دیامر بھاشا ڈیم، خلیجی ممالک سے سرمایہ کاری لانے پر غور
اشاعت کی تاریخ: 15th, March 2025 GMT
سعودی آرامکو ریفائنری، دیامر بھاشا ڈیم اور ریکوڈک کان کنی منصوبوں سمیت کئی اہم منصوبے خصوصی طور پر خلیجی ممالک کو سرمایہ کاری کے لیے پیش کیے جانے پر غور جاری ہے۔ اسلام ٹائمز۔ حکومت نے دیامر بھاشا ڈیم مین خلیجی ممالک سے سرمایہ کاری لانے پر غور شروع کر دیا۔ تفصیلات کے مطابق ایس آئی ایس سی کے تحت اہم منصوبوں کی منظوری دیدی گئی۔ حکومت کی جانب سے ایس آئی ایف سی کی زیر معاونت اربوں ڈالر کی مجموعی مالیت کے 28 اہم منصوبوں کی منظوری سے معاشی استحکام کے لیے راہیں ہموار ہوں گی۔ حکومت کی جانب سے سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، قطر اور بحرین سمیت 23 ممالک کو ان منصوبوں میں سرمایہ کاری کی دعوت دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ سعودی آرامکو ریفائنری، دیامر بھاشا ڈیم اور ریکوڈک کان کنی منصوبوں سمیت کئی اہم منصوبے خصوصی طور پر خلیجی ممالک کو سرمایہ کاری کے لیے پیش کیے جانے پر غور جاری ہے۔ اس کے علاوہ ایس آئی ایف سی کے تحت کارپوریٹ فارمنگ، ٹیکنالوجی زونز، کلاوڈ انفراسٹرکچر، سیمی کنڈکٹر ڈیزائننگ، اور اسمارٹ ڈیوائسز کی تیاری کے منصوبے بھی سرمایہ کاری کے لیے پیش کئے گئے ہیں۔ منصوبوں پر تیزی سے عملدرآمد کو یقینی بنانے کے لیے ان ممالک کے شہریوں کو ترجیحی ویزے جاری کیے جائیں گے اور ان منصوبوں کا دائرہ کار ایس آئی ایف سی کے ترجیحی شعبوں یعنی خوراک، زراعت، آئی ٹی، معدنیات، پیٹرولیم اور توانائی پر محیط ہو گا۔ ایس آئی ایف سی کے منظور شدہ منصوبوں کے لیے ایکویٹی سرمایہ فراہم کرنے کے لئے پاکستان سوورن ویلتھ فنڈ متعارف کروانے پر مشاورت کی گئی ہے۔ ایس آئی ایف سی کی معاونت سے موثر پالیسی سازی کے باعث ان منصوبوں کی تکمیل ملک کی معاشی بحالی اور سرمایہ کاری کے فروغ میں کلیدی کردار ادا کرے گی۔
.ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: دیامر بھاشا ڈیم سرمایہ کاری کے ایس آئی ایف سی خلیجی ممالک کے لیے
پڑھیں:
ریکوڈک میں 7 ارب ڈالر سے زائد مالیت کے سونے اور تانبے کے ذخائر موجود ہیں، معدنی ماہرین
کراچی:ماہرین معدنیات کا کہنا ہے کہ ریکوڈک میں 7 ارب ڈالر سے زائد مالیت کے سونے اور تانبے کے ذخائر موجود ہیں۔
بدھ کو "پاکستان میں معدنی سرمایہ کاری کے مواقع" کے موضوع پر منعقدہ نیچرل ریسورس اینڈ انرجی سمٹ سے خطاب میں معدنی ماہرین کا کہنا تھا کہ اسپیشل انویسمنٹ فسلیٹیشن کونسل کے قیام کے بعد پاکستان میں کان کنی کے شعبے میں تیز رفتاری کے ساتھ سرمایہ کاری کی جارہی ہے۔ سال 2030 تک پاکستان کے شعبہ کان کنی کی آمدنی 8 ارب ڈالر سے تجاوز کرسکتی ہے۔
سمٹ سے خطاب کرتے ہوئے لکی سیمنٹ، لکی کور انڈسٹریز کے چیئرمین سہیل ٹبہ نے کہا کہ ایس آئی ایف سی کے قیام کے بعد اب پاکستان میں کان کنی کا شعبے پر توجہ دی جارہی ہے۔ شعبہ کان کنی کی ترقی سے ملک کے پسماندہ اور دور دراز علاقوں میں ناصرف خوشحالی لائی جاسکتی ہے بلکہ ملک کی مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) میں بھی کئی گنا اضافہ ممکن ہے۔
انہوں نے بتایا کہ صرف چاغی میں سونے اور تانبے کے 1.3 ٹریلین کے ذخائر موجود ہیں۔ کان کنی کے شعبے کو ترقی دینے کے لئے ملک اور خطے میں سیاسی استحکام ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں کان کنی کے صرف چند منصوبے کامیاب ہوجائیں تو معدنی ذخائر کی تلاش کے لائسنس اور لیز کے حصول کے لیے قطاریں لگ جائیں گی۔
نیشنل ریسورس کمپنی کے سربراہ شمس الدین نے کہا کہ بین الاقوامی مارکیٹ میں اس وقت دھاتوں کی بے پناہ طلب ہے لیکن اس شعبے میں پاکستان کا حصہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ سونے اور تانبے کی ٹیتھان کی بیلٹ ترکی، افغانستان، ایران سے ہوتی ہوئی پاکستان آتی ہے۔
شمس الدین نے کہا کہ ریکوڈک میں 7ارب ڈالر سے زائد مالیت کا تانبا اور سونا موجود ہے۔ پاکستان معدنیات کے شعبے سے فی الوقت صرف 2ارب ڈالر کما رہا ہے تاہم سال 2030 تک پاکستان کی معدنی و کان کنی سے آمدنی کا حجم بڑھکر 6 سے 8ارب ڈالر تک پہنچ جائے گی۔
انہوں نے بتایا کہ پاکستان کے شعبہ کان کنی میں مقامی وغیرملکی کمپنیوں کی دلچسپی دیکھی جارہی ہے، اس شعبے میں مقامی سرمایہ کاروں کو زیادہ دلچسپی لینا ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ کان کنی میں کی جانے والی سرمایہ کاری کا فائدہ 10سال بعد حاصل ہوتا ہے۔
فیڈیںلٹی کے بانی اور چیف ایگزیکٹو حسن آر محمد نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کان کنی کے فروغ کے لئے اس سے متعلق انشورنس اور مالیاتی کے شعبے کو متحرک کرنا ہوگا۔ پاکستان کی مالیاتی صنعت کو بڑے منصوبوں میں سرمایہ کاری کرنے کے لئے اپنی افرادی قوت اور وسائل کو مختص کرنا وقت کی ضرورت ہے۔