Daily Ausaf:
2025-04-25@02:35:52 GMT

پانی کا مسئلہ، سفارتی حل یا تصادم؟

اشاعت کی تاریخ: 15th, March 2025 GMT

پاکستان اور ہندوستان کے درمیان پانی کا تنازع کئی دہائیوں پر محیط ہے، اور ماہرین کا خیال ہے کہ مستقبل میں پانی کی قلت اس خطے میں کشیدگی کو مزید بڑھا سکتی ہے۔ جنوبی ایشیا میں دریاؤں کے نظام کی پیچیدہ نوعیت، آبادی میں تیزی سے اضافہ، موسمیاتی تبدیلی، اور سیاسی اختلافات اس تنازعے کو مزید سنگین بنا رہے ہیں۔ پاکستان اور ہندوستان کے پانی کے تنازعے کی جڑیں تقسیم ہند سے جڑی ہیں۔ 1960 ء میں سندھ طاس معاہدہ کے تحت دریائے سندھ اور اس کی معاون ندیاں (دریائے جہلم، چناب، سندھ، راوی، بیاس اور ستلج)دونوں ممالک کے درمیان تقسیم کی گئیں۔ معاہدے کے مطابق مشرقی دریاؤں (راوی، بیاس، ستلج)کا کنٹرول ہندوستان کو دیاگیا۔ مغربی دریائوں (جہلم، چناب، سندھ)پر پاکستان کا حق تسلیم کیا گیا، لیکن ہندوستان کو محدود مقدار میں ’’غیر استعمالی‘‘ مقاصد(جیسے ہائیڈرو الیکٹرک پروجیکٹس) کے لئے پانی استعمال کرنے کی اجازت دی گئی۔ یہ معاہدہ عالمی سطح پر کامیاب سمجھا جاتا ہےکیونکہ اس نے 1965 ء اور 1971ء کی جنگوں کے باوجود دونوں ممالک کو پانی کے تنازعات پر بات چیت کا پلیٹ فارم فراہم کیا ۔
سندھ طاس معاہدہ 19ستمبر 1960ء کو پاکستان اور بھارت کے درمیان طے پایا تھا، جس میں عالمی بینک نے ثالث کا کردار ادا کیا۔ اس معاہدے کا مقصد دریائے سندھ اور اس کی معاون دریائوں کے پانی کے تنازعے کو حل کرنا تھا۔ اس معاہدے کے تحت دریائوں کے پانی کی تقسیم کی گئی تھی جس کےمطابق مشرقی دریاؤں دریائےراوی، بیاس، اور ستلج ہندوستان کے حصے میں اور مغربی دریاؤں ،دریائے سندھ، جہلم اور چناب کے پانی پر پاکستان کو مکمل اختیارحاصل ہوگیااور اس طرح طاس سندھ معاہدہ کی بنیاد رکھی گئی۔ معاہدے کے مطابق، بھارت مغربی دریاؤں کے کچھ پانی کو مخصوص مقاصد کے لیے استعمال کر سکتا ہے، لیکن وہ پاکستان کے لیے مختص پانی کو روکنے کا مجاز نہیں ہے۔
ہندوستان کو مشرقی دریاؤں (راوی، بیاس، ستلج)پر مکمل کنٹرول دیاگیا، وہ ان دریاؤں پر بندبناسکتا ہے، پانی ذخیرہ کرسکتا ہےیازرعی استعمال کرسکتا ہے۔ مغربی دریاؤں (سندھ، جہلم، چناب)پر ہندوستان کو محدود استعمال کی اجازت دی گئی تھی، جیسے آبپاشی، پن بجلی اور گھریلو ضروریات کےلئے،بشرطیکہ اس سے پاکستان کے حصے میں پانی کی مقدار متاثر نہ ہو، مثلا ًبجلی پیدا کرنے کےلئے ’’رن آف دی ریور‘‘ہائیڈرو پاور منصوبے، لیکن پانی کو روک کرذخیرہ کرنے کی اجازت نہیں جبکہ مغربی دریاؤں پر پاکستان کا مکمل حق ہے۔ ہندوستان ان دریاؤں کے بہاؤ میں رکاوٹ نہیں ڈال سکتا۔ تنازعات کو حل کرنے کے لیے سنیارٹی کمیشن قائم کیا گیا۔ اگر یہ کمیشن مسئلہ حل نہ کر سکے تو عالمی عدالت انصاف یا ثالثی عدالت سے رجوع کیا جا سکتا ہے۔
ہندوستان کی طرف سے پاکستانی دریاؤں کے پانی کا موڑنے کے دعوے کے مطابق ہندوستان نے مشرقی دریاؤں(راوی، بیاس، ستلج)پر اپنےحقوق کا استعمال کرتے ہوئے متعدد ڈیم اور نہری نظام بنائے ہیں، جس کی وجہ سے پاکستان تک پانی کی مقدار کم ہوئی ہے۔ تاہم، ہندوستان کا یہ دعویٰ ہے کہ یہ اقدامات سندھ طاس معاہدے کے تحت جائز ہیں ۔ تاہم، حالیہ برسوں میں بھارت نے مغربی دریاؤں پر متعدد ڈیم اور بیراج تعمیر کئے ہیں، جن میں کشن گنگا اور راتلے ہائیڈرو پاور پراجیکٹس شامل ہیں۔ پاکستان کو ان منصوبوں پر تحفظات ہیں اور وہ سمجھتا ہےکہ یہ معاہدے کی خلاف ورزی ہیں اور اس سے اس کے پانی کے حقوق متاثر ہو سکتے ہیں۔
موجودہ تنازعات کے محرکات میں سب سے اہم ہندوستان کے ہائیڈرو الیکٹرک منصوبے ہیں۔ ہندوستان دریائے چناب اور جہلم پر متعدد ڈیمز اور ہائیڈرو پاور پلانٹس بنارہا ہے، جنہیں پاکستان معاہدے کی خلاف ورزی قرار دیتا ہے۔ نمایاں مثالوں میں شامل ہیں۔ ہندوستان نے دریائے چناب پر بگلیہار ڈیم بنا کر معاہدے کی خلاف ورزی کی۔ پاکستان نے اعتراض کیا کہ ڈیم کی تعمیر معاہدے کی خلاف ورزی ہے کیونکہ اس کے ذریعے بھارت پانی کو کنٹرول کر سکتا ہے۔ عالمی ثالثی عدالت نے فیصلہ دیا کہ بھارت ڈیم بنا سکتا ہے لیکن اسے پاکستان کے لئے پانی کے بہاؤ میں رکاوٹ پیدا نہیں کرسکتا جس پر 2007 ء میں ثالثی عدالت نے ہندوستان کو ڈیم کی اونچائی کم کرنے کاحکم دیا۔اس کے ساتھ ہی بھارت نے معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے دریائے جہلم پر کشن گنگا ہائیڈرو پاور پراجیکٹ دریائے نیلم (جسے بھارت میں کشن گنگا کہا جاتا ہے)پر تعمیر کیا۔ پاکستان کامؤقف ہے کہ کشن گنگا ہائیڈرو پاور پراجیکٹ منصوبہ دریائے جہلم کے بہاؤ کو روک کر اس کے زرعی نظام کو متاثر کررہا ہے اور پاکستان نے یہ بھی اعتراض کیا کہ اس منصوبے سے دریائے نیلم کے بہاؤ میں کمی واقع ہو سکتی ہے،جو آزاد کشمیر اور پنجاب کے علاقوں کو متاثر کرے گی۔ پاکستان نے عالمی بینک سے رجوع کیا،2013 ء میں ثالثی عدالت نے ہندوستان کو منصوبہ جاری رکھنے کی اجازت دی، لیکن پانی کی ایک خاص مقدار پاکستان کو فراہم کرنے کی شرط عائد کی۔ تاہم بھارت نے یہ منصوبہ مکمل کر لیا اور پاکستان کو پانی کے بہاؤ میں کمی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
پاکستان نے عالمی بینک کی ثالثی کورٹ میں بھارتی رتل ہائیڈرو الیکٹرک کے خلاف بھی کیس دائر کر رکھا ہے۔یہ ڈیم دریائے چناب پر تعمیر کیا جا رہا ہے، اور پاکستان کو خدشہ ہے کہ اس سے پانی کی مقدار کم ہو سکتی ہے۔ بھارت کا مؤقف ہے کہ یہ منصوبہ سندھ طاس معاہدے کے تحت جائز ہے، جبکہ پاکستان اسے معاہدے کی خلاف ورزی سمجھتا ہے۔بھارت نے دریائے راوی اور بیاس کے پانی کو اندرا گاندھی نہر کے ذریعے اس کے پانی کا رخ راجستھان کی طرف موڑدیا ہے اور دریائے ستلج پربھاکڑاڈیم میں پانی کا ذخیرہ کرتے ہوئے اس کی تعمیر کرکے معاہدے کی خلاف ورزی کی ہے۔ اس کے علاوہ مغربی دریاؤں پر ہندوستان نے کئی متنازعہ منصوبے شروع کئے ہیں جو پاکستان کے خدشات کا باعث بنے ہیں، مثلاً ہندوستان کا مؤقف ہے کہ اس نے مشرقی دریائوں (راوی، بیاس، ستلج)کا پانی اپنی طرف موڑا ہے۔
(جاری ہے)

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: معاہدے کی خلاف ورزی ہائیڈرو پاور ہندوستان کے ثالثی عدالت ہندوستان کو پاکستان کے پاکستان نے پاکستان کو سے پاکستان استعمال کر معاہدے کے اس معاہدے کشن گنگا کی اجازت بھارت نے پانی کے کے بہاو سکتا ہے پانی کو پانی کی پانی کا کے پانی اور اس کے تحت

پڑھیں:

دریائے سندھ میں پانی کا بحران شدت اختیار کر گیا

 

پانی کی شدید کمی کے باعث کوٹری بیراج پر پانی کی قلت 30 فیصد تک جا پہنچی
پانی کی قلت کے باعث زرعی مقاصد کے لیے پانی دستیاب نہیں ہے، محکمۂ آبپاشی

دریائے سندھ میں پانی کا بحران شدت اختیار کر گیا ہے ،دریائے سندھ میں پانی کی شدید کمی کے باعث کوٹری بیراج پر پانی کی قلت 30 فیصد تک جا پہنچی۔محکمہ آبپاشی کے اعداد و شمار کے مطابق کوٹری بیراج کے اپ اسٹریم میں پانی کی آمد 4600کیوسک جبکہ ڈائون اسٹریم میں محض 190کیوسک اخراج کیا جا رہا ہے ۔ 2023ء کے اپریل میں کوٹری بیراج اپ اسٹریم میں پانی کی آمد 8900کیوسک اور 2024ء کے اپریل میں 5000کیوسک ریکارڈ کی گئی تھی، یہ اعداد و شمار ہر سال پانی کم سے کم ہونے کی نشاندہی کر رہے ہیں۔محکمۂ آبپاشی کے مطابق پانی کی قلت کے باعث زرعی مقاصد کے لیے پانی دستیاب نہیں ہے ، صرف پینے کا پانی دستیاب ہے ۔محکمہْ زراعت کے مطابق پانی کی کمی کے اثرات فصلوں پر بھی مرتب ہونا شروع ہو گئے ہیں۔خریف کے سیزن میں سندھ کے اندر گزشتہ 5 سال کے دوران پونے 5 سے سوا 6 لاکھ ہیکٹر پر کپاس کی فصل کاشت کی گئی ہے ۔ اسی طرح 2 لاکھ 79 ہزار سے 2 لاکھ 95 ہزار ہیکٹر پر گنے کی فصل کاشت کی گئی، 7 لاکھ 8 ہزار سے 8 لاکھ 11 ہزار ہیکٹر تک چاول کی فصل کاشت کی گئی ہے ۔ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ سندھ میں پانی کی قلت جاری رہی تو سندھ کی زراعت کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے ۔محکمہْ آبپاشی، زراعت اور آبادگاروں کو امید ہے کہ بارشیں ہونے کی صورت میں صورتِ حال بہتر ہو جائے گی۔

متعلقہ مضامین

  • بھارتی حکومت نے سندھ طاس معاہدے کی معطلی سے پاکستان کو باضابطہ آگاہ کر دیا، ذرائع
  • سندھ طاس معاہدہ کیا ہے، کیا بھارت پاکستان کا پانی روک سکتا ہے؟
  • دریائے نیلم اور جہلم میں پانی معمول کے مطابق چل رہا ہے، ذرائع
  • بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدہ معطل کیے جانے کے بعد دریائے جہلم اور نیلم کی کیا صورتحال ہے؟
  • سندھ طاس معاہدے پر ایک نظر
  • پہلگام فالس فلیگ آپریشن کی آڑ میں بھارت کا گھناونا چہرہ دنیا کے سامنے بے نقاب
  • پہلگام فالس فلیگ آپریشن کی آڑ میں بھارتی آبی جارحیت کھل کر سامنے آگئی
  • بھارت یکطرفہ طور پر سندھ طاس معاہدہ معطل نہیں کرسکتا، ذرائع
  • سندھ طاس عالمی معاہدہ،بھارت یکطرفہ طورپرختم کرنےکامجازنہیں
  • دریائے سندھ میں پانی کا بحران شدت اختیار کر گیا