پانی کا مسئلہ، سفارتی حل یا تصادم؟
اشاعت کی تاریخ: 15th, March 2025 GMT
پاکستان اور ہندوستان کے درمیان پانی کا تنازع کئی دہائیوں پر محیط ہے، اور ماہرین کا خیال ہے کہ مستقبل میں پانی کی قلت اس خطے میں کشیدگی کو مزید بڑھا سکتی ہے۔ جنوبی ایشیا میں دریاؤں کے نظام کی پیچیدہ نوعیت، آبادی میں تیزی سے اضافہ، موسمیاتی تبدیلی، اور سیاسی اختلافات اس تنازعے کو مزید سنگین بنا رہے ہیں۔ پاکستان اور ہندوستان کے پانی کے تنازعے کی جڑیں تقسیم ہند سے جڑی ہیں۔ 1960 ء میں سندھ طاس معاہدہ کے تحت دریائے سندھ اور اس کی معاون ندیاں (دریائے جہلم، چناب، سندھ، راوی، بیاس اور ستلج)دونوں ممالک کے درمیان تقسیم کی گئیں۔ معاہدے کے مطابق مشرقی دریاؤں (راوی، بیاس، ستلج)کا کنٹرول ہندوستان کو دیاگیا۔ مغربی دریائوں (جہلم، چناب، سندھ)پر پاکستان کا حق تسلیم کیا گیا، لیکن ہندوستان کو محدود مقدار میں ’’غیر استعمالی‘‘ مقاصد(جیسے ہائیڈرو الیکٹرک پروجیکٹس) کے لئے پانی استعمال کرنے کی اجازت دی گئی۔ یہ معاہدہ عالمی سطح پر کامیاب سمجھا جاتا ہےکیونکہ اس نے 1965 ء اور 1971ء کی جنگوں کے باوجود دونوں ممالک کو پانی کے تنازعات پر بات چیت کا پلیٹ فارم فراہم کیا ۔
سندھ طاس معاہدہ 19ستمبر 1960ء کو پاکستان اور بھارت کے درمیان طے پایا تھا، جس میں عالمی بینک نے ثالث کا کردار ادا کیا۔ اس معاہدے کا مقصد دریائے سندھ اور اس کی معاون دریائوں کے پانی کے تنازعے کو حل کرنا تھا۔ اس معاہدے کے تحت دریائوں کے پانی کی تقسیم کی گئی تھی جس کےمطابق مشرقی دریاؤں دریائےراوی، بیاس، اور ستلج ہندوستان کے حصے میں اور مغربی دریاؤں ،دریائے سندھ، جہلم اور چناب کے پانی پر پاکستان کو مکمل اختیارحاصل ہوگیااور اس طرح طاس سندھ معاہدہ کی بنیاد رکھی گئی۔ معاہدے کے مطابق، بھارت مغربی دریاؤں کے کچھ پانی کو مخصوص مقاصد کے لیے استعمال کر سکتا ہے، لیکن وہ پاکستان کے لیے مختص پانی کو روکنے کا مجاز نہیں ہے۔
ہندوستان کو مشرقی دریاؤں (راوی، بیاس، ستلج)پر مکمل کنٹرول دیاگیا، وہ ان دریاؤں پر بندبناسکتا ہے، پانی ذخیرہ کرسکتا ہےیازرعی استعمال کرسکتا ہے۔ مغربی دریاؤں (سندھ، جہلم، چناب)پر ہندوستان کو محدود استعمال کی اجازت دی گئی تھی، جیسے آبپاشی، پن بجلی اور گھریلو ضروریات کےلئے،بشرطیکہ اس سے پاکستان کے حصے میں پانی کی مقدار متاثر نہ ہو، مثلا ًبجلی پیدا کرنے کےلئے ’’رن آف دی ریور‘‘ہائیڈرو پاور منصوبے، لیکن پانی کو روک کرذخیرہ کرنے کی اجازت نہیں جبکہ مغربی دریاؤں پر پاکستان کا مکمل حق ہے۔ ہندوستان ان دریاؤں کے بہاؤ میں رکاوٹ نہیں ڈال سکتا۔ تنازعات کو حل کرنے کے لیے سنیارٹی کمیشن قائم کیا گیا۔ اگر یہ کمیشن مسئلہ حل نہ کر سکے تو عالمی عدالت انصاف یا ثالثی عدالت سے رجوع کیا جا سکتا ہے۔
ہندوستان کی طرف سے پاکستانی دریاؤں کے پانی کا موڑنے کے دعوے کے مطابق ہندوستان نے مشرقی دریاؤں(راوی، بیاس، ستلج)پر اپنےحقوق کا استعمال کرتے ہوئے متعدد ڈیم اور نہری نظام بنائے ہیں، جس کی وجہ سے پاکستان تک پانی کی مقدار کم ہوئی ہے۔ تاہم، ہندوستان کا یہ دعویٰ ہے کہ یہ اقدامات سندھ طاس معاہدے کے تحت جائز ہیں ۔ تاہم، حالیہ برسوں میں بھارت نے مغربی دریاؤں پر متعدد ڈیم اور بیراج تعمیر کئے ہیں، جن میں کشن گنگا اور راتلے ہائیڈرو پاور پراجیکٹس شامل ہیں۔ پاکستان کو ان منصوبوں پر تحفظات ہیں اور وہ سمجھتا ہےکہ یہ معاہدے کی خلاف ورزی ہیں اور اس سے اس کے پانی کے حقوق متاثر ہو سکتے ہیں۔
موجودہ تنازعات کے محرکات میں سب سے اہم ہندوستان کے ہائیڈرو الیکٹرک منصوبے ہیں۔ ہندوستان دریائے چناب اور جہلم پر متعدد ڈیمز اور ہائیڈرو پاور پلانٹس بنارہا ہے، جنہیں پاکستان معاہدے کی خلاف ورزی قرار دیتا ہے۔ نمایاں مثالوں میں شامل ہیں۔ ہندوستان نے دریائے چناب پر بگلیہار ڈیم بنا کر معاہدے کی خلاف ورزی کی۔ پاکستان نے اعتراض کیا کہ ڈیم کی تعمیر معاہدے کی خلاف ورزی ہے کیونکہ اس کے ذریعے بھارت پانی کو کنٹرول کر سکتا ہے۔ عالمی ثالثی عدالت نے فیصلہ دیا کہ بھارت ڈیم بنا سکتا ہے لیکن اسے پاکستان کے لئے پانی کے بہاؤ میں رکاوٹ پیدا نہیں کرسکتا جس پر 2007 ء میں ثالثی عدالت نے ہندوستان کو ڈیم کی اونچائی کم کرنے کاحکم دیا۔اس کے ساتھ ہی بھارت نے معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے دریائے جہلم پر کشن گنگا ہائیڈرو پاور پراجیکٹ دریائے نیلم (جسے بھارت میں کشن گنگا کہا جاتا ہے)پر تعمیر کیا۔ پاکستان کامؤقف ہے کہ کشن گنگا ہائیڈرو پاور پراجیکٹ منصوبہ دریائے جہلم کے بہاؤ کو روک کر اس کے زرعی نظام کو متاثر کررہا ہے اور پاکستان نے یہ بھی اعتراض کیا کہ اس منصوبے سے دریائے نیلم کے بہاؤ میں کمی واقع ہو سکتی ہے،جو آزاد کشمیر اور پنجاب کے علاقوں کو متاثر کرے گی۔ پاکستان نے عالمی بینک سے رجوع کیا،2013 ء میں ثالثی عدالت نے ہندوستان کو منصوبہ جاری رکھنے کی اجازت دی، لیکن پانی کی ایک خاص مقدار پاکستان کو فراہم کرنے کی شرط عائد کی۔ تاہم بھارت نے یہ منصوبہ مکمل کر لیا اور پاکستان کو پانی کے بہاؤ میں کمی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
پاکستان نے عالمی بینک کی ثالثی کورٹ میں بھارتی رتل ہائیڈرو الیکٹرک کے خلاف بھی کیس دائر کر رکھا ہے۔یہ ڈیم دریائے چناب پر تعمیر کیا جا رہا ہے، اور پاکستان کو خدشہ ہے کہ اس سے پانی کی مقدار کم ہو سکتی ہے۔ بھارت کا مؤقف ہے کہ یہ منصوبہ سندھ طاس معاہدے کے تحت جائز ہے، جبکہ پاکستان اسے معاہدے کی خلاف ورزی سمجھتا ہے۔بھارت نے دریائے راوی اور بیاس کے پانی کو اندرا گاندھی نہر کے ذریعے اس کے پانی کا رخ راجستھان کی طرف موڑدیا ہے اور دریائے ستلج پربھاکڑاڈیم میں پانی کا ذخیرہ کرتے ہوئے اس کی تعمیر کرکے معاہدے کی خلاف ورزی کی ہے۔ اس کے علاوہ مغربی دریاؤں پر ہندوستان نے کئی متنازعہ منصوبے شروع کئے ہیں جو پاکستان کے خدشات کا باعث بنے ہیں، مثلاً ہندوستان کا مؤقف ہے کہ اس نے مشرقی دریائوں (راوی، بیاس، ستلج)کا پانی اپنی طرف موڑا ہے۔
(جاری ہے)
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: معاہدے کی خلاف ورزی ہائیڈرو پاور ہندوستان کے ثالثی عدالت ہندوستان کو پاکستان کے پاکستان نے پاکستان کو سے پاکستان استعمال کر معاہدے کے اس معاہدے کشن گنگا کی اجازت بھارت نے پانی کے کے بہاو سکتا ہے پانی کو پانی کی پانی کا کے پانی اور اس کے تحت
پڑھیں:
ایسی دنیا جہاں تقسیم اورچیلنجزبڑھ رہے ہیں ہمیں تصادم کے بجائے تعاون اورطاقت کے بجائے سفارتکاری کو ترجیح دینی چاہیے ، وزیرخارجہ
نیویارک (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 23 جولائی2025ء)نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ سینیٹر اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ ایسی دنیا جہاں تقسیم اور چیلنجز بڑھ رہے ہیں ہمیں تصادم کے بجائے تعاون اور طاقت کے بجائے سفارت کاری کو ترجیح دینی چاہیے، پاکستان ان مشترکہ اہداف پر پیش قدمی کے لیے سب کے ساتھ مل کر کام کرنے کے لیے تیار ہے، ہماری خارجہ پالیسی کا بنیادی ستون کثیرالجہتی اور اقوام متحدہ کے ساتھ ہمارا مضبوط عہد ہے، اقوام متحدہ کے چارٹر میں درج مقاصد اور اصول، خاص طور پر تنازعات کے پرامن حل اور طاقت کے استعمال یا دھمکی سے گریز، بین الاقوامی انصاف کے لیے ناگزیر ہیں، یہی رہنما اصول پاکستان کی صدارت میں منعقدہ تقریبات کیلئے کلید رہیں گے۔ دفتر خارجہ کے ترجمان کی طرف سے جاری بیان کے مطابق نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اراکین، معزز مہماناں اور دیگر شرکا کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں پاکستان کی اس ماہ کی صدارت کا جشن منا تے ہوئے استقبالیہ تقریب میں آپ سب کو خوش آمدید کہنا میرے لیے انتہائی مسرت کا باعث ہے۔(جاری ہے)
انہوں نے کہا کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کا بنیادی ستون کثیرالجہتی اور اقوام متحدہ کے ساتھ ہمارا مضبوط عہد ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اقوام متحدہ کے چارٹر میں درج مقاصد اور اصول بالخصوص تنازعات کے پرامن حل اور طاقت کے استعمال یا دھمکی سے گریز بین الاقوامی انصاف کے لیے ناگزیر ہیں، یہی رہنما اصول ہماری اس ماہ کی صدارت میں بھی سلامتی کونسل کے کام خواہ وہ مباحثے ہوں یا عملی اقدامات ہماری شراکت کو شکل دے رہے ہیں۔ محمد اسحاق ڈار نے کہا کہ آج دنیا میں بڑھتی بے چینی اور تنازعات کے دور میں غیر حل شدہ تنازعات، طویل المدت تصفیہ طلب تنازعات، یکطرفہ اقدامات اور بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزیوں کے نتائج ہر خطے میں محسوس کئے جا رہے ہیں، ہمارا یقین ہے کہ عالمی امن و سلامتی صرف کثیرالجہتی، تنازعات کے پرامن حل، جامع مکالمے اور بین الاقوامی قانون کے احترام سے ہی حاصل ہو سکتی ہے۔ اسی تناظر میں جیسا کہ آپ جانتے ہیں، پاکستان نے اپنی صدارت کے دوران تین ترجیحات پر توجہ مرکوز کی ہے، اول تنازعات کا پرامن حل اقوام متحدہ کے چارٹر کا بنیادی اصول ہے لیکن اسے اکثر نظر انداز کر دیا جاتا ہے، اعلیٰ سطحی کھلے مباحثے اور سلامتی کونسل کی متفقہ قرارداد 2788 میں اس ترجیح کی عکاسی کی گئی ہے۔ دوم کثیرالجہتی، ہم کثیرالجہتی کو نعرے کے بجائے ایک ضرورت سمجھتے ہیں، سلامتی کونسل کو صرف ردعمل کا ایوان نہیں بلکہ روک تھام، مسائل کے حل اور اصولی قیادت کا فورم ہونا چاہیے۔ سوم اقوام متحدہ اور علاقائی تنظیموں کے درمیان تعاون، بالخصوص اسلامی تعاون کی تنظیم (او آئی سی)جو 57 رکن ممالک کے ساتھ عالمی امن کی تعمیر میں ایک اہم شراکت دار ہے، ہم 24 جولائی کو او آئی سی کے ساتھ ہونے والے اجلاس میں اس تعاون کو مزید بڑھانے کے منتظر ہیں۔ محمد اسحاق ڈار نے کہا کہ پاکستان اقوام متحدہ اور دنیا بھر میں امن اور ترقی کے مشترکہ مقاصد کو آگے بڑھانے کے لیے رکن ممالک، دوستوں اور شراکت داروں کے ساتھ فعال طور پر مصروف عمل ہے، یہ مشغولیت اور عہد صرف سلامتی کونسل تک محدود نہیں بلکہ پورے اقوام متحدہ کے نظام میں پھیلا ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان موسمیاتی تبدیلی اور ترقی کے عالمی مباحثے میں ایک اہم آواز ہے، چاہے وہ جنرل اسمبلی ہو، ای سی او ایس او سی ہو یا دیگر فورمز، ہم نے اقوام متحدہ کے تین ستونوں امن و سلامتی، ترقی اور انسانی حقوق کو مضبوط بنانے کی وکالت کی ہے اور عالمی ادارے کی اصلاحات کو سپورٹ کیا ہے تاکہ ہماری تنظیم کو زیادہ موثر، مضبوط اور عام اراکین کے مفادات کے لیے جوابدہ بنایا جا سکے۔ نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ نے کہا کہ پاکستان نے 2026-28 کے لیے انسانی حقوق کونسل کے انتخابات میں اپنی امیدواری پیش کی ہے جو ایشیا پیسیفک گروپ کی طرف سے حمایت شدہ ہے، ہم آپ کی قیمتی حمایت کے لئے بھی پر امید ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا انسانی حقوق کونسل کے ساتھ تعلق ٹی آر یو سی ای (رواداری، احترام، عالمگیریت، اتفاق رائے اور مشغولیت) کے تصور پر مبنی ہے۔ محمد اسحاق ڈار نے کہا کہ آخر میں میرا پیغام ہے کہ ایک ایسی دنیا میں جہاں تقسیم اور چیلنجز بڑھ رہے ہیں، ہمیں تصادم کے بجائے تعاون اور طاقت کے بجائے سفارت کاری کو ترجیح دینی چاہیے، پاکستان ان مشترکہ اہداف کو آگے بڑھانے کے لیے آپ سب کے ساتھ مل کر کام کرنے کے لیے تیار ہے۔