سیاست سے مستقل الگ کردیا جاتا ہے ،تب بھی وہ ایک نئی سیاسی قوت کے علامتی مرکز بن سکتے ہیں مطلب یہ کہ پی ٹی آئی بکھر سکتی ہے مگر بانی کے اثر سے جدا نہیں ہو سکتی ،پارٹی کانام ، تنظیم اور عہدے سب کے سب وقتی ہوسکتے ہیں مگر ’’جذباتی بیانیہ‘‘ جو عام پاکستانی کے دل و دماغ میں پیوست ہوچکا ہے اس کا زائل