پاکستان کرپٹو کونسل (پ سی سی) کا باضابطہ قیام عمل میں آگیا ہے جو ملک میں بلاک چین ٹیکنالوجی اور ڈیجیٹل اثاثوں کے فروغ اور ضابطہ کاری کی جانب ایک نمایاں پیش رفت ہے۔

وزارت خزانہ کے بیان کے مطابق یہ کونسل کرپٹو اپنانے کے لیے مؤثر پالیسی سازی، جدیدیت کے فروغ اور محفوظ مالیاتی نظام کے قیام میں اہم کردار ادا کرے گی۔

یہ بھی پڑھیں: کیا کرپٹو کرنسی کی وجہ سے زرمبادلہ میں کمی ہوسکتی ہے؟

بیان کے مطابق وزیر خزانہ سینیٹر محمد اورنگزیب پاکستان کرپٹو کونسل کے سربراہ کی حیثیت سے خدمات انجام دیں گے جو ڈیجیٹل معیشت کی ترقی کے حوالے سے حکومت کے عزم کا مظہر ہے۔

وزارت خزانہ نے بتایا کہ وزیر خزانہ کے چیف ایڈوائزر برائے پاکستان کرپٹو کونسل، بلال بن ثاقب، کونسل کے سی ای او مقرر کیے گئے ہیں جو بلاک چین ٹیکنالوجی، سرمایہ کاری حکمت عملی، اور ڈیجیٹل جدت کے شعبے میں اپنی مہارت کے ذریعے اس اقدام کی قیادت کریں گے۔

بیان میں بتایا گیا کہ پاکستان کرپٹو کونسل کے ابتدائی بورڈ ممبران میں گورنر اسٹیٹ بینک آف پاکستان، چیئرمین سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (SECP)، وفاقی سیکریٹری قانون، اور وفاقی سیکریٹری آئی ٹی شامل ہیں۔ بیان میں کہا گیا کہ یہ متنوع قیادت مالی استحکام، قانونی فریم ورک، اور تکنیکی ترقی کے امتزاج کو یقینی بنائے گی تاکہ پاکستان میں کرپٹو ایکو سسٹم کو فروغ دیا جا سکے۔

پاکستان میں ڈیجیٹل فنانس کے نئے دور کا آغاز

وزارت خزانہ کے مطابق پاکستان کرپٹو کونسل کا قیام اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ حکومت بلاک چین ٹیکنالوجی اور ڈیجیٹل اثاثوں کے عالمی رجحان کو اپنانے کے لیے سرگرم ہے۔

بیان میں کہا گیا کہ پاکستان ایک واضح ضابطہ جاتی حکمت عملی کے تحت سرمایہ کاروں، کاروباری اداروں اور جدید ٹیکنالوجی کے خواہشمند افراد کے لیے محفوظ اور مربوط ماحول فراہم کرنے کے لیے کوشاں ہے۔

مزید پڑھیے: پاکستان میں کرپٹو کرنسی کا کیا مستقبل ہے؟

وزیر خزانہ سینیٹر محمد اورنگزیب نے کونسل کے قیام پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ دنیا تیزی سے ڈیجیٹل فنانس کی طرف بڑھ رہی ہے اور پاکستان اس میدان میں قیادت کا خواہاں ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کرپٹو کونسل کا قیام جدیدیت کے فروغ اور ایک ایسا ضابطہ جاتی فریم ورک بنانے کی جانب قدم ہے جو سرمایہ کاروں اور مالیاتی نظام کے تحفظ کو یقینی بنائے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہم ایک ذمہ دار اور ترقی پسند کرپٹو ایکو سسٹم کے قیام کے لیے پرعزم ہیں جو پاکستان کی معیشت میں مثبت کردار ادا کرے گا۔

ایسا ماحول فراہم ہوگا جہاں بلاک چین اور ڈیجیٹل فنانس کو ترقی ملے گی، سی ای او

پاکستان کرپٹو کونسل کے سی ای او بلال بن ثاقب نے اس اقدام کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ کونسل صرف ضوابط کے لیے نہیں بلکہ ایک ایسا ماحول بنانے کے لیے ہے جہاں بلاک چین اور ڈیجیٹل فنانس کو ترقی دی جا سکے۔

انہوں نے کہا کہ ہمارا مقصد پاکستان کو عالمی ڈیجیٹل معیشت میں ایک مؤثر کھلاڑی بنانا ہے جہاں سیکیورٹی، شفافیت اور جدیدیت کو اولیت دی جائے۔

مزید پڑھیں: پاکستان میں کرپٹو کرنسی کا متبادل کیا ہوسکتا ہے؟

بلال بن ثاقب نے کہا کہ ہم کلیدی اسٹیک ہولڈرز کو ایک پلیٹ فارم پر لا کر ایسی پالیسیاں ترتیب دینا چاہتے ہیں جو ترقی اور تحفظ کے درمیان توازن قائم رکھیں تاکہ کاروباری افراد اور سرمایہ کار بلا خوف اپنی صلاحیتوں کا اظہار کر سکیں۔

پاکستان کرپٹو کونسل کا فوکس واضح ضابطہ جاتی پالیسیوں کی تشکیل، نجی اور سرکاری شعبے کے اسٹیک ہولڈرز سے مؤثر روابط اور پاکستان کو عالمی ڈیجیٹل اثاثہ جات کی صنعت میں ایک نمایاں حیثیت دلوانے پر ہوگا۔

پاکستان کرپٹو کونسل کیا ہے؟

پاکستان کرپٹو کونسل (پی سی سی) ایک حکومتی اقدام ہے جس کا مقصد بلاک چین اور کرپٹو کرنسی کی ترقی، انضمام، اور ضابطہ کاری کے لیے ایک مستحکم اور ترقی پسند فریم ورک فراہم کرنا ہے۔

کلیدی پالیسی سازوں، ریگولیٹری سربراہان، اور صنعت کے ماہرین پر مشتمل یہ کونسل پاکستان میں ایک جدید اور محفوظ ڈیجیٹل اثاثہ جاتی ایکو سسٹم قائم کرنے کے لیے پرعزم ہے۔

پی سی سی کے ابتدائی اقدامات

کرپٹو اپنانے کے لیے واضح ضابطہ جاتی ہدایات مرتب کرنا۔

عالمی کرپٹو اور بلاک چین تنظیموں سے روابط قائم کر کے بہترین عالمی روایات اپنانا۔

یہ بھی پڑھیے: پاکستانی کرپٹو کرنسی سے کب فائدہ اٹھا سکیں گے؟

مالیاتی ٹیکنالوجی (Fintech) اسٹارٹ اپس، سرمایہ کاروں، اور بلاک چین ڈویلپرز کے ساتھ مل کر ذمہ دارانہ جدت کو فروغ دینا۔

صارفین کے تحفظ اور مالیاتی سلامتی کے لیے مضبوط قانونی اور تعمیلی فریم ورک تیار کرنا۔

پاکستان کرپٹو کونسل کے قیام سے ملک میں مالیاتی اور تکنیکی ترقی کا نیا باب کھلے گا جو اس امر کی نشاندہی کرتا ہے کہ پاکستان کاروبار اور جدیدیت کے فروغ کے لیے تیار ہے اور ڈیجیٹل فنانس کے شعبے میں ایک نمایاں مقام حاصل کرنا چاہتا ہے۔

کرپٹو کونسل کے قیام کی ضرورت کیوں پیش آئی؟

بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں کرپٹو کونسل کے قیام ضرورت کے بارے میں پوچھے گئے سوال کا جواب دیتے ہوئے بلال بن ثاقب نے بتایا کہ پاکستان کی ڈیجیٹیل اثاثہ جات مارکیٹ، جس سے 10 لاکھ سے زائد پاکستانی منسلک ہیں بہت تیزی سے فروغ پا رہی ہے۔

کرپٹو کونسل کے قیام سے ملک کو کیا فائدہ حاصل ہو گا؟

اس سوال کا جواب دیتے ہوئے بلال ثاقب کہتے ہیں کہ ایک بہترین ریگولیٹری فریم ورک پاکستان میں ڈیجیٹیل اثاثوں کے شعبے میں غیر ملک سرمایہ کاری کو لا سکتا ہے۔

ان کے مطابق متحدہ عرب امارات میں کرپٹو کرنسی میں صرف ایک سال جولائی 2023 سے جون 2024 میں 30 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری ہوئی اور اسے قانونی حیثیت دینے سے پاکستان کو ریونیو حاصل ہوگا اور اس کے زرمبادلہ کے ذخائر میں بھی اضافہ ہو گا۔

ان کا کہنا تھا کہ سی طرح یہ نوجوانوں کے لیے ملازمت کے مواقع بھی پیدا کرے گی کیونکہ ایک قانونی فریم ورک کے بعد اس میں نئی کمپنیاں داخل ہو پائیں گی۔

پاکستان میں کرپٹو کے کاروبار سے کتنے افراد منسلک ہیں؟

پاکستان میں کرپٹو کے شعبے میں غیر رسمی طور پر کام ہو رہا ہے۔

ایک اندازے کے مطابق تقریباً دو کروڑ پاکستانی کرپٹو کرنسی کے کاروبار سے منسلک ہیں اور ان کے پاس کرپٹو کرنسی موجود ہے۔

مالی سال 21-2020 میں پاکستان میں 20 ارب ڈالر کی کرپٹو کرنسی کی ٹرانزیکشنز ریکارڈ کی گئی تھیں۔

کرپٹو کرنسی کیا ہے؟

کرپٹو کرنسی ایک ڈیجیٹل کرنسی ہے جسےکمپیوٹر نیٹ ورک کے ذریعے محفوظ آن لائن خریدوفروخت کے لیے زرِمبادلہ کے طور پر استعمال کرنے کے لیے بنایا گیا ہے۔ چونکہ یہ صرف آن لائن موجود ہوتی ہے اس لیے اس کا کوئی مادی وجود نہیں ہوتا۔

لین دین کی تصدیق یا نۓ کرنسی یونٹ (سادہ زبان میں نۓ کرپٹو کوائن یا کرپٹو ٹوکن) بنانے کے لیے یہ کسی مرکزی اتھارٹی جیسے کہ حکومت یا بینکوں پر انحصار نہیں کرتی بلکہ لین دین کا ریکارڈ ایک آن لائن ڈیٹا بیس عوامی لیجر (Publicly Distributed Ledger) میں رکھتی ہے جسےمحفوظ بنانے کے لیےیہ ایک ٹیکنالوجی ’کرپٹو گرافی‘ کا استعمال کرتی ہے.

دنیا میں مختلف کمپنیوں نے اپنی ڈیجیٹل کرنسی کو مختلف ناموں سے متعارف کروایا ہوا ہےجنہیں عام زبان میں ٹوکن یا کوائن بھی کہا جاتا ہے۔ جس طرح آپ اپنے پیسے بٹوے میں رکھتے ہیں اسی طرح کرپٹو کرنسی کے لیے ڈیجیٹل بٹوہ (Digital Wallet) یا کرپٹو والٹ استعمال ہوتا ہے۔

کرپٹو کرنسی کو ڈیجیٹل والٹ میں محفوظ کرنے اور خریدوفروخت کے لیے ٹوکنز یا کوائنز کی منتقلی کے لیے ایڈوانس کوڈنگ انکرپشن استعمال ہوتی ہے جسے کرپٹوگرافی کہا جاتا ہے۔ اسی وجہ سے اس ڈیجیٹل کرنسی کو کرپٹو کرنسی کا نام دیا گیا ہے۔

کرپٹو کرنسی کیسے کام کرتی ہے؟

کرپٹو کرنسیز ایک عوامی لیجر (Publicly Distributed Ledger) پر چلتی ہیں۔ کرپٹو کرنسی رکھنے والے لوگوں کے پاس کتنے کوائن ہیں یا انہوں نے کرپٹو کی کتنی ادائیگیاں یا وصولیاں کی ہیں ان سب کا ریکارڈ اس عوامی لیجر میں رکھا جاتا ہے جسے بلاک چین (Blockchain)  بھی کہتے ہیں۔

کرپٹو کرنسی کی اکائیاں (ٹوکن یا کوائن) مائننگ (Mining) نامی ایک عمل کے ذریعے تخلیق کی جاتی ہیں، جس میں کمپیوٹر کا استعمال کرتے ہوئے ریاضی کے پیچیدہ مسائل کو حل کرکے کرپٹو کرنسی سکے (Coins) پیدا کرتے ہیں۔ صارفین بروکرز یا کرپٹو کرنسی ایکسچینجز سےکرپٹو کوائن خرید سکتے ہیں، اپنے کوائن بیچ سکتے ہیں، انہیں اپنے کرپٹو والٹ میں محفوظ کر سکتے ہیں اور ان کوائنز کو آن لائن شاپنگ میں خرچ کر سکتے ہیں۔

کرپٹو کرنسی کا لین دین کرنے کے لیے، آپ کو اس ڈیجیٹل کرنسی کے لیے ایک بٹوے کی ضرورت ہے۔ ایک کرپٹو کرنسی والٹ میں اصل میں کوئی کرنسی نہیں ہوتی ہے۔ یہ بلاک چین پر آپ کے فنڈز کے لیے محض ایک پتہ فراہم کرتا ہے۔ ایک کرپٹو کرنسی والٹ میں نجی اور عوامی کلیدیں (Public and Private Keys) بھی شامل ہوتی ہیں جو آپ کو محفوظ لین دین مکمل کرنے کے قابل بناتی ہیں۔

جب بھی آپ کرپٹو کرنسی خریدتے ہیں یا اس سے کسی چیز کی خریداری کرتے ہیں، تو آپ اپنے بٹوے کے پتے (Wallet Address)سے بیچنے والے کے بٹوے کے پتے (Wallet Address) پر کرپٹو کرنسی کی ایک مخصوص رقم کی منتقلی کی اجازت دیتے ہیں۔ لین دین کو آپ کی نجی کلید (Private Keys) کے ساتھ انکرپٹ کیا جاتا ہے اور بلاک چین میں دھکیل دیا جاتا ہے۔

کرپٹو کرنسی نیٹ ورک کے کان کن(Miners) آپ کی عوامی کلید (Public Keys) کا استعمال کر کے اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ آپ کی نجی کلید (Private Keys) کو لین دین کو محفوظ کرنے کے لیے استعمال کیا گیا تھا۔ جب نیٹ ورک ڈیٹا کے اُس بلاک کی تصدیق ہو جاتی ہے جس میں آپ کے لین دین کا ریکارڈ شامل ہے تو عوامی لیجر (Publicly Distributed Ledger) خود کو اپڈیٹ کرتا ہے جس سے آپ کے کرپٹو والٹ اور بیچنے والے کے کرپٹو والٹ میں نیا بیلنس نظر آنے لگتا ہے۔ یہ سارا عمل انٹرنیٹ اور سافٹ وئیر کے ذریعے کیا جاتا ہے۔

ٹاپ کرپٹو کرنسیز

مارکیٹ میں ہزاروں کی تعداد میں کرپٹو کرنسیز موجود ہیں جنہیں مختلف مقاصد کے لیے بنایا جاتا ہے۔ کچھ کرپٹو کوائن سامان اور مختلف خدمات جیسے کہ ویب ڈیزائن سروسز کی تجارت کے لیے بنائے جاتے ہیں، کچھ صرف مخصوص مالیت کو ذخیرہ کرنے کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ کئی کوائن صرف مخصوص کمپیوٹر نیٹ ورک چلانے میں مدد دیتے ہیں جو زیادہ مالی لین دین کرتے ہیں۔

بٹ کوائن

بٹ کوائن (Bitcoin) پہلی کرپٹو کرنسی تھی جس کی بنیاد 2009 میں رکھی گئی تھی اور اب بھی سب سے زیادہ تجارت اسی کی جاتی ہے۔بٹ کوائن کو ساتوشی ناکاموتو (Satoshi Nakamoto) نے تیار کیا تھا۔ بڑے پیمانے پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ کسی فرد یا لوگوں کے گروہ کا تخلص ہے جس کی صحیح شناخت ابھی تک نامعلوم ہے۔

ایتھیریئم:- ایتھیریئم (Ethereum) ایک بلاک چین پلیٹ فارم ہے جسے 2015 میں تیار کیا گیا تھا۔ اس کی اپنی کرپٹو کرنسی ہے جسے ایتھر (ETH) یا ایتھیریئم کہتے ہیں۔ یہ بٹ کوائن کے بعد سب سے مقبول کرپٹو کرنسی ہے۔

کارڈانو:- کارڈانو (Cardano) ایتھیریئم سے ملتی جلتی کرپٹو کرنسی ہےلیکن اس نے اپنی بلاک چین تیار کی ہے جو کہ نئی اختراعات، تیز رفتار ادائیگیوں، کم ترین ادائیگی کی فیس اور زیادہ لین دین کی وجہ سے بہت تیزی سے مقبولیت اختیار کرتی جا رہی ہے۔ اسے ایڈا (ADA) بھی کہا جاتا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

بٹ کوائن پاکستان کرپٹو کونسل پاکستان کرپٹو کونسل قائم پی سی سی ڈیجیٹل فنانسنگ کرپٹو کرنسی

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: بٹ کوائن پاکستان کرپٹو کونسل پاکستان کرپٹو کونسل قائم پی سی سی ڈیجیٹل فنانسنگ کرپٹو کرنسی کرپٹو کونسل کے قیام پاکستان میں کرپٹو میں کرپٹو کرنسی کرپٹو کرنسی کا کرپٹو کرنسی کی ڈیجیٹل فنانس ڈیجیٹل کرنسی بلال بن ثاقب کرنے کے لیے کے شعبے میں کہ پاکستان استعمال کر اور ڈیجیٹل عوامی لیجر ضابطہ جاتی سکتے ہیں بٹ کوائن بلاک چین کے مطابق کرنسی ہے کے ذریعے والٹ میں کرتے ہیں انہوں نے کی ترقی جاتا ہے لین دین آن لائن نیٹ ورک میں ایک کے فروغ کرتا ہے ہے جسے کہا کہ ہیں جو

پڑھیں:

نہروں پر کام بند: معاملہ 2 مئی کو مشترکہ مفادات کونسل میں پیش ہو گا، وزیراعظم: باہمی رضامندی کے بغیر کچھ نہیں ہو گا، بلاول

اسلام آباد (خبر نگار خصوصی) وفاقی حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ مشترکہ مفادات کونسل (سی سی آئی) کی باہمی افہام و تفہیم کے بغیر کوئی نئی نہر نہیں بنائی جائے گی۔ جب تک تمام صوبوں میں اتفاق رائے نہیں ہوجاتا وفاقی حکومت اس حوالے سے آگے نہیں بڑھے گی۔ جمعرات کو وزیر اعظم ہائوس کے میڈیا ونگ سے جاری پریس ریلیز کے مطابق وزیر اعظم محمد شہباز شریف سے پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینز کے سربراہ بلاول بھٹو زرداری نے ملاقات کی۔ اعلامیہ کے مطابق وفاقی حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ سی سی آئی کی باہمی افہام و تفہیم کے بغیر کوئی نئی نہر نہیں بنائی جائے گی۔ جب تک تمام صوبوں میں اتفاق رائے نہیں ہو جاتا وفاقی حکومت اس حوالے سے آگے نہیں بڑھے گی۔ وفاق تمام صوبائی حکومتوں کو پاکستان بھر میں زرعی پالیسی اور پانی کے انتظام کے بنیادی ڈھانچے کی ترقی کے لئے ایک طویل المدتی متفقہ روڈ میپ تیار کرنے کے لئے شامل کر رہا ہے۔ تمام صوبوں کے پانی کے حقوق پانی کی تقسیم کے معاہدے 1991 اور واٹر پالیسی 2018 میں درج ہیں جن پر تمام سٹیک ہولڈرز کا اتفاق رائے ہے۔ تمام صوبوں کے تحفظات کو دور کرنے اور پاکستان کی خوراک اور ماحولیاتی تحفظ کو یقینی بنانے کے لئے ایک کمیٹی تشکیل دی جا رہی ہے جس میں وفاق اور تمام صوبوں کی نمائندگی ہو گی۔ کمیٹی دو متفقہ دستاویزات کے مطابق پاکستان کی طویل مدتی زرعی ضروریات اور تمام صوبوں کے پانی کے استعمال کے حل تجویز کرے گی۔ پانی کا شمار اہم ترین وسائل میں ہوتا ہے، 1973 کے  آئین میں بھی  پانی کی اہمیت کو تسلیم کیا گیا ہے، اسی آئین کے تحت آبی وسائل کے تمام تنازعات کو اتفاق رائے سے حل کرنے اور کسی بھی صوبے کے خدشات کو تمام سٹیک ہولڈرز کے درمیان مستعدی سے حل کرنے کا پابند بنایا گیا ہے۔ مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس 2 مئی 2025 کو بلایا جائے گا جس میں   پیپلز پارٹی اور   مسلم لیگ (ن) کے نمائندے  وفاقی حکومت کی پالیسی کی مذکورہ توثیق کریں گی اور ایسی کسی بھی تجویز پر اتفاق رائے پیدا کرنے کے لئے متعلقہ ادارے کو واپس بھیج دی جائیں گی۔ علاوہ ازیں  شہباز شریف نے کہا ہے کہ مشترکہ مفادات کونسل میں باہمی رضا مندی سے فیصلے تک مزید کوئی نہر نہیں بنائی جائے گی، 2 مئی کو سی سی آئی کے اجلاس میں غور و خوض کے بعد اس حوالے سے کوئی فیصلہ کیا جائے گا۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے جمعرات کو پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی زیر قیادت پیپلزپارٹی کے وفد سے ملاقات کے بعد بلاول بھٹو کے ہمراہ گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ وزیراعظم نے بلاول بھٹو زرداری کا شکریہ ادا کیا جو ان کی دعوت پر پیپلزپارٹی کے رہنمائوں کے ہمراہ ملاقات کے لئے آئے۔ وزیراعظم نے کہا کہ ملاقات میں ملکی صورتحال پر بات چیت کی گئی۔ بھارت نے جو جنگجویانہ اعلانات کئے ہیں اور پاکستان کے خلاف جارحانہ موقف اختیار کیا، آج قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں اس پر تفصیلی غور و خوض ہوا اور اہم فیصلے کئے گئے، جن پر میں نے بلاول بھٹو زرداری کو اعتماد میں لیا۔ بلاول سے نہریں نکالنے کے معاملے پر سنجیدہ بات چیت ہوئی۔ پاکستان ایک فیڈریشن ہے اور اس کا تقاضا ہے کہ صوبوں کے مابین معاملات باہم بات چیت،خلوص و نیک نیتی کے ساتھ احسن انداز میں ملکی مفاد کو مدنظر رکھتے ہوئے طے کئے جائیں گے۔ میں نے  بلاول کو بتایا کہ میرا دہائیوں سے یہ موقف رہا ہے کہ گو کہ کالاباغ ڈیم معاشی طور پر پاکستان کے بہترین مفاد میں ہے لیکن وفاق سے اہم کوئی چیز نہیں، اگر سندھ یا کسی وفاق کی اکائی سے اس پر اعتراضات ہیں تو پاکستان کے بہترین مفاد کا تقاضا ہے کہ اسے قبول کیا جائے۔ ہمیں باہمی رضا مندی اور بات چیت سے نہروں کا معاملہ حل کرنا چاہیے۔ مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلزپارٹی کے مابین باہمی رضامندی سے یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ جب تک مشترکہ مفادات کونسل میں باہمی رضا مندی سے فیصلہ نہیں ہو جاتا مزید کوئی نہر نہیں بنا ئی جائے گی اور نہروں کے معاملے پر مزید پیش رفت صوبوں کے مابین اتفاق رائے کے بغیر نہیں ہو گی۔ بلاول بھٹو زرداری نے وزیراعظم کا شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے پیپلزپارٹی کے اعتراضات سنے جس کے بعد یہ اہم فیصلہ کیا گیا۔  2 مئی کو سی سی آئی کے اجلاس میں باہمی رضا مندی کے بغیر کوئی نئی نہر نہ بنانے کے فیصلے کی توثیق کی جائے گی اور اعتراضات کا جائزہ لیا جائے گا۔ بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ ہم سی سی آئی کے اجلاس کا انتظار کریں گے۔ سندھ طاس معاہدے کے حوالے سے بھارت کے اعلانات کی سخت مذمت کرتے ہوئے کہا کہ یہ اعلانات نہ صرف غیر قانونی بلکہ انسانیت کے بھی خلاف ہیں، ہم حکومت پاکستان کے شانہ بشانہ کھڑے ہوں گے اور نہ صرف پاکستان بلکہ بین الاقوامی طور پر بھی یہ معاملہ اٹھائیں گے اور بھارت کو منہ توڑ جواب دیں گے۔

متعلقہ مضامین

  • نہروں پر کام بند: معاملہ 2 مئی کو مشترکہ مفادات کونسل میں پیش ہو گا، وزیراعظم: باہمی رضامندی کے بغیر کچھ نہیں ہو گا، بلاول
  • لگتا ہے مودی نے بالا کوٹ کی غلطی سے کچھ نہیں سیکھا ، اسد عمر کا بھارتی بڑھکوں پر ردعمل
  • مذہب کو بنیاد بنا کر خواتین کو پیچھے رکھنے والے اپنے رویے پر نظر ثانی کریں، شزہ فاطمہ
  • انڈیا اور پاکستان کے درمیان دریاؤں کی تقسیم کا سندھ طاس معاہدہ کیا ہے؟
  • سی ڈی اے کے مالیاتی نظام کو مزید شفاف اور کیس لیس بنانے کیلئے اکاونٹس کنٹرولر جنرل کیساتھ مفاہمت کی یادداشت پر دستخط
  • یورپی یونین نے ایپل اور میٹا پر ڈیجیٹل مسابقتی قوانین کی خلاف ورزی پر 70 کروڑ یورو کا جرمانہ عائد کر دیا
  • حکومت نے ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کی جگہ نئی خود مختار ایجنسی قائم کردی
  • ایوان بالا کا اجلاس آج ہوگا 
  • پاکستان کے ساتھ تعلقات مضبوط بنیادوں رایات، پر قائم ہیں چینی سفیر
  • جسٹس منصور علی شاہ نے قائم مقام چیف جسٹس کا حلف اٹھا لیا‘جسٹس منیب اخترنے حلف لیا