پاکستان کی سلامتی اس وقت سنگین خطرات سے دوچار ہے، خاص طور پر بلوچستان اور خیبر پختونخوا(کے پی کے) میں دہشت گردوں کی بڑھتی ہوئی سرگرمیاں اس خطے کے امن کے لیے ایک بڑی تشویش کا باعث بنی ہوئی ہیں۔ ان دونوں صوبوں میں امن و امان کی صورتحال انتہائی خراب ہو چکی ہے جس سے عوامی زندگی شدید متاثر ہو رہی ہے۔ اگرچہ سیکورٹی فورسز دہشت گردوں کے خلاف آپریشنز کر رہی ہیں مگر انہیں خاطر خواہ کامیابیاں حاصل کرنا مشکل ہو رہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان دہشت گردوں کے تانے بانے افغانستان اور بھارت سے جا ملتے ہیں جس سے ان کے خلاف جنگ مزید پیچیدہ اور چیلنجنگ ہو گئی ہے۔ بیرونی حمایت کے ساتھ یہ دہشت گرد پاکستان کے دفاع اور امن کو نقصان پہنچانے میں کامیاب ہو رہے ہیں اور اپنے ناپاک عزائم کی تکمیل کر رہے ہیں۔بلوچ دہشت گردوں کا حالیہ حملہ پاکستان کی سکیورٹی فورسز اور عوام کے لیے ایک اور سنگین چیلنج تھاجس میں 500 مسافروں کو یرغمال بنا لیاگیا تھا۔ اس دہشت گردی کے واقعے نے نہ صرف پاکستانیوں کو بلکہ پوری دنیاکو ہلا کر رکھ دیا ۔ 13 مارچ 2025 کو بلوچستان کے علاقے بولان میں ہونے والے اس دہشت گردی کے حملے نےاس بات کو ثابت کیا کہ بلوچستان میں امن و امان کی صورت حال کنٹرول سےباہر ہے۔اس حملے میں دہشت گردوں نےریلوےٹریک پر دھماکہ خیز مواد نصب کیا جس کی وجہ سے ٹرین رک گئی اور دہشت گردوں نے اس موقع کا فائدہ اٹھاتےہوئے ٹرین کو یرغمال بنالیا۔ دہشت گردوں نے اس ٹرین کو مشکاف سرنگ میں پھنسا دیا اور وہاں سے تمام مسافروں کو یرغمال بناکر اپنےمطالبات پیش کیے۔ یہ واقعہ ایک سنگین دہشت گردی کی کارروائی کی صورت میں سامنے آیا جس میں نہ صرف انسانی جانوں کو خطرہ لاحق تھا بلکہ یہ پاکستان کی داخلی سلامتی کے لیے بھی بڑا چیلنج تھا۔
پاکستان کی سکیورٹی فورسز نے اس حملے کےبعدآپریشن شروع کیا۔ جو دو روز تک جاری رہا اور تمام یرغمالیوں کو بازیاب کروا لیا گیا۔ آپریشن میں 33 دہشت گردوں کو ہلاک کر دیا گیا۔ ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف کے مطابق اس حملے میں 21 مسافر اور ایف سی کے متعدد اہلکار جاں بحق ہوئے ۔
بلوچستان میں جاری شورش اور اس کے پیچھے موجود محرکات پر روشنی ڈالنا ضروری ہے۔ بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) ایک دہشت گرد گروہ کے طور موجود ہے جو بلوچستان کی آزادی کے نام پر سرگرم ہے۔ بی ایل اے اور اس جیسے دیگر گروہ پاکستان کی وفاقی حکومت پر بلوچستان کے قدرتی وسائل جیسے تیل اور معدنیات کے استحصال کا الزام لگاتے ہیں۔ یہ گروہ بلوچستان کے عوام کو اپنے حقوق کے لیے جنگ لڑنے کی ترغیب دیتا ہے اور اس کے لیے دہشت گردی کی کارروائیاں کرتا ہے۔بی ایل اے کو پاکستان اور امریکہ دونوں نے دہشت گرد تنظیم قرار دے رکھا ہے۔ ان گروپوں کا دعوی ہے کہ پاکستان نے 1948 میں بلوچستان کو غیرقانونی طور پر اپنے ساتھ الحاق کیا اور اس کی آزادی کو دبایا۔بی ایل اے کی سرگرمیاں صرف بلوچستان تک محدود نہیں رہیں بلکہ اس نے پورے پاکستان میں دہشت گردی کے متعدد واقعات کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ ان گروپوں کا مقصد پاکستان کی وفاقی حکومت کو کمزور کرنا اور بلوچستان کو آزاد کرانا ہے ۔ بی ایل اے کے حملے بلوچستان میں کئی سالوں سے جاری ہیں اور ان حملوں میں وقتا فوقتا شدت آئی ہے۔ طویل عرصے تک بی ایل اے کے حملے نسبتا محدود پیمانے کے تھے لیکن وقت کے ساتھ انکے حملوں میں خطرناک اضافہ ہو رہا ہے۔بلوچستان کے علاقے میں ہونے والی اس دہشت گردی کی کارروائیوں نے پورے ملک کو تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔ رقبے کے لحاظ سے بلوچستان پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے اور اس کی سرحدیں افغانستان اور ایران کے ساتھ ملتی ہیں۔ ان سرحدوں کے قریب ہونے کے باعث دہشت گردوں کو وہاں پناہ ملنا اور اپنی سرگرمیاں جاری رکھنا ممکن ہو جاتا ہے۔ اس کے علاوہ بلوچستان میں دہشت گردوں کو پناہ دینے والی پہاڑی علاقوں اور غاروں کی موجودگی بھی ان کی کارروائیوں کو سہولت فراہم کرتی ہے۔اس حملے کے بعد ایک بات واضح ہو گئی ہے کہ بلوچستان میں امن و امان قائم کرنے میں پاکستان کی سیکیورٹی فورسز کو مزید چیلنجز کا سامنا ہے۔ بلوچستان کے عوام اور حکومت دونوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ ایک مشترکہ حکمت عملی اپنائیں تاکہ اس خطے میں امن قائم کیا جا سکے اور ان دہشت گرد تنظیموں کا خاتمہ کیا جا سکے۔پاکستان کی سکیورٹی فورسز کے لیے یہ ایک اہم لمحہ ہے ۔ اس بات کی ضرورت ہے کہ بلوچستان میں دہشت گردوں کے خلاف زیادہ سخت اقدامات کیے جائیں تاکہ صوبے میں امن و سکون واپس لایا جا سکے۔ اس کے لیے پاکستان کو نہ صرف اپنی داخلی سکیورٹی کو مضبوط کرنا ہوگا بلکہ بلوچستان کے عوام کے حقوق کا تحفظ اور ان کی ترقی کے لیے بھی اقدامات اٹھانے ہوں گے۔ پاکستان کی سیاسی قیادت کو بھی اس وقت ایک مضبوط اور مربوط حکمت عملی اختیار کرنی ہوگی تاکہ وہ بلوچستان کے عوام کو ان کی جائز حقوق دےسکےاوردہشت گردوں کی حمایت کوکم کرسکے۔ بلوچستان میں تعلیمی اداروں کی حالت زار، بے روزگاری اور ترقی کی کمی نے بی ایل اے اور دیگر دہشت گرد گروپوں کو عوامی حمایت فراہم کی ہے۔اگر حکومت بلوچستان میں ترقیاتی کاموں کو تیز کرتی ہے خاص طور پر تعلیم اور صحت کے شعبے میں تو اس سے عوام میں بی ایل اے جیسے گروپوں کے خلاف نفرت اور عدم تعاون پیدا ہو سکتا ہے۔ پاکستان کو اس وقت ایک جامع حکمت عملی کی ضرورت ہے جس میں سیکیورٹی کے اقدامات کے ساتھ ساتھ بلوچستان کے عوام کے مسائل کو حل کیا جائے تاکہ اس صوبے میں طویل المدتی امن قائم ہو سکے۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کو عالمی سطح پر بھی اس مسئلے کی سنگینی کا تذکرہ کرتے ہوئے بین الاقوامی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ پاکستان کی فوج کو دہشت گردوں کے نیٹ ورک کو موثرطریقے سے ختم کرنے کےلیے ایک نئی حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ فوجی کمانڈ کو اس وقت ایک جامع اور مربوط منصوبہ بندی کے تحت دہشت گردوں کے خلاف کارروائیاں تیز کرنی ہوں گی۔اس وقت سب سے بڑی ضرورت یہ ہے کہ پاکستان اپنی دفاعی اور سیکیورٹی حکمت عملیوں میں بنیادی تبدیلیاں کرے تاکہ دشمن کے سامنے کھڑے ہو کر اپنے ملک کی حفاظت کو یقینی بنایا جا سکے۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: بلوچستان کے عوام دہشت گردوں کے بلوچستان میں کہ بلوچستان پاکستان کی حکمت عملی بی ایل اے اس حملے کے ساتھ کے خلاف جا سکے کے لیے اور اس
پڑھیں:
لکی مروت: اہم مقامی دہشت گرد کمانڈر چھوٹا وسیم گنڈی خانخیل سمیت 3 خوارج ہلاک
کوٹ کشمیر میں پولیس، مقامی امن کمیٹی اور فتنہ الخوارج کے دہشت گردوں کے درمیان شدید فائرنگ کے تبادلے میں اہم مقامی دہشت گرد کمانڈر چھوٹا وسیم گنڈی خانخیل سمیت 3 خوارج ہلاک ہوگئے۔
رپورٹ کے مطابق لکی مروت پولیس کو انفارمیشن ملی کہ فتنہ الخوارج کے چند دہشت گرد کسی مذموم کارروائی کیلئے گنڈی سے کوٹ کشمیر جارہے ہیں، دہشتگردوں کی موجودگی کو بھانپتے ہوئے مقامی پولیس اور امن کمیٹی نے ان کا پیچھا کیا۔
پولیس اور مقامی امن کمیٹیوں کا کوٹ کشمیر کے مقام پر فتنہ الخوارج کے دہشت گردوں سے آمنا سامنا ہوا جس پر دہشت گردوں نے فاِئرنگ شروع کر دی۔
اس دوران پولیس اور دہشت گردوں کے درمیاں فائرنگ کا شدید تبادلہ ہوا جس میں ایک دہشت گرد موقعہ پر ہلاک ہوگیا جب کہ 2 دہشت گرد ایک مکان میں داخل ہوگئے اور گھر میں خواتین اور بچوں کو ڈھال بنانے کی کوشش کی تاہم پولیس نے گھر کامحاصرہ کرکے کمال مہارت سے مقابلہ جاری رکھا۔
جوکہ دو گھنٹے تک جاری رہا اسی دوران پولیس نے نہایت حکمت عملی سے گھر میں محصور خواتین اور بچوں کو نکالا اور وہاں موجود دہشت گردوں کے ساتھ مقابلہ جاری رکھتے ہوئے انہیں جہنم واصل کیا۔
پولیس نے دہشت گردوں کے قبضے سے اسلحہ ایمونیشن بھی برامد کیا، دہشت گردوں کے ساتھ اس جھڑپ میں پولیس اہلکار شاہد اللّٰہ گنڈی خانخیل شدید زخمی ہوا جسکو ڈسٹرک ہیڈکوارٹر اسپتال روانہ کیا گیا جوکہ راستے میں زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے شہادت کے عظیم رُتبے پر فائز ہوگیا۔
ہلاک دہشت گردوں میں ایک کی باقاعدہ تصدیق اہم دھشتگرد کمانڈر چھوٹا وسیم کے نام سے ہوئی۔
ہلاک دہشتگرد کمانڈر پولیس کو دہشتگردانہ کارروائیوں میں مطلوب تھا۔جب کہ ان کے دیگر دو ہلاک دہشت گردوں کی باقاعدہ شناخت کی تصدیق کی جارہی ہے۔
آئی جی خیبر پختونخوا ذوالفقار حمید نے لکی مروت پولیس کی جرات اور دلیری کی تعریف کی ،
انہوں نے لکی مروت کے غیور عوام کے جذبۂ حُب الوطنی کو بھی خراج تحسین پیش کیا کہ وہ اپنے علاقہ کو فتنہ الخوارج سے پاک کرنے کے لئے اپنی پولیس کے شانہ بشانہ ہیں۔
وفاقی وزیرداخلہ محسن نقوی نے لکی مروت کے علاقے کوٹ کشمیر میں خوارجی دہشت گردوں کیخلاف آپریشن میں شہید پولیس اہلکار شاہد خان کو خراج عقیدت پیش کیا اور لواحقین سے دلی ہمدردی و اظہار تعزیت کیا۔
انہوں نے کہا کہ شہید پولیس اہلکار شاہد خان نے بہادری کےساتھ خوارجی دہشتگردوں کا مقابلہ کیا، پولیس اہلکار شاہد خان نے فرض کی راہ میں جان نچھاور کرکے اعلی مثال قائم کی۔