جیکب آباد میں جشن ولادت کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے علامہ مقصود ڈومکی نے کہا کہ نواسہ رسول (ص) حضرت امام حسن مجتبی علیہ السلام نے اپنے نانا کی سنت پر عمل کرتے ہوئے دشمن سے صلح کی۔ آپؑ نے اپنی صلح کے ذریعے دشمن کے کردار کو بے نقاب کیا۔ اسلام ٹائمز۔ مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی رہنماء علامہ مقصود علی ڈومکی نے کہا ہے کہ حضرت امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام کی سیرت طیبہ عالم اسلام اور عالم انسانیت کے لئے مشعل راہ ہے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علہ وآلہ وسلم نے آپ کو کائنات کا سردار اور جوانان جنت کا سردار قرار دیا۔ ان خیالات کا اظیار انہوں نے جیکب آباد میں حضرت امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام کے جشن ولادت باسعادت کے سلسلے میں تنویر عباس برڑو کی رہائش گاہ پر سالانہ محفل میلاد کے موع پر خطاب کرتے ہوئے کیا۔ جشن میلاد سے خطاب کرتے ہوئے علامہ مقصود ڈومکی نے کہا کہ امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام سیرت و صورت اور گفتار و کردار میں شبیہ رسول (ص) تھے۔ آپ سید الانبیاء کی سیرت اور کردار کا عکس تھے۔ امام حسن علیہ السلام علم و حکمت کا خزانہ تھے۔ آپؑ کی احادیث اور نصیحتیں آج بھی زندگی کے ہر پہلو میں ہماری رہنمائی کرتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ نواسہ رسول (ص) حضرت امام حسن مجتبی علیہ السلام نے اپنے نانا کی سنت پر عمل کرتے ہوئے دشمن سے صلح کی۔ آپؑ نے اپنی صلح کے ذریعے دشمن کے کردار کو بے نقاب کیا۔ آپؑ کے اخلاق اور برتاؤ نے دوست و دشمن سب کو متاثر کیا۔ دشمن بھی آپ کے حسن سلوک کی گواہی دیتے تھے۔ ہمیں بھی چاہئے کہ ہم اپنے رویے میں نرمی، محبت اور برداشت پیدا کریں۔ انہوں نے کہا کہ اپنی بے مثال سخاوت کے باعث آپ علیہ السلام کو کریم آل محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کہا جاتا ہے۔ آپؑ نے اپنا سب کچھ راہ خدا میں غرباء اور فقراء میں تقسیم کر دیا۔ آپؑ نے سواری کے ہوتے ہوئے پیدل حج کئے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: علامہ مقصود علیہ السلام کرتے ہوئے نے کہا کہ

پڑھیں:

ایران میں امریکی سفارتخانے پر قبضے کے گہرے اثرات

اسلام ٹائمز: 1979 میں انقلابِ اسلامی کی کامیابی کے فوراً بعد عوامی توقع یہ تھی کہ امریکہ، جو شاہِ ایران (محمد رضا پہلوی) کا قریبی حامی تھا، اب نئے ایران کے ساتھ تعلقات میں احترام اور عدم مداخلت کی پالیسی اپنائے گا۔ لیکن چند مہینوں میں واضح ہو گیا کہ امریکہ اب بھی ایران کے اندرونی معاملات میں اثراندازی کر رہا ہے۔ وہ شاہ کے مجرم ہونے کے باوجود اُسے پناہ دینے کی تیاری کر رہا ہے۔ ایران میں امریکی سفارتخانہ بدستور خفیہ سرگرمیوں (جاسوسی) کا مرکز بنا ہوا ہے۔ ان عوامل نے انقلابی نوجوانوں، خصوصاً دانشجویانِ پیرو خطِ امام (طلبۂ پیروانِ خط امام) کو شدید طور پر مشتعل کر دیا۔ خصوصی رپورٹ

امریکی سفارتخانے پر قبضے کے واقعے میں متعدد عوامل کارفرما تھے، جن میں سب کا تعلق کسی نہ کسی شکل میں انقلابِ اسلامی ایران کے خلاف امریکی حکومت کی پالیسیوں سے تھا۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ امریکہ نے انقلابِ اسلامی کی کامیابی کے باوجود ایران کے داخلی معاملات میں مداخلت سے ہاتھ نہیں کھینچا۔ امام خمینیؒ کی طرف سے ۱۰ آبان ۱۳۵۸ (نومبر 1979) کو قوم کے نام ایک اہم پیغام نشر ہوا، جو مسلمان طلبہ کے لیے ایک نئی انقلابی تحریک کا محرک بنا۔ 

امامؒ نے اس پیغام میں فرمایا کہ طلبہ، جامعات اور دینی علوم کے طلبہ پر لازم ہے کہ وہ پوری قوت کے ساتھ اپنی جدوجہد کو امریکہ اور اسرائیل کے خلاف وسعت دیں، امریکہ کو مجبور کریں کہ وہ اس معزول اور جنایتکار شاہ کو واپس ایران کے حوالے کرے، اور اس بڑی سازش کی شدید مذمت کریں۔ یہ پیغام اُس وقت جاری ہوا جب عبوری حکومت کے سربراہ مہدی بازرگان نے امریکی صدر کارٹر کے مشیرِ قومی سلامتی زبیگنیو برژینسکی سے ملاقات کی تھی۔ انقلابی حلقوں نے اس ملاقات اور امامؒ کے پیغام کو ایک واضح اشارہ سمجھا کہ اب ایک فیصلہ کن انقلابی اقدام کیا جائے۔ ۱۰ آبان کے روز، جو عید قربان کا دن تھا، امامؒ کا یہ بیان امریکہ کے خلاف ایک نیا موڑ ثابت ہوا۔ 

طلبہ نے اسے ایک اصولی بنیاد کے طور پر لیا اور فیصلہ کیا کہ امریکہ کے خلاف احتجاج کو عملی شکل دی جائے۔ ان کا مقصد یہ بھی تھا کہ وہ دنیا کے سامنے ایرانی عوام کی مظلومیت کو اجاگر کریں، خاص طور پر اُن بین الاقوامی صحافیوں کے ذریعے جو امریکی سفارتخانے میں موجود تھے۔ چنانچہ طلبہ نے امریکی سفارتخانے میں داخل ہو کر احتجاج کیا کہ امریکہ نے اُس مفرور شاہ کو اپنے ملک میں پناہ کیوں دی ہے اور اُسے ایران واپس کیوں نہیں کیا جا رہا؟ یہی عمل بعد میں تسخیرِ لانۂ جاسوسی (امریکی جاسوسی کے اڈے پر قبضہ) کے نام سے تاریخ میں ثبت ہوا، جو انقلابِ اسلامی کے بعد ایران کی داخلی و خارجی سیاست میں ایک اہم موڑ بن گیا۔

 پس منظر: 
1979 میں انقلابِ اسلامی کی کامیابی کے فوراً بعد عوامی توقع یہ تھی کہ امریکہ، جو شاہِ ایران (محمد رضا پہلوی) کا قریبی حامی تھا، اب نئے ایران کے ساتھ تعلقات میں احترام اور عدم مداخلت کی پالیسی اپنائے گا۔ لیکن چند مہینوں میں واضح ہو گیا کہ امریکہ اب بھی ایران کے اندرونی معاملات میں اثراندازی کر رہا ہے۔ وہ شاہ کے مجرم ہونے کے باوجود اُسے پناہ دینے کی تیاری کر رہا ہے۔ ایران میں امریکی سفارتخانہ بدستور خفیہ سرگرمیوں (جاسوسی) کا مرکز بنا ہوا ہے۔ ان عوامل نے انقلابی نوجوانوں، خصوصاً دانشجویانِ پیرو خطِ امام (طلبۂ پیروانِ خط امام) کو شدید طور پر مشتعل کر دیا۔

امام خمینیؒ کا پیغام اور نیا موڑ
10 آبان 1358 (عید قربان) کے موقع پر امام خمینیؒ نے قوم کے نام ایک پیغام میں فرمایا کہ یونیورسٹی و مدارسِ دینیہ کے طلبہ اپنی تمام تر قوت امریکہ اور اسرائیل کے خلاف جدوجہد میں صرف کریں، اور امریکہ کو مجبور کریں کہ وہ اس مخلوع و جنایتکار شاہ کو واپس ایران کے حوالے کرے۔ یہ پیغام اُس وقت آیا جب عبوری حکومت کے سربراہ مہدی بازرگان نے الجزائر میں برژینسکی (امریکی مشیرِ قومی سلامتی) سے ملاقات کی، اور یہ ملاقات انقلابی حلقوں کے نزدیک "امریکی مفاہمت" کی علامت سمجھی گئی۔ یوں امامؒ کا پیغام طلبہ کے لیے ایک انقلابی اشارہ بن گیا۔

طلبہ کا فیصلہ اور منصوبہ بندی
امام کے پیغام کے بعد مختلف یونیورسٹیوں کے طلبہ نے دانشجویان پیرو خط امام (امام کی رہ لائن کے پیروکار طلبہ) کے نام سے ایک خفیہ اتحاد تشکیل دیا۔ ان طلبہ نے چند روزہ مشاورت اور خفیہ میٹنگز کے بعد امریکی سفارتخانے پر قبضے کا منصوبہ بنایا۔ مقصد یہ تھا کہ شاہ کو واپس لانے کا مطالبہ عالمی سطح پر بلند کیا جائے اور ایران کے خلاف امریکی سازشوں کو بے نقاب کیا جائے۔ اس تحریک کی قیادت میں تہران یونیورسٹی، شریف ٹیکنالوجی یونیورسٹی، اور چند مذہبی مدارس کے طلبہ شامل تھے۔

4 نومبر 1979، قبضے کا دن 
صبح تقریباً 10 بجے سیکڑوں طلبہ نے تہران میں امریکی سفارتخانے کے گرد جمع ہو کر نعرے لگائے: مرگ بر آمریکا (امریکہ مردہ باد)، کچھ دیر بعد وہ دیواریں پھلانگ کر اندر داخل ہو گئے۔ امریکی عملے کو قابو میں کر لیا گیا اور سفارتخانے کی عمارت پر ایران کا پرچم لہرایا گیا۔ 52 امریکی سفارتکار 444 دن تک یرغمال رہے۔

امام خمینیؒ کا ردِعمل
امام خمینیؒ نے طلبہ کے اقدام کو فوراً انقلابِ دوم (دوسرا انقلاب) قرار دیا، فرمایا: یہ عمل اس انقلاب سے بھی عظیم تر ہے جو شاہ کے خلاف ہوا تھا۔ عبوری حکومت کے وزیراعظم مہدی بازرگان نے احتجاجاً استعفیٰ دے دیا۔ یوں عبوری حکومت کا دور ختم ہوا اور انقلابی اداروں نے عملاً ملک کی باگ ڈور سنبھال لی۔

نتائج اور اثرات: 
1۔ ایران میں امریکی اثر و رسوخ مکمل طور پر ختم ہو گیا۔ انقلابی قوتوں کو مضبوط عوامی جواز حاصل ہوا۔ ایران میں ضدِ استکبار (Anti-Imperialism) کی سوچ مرکزی نعرہ بن گئی۔
2۔ بین الاقوامی سطح پر ایران امریکہ تعلقات منقطع ہو گئے۔ امریکہ نے ایران پر اقتصادی پابندیاں عائد کیں۔ اقوامِ متحدہ میں ایران کے خلاف سفارتی دباؤ بڑھا۔
3۔ نظریاتی سطح پر یہ تحریک ایک "عالمی انقلاب" کے نظریے کی بنیاد بنی۔ خطِ امام کے پیروکاروں نے اس کو عالمی استکبار کے خلاف نمونۂ عمل قرار دیا۔

ردِعمل
امریکی حکومت نے اس واقعے کو “Hostage Crisis” (یرغمال بحران) قرار دیا۔ صدر جمی کارٹر (Jimmy Carter) نے اسے امریکی خودمختاری اور بین الاقوامی قانون پر حملہ کہا۔ ایران سے تمام سفارتی تعلقات منقطع کر دیے گئے۔ ایران کے تمام اثاثے (تقریباً 8 بلین ڈالر) منجمد (Freeze) کر دیے گئے۔ 7 اپریل 1980 کو امریکہ نے ایران پر اقتصادی پابندیاں عائد کیں۔ یہ بحران کارٹر حکومت کے لیے سیاسی زوال کا باعث بنا۔ عوام نے اسے امریکہ کی "ذلت" کے طور پر دیکھا۔ یہی مسئلہ بعد میں رونالڈ ریگن کی فتح (1980 کے انتخابات) میں اہم عنصر ثابت ہوا۔

اقوامِ متحدہ اور بین الاقوامی قانون کا ردِعمل: اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل نے فوری طور پر ایران سے یرغمالیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا۔ بین الاقوامی عدالتِ انصاف (ICJ) نے بھی ایران کے خلاف فیصلہ سنایا کہ “سفارتی تحفظ بین الاقوامی قانون کے بنیادی اصولوں میں سے ہے۔ تاہم ایران نے مؤقف اختیار کیا کہ: “یہ واقعہ عوامی انقلاب کا عمل تھا، نہ کہ سرکاری پالیسی کا۔ نتیجتاً، اقوامِ متحدہ ایران پر عملی دباؤ نہ ڈال سکی یہ انقلابی خودمختاری کی ایک مثال بن گئی۔

امریکی فوجی کارروائی کی ناکامی اور اثرات: اپریل 1980 میں آپریشن ایگل کلا (Operation Eagle Claw) کے نام سے یرغمالیوں کو چھڑانے کی خفیہ فوجی کوشش کی گئی۔ 8 ہیلی کاپٹر اور 6 طیارے ایران کے صحرائے طبس میں اتارے گئے۔ ریت کے طوفان اور تکنیکی خرابی کے باعث آپریشن ناکام ہوا۔ 8 امریکی فوجی ہلاک ہوئے۔ امام خمینیؒ نے فرمایا کہ خدا نے شن‌های طبس (طبس کی ریت) سے انقلاب کی مدد کی۔ یہ واقعہ ایرانی عوام کے لیے معجزاتی فتح کی علامت بن گیا۔ 

مغربی میڈیا اور رائے عامہ: مغربی میڈیا نے اسے “Iranian Hostage Crisis” کے عنوان سے روزانہ نشر کیا۔ امریکی ٹی وی چینلز (خصوصاً ABC News) نے خصوصی پروگرام “America Held Hostage” شروع کیا — جو بعد میں “Nightline” کے نام سے مشہور ہوا۔ مغربی عوام میں ایران مخالف جذبات بڑھے، لیکن تیسری دنیا اور مسلم ممالک میں ایران کی مقبولیت میں اضافہ ہوا۔ بہت سے ماہرین نے لکھا کہ یہ پہلا موقع تھا جب ایک مسلمان قوم نے مغرب کے سامنے مزاحمت کے ساتھ اپنی سیاسی خودمختاری کا اعلان کیا۔

مسلم دنیا اور غیر جانب دار ممالک کا ردِعمل: کئی عرب ممالک (خصوصاً سعودی عرب اور مصر) نے اس اقدام کی مخالفت کی، جبکہ لیبیا، شام، یمن، اور فلسطینی تنظیمیں ایران کے حق میں بولیں۔ پاکستان میں عوامی سطح پر امریکہ مخالف مظاہرے ہوئے۔ بھارت اور الجزائر نے ثالثی کی پیشکش کی۔ سوویت یونین (USSR) نے رسمی طور پر غیر جانب دار رہنے کا اعلان کیا لیکن پسِ پردہ ایران کے موقف کو مغرب کے خلاف ایک مفید دباؤ کے طور پر دیکھا۔ بحران کا اختتام
الجزائر معاہدہ (Algiers Accord): 20 جنوری 1981 کو، رونالڈ ریگن کے حلف برداری کے دن، ایران اور امریکہ کے درمیان الجزائر معاہدے کے تحت یرغمالیوں کو رہا کیا گیا۔ ایران نے اس کے بدلے میں اپنے منجمد اثاثے واپس لینے کا حق حاصل کیا۔ یہ سمجھوتہ ایران کے اصولی مؤقف کی سفارتی کامیابی کے طور پر دیکھا گیا۔ امریکی سفارتخانے پر قبضہ ایک وقتی احتجاج نہیں بلکہ ایران کے فکری استقلال، سیاسی خوداعتمادی اور عالمی استعمار کے خلاف اعلانِ مزاحمت تھا۔ یہ وہ لمحہ تھا جب اسلامی انقلاب عالمی سطح پر ایک نظریاتی چیلنج کے طور پر ابھرا جو آج بھی ایران کی خارجہ پالیسی اور فکری بیانیے کی بنیاد ہے۔

عالمی سطح پر طویل المدت اثرات
یہ واقعہ ایک ایسے عالمی دور کی ابتدا تھا، جس میں طاقت اور خودمختاری کے بیانیے ایک دوسرے کے بالمقابل کھڑے ہو گئے۔ ایران نے فکر، ایمان، اور مزاحمت کو اپنی طاقت بنایا، جبکہ امریکہ نے طاقت کو اخلاقی برتری کا نام دے کر نیا عالمی نظم تشکیل دینے کی کوشش کی۔ تسخیرِ لانۂ جاسوسی کے اثرات آج بھی واضح ہیں، ایران اپنی انقلابی شناخت پر قائم ہے، امریکہ اب بھی اسے نظمِ عالم کے لیے خطرہ سمجھتا ہے، اور عالمِ اسلام کے کئی حصے اب بھی اس واقعے سے خودمختاری، مزاحمت، اور فکری بیداری کا استعارہ اخذ کرتے ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • مرزا رسول جوہؔر کی یاد میں
  • خوبصورت معاشرہ کیسے تشکیل دیں؟
  • میرا لاہور شہربے مثال کے کچھ خوب صورت نظارے (دوسرا حصہ)
  • مدارس کو مشکوک بنانے کی سازشیں ناکام ہوں گی، علامہ راشد سومرو
  • انور مقصود ، مسکراہٹ، معنویت اور میراث کا ایک لازوال سفر
  • قال اللہ تعالیٰ  و  قال رسول اللہ ﷺ
  • تعلیم یافتہ نوجوان ملک و قوم کا سرمایہ اور مستقبل ہیں، علامہ مقصود ڈومکی
  • ایم ڈبلیو ایم کے سربراہ سینیٹر علامہ راجہ ناصر عباس کا خصوصی انٹرویو
  • قانون نافذ کرنے والے ادارے شہید عادل حسین کے قاتلوں کو کیفر کردار تک پہنچائیں، علامہ صادق جعفری
  • ایران میں امریکی سفارتخانے پر قبضے کے گہرے اثرات