جعفر ایکسپریس حملہ: پٹڑی کی مرمت مکمل، سروس کی بحالی سکیورٹی کلیئرنس سے مشروط
اشاعت کی تاریخ: 17th, March 2025 GMT
بلوچستان کے ضلع کچھی میں جعفر ایکسپریس ٹرین پر حملے کے نتیجے میں متاثر ہونے والی ریلوے پٹڑی کی مرمت کا کام مکمل کر لیا گیا ۔
پیر کو ریلوے کے ترجمان نے اردو نیوز کو بتایا کہ ریلیف آپریشن پیر کی شام تک مکمل ہونے کی توقع ہے۔ بلوچستان میں ٹرینز کی آمدروفت دوبارہ شروع کرنے کا فیصلہ سکیورٹی کلیئرنس کے بعد کیا جائے گا۔ سکیورٹی کلیئرنس کے بعد اتوار کو (واقعے کے چھٹے روز) ریلیف آپریشن کا آغاز کیا گیا۔
ریلوے کے ڈپٹی چیف انجینئر انفراسٹرکچر رشید امتیاز صدیقی کا کہنا ہے کہ دھماکے کے نتیجے میں پٹڑی کا 398 فٹ حصہ متاثر ہوا جبکہ جعفر ایکسپریس کا انجن اور پانچ بوگیاں بھی پٹڑی سے اتر گئی تھیں۔
ریلوے کنٹرول روم کوئٹہ کے مطابق ’مچھ اور سبی سے ریلیف ٹرینز متاثرہ مقام تک پہنچائیں گئیں اور پہلے مرحلے میں پچھلی چار بوگیوں کو مچھ ریلوے سٹیشن تک پہنچایا۔
اسی دوران سبی سے آنے والی دوسری ریلیف ٹرین نے متاثرہ انجن اور باقی پانچ بوگیوں کو کرین کے ذریعے پٹڑی سے ہٹایا جس کے بعد ٹریک کی مرمت بھی شروع کردی گئی۔
ریلیف آپریشن کی نگرانی کراچی سے آنے والے ڈپٹی چیف انجینیئر رشید امتیاز صدیقی، ڈی ایس ریلوے کوئٹہ عمران حیات اور دیگر افسران کر رہے ہیں۔ رشید امتیاز کا کہنا ہے کہ بحالی کے کام کے لیے آٹھ سے 9 گھنٹے درکار تھے تاہم رمضان، سکیورٹی کلیئرنس اور بلند پہاڑی سلسلے کی وجہ سے اس عمل میں مشکلات پیش آئیں۔ ریلوے ترجمان نے بتایا کہ ’متاثرہ پٹڑی کی مرمت مکمل کر لی گئی ہے، اب انجن اور بوگیوں کو مچھ یا سبی ریلوے سٹیشن تک پہنچا کر مرمت کی جائے گی۔
انہوں نے امید ظاہر کی کہ بحالی کا عمل پیر کی شام تک مکمل کر لیا جائے گا، جس کے بعد اس ٹریک کو آمدورفت کے لیے کلیئر کر دیا جائے گا۔
جعفر ایکسپریس ٹرین روزانہ کوئٹہ، لاہور، راولپنڈی اور پشاور کے درمیان چلتی ہے جبکہ کوئٹہ اور کراچی کے درمیان بولان میل ہر تیسرے دن روانہ ہوتی ہے، تاہم حملے کے بعد سے دونوں ٹرین سروسز معطل ہیں۔
ترجمان ریلوے کا کہنا ہے کہ ’بلوچستان میں ٹرین سروس کی دوبارہ بحالی کا فیصلہ سکیورٹی کلیئرنس کے بعد کیا جائے گا۔ دوسری جانب بلوچستان اور وفاقی حکومت نے ریلوے حکام اور سکیورٹی فورسز کے ساتھ مل کر ریلوے ٹریک اور ٹرینوں کی سکیورٹی کا ازسرنو جائزہ لینے کا فیصلہ کیا ہے۔ بلوچستان حکومت کے ایک سینیئر عہدیدار نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’ٹرین سروس کی بحالی سے قبل سکیورٹی انتظامات کا تفصیل سے جائزہ لیا جائے گا، جس میں سکیورٹی کی ممکنہ خامیوں کو دور کرنے کے لیے اضافی اقدامات کرنے پر بھی غور کیا جائے گا۔‘
ان کے مطابق ریلوے ٹریک اور ٹرینوں کی سکیورٹی کے لیے پہلے بھی ریلوے پولیس، ایف سی اور لیویز کے اہلکار تعینات تھے تاہم اب حساس مقامات کی نشاندہی کر کے وہاں سکیورٹی انتظامات کو مزید مؤثر بنایا جائے گا۔
ضلع کچھی میں بولان کے پہاڑی سلسلے میں پیروکنری اور پنیر ریلوے سٹیشن کے درمیان کوئٹہ سے پشاور جانے والی جعفر ایکسپریس ٹرین 11 مارچ کو شدت پسندوں کے حملے کا نشانہ بنی تھی۔
ٹرین میں سوار 400 سے زائد مسافروں کو یرغمال بنالیا گیا تھا جن میں سے حکام کے مطابق 26 مسافروں کو قتل کیا گیا جبکہ باقی کو بازیاب کرا لیا گیا۔
یہ آپریشن 36 گھنٹوں تک جاری رہا جس کے بعد قریبی پہاڑوں کی کلیئرنس کا کام شروع کیا گیا۔ اس حملے کی ذمہ داری کالعدم بلوچ لبریشن آرمی نے قبول کی تھی جو اس سے پہلے بھی مسافر ٹرینوں اور سکیورٹی فورسز کو نشانہ بناتی رہی ہے۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: جعفر ایکسپریس کی مرمت جائے گا کے لیے کے بعد
پڑھیں:
بھارتی ریاست منی پور میں مظاہرین اور فورسز میں جھڑپیں، کرفیو نافذ، انٹرنیٹ سروس معطل
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
بھارتی ریاست منی پور میں حالات کی سنگینی کے پیشِ نظر حکومت نے کرفیو نافذ کرتے ہوئے انٹرنیٹ سروسز معطل کر دی ہیں، جبکہ مظاہرین اور سیکیورٹی فورسز کے درمیان جھڑپوں کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔
شمال مشرقی ریاست منی پور میں مودی حکومت امن و امان کی صورتحال پر قابو پانے میں مکمل طور پر ناکام دکھائی دے رہی ہے۔ بگڑتی ہوئی سیکیورٹی صورتحال کے باعث امپھل سمیت پانچ اضلاع میں کرفیو لگا دیا گیا ہے، اور ریاستی انتظامیہ نے پانچ دن کے لیے موبائل انٹرنیٹ اور دیگر ڈیٹا سروسز بند کر دی ہیں۔
کشیدگی میں اس وقت شدت آئی جب مظاہرین اور سیکیورٹی اہلکاروں کے درمیان تصادم ہوا۔ اس دوران ایک بس کو آگ لگا دی گئی، کئی سڑکیں بلاک کر دی گئیں اور مظاہرین نے ٹائر جلا کر راستے بند کیے۔ پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے ارمبائی ٹینگول نامی گروپ کے پانچ افراد کو گرفتار کیا، جو وادی کے اضلاع میں دس روزہ شٹر ڈاؤن کا اعلان کر چکے تھے۔
واضح رہے کہ منی پور میں گزشتہ دو برس سے مییتئی اور کوکی برادریوں کے درمیان نسلی کشیدگی جاری ہے، جس میں اب تک سینکڑوں جانیں ضائع ہو چکی ہیں۔ 2023 میں پرتشدد واقعات کے بعد تقریباً 60 ہزار افراد بے گھر ہو گئے تھے، جن میں سے بہت سے اب بھی اپنے گھروں کو واپس نہیں لوٹ سکے۔
تنازع کی بنیاد زمین کی ملکیت اور سرکاری ملازمتوں میں کوٹہ جیسے حساس مسائل ہیں، جنہوں نے دونوں برادریوں کو آمنے سامنے لا کھڑا کیا ہے۔ حکومت کی جانب سے قیامِ امن کی کوششیں نہ صرف ناکافی رہی ہیں بلکہ حالات مزید خراب ہوتے جا رہے ہیں۔
انسانی حقوق کی متعدد تنظیموں نے بھارتی مرکزی حکومت پر جانبداری کا الزام عائد کیا ہے اور کہا ہے کہ مودی حکومت منی پور کے بحران کو سنبھالنے میں مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے، جس کی وجہ سے صورتِ حال مسلسل بگڑتی جا رہی ہے۔